Ad Code

Taras pyar part5 last

 تراس (پیاس)

Family sex


میری یہ والی بات سن کر۔۔۔۔ وہ کسی سوچ میں ڈوب گئی اور کہنے لگی۔۔۔ ابھی نہیں پہلے میں نواز کا لن دیکھ لوں پھر تم کو کوئی مشورہ دوں گی۔۔۔۔۔ اور بھابھی کی بات ختم ہوتے ہی۔۔۔۔ سامنے سے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ نواز آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔ اس دیکھ کر بھابھی بڑی تیزی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اور جاتے جاتے سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔۔ ابھی اس چیز کے بارے میں تم نے کسی اور سے کوئی بات نہیں کرنی ۔۔۔ اتنی دیر میں نواز سٹیج کے قریب پہنچ چکا تھا ۔۔۔ اس لیئے بھابھی نے اسے دیکھتے ہی مبارک مبارک کا نعرہ لگایا اور کہنے لگی۔۔۔۔ مان گئے نواز بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو نواز نے حیرت سے بھابھی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔ کہا کہہ رہی ہو آپ ۔۔۔تو بھابھی بڑی ادا سے میری طرف دیکھ کر نواز سے کہنے لگی۔پتہ نہیں بھائی ۔ ایک دن میں ہی تم نے اس پر کیا جادو کر دیا ہے کہ جب سے میں اس کے پاس بیٹھی ہوں یہ مسلسل تمہاری ہی تعریفیں کیئے جا رہی ہے۔۔۔ ۔۔ بھابھی کی بات سن کر نواز کی تو باچھیں ہی کھل گئیں اور وہ سینہ پھلا کر بولا ۔۔۔۔ اس کا بھی قصور نہیں ہے عطیہ باجی۔۔۔۔۔۔ ہم سے جو ایک دفعہ مل لیتا ہے ۔۔۔پھر وہ ہمارا ہی ہو جاتا ہے۔۔۔۔ نواز کی اس بات پر ایک زبردست فرمائیشی قہقہہ پڑا ۔۔۔۔اور اس دوران وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ او ر پھر موقع پا کر چپکے سے بولا ۔۔۔۔ تعریف کرنے کا بہت بہت شکریہ ہما جی۔۔۔۔


ولیمے کے بعد رواج کےمطابق میں اور نواز ابا لوگوں کے ساتھ واپس لاہور آ گئے تھے (اپنی زبان میں ہم اس رسم کو مکلاوا کہتے ہیں) ۔۔۔ اور یہ ۔۔۔ مکلاوے آئے ہوئے تیسرے دن کی بات ہے کہ اس دن صبع ہی بھابھی نے مجھے بتا دیا تھا کہ آج رات وہ ہمارا شو دیکھیں گی۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں نے ان سے کہا کہ بھابھی ۔۔۔۔ ہمارا شو دیکھتے ہوئے اگر کسی نےآپ کو دیکھ لیا تو؟ میری بات سن کر بھابھی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ بہن چود ۔۔۔ میں تو تمہارا یہ شو رات کو دیکھوں گی ۔۔۔۔جبکہ یاد کر و وہ دن کہ جب تم چٹے دن ہمارا شو دیکھا کرتی تھی۔۔۔ بھابھی کی یہ بات سن کر میں نے بھی ہنستے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ چٹے د ن شو دیکھتے ہوئے ہی میں ایک دن پکڑی بھی گئی تھی۔۔ میری بات سنتے ہی بھابھی نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور بولی۔۔۔۔ یہ اسی پکڑے جانے کی برکت سے ہی میں اور تم اتنے فرینک ہو گئے تھے کہ اس کے بعد ہم ہر طرح کی باتیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کر لیتی ہیں۔۔۔۔پھر اس کے بعد بھابھی نے مجھے رات ہونے والے شو کی بابت ہدایت دینا شروع کر دیں کہ کس کس اینگل سے میں نے نواز کے ساتھ سیکس کرنا ہے وہ اس لیئے کہ میرا بیڈ کمرے کی کھڑکی سے تھوڑے فاصلے پر تھا ۔۔اس لیئے بھابھی کو یہ سب سمجھانا پڑا ۔۔۔۔ تمام باتیں اچھی طرح زہن نشین کرانے کے بعد بھابھی نے مجھے ایک شاندار کس دی اور بولی ۔۔۔ چل دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرتی ہیں باقی باتیں وہیں ہوں گی ۔۔۔۔اور ہم دونوں اُٹھ کر کچن کی طرف چل پڑیں ۔ اسی دن۔۔۔ رات کا واقع ہے کہ کھانے کے بعد کہ جس کے لیئے امی لوگوں نے کافی تردد کیا ہوا تھا ۔۔۔ ہم سب لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے ۔۔۔اور پھر وہاں کافی دیر تک گپ شپ کا پروگرام جاری رہا۔۔۔یہاں تک کہ اماں نے زبردستی سب کو اُٹھایا ۔۔۔اور ہم لوگ اپنے کمرے میں آگئے ۔۔۔ باہر نکلتے وقت میں نے بھابھی کی طرف دیکھا تو اس نے اشارے سے بتایا کہ جب وہ کھڑکی کے پہنچے گی تو وہ مجھے بتا دے گی ۔۔۔ بتانے والا اشارہ ہم نے پہلے ہی طے کر لیا تھا۔۔۔۔ کمرے میں پہنچتے ہی نواز جو میری فیملی ممبر کے ساتھ ڈائینگ روم میں بڑی خاموشی اور ادب سے بیٹھا ان کی ہر بات پر جی جی کر رہا تھا ۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھ سے لپٹ گیا۔۔۔۔اور مجھے چوم کر بولا۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو ۔۔۔ ڈارلنگ۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور بڑی گرم جوشی سے میرے ہونٹ چوسنے لگا۔۔۔ ہونٹ چوسنے کے بعد جیسے ہی اس کے ہاتھ میری چھاتیوں کی طرف گئے ۔۔۔ ۔۔ تو میں ۔۔۔ جلدی سے اس سے الگ ہوئی اور اٹھلاتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔۔۔ ایک منٹ نواز صاحب پہلے مجھے کپڑے تو بدلنے دیں نا۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ آگے بڑھا اور میری دونوں چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ایسے کپڑے بدلنے کا کیا فائدہ میری جان ۔۔۔۔جب انہیں پہن کے پھر تھوڑی دیر بعد اتارنا پڑے۔۔۔بات تو نواز نے درست کی تھی ۔۔۔اور اس کی اس بات سے میں محظوظ بھی بہت ہوئی ۔۔۔ لیکن میرے ساتھ مسلہ یہ تھا کہ میں اس وقت تک سیکس اسٹارٹ نہیں کر سکتی تھی کہ جب تک باہر سے مجھے بھابھی کا اشارہ موصول نہ ہو جائے ۔۔۔اس لیئے میں نے اسے الجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔میرے پیارے میاں جی ۔۔۔۔ بات تو آپ بلکل درست فرما رہے ہو۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنے تن پر پہنا ہوا بھاری اور کام والے سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ حضور اتنے ہیوی ڈیوٹی کپڑوں کی موجودگی میں میرے لیئے آپ کا ساتھ دینا کافی مشکل ہو گا اس لیئے مجھے یہ کپڑے اتار کے نائیٹ ڈریس پہننے دیں ۔۔۔ کہ قاعدہ اور دستور یہی کہتا ہے میری بات سن کر وہ بڑے موڈ میں آکر ترنم سے کہنے لگا۔۔۔۔ایسے دستو ر کو ۔۔۔۔ صبع بے نور کو میں نہیں مانتا ۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔۔ ابھی نواز کا ترنم ختم ہی ہوا تھا ۔۔ کہ باہر سے بلی کی آواز سنائی دی ۔۔۔ میاں میاں ۔۔۔۔۔ بلی کی آواز سنتے ہی نواز نے ایک بار پھر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ دیکھ لو ۔۔۔ پسُی کیٹ ۔۔۔۔۔ میاں میاں کر کے۔۔باہر والی پُسی کیٹ نے بھی میری بات کی تائید کر دی ہے ۔۔ اب میں نواز کو کیا کہتی کہ باہر والی پُسی کیٹ تو مجھ سے بھی ہزار گنا زیادہ سیکسی اور ۔۔۔۔ گرم خاتون ہے ۔۔۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہیں ۔۔۔باہر سے آنے والی آواز کسی اور کی نہیں بلکہ بھابھی کی تھی ۔۔۔اور یہ اس بات کا سگنل تھا کہ شو شروع کیا جائے۔۔۔


چنانچہ بھابھی کا سگنل ملنے کے بعد بظاہر میں نے ہار مانتے ہوئے نواز سے کہا ۔۔۔ توبہ ہے نواز ۔۔۔ تم بھی نا کہاں کی بات کو کہاں لے جاتے ہو۔۔۔۔ اور پھر واپس اس کی باہنومیں گرتے ہوئے بڑے رومینٹک لہجے میں بولی۔۔۔۔ تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی ہے جان جی۔۔۔۔ میرے اس رومینٹک فقرے نے جلتی پر تیل کا کام دیا ۔۔۔۔۔اور پھر نواز نے مجھے اپنی باہوں میں بھر کر بے تحاشہ چومنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔باقاعدہ شو کا آغاز ہو گیا ۔۔۔۔ چونکہ اس وقت تک ہماری شادی کو دو تین دن ہو چکےتھے ۔۔۔اور شروع کے ایک آدھ دن کے بعد اب میں نواز کے ساتھ کافی حد تک کھل چکی تھی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ وہ والی ۔۔۔چوسنے اور چاٹنے والی ۔ حد ابھی تک برقرار تھی۔۔۔۔ چنانچہ چوما چاٹی کے بعد میں نے اپنے کپڑے اتارتے ہوئے نواز کی طرف دیکھا تو وہ اپنے کپڑے اتار کر میری طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر میں نے بھابھی کی ہدایت کے عین مطابق میں کسنگ کرتے کرتے اسے ۔۔۔ اسی اینگل پر لے گئی۔۔۔۔۔اور اس کے بعد ۔۔۔ میں نے خاص کر نواز کا لن پکڑ لیا ۔۔۔اور بھابھی کی طرف اس کا منہ کرتے ہوئے تھوڑا سا آگے پیچھے کیا۔۔۔۔پھر اس کے لن سے اپنا ہاتھ ہٹایا ۔۔۔اور نواز کے پیچھے کھڑی ہو گئی ۔۔۔اور اس کی پشت پر جا کر اسے اپنی باہنوں میں لے لیا۔۔۔۔۔اور اس کی گردن کو چومنے لگی۔۔ایسا کرنے سے میرا ۔ مقصد ایک تو ۔۔۔۔ مزہ لینا تھا دوسرا یہ کہ بھابھی اچھی طرح سے نواز کا لن دیکھ لے۔۔۔۔۔۔ اس طرح کچھ دیر کے کھیل کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔ نواز مجھے پلنگ پر لے آیا ۔۔۔۔ پلنگ پر آتے ہی ۔۔ میں اس زاویہ سے پلنگ پر لیٹی کہ جب نواز مجھے چودے تو اس لن میری پھدی میں جاتا ہوا صاف دکھائی دے۔۔۔۔۔ میرے پلنگ پر لیٹتے ہی نواز بھی پلنگ پر آ گیا ۔۔۔۔اور میری ٹانگیں اُٹھا کر ۔۔۔۔ اپنے پتلے سے پنسل نما لن کو میرے اندر کر دیا ۔۔۔۔۔ اور دھکے مارنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح کافی دیر تک وہ میری چوت کو مارتا رہا ۔۔ ۔ اور پھر ۔۔۔۔ آخر میں اس نے وہی کیا جو وہ سہاگ رات کے دن سے کرتا آ رہا تھا۔۔۔ یعنی کہ چودتے چودتے اچانک اس نے ایک چیخ ماری ۔۔۔۔۔۔اور میری ٹانگوں کو اپنے کندھے سے اتار دیا۔۔۔۔ اور میرے اوپر لیٹ کر پہلے تو تیز تیز گھسے مارتا رہا ۔۔۔۔۔ پھر جیسے جیسے اس کے لن سے پانی نکلنا ختم ہوتا گیا ۔۔۔۔اسی اسی طرح اس کے گھسے کی رفتار ۔۔۔۔ سست ہوتی ہوئی۔۔۔۔ سست سست ۔۔۔۔۔۔اور سست ۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔ ۔۔۔جب اس کے لن سے منی نکلنا ختم ہو گئی۔۔۔۔تو میری پھدی میں لن پھنسائے پھنسائے ۔۔۔۔ اس نے میرے سینے پر اپنا سر رکھا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئی۔۔۔ اور وہ نیند کی آغوش میں چلا ۔۔۔گیا۔۔۔۔ دوسری طرف جیسے ہی اس نے اپنے سر کو میرے سینے پر رکھا ۔۔۔۔ میں نے اس کی پشت کو سہلانا شروع کردیا۔۔۔اور اس کی پشت کو اس وقت تک سہلاتی رہی کہ جب تک میرے کانوں میں اس کے خراٹے لینے کی آوازیں نہ آنا شروع ہو گئیں۔۔۔ اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ ۔۔۔وہ گہری نیند سو گیا ہے تو میں نے حسبِ معمول اس کے دجود کو ہلکا سا پش کیا ۔۔۔۔ اور اسے اپنے اوپر سے ہٹا کر ۔۔۔۔ ساتھ لٹا دیا۔۔۔۔ اور دوبارہ سے اس کی پشت کو تھپتھپانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد میں اُٹھی اور ۔۔۔ کپڑے پہن کر ڈرائینگ روم آ گئی۔۔۔جہاں پہلے سے ہی بھابھی موجود تھی۔۔۔۔۔۔


چنانچہ میں بھی چلتی ہوئی بھابھی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔اور میں نےاپنے الجھے ہوئے بالوں میں پِن لگاتے ہوئے بھابھی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔اور اس سے بولی۔۔۔۔ جی بھابھی جی ہمارا شو آپ نے دیکھا ؟ تو بھابھی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔۔ اور میں نے غور کیا تو ہمارا شو دیکھنے سے بھابھی کا چہر ہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان بھی پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا شو دیکھ کر بھابھی خاصی گرم ہو گئی تھی۔۔۔

لیکن میں نے بھابھی کی گرمی والی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے۔۔۔اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ تو کیا کہتے ہیں علمائے۔۔سیکس بیچ اس مسلے کے؟ ۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ مسلہ کیسا مسلہ۔۔؟؟؟ تو میں نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار وہی نواز کے پنسل لن والا مسلہ اور کیا۔۔۔۔۔تو بھابھی کہنے لگی ۔۔۔۔۔ ہاں یاد آیا ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بڑے سیکسی انداز میں بولی ۔۔۔۔۔ اس مسلے کی طرف تو میں بعد میں آؤں گی۔۔۔ لیکن اس سے پہلے اے بے شرم و بے حیا عورت ۔۔۔ مجھے یہ بتا کہ اپنے میاں سے چدوانے کے بعد ۔۔۔۔ تم نے اپنی پھدی کو زرا بھی صاف نہیں کیا ۔۔۔۔اوراپنی پھدی میں اس کی منی پھنسائے ایسے ہی منہ اٹھائے میرے پاس آ تے ہوئے تم زرا بھی لجا نہ آئی۔۔۔ ۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں نے اس کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری اور بولی ۔۔۔اے میڈم ۔۔۔ اپن کے ساتھ زیادہ مچ مچ کرنے کا نہیں۔۔۔۔۔۔ ہمارا پھدی اگر تم کو اتنا ہی گندہ لگتا ہے تو اسے چاٹ کر صاف کر دو۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی الاسٹک والی شلوار نیچے کی ۔۔۔۔اور بھابھی کو اپنی پھدی دکھائی جس میں نے ابھی بھی میری اور نواز کی منی نکل کر نیچے کو بہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے بھابھی کی طرف ایک بڑا ہی واہیات سا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔ چل میڈم ۔۔۔شروع ہو جائے۔۔۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی جو کہ پہلے ہی میری گیلی اور رس دار چوت کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔۔۔ اپنی جگہ سے اُٹھی اور کہنے لگی۔۔۔۔ تمہارا منہ رکھنے کو میں یہ گندہ کام کر رہی ہوں ۔۔۔ورنہ قسم لے لو ۔۔۔ میں نے آج تک ایسا گندہ کام زندگی میں نہیں کیا ۔۔۔۔پھر وہ اپنی سیٹ سے اُٹھی اور چلتی ہوئی میرے پاس آ کر نیچے قالین پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور میری ٹانگوں کو کھول کر ۔۔۔۔پہلے تو صوفے پر رکھے میرے چوتڑ وں کو اپنی مرضی کے مطابق سیٹ کیا ۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور میری چوت سے نکلنے والے رس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔


اس طرح کچھ ہی دیر میں اس نے میری رس دار چوت پر اپنی زبان کا وائیپر پھیرتے ہوئے۔۔۔۔اسے ۔بلکل صاف اور شفاف کر دیا۔۔۔۔ بھابھی کی اس چوت چاٹنے کے دوران میں ایک دفعہ پھر چھوٹ گئی تھی۔۔۔۔ اس کے بعد بھابھی اُٹھی ۔۔۔۔اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر اپنی شلوار نیچے کرتے ہوئے بولی۔۔۔ آ جا ۔۔رانی۔۔۔۔۔۔اور میں بھی چلتی ہوئی بھابھی کی طرف گئی۔۔۔۔اور اس کی تپی ہوئی چوت پر اپنی زبان رکھ دی۔۔۔۔اور قریب۔۔۔۔ 10/15 منٹ تک مختلف زاویوں سے اس کی چوت کو چاٹتی رہی۔۔۔۔ اس دوران بھابھی کوئی تین چار دفعہ چھوٹی۔۔۔۔ ۔۔سیکس سے فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں ۔۔۔ پہلے کی طرح دوبارہ سے اپنی اپنی سیٹوں پر جا کر بیٹھ گئیں ۔۔۔اور کچھ دیر بعد بھابھی نے ایک جھرجھری سی لی ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نئے شادی شدہ جوڑے بھی کس قدر جزباتی سیکس کرتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر ۔۔۔۔ مجھ جیسی میچور عورت کے بھی تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔۔

 اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ ہما ۔تمہارے ساتھ سیکس کے دوران ۔میں نے اچھی طرح سے نواز کے لن کو دیکھا ہے یار وہ اتنا بھی چھوٹا نہیں ہے جتنا کہ تم نے شورمچایا ہوا ہے۔۔۔۔ نارمل لن سے بس تھوڑا ۔۔۔سا ہی پتلا ہے۔۔۔۔۔پھر بولی۔۔۔۔ ویسے تو اس کے لن کو میرے حساب سے تم نارمل کہہ سکتی ہو ۔۔۔۔ لیکن جب میں تمھاری طرف نگاہ دوڑاتی ہوں ۔اور تمہاری اندر بسنے والی سیکس پاور کا اندازہ لگاتی ہوں ۔۔تو تمھارے حساب سے اسے میں تھوڑا ۔۔۔۔۔ کم تر درجے کا پاتی ہوں ۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔ لیکن ہما تم نے غور نہیں کیا ۔۔۔ نواز کی تمھارے لیئے محبت بہت اعلیٰ کوالٹی کی ہے ۔۔۔۔وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے اور اس کا یہ پیار اس کے انگ انگ سے جھلکتا ہے۔۔۔۔۔ اس لیئے میری سویٹ ہما۔۔۔۔ میری رائے میں ۔۔۔ اس کی محبت ۔۔۔ تمھارے سیکس پر غالب آنی چایئے۔۔۔۔تو میں نے بھابھی کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ بھابھی جی میں بھی نواز سے بہت محبت کرتی ہوں ۔۔۔۔ بس اس کے لن نے مجھے تھوڑا مایوس کیا ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔۔ تمھارے مایوس ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفاق سے شادی سے پہلے تم نے بڑے بڑے لن دیکھ لیئے تھے۔۔۔۔۔اور تم ان لنوں سے نواز کے لن کا مقابلہ کرتی ہو تو مایوس ہو جاتی ہو۔۔۔۔ اس کے مقابلے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرض کرو کہ اگر تم نے سہاگ رات ہی پہلی دفعہ کوئی لن دیکھا ہوتا ۔۔۔۔تو یقین کرو۔۔۔۔۔۔ آج تم کبھی بھی نواز کے لن کو دیکھ کر مایوس نہ ہوتی۔۔۔ اس لیئے میری جان میرا مشورہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔اپنے دل سے تم نواز کے لن والی بات کو نکال دو۔۔۔۔۔اور اپنے پتی دیو کے ساتھ سدا۔۔۔۔ خوش رہو۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد بھابھی نے مجھے کافی ساری اور بھی نصیحتیں کیں ۔۔ ۔۔۔ جن کو میں نے بڑے غور سے سنا ۔۔۔اور انہیں اپنے پلو سے باندھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقیت یہ ہے کہ بھابھی کی باتیں سن کر میرا زہن کافی حد تک کلئیر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔


اس طرح ہماری شادی کو مزید ایک سال گزر گیا۔۔۔اور بھابھی کی نصیحت کے مطابق میں نے نواز کے پتلے لن ۔کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر ۔۔۔۔۔۔ اس کی محبت اور ۔۔۔چاہت پر اپنا سارا فوکس ۔۔۔مرکوز کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دوران نواز کی محبت میں تو کوئی کمی نہ آئی ۔۔۔ البتہ کچھ عرصہ بعد ہماری سیکس لائف میں کچھ ٹھہرا ؤ ضرور آ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تو نواز تقریباً ڈیلی میرے ساتھ سیکس کیا کرتے تھے۔۔۔۔ جس سے کافی حد تک میری تشفی ہو جایا کرتی تھی۔۔۔ لیکن پھر ۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔۔۔ ڈیلی سے ۔۔نواز ۔۔ دو سرے دن پر آ گئے۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ ہوتے ہوتے یہ نوبت چوتھے پانچویں دن تک آ پہنچی تھی۔۔۔۔۔ نواز کے لن سے میں جو پہلے ہی تھوڑی مایوس تھی اوپر سے اسکی اس سیکس روٹین نے اندر سے مجھے کافی بے چین کر دیا تھا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کا اظہار کسی سے نہیں کیا۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ خود کو حالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ لیکن آہستہ آہستہ میرے اندر کی یہ بے چینی کم ۔۔۔ہونے کی بجائے ۔۔۔ اندر ہی اندر ۔۔۔۔ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بڑی بے بسی سے ۔۔۔اپنے اندر بڑھتی ہوئی اس بے چینی کو دن بدن آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح ایک سال اور بیت گیا۔۔۔۔ ہاں آپ کو ایک بات بتا نا تو بھول ہی گئی تھی اور وہ یہ کہ شادی کے بعد نواز نے مجھے اپنے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا ۔۔۔ ہاں ویک اینڈ یا عید شب برات وغیرہ ہم بہاولپور میں ہی منا تے تھے۔۔۔۔ نواز کی سالانہ چھٹیاں وغیرہ بھی ہم کہیں ادھر ادھر منانے کی بجائے اس کے والدین کے پاس بہاولپور میں ہی منایا کرتے تھے۔۔۔ اور یہ نواز کی سالانہ چھٹیوں کی بات ہے کہ جیسے ہی یہ چھٹیاں سٹارٹ ہوئیں ۔۔۔۔اس سے اگلے دن ہم لوگ ۔۔۔۔ بہاولپور پہنچ گئے۔۔۔۔۔ لیکن بہاولپور آئے ابھی ہمارا دوسرا ہی دن تھا ۔۔۔ کہ نواز کے آفس والوں نے کسی ایمر جنسی کی بنا پر اس کی سالانہ چھٹیاں کینسل کر دیں۔۔۔ اس وقت میں نواز کی فیملی کے ساتھ بیٹھی خوش گپیاں لگا رہی تھی کہ نواز کمرے میں داخل ہوا اور مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ ہما جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔ ہمیں ابھی لاہور واپس جانا ہے۔۔۔ نواز کی بات سن کر میرے ساتھ ساتھ اس کی فیملی کے لوگ بھی حیران رہ گئے اور اس کی امی نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا کہ ۔۔۔ کیوں پُت ۔۔ خیر تو ہے؟ جو اتنی جلدی واپس بھی جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو نواز نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ خیر ہے امی ۔۔۔۔۔۔بس آفس میں کچھ ضروری کام پیش آ گئے ہیں جس کی وجہ سے آفس والوں نے میری چھٹی کینسل کردی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میں اور ہما ابھی واپس جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔نواز کی بات سن کر اس کی امی کہنے لگیں۔۔۔ پتر ۔۔۔چھٹی تیری کینسل ہوئی ہے ۔۔۔ ہما کی نہیں۔۔۔۔۔اس لیئے تم جاؤ۔۔۔ ہما ادھر ہی رہے گی۔۔۔ اپنی امی کی یہ بات سن کر نواز نے میری طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہتی ہو ہما؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ نواز کی بات سنتے ہی اس کی امی بڑے جلالی لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہما نے کیا کہنا ہے۔۔۔ میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ ہما کچھ د ن ہمارے پاس رہے گی تو یہ بات تمھارے لیئے کافی نہیں ہے ؟ ۔۔۔۔ اپنی امی کا جلالی مُوڈ دیکھ کر نواز چپ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔اور اکیلا ہی ۔۔۔ لاہور روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔۔


      اسی دن دوپہر کا واقعہ ہے کہ عطیہ باجی کی امی اور اس کی بہنیں ۔۔۔۔ مجھ سے ملنے کے لیئے نواز کے گھر آئیں۔۔۔۔۔ان کے ساتھ عادل بھی تھا۔۔عادل کو دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے اس کے ساتھ بیتے گزشتہ ۔۔۔۔۔۔۔ایام کیوں یاد آ گئے۔۔۔۔اور ان ایام کا یاد آنا تھا ۔۔۔ کہ اندر سے میری حالت عجیب ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے بڑی مشکل سے اپنی اس حالت پر قابو پایا۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ بظاہر ان خواتین کی طرف متوجہ ہو گئی۔۔۔۔ جو مجھ سے ملنے آئیں تھی۔۔۔۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ۔میں اور نواز جب بھی بہاولپور آتے تھے تو عطیہ باجی کے گھر والوں کی یہ پکی روٹین تھی ۔۔۔ کہ ایک تو وہ لوگ ۔۔۔ ہمیں ملنے ضرور آتے تھے ۔۔۔۔اور دوسرا نہ صرف ملنے آتے تھے بلکہ۔۔۔۔۔۔۔ ہر دفعہ ہمارا کھانا بھی کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ چنانچہ مجھ سے ملتے ہی عطیہ کی امی نے ادھر ادھر دیکھ کر۔۔۔اس کی امی سے کہا ۔۔۔۔ کہ بہن نواز کہیں نظر نہیں آ رہا ؟ تو اس پر نواز کی امی ان سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپا وہ تو صبع ہی واپس لاہور چلا گیا ہے اور پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ صبع کے سارے واقعہ سے عطیہ کی امی کو آگاہ کر کیا۔۔۔۔۔ سارا واقعہ سننے کے بعد عطیہ کی امی نے میری طرف دیکھا اور حیر ت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے بہن ۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔اس دفعہ نواز ہما کو آپ کے پاس کیسے چھوڑ گیا ہے؟ اس پر نواز کی امی کہنے لگیں ۔۔۔۔بتایا تو ہے کہ وہ تو اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا ۔۔۔ لیکن میں نے ڈنڈا دیکر کر ہما کر روک لیا ہے۔۔۔۔۔خالہ کی اس بات پر سبھی ہنسنے لگ پڑیں ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد عطیہ کی امی نے حسبِ معمول اگلے دن کی شام کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی ۔۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بڑے خلوص سے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹی یہ لوگ تو شام کو آتے رہیں گے لیکن تم نے صبع ہوتے ہی ہمارے گھر آ جانا ہے۔۔۔۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد خود ہی کہنے لگیں ۔۔۔۔ عادل تم کو لینے آ جائے گا۔۔۔۔عطیہ بھابھی کی امی کی بات سن کر میں نے عادل کی طرف دیکھا تو وہ بڑی ہی عجیب نطروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اپنی امی کی بات سن کر بڑی شوخی سے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی آپ بائیک پر بیٹھ جاتی ہو نا ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔تو وہ بولا ۔۔۔تو ٹھیک ہے کل صبع تیار رہیئے گا۔۔۔ میں آپ کو اپنے بائیک پر لینے آؤں گا۔۔۔۔ اس کے بعد کافی دیر تک ۔۔۔۔ عطیہ باجی کے گھر والے وہاں بیٹھے رہے۔۔۔ پھر شام کو ہی وہ لوگ وہاں سے گئے۔۔۔ جاتے جاتے ۔۔۔عطیہ کی امی ایک بار پھر مجھے تاکید کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔ ہما ۔۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔عادل کل صبع تم کو لینے آ جائے گا۔۔۔پھر اچانک ہی وہ نواز کی امی کی طرف مُڑیں اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ بہن تمھاری طرف سے تو اجازت ہے نا ۔۔۔اس پر نواز کی امی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس میں اجازت کی کیا بات ہے ۔۔۔ وہ بھی ہما کا اپنا گھر ہے ۔۔۔ان کے جانے کے فوراً بعد نواز کی امی مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔۔ بیٹی ایک بات تو بتاؤ ۔۔ کہ یہ عادل کیسا لڑکا ہے؟ تو میں ان کی بات کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے بولی ۔۔۔آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔ میں آپ کی با ت کا مطلب نہیں سمجھی ؟ ۔۔۔ تو وہ بڑی راز داری سے کہنے لگیں۔۔اصل میں یہ لوگ ثریا کا رشتہ ۔۔۔۔ عادل کے لیئے مانگ رہے ہیں۔۔پھر کہنے لگی نواز اور تم کو ابھی تک اس لیئے نہیں بتایا کہ ان لوگوں نے ابھی تک اس بات کا باقاعدہ اظہار نہیں کیا ہے بس اشارہ ہی دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ثریا ۔۔۔ نواز کی سب سے چھوٹی بہن ۔۔۔۔اور بڑی ہی دھان پان اور کمزور سی لڑکی تھی۔۔۔۔۔ نواز کی امی کی بات سن کر میں نے حیرت سے بولی۔۔۔۔خالہ ۔۔ اتنی جلدی رشتے کی بات؟۔ابھی تو یہ دونوں بہت چھوٹے ہیں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ عمر کی بات چھوڑو بیٹا ۔۔۔۔ ہمارے ہاں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔۔۔ تم بس اس رشتے کے بارے میں اپنی رائے دو کہ ۔۔۔کیسا ہے؟۔۔اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ خالہ لڑکا تو بہت اچھا اور دیکھا بھالا ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ لڑکا اپنے گھر کا ہے ۔۔۔۔ تو میں نے کہا کہ کیا آپ نے ثریا سے بھی پوچھ لیا ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ہاں میں نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔ اس رشتے پر بڑی خوش ہے وہ۔۔۔ ۔۔۔اس کے بعد میں نے بھی ثریا کو بھی ٹٹولا ۔۔۔تو اسے اس رشتے سے خوش ہی پایا۔۔۔۔


اگلےدن ناشتہ کی ٹیبل پر نواز کی امی مجھ سے کہنے لیگں ۔۔۔۔ بیٹا دھیان رکھنا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں عادل تمہیں لینے آئے گا اس لیئے تم تیار رہنا۔۔۔۔ نواز کی امی کے منہ سے عادل کا نام سنتے ہی میں نے بے اختیار ثریا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور اس کی امی سے کہنے لگی ۔۔۔۔ خالہ میں نے یاد رکھنا ہے یا۔۔۔۔تو خالہ میری بات کا مطلب سمجھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ چل شیطان میں تم سے ہی بات کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ ادھر خالہ کے منہ سے عادل کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم میں ۔۔۔۔ کچھ انجان سی لہریں اُٹھنے لگیں۔۔اور میرے اندر کی وہ تراس جسے میں نے اتنے عرصہ سے دبا کر رکھا ہوا تھا ۔۔۔ پھر سے سر اُٹھانے لگی۔۔۔۔۔۔ اور عادل کے بارے میں سوچتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں مجھے ۔۔۔۔اس کا لن کہاں سے یاد آ گیا۔۔۔۔اور اس کے لن کا تصور کرتے ہی۔۔۔۔۔ یک بیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے اندر اُسی تراس کی ایک بڑی سی لہر اُٹھی۔۔۔۔۔۔۔ جو میرے پورے بدن میں پھرتی ہوئی۔۔۔۔ عین میری پھدی کے پاس آ کر رُک گئی۔۔۔۔۔ رک کیا گئی۔۔۔ بلکہ میری چوت میں سرائیت کر گئی۔۔اور تراس کی یہ لہر میری چوت کے اندر سماتے ہی نیچے سے مجھے گیلا کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر میں ایک دم سے گھبرا گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور چوری چوری نواز کی امی اور اس کی بہنوں کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ کہ کہیں انہوں نے میری چوری تو نہیں پکڑ لی؟۔۔۔ لیکن جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ وہ لوگ میرے ( اندر کے) حال سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔۔ حیلے بہانے سے عادل کا نام لے لے کر ۔۔۔ ثریا کو چھیڑے جا رہیں تھیں ۔۔۔۔شاید وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں کہ عادل کے نام سے ۔۔۔ ثریا کا حال تو جو ہونا تھا سو ہونا تھا ۔۔۔لیکن اس نام کے نام کی تکرار کی وجہ سے میری دو ٹانگوں کے بیچ والے سنگھم کی ۔۔۔۔ حالت بہت خراب ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ناشتے کے بعد ابھی میں تیار ہی ہو رہی تھی کہ عادل آ دھمکا۔۔۔۔۔ اور نواز کی امی وغیرہ سے ملنے کے بعد ۔۔۔وہ سیدھا میرے کمرے میں آیا ۔۔۔جہاں میں ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں کو سنوار رہی تھی۔۔۔ میری دھج دیکھ کر ۔۔۔ایک لمحے کواس کا منہ کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔اور وہ ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔ اگر اجازت ہو تو باجی آپ سے ایک بات کہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے اپنے کھلے بالوں کو فائینل ٹچ دیتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہا ۔۔۔۔ اس میں اجازت لینے والی کون سی بات ہے یار ۔۔ تم نے جو کہنا ہے کھل کر کہو ۔۔۔ میری بے تکلفی کو دیکھ کر وہ کِھل سا گیا اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔باجی آپ سچ کہہ رہی ہو نا ؟ ۔۔۔۔ تو میں ۔ ۔ نے اس سے کہا۔۔۔۔ اس میں جھوٹ کی کون سی بات ہے؟ اس پر وہ بولا ۔۔۔۔۔۔ باجی۔۔۔ باجی شادی کے بعد آپ پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت ۔۔۔اور ۔۔۔۔ پیاری ہو گئیں ہیں۔۔۔۔ تو میں نے اس کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہو ا کہ شادی سے پہلے میں بڑی بد صورت اور پیاری نہیں تھی ؟ میر ی بات سن کر وہ گھبراہٹ بھرے انداز میں کہنے لگا۔۔۔۔ نہ نہیں باجی ۔۔۔میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ۔۔۔کہ۔۔۔ پھر اس نے ڈریسنگ کے شیشے سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ اسکی مثال ایسے ہے باجی ۔۔۔۔۔کہ جیسے شادی سے پہلے آپ ایک نو خیز کلی تھی تو شادی کے بعد۔۔اب آپ اس نو خیز کلی سے ایک شاندار پھول بن گئی ہو۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ اوئے ۔۔۔عادل کے بچے یہ تم نے اتنی گہری بات کہاں سے سیکھی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر خود ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اچھا تو تم کو یہ باتیں ثریا نے سکھائی ہوں گی۔۔ثریا کا نام سن کر وہ تھوڑا شرما سا گیا ۔۔۔۔اور پھر کہنے لگا ۔۔۔ نہیں باجی یہ بات ثریا نے نہیں سکھائی ۔۔۔بلکہ ایک انڈین فلم کا ڈائیلاگ ہے جو آپ پر بلکل فٹ آتا ہے۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ نواز کی امی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں ۔۔۔۔ ان کے ساتھ ایک کام والی خاتون بھی تھی کہ جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی اور اس ٹرے میں عادل کے لیئے کولڈ ڈرنگ کا گلاس پڑا تھا ۔۔اندر داخل ہوتے ہی نواز کی امی کہنے لگی ۔۔۔ بیٹی آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئی ۔۔۔ تو میں نے ڈریسنگ سے اُٹھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔جی میں ریڈی ہوں۔۔۔۔ میری بات سن کر عادل نے بھی جلدی سے کولڈ ڈرنگ کا گلاس پیا ۔۔۔اور ۔۔۔۔میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔چلیں باجی؟ تو اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی نواز کی امی عادل کو مخاطب کر کے کہنے لگیں۔۔۔۔۔بیٹا زرا دھیان سے جانا۔کہ ہماری اس چڑیا میں نواز کی جان بند ہے ۔۔۔۔ تو عادل کہنے لگا ۔۔ فکر نہ کریں خالہ میں بڑی احتیاط سے جاؤں گا ۔۔۔اور جب میں عادل کے ساتھ نکلی۔۔۔۔ تو ہمیں وداع کرنے نواز کی امی بھی گیٹ تک آئیں ۔اور ایک دفعہ پھر چڑیا والی اپنی بات دھرائی۔۔۔۔۔۔عادل نے اچھا جی کہا اور ۔۔۔ بائیک سٹارٹ کر کے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔۔۔عادل نے بائیک سٹارٹ کیا اور چلنے لگا تو ایک بار پھر سے نواز کی امی نے اس سےنصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا بڑی احتیاط سے چلنا ۔۔۔ادھر عادل کے پیچھے بیٹھتے ہی ۔۔۔ میری حالت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔۔۔۔اور ۔۔۔ میرے دبانے کے باوجود بھی پتہ نہیں کیوں تراس کی ۔۔۔۔۔۔لہریں ۔۔۔ میرے اندر کیوں گردش کرنے کرنے لگیں تھیں ۔۔۔ادھر نواز کی گلی کا موڑ مڑتے ہی عادل نے ایک زبردست بریک لگائی۔۔۔۔ اور میں جو اس کے پیچھے ایک فاصلے پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔ بریک لگنے کی وجہ سے پھسل کر ۔۔۔اس کے ساتھ لگ گئی لیکن اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے میرا وجود اس کے وجود سے ٹچ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ بریک لگانے کے بعد اس نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا اور بولا۔۔۔ سوری باجی۔۔۔ میں نے بھی اس بات کو در گزر کر دیا۔۔۔ لیکن جب بار بار اس نے بریکیں لگانا شروع کر دیں ۔۔۔۔ تو میں اس کی بات سمجھ گئی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بات سمجھتے ۔۔۔۔ ہی میرا دل۔۔۔ دھک دھک کرنے لگا۔۔۔اور میرے اندر کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔اورپھر کافی دیر تک میں ایک کشمکش میں مبتلا رہی ۔۔۔۔ پھر اندر ہی اندر میں نے ایک فیصلہ کیا اور ۔۔۔ پرُسکون سی ہو گئی۔۔۔۔۔ اس لیئے اگلی دفعہ جب اس نے بریک لگائی تو میں نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹایا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی چھاتیوں کو اس کی پشت سے جوڑ لیا۔۔۔اس کی سینے پر رکھتے ہوئے اس کے کان میں بولی۔۔۔۔۔ اب بریک نہ لگانا ۔۔۔ اور اسکی بائیک کے بیک شیشے میں دیکھا تو میری بات سن کر عادل کی سانولی رنگت میں ایک رنگ سا آ گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر واقعی اس نے گھر تک کوئی بریک نہ لگائی اور اپنی پشت پر میرے بھاری مموں کے دباؤ کو انجوائے کرتا رہا۔۔۔۔ بائیک چلاتے ہوئے جیسے ہی اس کا محلہ شروع ہوا ۔۔۔تو اس نے پیچھے مُڑ کر میری طرف دیکھا ۔۔۔اور بولا۔۔ باجی ہماری گلی آ گئی ہے۔۔۔دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس کی پشت پر رکھے اپنے مموں کو ہٹاؤں اور دوبارہ سے اسی طرح نارمل ہو کر بیٹھ جاؤں۔۔۔۔۔ اور میں نے ایسے ہی کیا۔۔۔۔۔ اسکے گھر پہنچ کر بائیک سے اترتے ہوئے یونہی میں نے اس کی پینٹ کی درمیان نظر ڈالی ۔۔۔تو ۔۔۔وہ ایک طرف سے تھوڑی ابھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے مموں کی گرمی کی وجہ سے اس کا لن۔۔کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر ۔۔۔میرے نیچے ۔۔ جلنے والی ہلکی آگ کی آنچ کچھ تیز ہو گئی۔۔۔۔ لیکن میں نے اس پر کچھ ظاہر نہیں کیا۔۔۔ عادل کے گھر پہنچتے ہی اس کی بہنوں اور امی نے مجھے بڑا وی آئی پی۔۔۔ پروٹوکول دیا۔۔۔۔ اور میری بڑی خدمت کی۔۔۔ان کے ساتھ عادل بھی بیٹھا رہا ۔۔۔ اورمیں نے نوٹ کیا کہ وہ چوری چوری بڑی گرسنہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ میں اس کی نظروں کا مطلب خوب سمجھتی تھی ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔بوجہ ۔۔۔اسے نظر انداز کر رہی تھی۔۔لیکن جلد ہی میں اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکی ۔۔۔۔اور کچھ اپنے نیچے والے پورشن کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں بھی ۔۔۔کبھی کبھی نظر بچا کر اس کی طرف دیکھ بھی لیتی تھی۔۔۔۔۔ مجھے اس کی بہنوں کا بھی ڈر تھا۔۔۔ اس لیئے ایک دوسرے کی طرف گرسنہ نظروں سے دیکھنے والا کام ہم بڑی ہی احتیاط اور۔خاموشی سے کر رہے تھے۔۔۔ پھر وہ اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر بعد جس وقت وہ واپس ہماری محفل میں آیا تو اس وقت تک اس کی بڑی بہن اور امی کچن میں جا چکیں تھیں ۔۔۔اور اس وقت میرے پاس صرف اس کی دو بہنیں بیٹھی تھیں۔۔۔۔ عادل نے ہمارے پاس آ کر پہلے تو حالات کا جائزہ لیا۔۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ چلیں باجی میں آپ کو اپنی سٹڈی دکھاتا ہوں۔۔۔۔اس کی بات سن کر اس کی بہنیں بولیں۔۔۔۔ چلیں باجی ہم بھی چلتی ہیں۔۔۔۔ تو ان کو اُٹھتے دیکھ کر عادل کہنے لگا۔۔۔۔خبردار اگر تم میں سے کسی نے میری سٹڈی میں قدم بھی رکھا تو ۔۔۔۔ میرے ساتھ صرف ہما باجی ہی جا رہیں ہیں ۔۔۔۔اس پر اس کی بہنوں نے اصرار کیا تو اتنے میں عادل کی امی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی اور بولیں یہ کس بات پر جھگڑا چل رہا ہے ۔۔تو عادل کہنے لگا۔۔۔۔۔ امی میں ہما باجی کو اپنی سٹڈی دکھانے لے جا رہا تھا ۔۔۔ تو ساتھ یہ دو چڑیلیں بھی چلنے کو تیار ہو گئیں ہیں ۔۔۔ لیکن میں ان کو ہر گز نہیں لے جاؤں گا۔اس پر اس کی بہنوں نے بھی بولنا شروع کر دیا ۔۔تو ان سب کی باتیں سن کر آخرِکار ۔ ۔۔۔۔اس کی امی کہنے لگیں ۔۔۔اچھا بابا ۔۔۔ نہیں جائیں گی یہ تمھارے ساتھ۔۔۔جاؤ جلدی سے باجی کو اپنی سٹڈی دکھا لاؤ۔۔۔۔۔


اپنی امی کی بات سن کر عادل نے اپنی دونوں بہنوں کا منہ چڑایا ۔۔اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ چلیں باجی۔۔۔۔۔۔ میں اُٹھ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔۔۔عادل کے ساتھ چلتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرا دل ۔۔۔ دھڑکنے لگا تھا۔اور میری چوت پھڑکنے لگی تھی ۔۔۔جبکہ میرے آگے چلتا ہوا عادل بڑا پر جوش سا لگ رہا تھا۔۔۔ ڈرائینگ روم سے باہر آ کر اس نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔اور کہنے لگا کہ اس کی سٹڈی اوپر ہے۔۔اور سیڑھیاں چڑھ کر ہم چلتے ہوئے عادل کے سٹڈی روم میں پہنچ گئے ۔۔۔۔ عادل کا سٹڈی روم ایسا ہی تھا کہ جیسا کہ لڑکوں کا ہوا کرتا ہے ۔۔ کمرے میں جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑیں تھیں ۔۔۔۔ اور ایک عجیب بے ترتیبی سی جھلک رہی تھی۔۔۔ میں اس کے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔۔ کہ اس نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔اور پھر وہ خود میرے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔اور میرے ساتھ باتیں کرنے لگا۔۔۔ پھر باتوں باتوں میں اس نے بظاہر۔۔۔۔۔ چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یاد ہے باجی جب میں آپ کے گھر آیا تھا تو آپ نے مجھ سے آئیس کریم منگوا کر کھائی تھی۔۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔۔۔ میں آپ کے لیئے آئیس کریم لایا ہوں ۔۔۔۔دوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔عادل کی بات سن کر مجھ پر ایک دم سے ہوس سوار ہو گئی ۔۔۔۔ اور جو میں نے اتنی دیر سے اپنے اندر دبا کر رکھی ہوئی تھی ۔۔۔وہ شہوت ۔۔۔ میرے اوپر چھانے لگی۔۔۔۔ خود عادل کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیررہا تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ اٹھتے ہوئے بولا ۔ ۔۔۔ باجی میں ابھی آیا۔۔۔اور کچھ ہی دیر بعد وہ آئیس کریم لا کر کانپتے ہاتھوں سے مجھے پکڑاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ باجی یہ ۔۔۔یہ آئیس کریم ویسے ہی کھانا ۔۔جیسے اس دن کھائی تھی۔۔۔ اس کی بات ختم ہونے تک شہوت مجھ پر پوری طرح ۔۔ سوار ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔اور میں نے بڑی گرم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔ فکر نہ کرو عادل ویسے ہی نہیں اس سے بڑھ کر کھاؤں گی۔۔۔۔پھر میں نے آئیس کریم کا ریپر ہٹایا ۔۔۔اور آنکھیں بند کرکے تصور میں عادل کا موٹا اور لمبا لن لاتے ہوئے ۔۔۔ اپنی زبان باہر نکالی۔۔۔۔اور بڑی بے تابی سے۔۔اوپر سے نیچے تک اس پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔۔۔آئیس کریم چاٹتے چاٹتے پھر ۔۔۔۔ میرے تصور میں اس کا موٹا سا ٹوپا آ گیا ۔۔۔اور یہ تصور آتے ہی نے آئیس کریم چاٹنا چھوڑ دی اور اس کے ساتھ ہی میں نےاپنے دونوں ہونٹوں کو گول دائیرے کی شکل میں بنایا ۔۔۔اور عادل کے ٹوپے کا تصور کرتے ہوئے۔۔خود بخود میرے منہ سے ایک سسکی نکل گئی ۔۔۔۔اُوں۔۔۔ اور پھر میں نے آئیس کریم کو اپنے منہ میں لےلیا۔۔اور اس کو چوسنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آئیس کریم چوستے چوستے ۔۔۔۔میری چھٹی حس نے مجھے آنکھیں کھولنے کو کہا۔۔۔۔۔۔اور میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔دھک رہ گئی۔۔۔۔کیا دیکھتی ہوں کہ ۔ عادل نے اپنی پینٹ سے لن کو باہر نکالا ہوا ہے ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھ کر مُٹھ مار رہا تھا۔۔۔۔ عادل کا لن دیکھ کر میرے منہ اورپھدی دونوں میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔لیکن پھر اچانک مجھے ایک خیال آیا تو میں بڑی سختی سے عادل سے بولی۔۔۔۔۔ دروازہ تو لاک کرو۔۔۔ ایڈیٹ ۔۔۔ میری بات سن کر عادل چونک سا گیا ۔۔۔۔اور بھاگ کر گیا اور دروازہ جو پہلے ہی بند تھا اسے لاک بھی کر آیا۔۔۔۔۔۔پھر وہ اپنے دیو ہیکل لن کو پکڑ کر میرے سامنے لے آیا ۔۔۔اور بڑے التجائیہ لہجے میں کانپتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ باجی پلیزززززززززززززززززززززززززز۔۔۔۔۔ شدتِ جزبات سے وہ ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے برعکس اس کا لن ۔۔۔ فل جوبن میں کھڑا لہرا تھا ۔۔۔اور میں اس کے لن کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ پا رہی تھی۔۔۔ لیکن تھوڑا سا نخرہ بھی ضروری تھا ۔۔اس لیئے میں نے مصنوعی غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ یہ کیا حرکت ہے ؟ میری بات سن کر وہ تھوڑا شرمسار ہوا ۔۔۔ لیکن میں نے دیکھا کہ۔۔۔میری طرح اس پر بھی پوری طرح شہوت سوار تھی۔۔۔۔۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔ کہ میں نے خود پھر قابو پایا ہوا تھا اوراس کی حالت ۔۔۔ ۔۔یہ دیکھ کر میں نے تھوڑا ۔۔۔سا اور نخرہ کیا۔۔۔۔۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کے لن کو پکڑ لیا۔۔۔۔اور اسے آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ پھنسی پھنسی ۔۔۔۔آواز میں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی ۔۔۔ مم۔۔منہ میں لیں نا۔۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھ کر مستی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ کتنا لوں؟ تو وہ بولا۔۔۔۔سارا۔۔۔۔۔ڈالو نا۔۔۔تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تمہارا سارا لن تو میرے منہ میں نہیں آئے گا۔۔۔تو ترنت ہی وہ کہنے ۔۔۔لگا ۔۔۔ چلو جتنا منہ میں لے سکتی ہو ۔۔اتنا ہی لے لو۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے موٹے ٹوپے پر رکھا ۔۔۔۔اور ۔۔پھر اپنی زبان نکال کر نیچے سے اوپر تک اس کے ۔۔۔موٹے اوزار پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ میری زبان پھیرنے کی دیر تھی کہ اس کے منہ سے سسکی سی نکلی۔۔۔۔۔۔اور وہ بولا۔۔۔۔۔اُف۔۔ف۔۔۔باجی۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے لن کو چاروں طرف سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ عادل کے ساتھ ساتھ میں بھی اس موٹے لن پر زبان پھیر کر مزے لینے لگی۔۔۔پھر عادل نے مجھے سر سے پکڑ لیا اور اپنے لن کی طرف میرے سر کو دبانے لگا۔۔اور میں سمجھ گئی کہ اب عادل لن منہ میں ڈالنے کو کہہ رہا ہے۔۔۔اور پھر میں زبان پھیرتے پھیرتے اس کے ٹوپے کی طرف گئی ۔۔اور کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔۔۔ اس کا لن میرے منہ میں تھا ۔۔۔اور میں بڑی ہی گرمی سے اس کے چوپے لگا رہی تھی۔۔۔۔کہ اسی اثنا میں سیڑھیوں پر کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔آواز کا سننا تھا کہ میں نے عادل کے لن کو جلدی سے اپنے منہ سے نکلا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو باہر کا اشارہ کیا۔۔۔اس نے بھی بڑی پھرتی سے لن کو اپنی پینٹ میں واپس ڈالا اور دبے پاؤں چلتا ہوا ۔۔۔۔دروازے کو ان لاک کر دیا ۔۔۔اور پھر میرے پاس آ گیا ۔۔۔۔اور پھر بڑی مشکل سے چند سیکنڈ کے بعد ہم۔۔ کچھ نارمل ہوئے۔۔۔۔۔اور میں نے اس سے پانی کا کہا۔۔اس نے پاس پڑے کولر سے پانی کا گلاس بھرا ہی تھا۔۔۔۔۔ کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔اور اسکے ساتھ کسی نے بڑی آہستگی کے ساتھ دروازے کو کھولا ۔۔۔۔۔اور پھر عادل کی سب سے چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہوئی اور بڑی شرارت سے عادل کی طرف دیکھتے مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔وہ ہما باجی ۔۔۔۔ یہ بتانا تھا کہ نیچے ثریا اور ۔۔۔۔۔اور کے گھر والے آئے ہیں ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنستے ہوئے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے پیچھے پیچھے اپنے آپ کو درست کرتے ہوئے میں اور عادل بھی نیچے چلےگئے ۔۔۔۔ نیچے آ کر میں ان سب سے ملی اور ایک بار پھر ہم ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔۔۔۔اور گپ شپ ہونے لگی ۔۔۔ میں بظاہر تو ان خواتین کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی۔۔۔ لیکن اندر سے میری حالت بہت خراب تھی۔۔۔۔۔۔ اور میری پھدی میں پانی کا سیلاب آیا ہوا تھا۔۔۔۔اور میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی کے ابھی میں عادل کے لن کو پکڑ کر اپنی چوت میں اتار لوں۔۔۔ لیکن میں بے بس تھی۔۔ادھر عادل کی حالت بھی کچھ ٹھیک نظر نہ آ رہی تھی۔۔۔وہ بار بار ڈرائینگ روم کے چکر لگاتا اور۔۔۔ پھر باہر نکل جاتا تھا۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ پتہ نہیں کیسے اس نے پینٹ میں اپنے لن کو ایڈجسٹ کیا تھا ۔۔۔۔ کہ جس سے اس کا کھڑا ہوا لن ۔۔۔۔نظرنہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔اس کے بار بار آنے جانے سے ۔۔۔سب خواتین بڑی معنی خیز نظروں سے ثریا کی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔۔۔اور بیچ بیچ میں عادل کے آنے جانے پر ایک آدھ فقرہ بھی کس دیتی تھیں ۔۔۔۔عادل کے بار بار آنے سے میں نے غور کیا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔۔۔ لیکن اتنی زیادہ خواتین کے ہوتے ہوئے وہ کھل کر کچھ کہہ بھی نہ سکتا تھا۔۔۔


پھر میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔ اور پھر جیسے ہی عادل ڈرائینگ روم میں داخل ہوا میں نے ۔۔۔ عادل کی اسی بہن سے واش روم کا پوچھا ۔۔۔میری بات سن کر اس نے بیٹھے بیٹھے ہی کہا کہ باجی آپ ڈرائینگ روم سے باہر نکلیں تو دائیں ہاتھ پر ۔۔۔اس کی بات سن کر عادل کی امی کہنے لگی ۔۔۔ایسے راستے نہیں بتاتے بدتمیز ۔۔۔۔۔ بلکہ باجی کو ساتھ لے جاؤ۔۔۔۔۔۔ امی کی بات سن کر عادل نے اپنی چھوٹی بہن کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔امی اس کو سوائے مجھے چھیڑنے کے اور کوئی کام بھی آتا ہے۔۔۔عادل کی بات سن کر وہ شرمندہ سی ہو گئی تو عادل کہنے لگا۔۔۔۔ چلیں باجی میں آپ کو واش روم تک چھوڑ آتا ہوں۔۔۔اب وہ میرے آگے تھا اور میں اس کے پیچھے ۔ چلتے چلتے ایک محفوظ سی جگہ دیکھ کر عادل ایک دم پیچھے پلٹا اور میرے ساتھ لپٹ گیا۔۔۔۔۔اسے میرے ساتھ لپٹتے دیکھ کر میرا دل ۔۔دھک دھک ۔۔ دھڑکنے لگا۔۔۔اور میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔تو آس پاس کوئی نہ تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی اسے کے گرد اپنی باہنوں کا گھیرا تنگ کر دیا ۔۔۔۔۔اس وقت میری حالت بہت خراب ہو رہی تھی اور میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھلا ہوا تھا۔۔۔۔اس وقت پوری طرح ہم دونوں سیکس اور شہوت سوار تھی ۔۔۔ لڑکی ہونے کی نسبت میں تھوڑی محتاط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن عادل اس وقت آگ کا گوالہ بنا ہوا تھا ۔۔۔اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا یا ہوا تھا اور بے تحاشہ مجھے چومنے جا رہا تھا ۔۔۔۔جبکہ نیچے اس کا موٹا لن میری رانوں پر چبھ رہا تھا اور۔۔۔۔عادل کا یہ والہانہ پن دیکھ میرے اندر کی جنسی آگ بھی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی ۔۔ اور میری پھدی اس کا لن لینے کا مری جا رہی تھی اور مجھے لگا کہ اس کا موٹا لن ہی برسوں سے لگی میرے اندر کی تراس کو بجھا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس وقت لگی آگ کو صرف وہ مجھے اور میں اسے ٹھنڈا کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ مجھے چومتے چومتے وہ میرے ساتھ ہی واش روم میں آ گیا اور پھر اس کا دروازہ لاک کر کے ۔۔۔فٹوفٹ اس نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے لن کو میرے ہاتھ میں دے کر کہنے لگا۔۔۔ایک بار پھر سے میرے لن کو چوسو پلیزززززز۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ٹائیلٹ کی سیٹ پر بیٹھی اور ۔۔۔۔اس نے اپنا سنسناتا ہوا لن میرے منہ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔ اور میں بڑی بے تابی سے اس کا لن چوسنے لگی۔۔چونکہ مجھے پیچھے کی بھی فکر تھی اس لیئے ۔۔ میں نے تھوڑا سا ہی اس کا لن چوسا اور پھر اپنے منہ سے نکال کر بولی۔۔۔۔ یہاں اتنا ہی ممکن ہے۔۔۔ وہ میری بات کو سمجھ گیا اور اس نے مجھے ٹائیلٹ کی سیٹ سے اُٹھنے کو کہا ۔۔۔۔ جیسے ہی میں ٹائیلٹ کی سیٹ سے اُٹھی اس نے مجھے میر ی شلوار اتارنے کو کہا۔۔۔ اس وقت میرے اندر آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور گرمی کی وجہ سے خود بخود میری پھدی کھل بند ہو رہی تھی ۔۔۔اس لییے میں نے جلدی سے اپنی شلوار اتاری اور اسےپرے پھینک دیا۔۔۔۔تب اس نے مجھ سے کہا کہ باجی آپ اپنی ایک ٹانگ ٹائیلٹ سیٹ پر رکھ دیں ۔۔۔ اور ہپس تھوڑے اوپر کریں اور اس کے ساتھ ہی وہ میرے پیچھے آ گیا ۔۔۔   

اس کے پیچھے آتے ہی زہنی طور پر میں اس کے لن کو اپنی چوت میں لینے کو تیار تھی ۔۔۔ لیکن اچانک اپنی چوت پر مجھے اس کی زبان کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔۔۔ یہ بات محسوس کرتے ہی میں نے تڑپ کر پیچھے دیکھا تواس کا منہ میری چوت کے ساتھ جُڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ۔۔سرگوشی میں اس سے بولی۔۔۔۔ اتنا ٹائم نہیں ہے عادل ۔۔۔۔۔تو اس نے اپنی زبان کو میری چوت کی دیواروں پر پھیرے کہا۔۔۔۔ بس ایک منٹ باجی۔۔۔اور پھر میری چوت چاٹنے لگا۔۔۔۔۔ مجھے مزہ بھی آ رہا تھا ۔۔۔۔اور باہر کا خوف بھی تھا۔۔۔۔کہ کوئی آ نہ جائے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میری پھدی اسکے موٹے لن کے لیئے بھی بڑی اتاؤلی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔اس لیئے میں نے عادل سے پھر سرگوشی کی اور بولی۔۔۔ پلیززززززززز ۔۔۔۔عادل یہ کام پھر کسی اور وقت کر لینا ۔۔۔۔۔۔ اب جلدی کرو ۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے میری پھدی سے اپنا منہ ہٹایا اور۔۔۔۔۔ اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔پھر اس نے میری ٹانگوں کو اپنے لن کے حساب سے ٹھیک کیا اور پھر پیچھے سے اس نے اپنا ۔۔۔موٹا ۔۔۔۔ لمبا ۔۔۔۔اور ۔۔۔سخت لن ۔۔ایک ہی جھٹکے میں میری چوت کے اندر ٹھونس دیا ۔۔۔۔۔ اور پھر دھکے پہ دھکے مارنے لگا۔۔۔۔ اس کے طاقتور دھکے مجھے چیخنے پر مجبور کر رہے تھے لیکن ۔۔ یہ آواز باہر جانے کے خوف سے میں بس دبے دبے انداز میں سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔۔اس کے دھکے مارنے کی طوفانی رفتار کے آگے میں بے بس ہو گئی ۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی منٹ کے بعد ہم دونوں اکھٹے ہی چھوٹ گئے۔۔۔ میری چوت میں منی نکالتے ہی عادل تو جلدی سے باہر نکل گیا ۔ جبکہ میں نے وہاں بیٹھ کر اپنی چوت کو اچھی طرح پانی کے دھویا اور شلوار پہن کر باہر نکل گئی۔۔۔۔ باہر نکل کر دیکھا تو سامنے سے میری ساس بھی آ رہی تھی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرائی اور بولی ۔۔۔ مجھ بھی آ گیا تھا۔۔۔۔ اپنی ساس کو دیکھ کر میں بھی مسکرائی ۔۔۔۔ اور ۔۔پھر اس کے ساتھ ہی میری نگاہ نیچے اپنی شلوار پر پڑی۔۔۔۔۔او ۔۔خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھا تو میں نے اپنی شلوار اُلٹی پہنی ہوئی تھی۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے چوری چوری ساس کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔ادھر یہ سوچ کر میری جان ہی نکل گئی کہ اگر اس کی نگاہ میری اُلٹی شلوار پر پڑ گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ میرے دل میں چور تھا ۔۔۔ اس لیئے یہ بات سوچتے ہی میری حالت عجیب ہو گئی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔میرا رنگ اُڑ گیا۔۔۔۔اور یہ سوچ کرکہ میری چوری پکڑی گئی۔۔۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے نواز کی امی کی طرف دیکھا تو۔وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور ۔میری 

طرف دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مجھے شکوک کے آثار نظر آئے ۔۔۔۔۔۔پھر اس نے مجھے کہنے کے لیئے اپنے لب کھلولے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔اوررررررررررررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔۔۔

اس وقت چوری پکڑے جانے کے ڈر سے میری جان پر بنی ہوئی تھی اور میں نواز کی امی کی ایک ایک حرکت کو بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ تبھی انہوں نے اپنے لب ہلائے اور سرگوشی میں مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ میں بظاہر تو نارمل لیکن اندر سے میں سخت گھبرائی ہوئی تھی پھر بھی میں نے اپنا نارمل سا چہرہ بنایا اور ان کے پاس چلی گئی۔۔۔ جیسے ہی میں ان

کے قریب پہنچی۔۔۔ انہوں نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا اور پھر میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹی تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہوئی ہے۔۔ پھر وہ تیزی سے کہنی لگیں جلدی سے واش روم میں جاؤ شلوار کو سیدھا کر کے پہن لو۔۔۔ اپنی ساس کے منہ سے یہ بات سن کر میں نے ایک گہری سانس لی اور اپنی شلوار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ وہ خالہ اصل میں ۔۔۔ تو وہ بڑے ہموار لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ ان باتوں کو چھوڑو۔کہ اکثر میرے ساتھ بھی ایسا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی دیکھ۔۔ تم جلدی سے جاؤ اور شلوار کو سیدھا کر کے پہن لو۔۔۔۔ میرے خیال میں ان بے چاری کے سان و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کی ہو چکی بہو نے۔۔۔ ابھی ابھی ان کے ہونے والے داماد سے چوت مروائی ہے۔۔۔ اور وہ جلدی کی وجہ سے اپنی شلوار کو اُلٹا پہن کر آ گئی تھی۔۔۔ اس کے بر عکس وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ زور کا پیشاب لگنے کی وجہ سے شاید تھوڑا سا پیشاب میری شلوار میں نکل گیا ہو گا اس لیئے میں نے شلوار کو اتار کر اس کی پیشاب والی جگہ کو دھویا ۔۔۔ اور پھر غلطی سے اسے اُلٹا پہن کر باہر نکل آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ساس کی بات سن کر میں نے شکر کا کلمہ پڑھا اور ان کے کہنے پر تیزی سے واش میں گھس گئی ۔۔۔اور شلوار کو سیدھا پہن کر باہر نکل آئی ۔۔۔۔۔ میرے واش روم سے نکلتے ہی ساسو ماں مجھے دروازے کے پاس ہی کھڑی ملی۔۔میرے خیال میں انہیں بھی زوروں کا پیشاب لگا ہو گا تبھی تو میرے واش روم سے نکلتے ہی وہ تیزی سے اندر داخل ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ہفتے کے بعد اگلے ویک اینڈ پر نواز مجھے لینے کے لیئے بہالپور ا ٓ گیا تھا۔۔۔۔ لیکن اس دوران ۔۔۔۔ میں عادل کے لن کو نہ صرف یہ کہ خوب انجوائے کر چکی تھی۔ بلکہ اس سے مزید دو دفعہ اور بھی چوت مروا چکی تھی اور عادل کےسیکس کر کے میں بڑی فریش اور ہلکی ہو گئی تھی اسی لیئے جس دن نواز مجھے لینے آیا تھا تو اس رات میں نے نواز کے ساتھ نہ صرف یہ کہ بڑا ہی پر جوش سیکس کیا تھا بلکہ اسے بہت زیادہ مزہ بھی دیا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر نواز بہت خوش ہوا ۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ کیا بات ہے ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔آج تو تم کمال کر رہی ہو؟ تو میں نے اسے بڑے ہی لاڈ سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ۔۔۔ آپ ایک ہفتے کے بعد جو ملے ہو۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔ یہ سب جدائی کی وجہ سے ہو رہا ہے تو میں نے اس کے لن پر جمپ مارتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔ جی میری جان ۔۔۔یہ سب تمہاری جدائی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔۔اور پھر اسے مزید چڑھاتے ہوئے بولی ۔۔ میں تمہارے بنا میں بہت اداس تھی جان۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بولا۔۔۔ قسم لے لو ہما ۔۔ تمہارے بغیر میں بھی بہت اداس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن ہم لاہور واپس آ گئے اور پھر سے روٹین کی لائف شروع ہو گئی۔۔۔ اسی طرح دن گزرتے رہے۔۔۔اور یہ بہا ولپور سے واپس آنے کے تین چار ماہ بعد کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ کہ ایک دن نواز جب آفس سے واپس آئے تو وہ کچھ پریشان سے لگ رہے تھے۔۔۔ ان کا چہرہ دیکھ کر میں فوراً ہی بھانپ گئی کہ آج کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔اس لیئے ان سے پوچھنے لگی کہ کیا ہوا ۔نواز۔۔۔۔ سب خیر تو ہے ناں۔۔؟ تو وہ میر ی طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔ ہاں خیر ہی ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا تم کہہ رہے ہو خیر ہی ہے۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔ لیکن کا کیا مطلب؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔ خیر اس لیئے کہا کہ میری پرموشن ہو گئی ہے ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ تشویش والی بات یہ ہے کہ ابھی لاہور میں کوئی پوسٹ خالی نہیں۔۔۔ اس لیئے عارضی طور پر میری پوسٹنگ راولپنڈی میں ہو گئی ہے ۔۔پھر خود ہی کہنے لگا ۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ راولپنڈی میں ہم صرف دو ماہ رہیں گے۔۔۔ اور پھر دو ماہ کے بعد میرے عہدے کے مطابق یہاں سیٹ خالی ہو جائے گی تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو وہ کہنے لگا وہ ایسے میری جان کہ دو ماہ بعد میری سیٹ والا بندہ ۔۔۔ ریٹائیرڈ ہو رہا ہے۔ تو اس کے ریٹائیرڈ ہوتے ہی میں بیک ٹو پویلین ہو جاؤں گا ۔ نواز کی پرموشن کی بات سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور اسے اپنے گلے سے لگا کر مبارک باد دی ۔۔۔ پھر ایک خیال کے آتے ہی میں نے اس سے پوچھا ۔۔ کہ پھر تو نواز راولپنڈی جانے کے لیئے ہمیں یہ فلیٹ چھوڑنا پڑے گا ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے میری جان ۔۔۔ہم اس فلیٹ کو نہیں چھوڑ رہے۔بلکہ یہ فلیٹ اور ہمارا سامان سب کچھ یہیں رہے گا ۔۔ نواز کی بات سن کر میں بڑی حیران ہوئی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر جانو ہم ساتھ کیا لے کر جائیں گے ؟؟ میری بات سن کر اس نے میرا ماتھا چوما ۔۔۔ اور کہنے لگا ۔۔۔دھیرج مسز دوست نواز خان دھیرج۔۔۔ پھر بڑے پیار سے کہنے لگا ۔۔۔ چونکہ ہم نے دو ماہ بعد ہی واپس آ جا نا ہے تو اس لیئے میں نے پروگرام بنایا ہے کہ ہم اس فلیٹ کا کرایہ بھی بھرتے رہیں گے اور ۔۔رہی یہ بات کہ ہم لوگ راولپنڈی میں کیا لے کر جائیں گے ؟ تو میری جان پنڈی میں ہم صرف پہننے کے کپڑے ہی لے کر جائیں گے ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے کچھ کہنے کے لیئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ اس نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہو کہا۔۔۔ کہ ایک منٹ میری بات مکمل ہونے دو۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرا ایک کولیگ ہے وہی یار ۔۔۔عدنان خان جو ایک دفعہ ہمارے گھر بھی آیا تھا۔۔۔ اس کا بڑا بھائی پنڈی میں رہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے بھائی سے مکان کے لیئے بات کی تھی ۔۔۔اور چونکہ ہمیں مکان صرف دو ماہ کے لیئے چاہیئے ہے اس لیئے اس کے بھائی نے کہا کہ کہ دو ماہ کے لیئے وہ اپنی اوپر والی منزل کو خالی کر دے گا اور ہمیں بطور مہمان اپنے گھر میں ٹھہرائے گا۔۔ ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی یہ بات گوارہ نہ کی ۔۔اور اس سے کہا ہے کہ ہم اس کے گھر میں رہیں گے ضرور لیکن ہم رہنے کے پیسے دیں گے ۔۔۔ پہلے تو انہوں نے منع کر دیا تھا لیکن پھر میرے اصرار پر وہ اس بات کے لیئے راضی ہو گیا ہے۔ ۔۔۔چنانچہ اب ہم ان کے گھر میں بطور پے انگ گیسٹ رہیں گے ۔۔۔ تو میں نے نواز سے کہا کھانا بھی وہی لوگ دیں گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ اس کے بھائی نے تو بڑا زور لگایا تھا ۔۔ لیکن میں نے منع کر دیا ہے ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر نواز کہنے لگا سو جان جی تیار ہو جاؤ ابھی ہم لوگ آپ کے اماں کے گھر جا رہے ہیں دو ماہ کے لیئے ہماری گاڑی وہیں پارک ہو گی تو میں نے نواز سے کہا۔۔۔ کہ گاڑی کے بغیر پنڈی میں آپ آفس کیسے جاؤ گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ میری جان اب تمھارا ۔۔۔ میاں ایک بڑا افسر بن گیا ہے ۔۔۔ اس لیئے پنڈی میں پِک اینڈ ڈراپ کمپنی کی طرف سے ہو گا۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔کہ اب تیاری کر کہ ہم نے جانا بھی ہے۔۔۔

اماں کے گھر گاڑی چھوڑ کے اگلے رو ز ہم لوگ بزریعہ ڈائیو پنڈی کے لیئے روانہ ہو گئے ۔۔ ڈائیو کے اڈے پر عدنان کا بھائی معہ بیگم ہمیں لینے کے لیئے آئے ہوئے تھے۔۔۔انہوں نے ہمیں وہاں سے پِک کیا اور اپنے گھر آر –آے بازار جو کہ پنڈی کینٹ کے ایریا میں واقع تھا لے کر آ گئے ۔۔۔ نواز کےد وست عدنان کے بڑے بھائی کا نام احسان تھا اور ان کا صدر میں کاروں کا اپنا شو روم تھا۔۔۔۔ احسان ایک مضبوط اور گھٹے ہوئے جسم کے مالک تھے اور رنگ ان کا سانولا اور عمر چالیس پینتالس سال کے قریب ہو گی ۔۔ احسان کے برعکس اس کی بیگم کہ جس کا نام حنا بیگم تھا ۔ 35/ 36 سال کی ایک بہت خوب صورت سی خاتون تھی ۔۔ ویسے تو میاں بیوی دونوں ہی بڑے اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا تھا کہ میاں کے بر عکس اس کی بیوی حنا بیگم میں ناز نخرہ تھوڑا زیادہ پایا جاتا تھا ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا اوپر والا پورشن تھا ۔اور چونکہ احسان صاحب نے یہ مکان اپنے رہنے کے لیئے یہ مکان بنایا تھا اور اسے بناتے وقت ان کے زہن میں اوپر والا پورشن کرائے پر دینے کا کوئی پلان نہ تھا ۔۔۔۔ اس لیئے ان کا مکان ایسے ڈیزائن میں بنا تھا کہ ۔۔اوپر والے پوشن میں جانے کے لیئے ۔۔ان کے صحن سے ہو کر جانا پڑتا تھا ۔ انہوں نے اس کا نقشہ کچھ ایسے ڈیزائن کیا تھا کہ ان کی ساری توجہ نیچے والے پورشن پر تھی ۔چنانچہ نیچے والے پورشن کا صحن بہت بڑا تھا ۔۔۔جس کی وجہ سے اوپر والے پورشن کا چھت محدود ہو گیا ۔۔کیونکہ ان لوگوں اپنے صحن کے اوپر والی جگہ خالی چھوڑی تھی ۔

۔اوپر کے پورشن میں ان کے تین کمرے تھے ایک کمرے میں انہوں نے اپنا سامان رکھ کر اسے تالا لگایا ہوا تھا- جبکہ باقی کے دو کمرے انہوں نے ہمارے استعمال کے لیئے کھلے چھوڑے تھے ۔۔۔ ان کمروں سے تھوڑا ہٹ کر کچن واقع تھا ۔ پھر کچن اور کمروں کے آگے چھوٹا سا برآمدہ تھا اور اس چھوٹے سے برآمدے کے آگے ایک چھوٹا سا صحن تھا اور اس سے آگے ریلنگ لگی ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس ریلنگ پر کھڑے ہو کر نیچے سے ان کا سارا صحن اور خاص کر کچن اور ڈرائینگ ڈائینگ کا کچھ حصہ بڑا صاف نظر آتا تھا ۔یہ تو تھی ہمارے اس گھر کی صورتِ حال کہ جہاں آ کر ہم اترے تھے۔۔۔یہاں آنے کے بعد مجھے کچھ خاص سیٹنگ تو کرنا نہیں پڑی کہ ہر چیز پہلے سے ہی موجود تھی۔۔ لیکن پھر بھی لاہور سے پنڈی آنے کے ایک دو ہفتے بعدمیں تھوڑی اپ سیٹ رہی کیونکہ مجھے اپنا لاہور بہت یاد آرہا تھا۔۔۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ میں اس ماحول کی عادی ہو گئی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی حنا بیگم کے ساتھ علک سلیک ہوتی ہوئی بات چیت سے اچھی خاصی دوستی میں تبدیل ہو گئی ۔اور اب وہ میرے لیئے حنا باجی اور اس کے میاں احسان بھائی تھے۔۔اس کے بر عکس دوسری طرف ۔ یہاں آ کر نواز کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔ صبع آفس کی گاڑی اسے لینے کے لیئے آتی تھی اور بعض اوقات رات گئے تک وہ گھر واپس لوٹتا تھا۔۔میں جب بھی اس سے لیٹ آنے کی بات کرتی تو وہ یہ کہتا تھا کہ کیا کروں یار ۔۔۔۔ آفس میں کام ہی اتنا ہوتا ہے کہ خود میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں؟۔۔۔ پھر وہ منت بھرے انداز میں مجھ سے کہتا کہ ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔ پلیززززززز ۔۔۔ بس دو ماہ ہی کی تو بات ہے پھر ہم لاہور جا کر ہم خوب انجوائے کریں گےاور میں اس کی ان باتوں سے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتی رہتی تھی ۔۔ یہاں آ کر نواز کی یہ پکی روٹین بن گئی تھی کہ آفس سے گھر آتے ہی وہ کھانا کر میرے ساتھ تھوڑی سی گپ شپ لگاتے اور پھر سونے کے لیئے جیسے ہی وہ بستر پر لیٹتے تو پھراگلی صبع ہی ان کی آنکھ کھلتی تھی ۔۔اور اس دوران میں۔۔۔نواز کے پاس لیٹے ہوئے بعض اوقات رات گئے تک جاگتی رہتی تھی۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں ایک سیکسی لڑکی ہوں ۔۔اور میرے جسم کو سیکس کی بڑی شدید طلب ہوتی تھی لیکن ۔۔۔ میرے جزبات سے بے خبر نواز ۔۔ ۔ ۔۔ اپنے دفتر ی کاموں میں اس قدر بزی تھا کہ یہاں آ کر اس نے بس ایک دفعہ ہی میرے ساتھ سیکس کیا تھا ۔۔۔ جبکہ میری پھدی روزانہ ہی لن کی ڈیمانڈ کرتی تھی ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی میں نے جیسے تیسے خود پر قاپو پایا ہوا تھا ۔۔۔۔

یہاں آ کر میرا روزانہ کا معمول تھا کہ ۔۔۔ میں صبع ا ُٹھ کر ناشتہ وغیرہ بناتی تھی پھر ہم دونوں اکھٹے ناشتے کرتے تھے اس دوران آفس سے نواز کی گاڑی آ جاتی تھی اور میں نواز کو الوداع کرنے دروازے تک آتی تھی ۔ ۔۔ نواز کو وداع کرنے کے بعد چونکہ میرے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ۔۔۔چونکہ عموماً میں رات کی جاگی ہوئی بھی ہوتی تھی اس لیئے نواز کو وداع کرنے کے بعد میں اوپر جا کر سو جایا کرتی تھی۔اور پھر دوپہر کو اُٹھ کر حنا باجی کی طرف چلی جایا کرتی تھی۔۔۔ اور شام تک ہم دونوں گپیاں لگایا کرتی تھیں ۔۔اور نواز کے آنے سے کچھ دیر پہلے میں اوپر آ جاتی تھی اور اس کے لیئے رات کے کھانے کا بندوبست کرتی تھی ۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ نواز کو رُخصت کرنے کے بعد میں نے بستر پر دراز ہوئی لیکن کروٹیں بدلنے کے باجود بھی جب مجھے نیند نہ آئی تو میں بستر سے اُٹھ بیٹھی ۔۔۔ اور سوچا چلواپنے اور نواز کےکچھ سوٹ ہی استری کر دیتی ہوں یہ سوچ کر میں نے اپنے اور نواز کے کپڑے لیئے اور انہیں استری کرنے لگی۔۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے نیچے سے ہلکی آواز میں کچھ ۔۔۔۔ " ایسی ویسی" آوازیں سنائی دیں ۔۔۔۔ پہلے تو میں نے ان آوازوں کو اپنا وہم سمجھا ۔۔ ۔۔۔ لیکن پھر جب حنا باجی نے کچھ اونچی آواز میں سسکی لی تو میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں سب کام چھوڑ کر دبے پاؤں اپنے صحن کی طرف چلی گئی اور ۔۔ ریلنگ پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگی ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ حنا باجی اپنی ٹانگیں کھول کر عین ڈائینگ ٹیبل پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔ اور اس کے پیچھے احسان بھائی کھڑے ہو کر ان کو چود رہا تھا۔۔۔چونکہ ان دونوں کی پشت میری طرف تھی اس لیئے میں دیکھے جانے کے ڈر سے بے نیاز ہو کر ان کا چودائی سین دیکھنے لگی۔۔۔

ان کی چدائی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی میں نے محسوس کر لیا کہ اس وقت احسان بھائی کے آخری جھٹکے چل رہے ہیں ۔ ابھی میں اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ ۔۔حنا باجی نے اچانک ہی ۔ بڑی اونچی آواز میں سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ وہ ۔۔۔ احسان بھائی پر بھی بہت برس رہی تھی ۔۔۔ میں نے کان لگا کر سنا تو وہ احسان سے کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ ہوس کی بھی حد ہوتی ہے احسان ۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔ اتنے برس ہو گئے شادی کو اور تم کو ابھی بھی روز پھدی چاہیئے ہوتی ہے ۔۔۔ حنا باجی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔ کہ احسان بھائی نے پیچھے سے ایک بڑی سی اوہ۔۔۔۔ کی اور بولے حنا ۔۔میں۔۔۔۔ میں چھوٹ رہا ہوں اور پھر اپنے لن کو تیزی سے ان آؤٹ کرنے لگے۔۔۔ اسی دوران میں نے حنا باجی کی آواز سنی وہ احسان سے کہہ رہی تھی۔۔۔ جلدی چھوٹ حرامی جلدی چھوٹ ۔۔۔اور حنا باجی کی اسی بات کے ساتھ ہی احسان بھائی نے دو تین مزید گھسے مارے اور پھر وہ حنا کی چوت میں ہی چھوٹ گئے۔۔۔ حنا کی چوت میں لن ڈالے کچھ دیر تک تو ۔ احسان ۔۔ اپنے سانس درست کرتا رہا پھر حنا باجی نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کی طرف کیا ۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک کپڑا پکڑا ہوا تھا ۔۔۔ جو انہوں نے احسان بھائی کو پکڑایا اور کہنے لگیں ۔۔۔ جلدی سے اپنا گند صاف کرو۔۔۔ ۔ ۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ احسان بھائی نے ان کے ہاتھ سے وہ کپڑا پکڑا ۔۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہو کرحنا باجی کی چوت کو اچھی طرح سے صاف کر کے جیسے ہی کپڑا رکھا ۔۔ حنا باجی نے ڈائینگ ٹیبل سے اپنا سر اُٹھایا اور پھر انہوں نے نیچے جھک کر اپنی شلوار پکڑی اور ننگی ہی تیزی سے اندر کی طرف چلی گئی میرے خیال وہ واش روم میں گئی ہو گئی۔۔۔۔ جیسے ہی حنا باجی ۔۔۔۔ واش روم کی طرف گئی ۔۔۔ احسان بھائی نے بھی اپنی پیٹھ موڑی ۔۔۔۔اور اب میرے سامنے ۔۔۔۔۔ ان کا فرنٹ آ گیا تھا۔۔۔ اور خود بخود میری نظر ۔۔۔ احسان بھائی کے لن کی طرف چلی گئی۔۔۔اور جیسے ہی میری نگاہ ان کے لن پر پڑی تو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔اسے دیکھ کر میرے اور میری چوت ۔۔۔۔ دونوں کے ہوش اُڑ گئے ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ احسان بھائی کا لن تھا ہی بڑا لمبا موٹا اور اتنا شاندار کہ ۔۔اسے دیکھ کر خود بخود میری چوت سے پانی ٹپکنا شروع ہو گیا ۔۔۔ ادھر حنا باجی کے اندر اپنی منی چھوڑ کر بھی احسان بھائی کا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ہی کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں جو اتنے دنوں سے چدئی نہیں تھی۔۔۔ ان کا لن دیکھ کر میری تو حالت ہی عجیب ہوگئی ۔۔۔اور میں ان کا لن دیکھ دیکھ کر بے قابو ہونے لگی ۔۔۔ لیکن پھر میں بھی بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا ۔۔۔اور احسان کے لن کی طرف دیکھتے ہوئے وہاں سے ہٹ گئی اور ۔۔ اپنے کمرے میں جا کر اس کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔۔

احسان بھائی کا لن دیکھ کر ایک بات تو میں نے اسی وقت طے کر لی تھی ۔۔۔۔ کہ میں نے اس کا لن لینا ہی لینا تھا ۔۔۔۔بس کیسے؟ بس اسی بات کی پلانگ کرنی تھی۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ عورت کے لیئے کسی بھی مرد کو پٹانہ کوئی خاص مشکل کام نہ تھا ۔۔۔ مشکل کام تھا تو ۔۔ کہ ۔مجھے حنا باجی کی نظر بچا کر اس کا لن لینا تھا ۔۔۔ اور پھر میں نے اس بات پر غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ ۔اس کےساتھ احسان بھائی کے بارے میں میرا دوسرا اندازہ یہ تھا کہ انہیں بھی ۔۔۔۔ فائق بھائی کی طرح دن کو چودنے کا زیادہ مزہ آتا ہے کیونکہ ۔۔۔ چودائی کے بعدمیں نے حنا باجی کے منہ سے یہ بات سن لی تھی کہ ۔۔۔ سارے لوگ رات کو کرتے ہیں پتہ نہیں تم کو دن میں کرنے کا کیا مزہ آتا ہے ۔۔۔پھر میں نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد میں ان کا شو دیکھ کر سویا کروں گی۔۔۔

اور اپنے اس فیصلے پر میں نے پوری طرح عمل کرنا شروع کر دیا ۔ ۔۔۔ نواز چونکہ آفس میں کام کرتا تھا ۔اس لیئے وہ آفس جلدی چلا جاتا تھا ۔۔ ۔۔ ۔۔اس کے بر عکس احسان بھائی کا اپنا شو روم تھا اس لیئے وہ آرام سے اُٹھ کر اور تسلی سے تیار ہو اپنے شو روم جایا کرتے تھے۔۔۔۔ ہاں رات کو وہ بہت لیٹ آیا کرتے تھے۔۔ چنانچہ نواز کو رُخصت کرنے کے بعد ادھر ادھر کے کچھ کام کرتی اور پھر تھوڑی دیر آرام کے بعد صحن میں جا کر وقفے وقفے سے ایک نظر نیچے جھانک لیتی تھی۔ ۔۔۔ ۔ کچھ دن بعد کے ناکے کے بعد مجھےاحسان کی سیکس روٹین کا پتہ چل گیا تھا - عموماً ناشتے کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن وہ حنا باجی کےساتھ سیکس کیا کرتے تھے اور زیادہ تر وہ حنا باجی کو ناشتے کی ٹیبل پر ہی اوندھا کر کے چودا کرتے تھے۔۔۔ ہاں اس دوران ان کا زاویہ کبھی کچھ ہوتا تھا اور کبھی کچھ ۔۔۔ لیکن ایک بات تھی کہ ہر زاویہ میں حنا باجی کا منہ نیچے کی طرف ہی ہوا کرتا تھا ۔۔۔ حنا باجی ہمیشہ اچھے خاصے نخروں کے بعد احسان بھائی کو پھدی دیا کرتی تھی ۔۔۔۔۔ اور جہاں تک احسان بھائی کا تعلق ہے تو بلا شبہ وہ ایک سیکسی اور پاورفُل بندہ تھا ۔۔۔۔اور میں خاص کر اس کے لن پر عاشق تھی۔۔۔

ایک دن کی بات ہے کہ اس دن احسان بھائی سے چودواتے ہوئے ذکیہ باجی مجھے بہت گرم موڈ میں لگ رہیں تھیں ۔۔۔ سسکیوں کے ساتھ ساتھ وہ احسان بھائی کے ہر دھکے کے جواب میں ان کو بار بار اور تیز دھکے مارنے پر اکسا رہیں تھیں جبکہ ددسری طرف احسان بھائی جو کہ پہلے ہی ایک سیکسی بندہ تھا ۔۔اوپر سے اس کی نخریلی بیوی اسے دھکے فاسٹ مارنے پر اُکسا بھی رہی ہو تو ۔۔۔۔اس کے لیئے تو یہ سونے پر سہاگہ والی بات تھی چنانچہ وہ جوش میں آ کر اور زور سے حنا باجی کی چوت کی ٹھکائی کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ اس دن ان دونوں کی چودائی کا سین دیکھنے ولا تھا ورنہ عام طور پران کی ۔۔۔ چدائی یک طرفہ ہی ہوا کرتی تھی۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ حنا باجی کو چودتے ہوئے احسان بھائی نے کچھ ایسا تیز دھکا مارا کہ ۔۔۔۔ جسے کھا کر حنا باجی مزے کے ساتویں آسمان پر جا پڑی ۔۔۔۔۔اور اس کو اس دھکے کا اتنا زیادہ مزہ آیا کہ وہ ایک دم سے اوپر اُٹھی ۔۔۔۔اور احسان بھائی کے ساتھ لپٹ گئی اور اسے بے تحاشہ چومتے ہوئے بولی۔۔۔۔ آج بہت خوب چود رہے ہو میری جان ۔۔۔ حنا باجی کے اُٹھ کر احسان بھائی کے ساتھ لپٹنے کے دران ان کا کچھ ایسا زاویہ ہو گیا کہ جس سے حنا باجی کی پشت اور احسان بھائی کا ۔۔ چہرہ میری طرف ہو گیا ۔۔۔۔۔ اسی دوران جبکہ حنا باجی احسان بھائی کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی پتہ نہیں کیسے احسان بھائی نے نظر اُٹھا کر اپنے چھت کی طرف دیکھا تو۔۔۔سامنےمیں کھڑی تھی۔۔۔ انہوں نے میری اور میں نے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ گھڑی دو گھڑی ۔۔ ہماری آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔۔ اور پھر بنا کوئی ردِ عمل دیئے وہ پھر سے اپنی وائف کے ساتھ مصروف ہو گئے ۔۔ادھر انہیں اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر شرم کے مارے میں سُن ہو کر رہ گئی ۔۔۔۔ اور میری حالت نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والی ہوگئی ۔۔ دوسری طرف ۔ احسان بھائی مجھے ریلنگ پر کھڑے دیکھ کر چونکے ضرور ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن اس وقت انہوں نے کسی قسم کے کوئی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔ بلکہ ہماری نظریں ملنے کے فوراً بعد ۔۔۔۔


انہوں نے کو بڑے طریقے سے حنا باجی کو پکڑ کر دوبارہ سے ڈئینگ ٹیبل پر اوندھا کردیا اور ۔۔۔۔پھر اپنے لن کو ان کی پھدی پر رکھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مُڑ کر ایک نظر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر ہماری نظریں ۔۔۔چار ہوئیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے لن کو حنا باجی کے اندر ڈالا ۔۔۔۔اور گھسے مارنے لگے ۔۔۔۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو اس وقت میں بڑی بُری طرح سے خود کو کوس رہی تھی کہ۔۔۔۔ میں اتنا مگن ہو کر کیوں ان کا شو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور جس وقت حنا باجی اُٹھ کر احسان بھائی کے ساتھ لپٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔تو اس وقت مجھے چاہیئے تھا کہ ادھر ادھر ہو جاتی لیکن پتہ نہیں کیوں ۔۔۔۔ میں وقت کی نزاکت کو نہ سمجھ سکی اور وہیں کھڑی ان کا تماشہ دیکھتی رہی۔۔۔ اور پھر اسی دران احسان بھائی کی نظریں مجھ سے چار ہو گئیں۔۔۔۔ ان سے نظریں ملاتے ہوئے بھی پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں کسی تنویمی عمل کے زیرِ اثر وہیں جمی کھڑی رہی ۔۔۔مجھے ہوش اس وقت آیا کہ جب احسان بھائی نے اپنے لن کو ۔۔۔حنا باجی کی چوت میں ڈال کر دوبارہ سے دھکم پیل شروع کر دی۔۔۔ ۔۔۔ اور احسان بھائی کو دوبارہ سے اپنی طرف دیکھتے ہی میں ہڑبڑا گئی اور پھر فوراً ہی بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔ سانسیں چڑھی ہوئیں تھی اور میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں احسان بھائی میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ لیکن ہونے والی بات ہو چکی تھی ۔۔۔اور اب اس پر صرف سوچنے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا۔۔۔۔پھر میں نے دل میں کہا کہ چلو ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا کہ انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا۔۔۔ کیونکہ جلد یا بدیر ۔۔۔ میں نے ان کو پھنسا کر ان سے چدوانا تو تھا ہی ۔۔ ۔ یہ سوچ کر میں نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔کہ۔۔۔ایک لحاظ یہ اچھا ہے کہ اس طرح دیکھنے سے ہمارے درمیان فاصلے کچھ کم ہی ہوئے ہوں گے۔۔۔۔۔ اس بات کو سوچتے ہی میری پھدی نے ایک دفعہ پھر احسان کے لن کے لیئے فریاد شروع کر دی ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں احسان بھائی کے لن کے بارے میں سوچ سوچ کر گرم سے گرم تر ہوتی گئی۔۔۔اور میری پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور مجھ سے ۔۔۔ سیکس کا مطالبہ کرنے لگی۔۔۔ آخر تنگ آ کر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کل سے میں جان بوجھ کر ان کے سامنے کھڑی ہوکر ان کا تماشہ دیکھوں گی۔۔ہاں اس میں اتنی احتیاط ضرور کروں گی کہ کہیں ان کا شو ۔۔۔ دیکھتے ہوئے حنا باجی نہ مجھے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔

یہ خیال آتے ہی میں کچھ ریلکس ہو گئی اور ۔۔۔ اگلے دن کا انتطار کرنے لگی۔۔۔ لیکن اس سے اگلے دن تو کیا ۔۔۔۔اس سے بھی اگلے دن ان لوگوں نے آپس میں کوئی سیکس نہ کیا۔اس پر مجھے تھوڑی کھد بد ہوئی تو پتہ چلا کہ حنا باجی کو پیریڈز آئے ہوئے ہیں۔۔۔اس کے باوجود بھی میں نے ریلنگ پر کھڑے ہونا نہ چھوڑا اور ۔۔۔ احسان بھائی کو دیکھتے ہوئے میں ان کو سپیشل لُک دینے لگی ۔۔۔اور حنا باجی سے نظریں بچا کر کبھی کبھار۔انہیں اپنے مموں کا درشن بھی کر ا دیتی تھی اس طرح سے کچھ ہی دنوں کے بعد ہم دونوں کے درمیان ایک ان دیکھی ۔۔۔ انڈر سٹینڈنگ ۔۔ ڈویلپ ہو نے لگی ۔۔۔۔۔۔ اس سے کچھ دن بعد کی بات ہے کہ ناشتے کے بعد حسبِ معمول بعد میں نواز کو وداع کرنے نیچے جا رہی تھی کہ اتنے میں ۔۔ہم نے احسان بھائی کو دیکھا جو کہ گھر سے باہر نکل رہے تھے۔۔ ہمیں آتے دیکھ کر وہ رک گئے ۔۔۔اور ہیلو ہائے کے بعد نواز نے بڑے خوشگوار موڈ میں احسان بھائی سے پوچھا ۔۔۔ خیریت تو ہے نا احسان بھائی ؟ صبع صبع کہاں جا رہے ہو ؟ تو احسان بھائی نے نواز سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ وہ یار ۔۔۔۔ زرا بازار جا رہا ہوں ایک تو روٹی لانی ہے دوسرا ۔۔ دودھ بھی ختم تھا وہ لیکر آؤں گا ۔۔۔۔ دودھ اور روٹی کا نام سن کر میرے ساتھ ساتھ نواز بھی چونک پڑا اور اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ کیا بات ہے بھابھی سے لڑائی تو نہیں ہو گئی۔۔۔ جو آپ روٹیاں لینے بازار جا رہے ہو؟ اس پر احسان بھی نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔ نہیں یار وہ بے چاری لڑے گی تو تب نا کہ جب وہ ٹھیک ہو گی ۔۔۔ اس پر ہم دونوں نے ایک ساتھ اس سے پوچھا کیوں کیا ہوا ان کو ۔۔۔۔؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ رات سے حنا کو بڑا تیز بخار چڑھا ہوا ہے ۔۔۔۔ اسی لیئے تو میں روٹیاں لینے تندور پر جا رہا ہوں ۔۔۔ احسان کی بات سن کر نواز نے ان سے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ کمال ہے جناب ہما کے ہوتے ہوئے آپ بازار سے روٹیاں لینے جا رہے ہیں یہ تو ہمارے لیئے بڑے شرم کی بات ہے ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی نواز میری طرف گھومے اور کہنے لگے ہما ۔۔تم جاؤ ۔۔اور حنا باجی کی تیمارداری کرو اور اس کے ساتھ ساتھ احسان بھائی کے لیئے ناشتے کا بھی بندوبست کرو۔۔۔۔۔ نواز نے یہ کہا اور پھر احسان بھائی کو تسلی دلاسہ دیتے ہوئے گاڑی کی طرف چلا گیا۔

ان کے دروازے پر اب میں اور احسان بھائی اکیلے کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے مجھے اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر احسان بھائی کی بولتی بند ہو گئی۔۔۔۔۔ہم کچھ دیر تک تو ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے پھر کچھ دیر بعد وہ مجھ سے گھبراہٹ بھرے انداز میں کہنے لگے۔۔ آپ حنا کے پاس جاؤ ۔۔۔۔ میں دودھ وغیرہ لیکر آتا ہوں۔۔۔۔ اور پھر تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔احسان بھائی کے باہر جاتے ہی کسی نامعلوم سوچ سے میں گرم ہونے لگی۔۔۔اور میرا اندر تپنے لگا۔۔۔۔۔ پھر ۔۔میری پھدی نے مجھے یاد دلاتے ہوئے کہا اتنا عرصہ ہو گیا اس کو اس کی خوراک نہیں ملی۔۔۔۔۔ پھدی کی بات سن کر میں نے اسے بھر پور تسلی دی ۔۔۔۔اور حنا باجی کے کمرے کی طرف چل پڑی۔۔۔اندر جا کر دیکھا تو حنا باجی واقع ہی بخار میں تپ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے ان کا نام لیکر ان کو بلایا تو انہوں نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر مسکرا دیں ۔۔۔۔ میں نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر سہلانا شروع کردیا۔۔۔۔ اور اندر ہی اندر ۔۔احسان کا انتظار کرنے لگی۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ احسان آ گئے تو میں نے بڑی گرسنہ نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ۔۔۔احسان بھائی ۔۔۔۔ باجی نے کوئی دوائی وغیرہ لی ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے آنے سے پہلے میں نے ان کو رات کی بنی تھوڑی سی کھچڑی کھلائی تھی ۔۔۔۔ اب ان کو دوائی دینے کا ٹائم ہو گیا ہے اسی لیئے میں دودھ لینے بازار گیا تھا۔۔۔ تو میں نے ان سے کہ آپ پلیز مجھے بتا دیں میں ان کو دوائی دیتی ہوں ۔۔۔ اس پر انہوں نے حنا باجی کی دوائی والی پرچی مجھے دیتے ہوئے کہا کہ دوائیاں ساتھ پڑی ہیں ۔۔۔۔

میں نے دل ہی دل میں پلانگ کی اور پھر پاس پڑے شیشے کے گلاس میں دودھ بھرا ۔۔۔اور احسان بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے اس زواویہ سے دوائی لینے کے لیئے نیچے جھکی کہ جس سے میری سیکسی گانڈ ۔۔۔ ان کے سامنے آگئی تھی۔۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ میری گانڈ دیکھ کر ۔۔۔۔ ویسے تو شادی سے پہلے ہی میری گانڈ کی شیپ بہت سیکسی تھی ۔۔۔ لیکن خاص کر شادی کے بعد تو یہ غضب بن گئی تھی۔۔۔اس لیئے مجھے یقین تھا کہ میری بیوٹی فل گانڈ دیکھ کر ۔۔۔۔ اس سیکسی بندے کے اندر کی تراس ۔۔۔۔۔۔۔ضرور جاگے گی۔۔۔۔۔پھر میں نے اس پر ہی بس نہیں کیا ۔۔۔ بلکہ باجی کو دوائی دیتے ہوئے میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ادا سے کہا ۔۔۔ کہ بھائی مجھے یہ گلاس پکڑا دیں گے پلیز ۔۔۔۔ میری بات سن کر احسان بھائی کہ جن کی نظریں میری گانڈ کے چھید پر گڑھی ہوئیں تھیں ۔۔۔اپنی جگہ سے اُٹھے اور میز پر پڑے گلاس پکڑنے کے لیئے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔ میں نے بڑے طریقے سے تھوڑا پیچھے ہوئی ۔۔۔۔اور اپنی گانڈ کو ان کے ہاتھ کے ساتھ مس کر دیا۔۔۔۔ اور ان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے کی رنگت تبدیل ہو چکی تھی اور میری موٹی گانڈ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی آنکھوں میں شہوت اتر آئی تھی۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں شہوت دیکھ کر میں تھوڑی مطمئن ہو گئی اور پھر ان سے بولی کہ احسان بھائی آپ پلیز بھابھی کو پیچھے سے پکڑ کر اوپر ُٹھائیں ۔۔۔ اور انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی لیٹی ہوئی بیوی کو پیچھے سے اوپر اُٹھایا ۔۔۔۔اس دوران میں اپنے پستانوں کو اس طرح ۔۔۔۔سیٹ کر چکی تھی کہ حنا باجی کو دوائی پلاتے ہوئے میرے ان کو بھاری مموں کا فُل درشن ہو جائے ۔۔۔۔اور پھر ایسے ہی ہوا ۔۔۔ادھر میں نے جان بوجھ کر حنا باجی کو دوائی پلاتے ہوئے تھوڑی دیر لگائی مقصد یہ تھا کہ اس دوران احسان میرے بھاری مموں کو خوب اچھی طرح سے دیکھ کر گرم ہو جائے۔۔۔۔

حنا باجی کو دوائی پلا کر میں نے احسان بھائی کی طرف دیکھا تو میں نے ان کی آنکھوں میں اپنے لیئے شدید ہوس کو پایا۔۔ اور اس ہوس کو دیکھ کر میرے دل کی کلی کھل گئی لیکن میں نے یہ بات ظاہر نہ ہونے دی اور احسان سے بولی کہ بھائی آپ کو لیئے روٹی بنا دوں؟ تو وہ بڑی ہی پیاسی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔ نہیں بھابھی ۔۔۔ وہ تو میں بازار سے لے آیا تھا۔۔۔ تب میں نے گہری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے احسان بھائی ۔۔۔ میں چلتی ہوں اگر کوئی کام ہوا تو بتا دینا۔۔۔۔اور میں جانے کے لیئے جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی۔۔۔تو مجھے اپنے پیچھے سے احسان بھائی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ وہ بولےایک منٹ بھابھی۔۔۔۔ احسان کی آواز سن کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں دھڑکتے ہوئےدل کےساتھ کمرے کے باہر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے احسان میرے سامنے کھڑے تھے اس لیئے میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔۔۔ جی بھائی۔۔۔۔؟ مجھ سے بات کرنے سے قبل انہوں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور ۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔ وہ بھابھی۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ تراس بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے۔۔۔ وہ جو بات کہنا چاہتے تھے وہ بات ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی لیکن بوجہ وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتے تھے بلکل یہی صورتِ حال میرے ساتھ بھی تھی کہ ۔۔۔ اس وقت ہمارے دونوں کے انگ انگ سے شہوت ٹپک رہی تھی لیکن مسلہ یہ تھا ۔۔۔۔ کہ پہل کون کرے ؟ ایک عورت ہونے کے ناطے بے شک اندر سے لاکھ میرا دل اس بات پر لاکھ دفعہ بھی چاہے کہ احسان بھائی ابھی کے ابی مجھے چودیں لیکن ۔۔۔میں انہیں اپنے منہ سے یہ بات کبھی بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔۔۔۔ اس لیئے ۔۔میں سوالیہ نطروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ بھائی جو بھی بات ہے بتا دیں۔۔۔ لیکن اس بے چارے کی اتنی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ مجھے وہ بات کہتا جو وہ کہنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے ان کے پورے جسم خصوصاً ان کی آنکھوں میں سیکس کی آگ بھڑکتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ اور اسی آگ میں جلتے ہوئے خود میرا بھی بہت برا حال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ کافی دیر تک کھڑے رہنے پر بھی جب وہ کچھ نہ بولے تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی ذومعنی الفاظ میں کہا ۔۔۔ اچھا احسان بھائی ۔اب میں چلتی ہوں ۔۔۔آپ کو جب بھی میری ضرورت پڑے مجھے بلا لیجیئے گا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے احسان بھائی پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور واپسی کے لیئے مُڑ گئی۔ اپنے ہاتھ سے یوں شکار نکلتا دیکھ کر احسان بھائی کی تو سیٹی گم ہو گئی۔۔۔۔ اور ۔۔ جیسے ہی میں نے اوپر جانے کے لیئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ۔۔۔ مجھے پیچھے سے احسان بھائی کی جزبات سے بھر پور آواز سنائی دی۔۔۔۔

ہما جی۔۔۔۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔۔۔۔ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بھی بھاگے بھاگے میرے پیچھے آئے اور وہ بھی میرے پیچھے تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے لگے۔۔۔۔۔ادھر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا اور پھر ایک خاص ٹائم پر سیڑھیوں کے بیچ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔جیسے ہی میں کھڑی ہوئی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے احسان بھائی میرے اندازے کے عین مطابق مجھ سے آن ٹکرائے ۔۔۔۔ اور دوسرے ہی لمحے میں گرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے۔۔ ان کی باہوں میں چلی گئی۔۔۔۔۔ مجھے اپنی بانہوں میں پاتے ہی احسان بھائی نے بڑی مضبوطی سے مجھے پکڑ کر اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔ ادھر میں نے ڈرامہ کرتے ہوئے ۔۔۔ان کی باہنوں سے نکلتے ہوئے بولی۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں احسان بھائی؟۔۔۔۔ اگر حنا باجی نے دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی ۔۔۔تو وہ میرے گرد اپنی بانہوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔ فکر نہیں کرو۔۔۔ وہ دو گھنٹے سے پہلے کبھی نہیں اُٹھے گی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جلتے ہوئے ہونٹ میرے گالوں پر رکھ دیئے ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس بدھو نے بھی کوئی کام دکھایا ہے ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ بظاہر ۔۔۔ پارسا بنتے ہوئے بولی۔۔۔۔ احسان بھائی ۔۔ پلیزززززز۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دیں ۔۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں ۔۔۔ تو جواب میں وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔ جی یقین کریں میں بھی بہت شریف آدمی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ بس آپ کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں پا سکا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ اس نے مجھے ایک اور کس کر دی ۔۔۔۔

یہ دیکھ کر میں نے خود کو اس کی بانہوں سے چھڑانے کی واجبی سی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ایسا نہ کریں نا ۔۔۔ پلیزززززز۔۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو میں بدنام ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔میری بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔۔ یقین کرو ہما ۔۔۔۔ میں مر جاؤں گا لیکن تمہیں بدنام نہیں ہونےدوں گا۔۔۔ اور پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لگا کر بولا۔۔۔۔۔ ویسے بھی ڈارلنگ ہم دونوں کے علاوہ یہاں اور کون ہے جو تم کو بد نام کرے گا؟ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنے ساتھ چپکا لیا ۔۔۔اور اس کے اس طر ح چپکانے سے اس کا لمبا لن میری رانوں سے ہوتا ہوا۔۔۔۔ میری چوت کو ٹچ کرنے لگا۔۔۔۔ جیسے ہی اس کے لن کا موٹا ٹوپا ۔۔۔ میری چوت کی نرم دیواروں سے ٹکرایا ۔۔۔ تو میں نے جان بوجھ کر سیکسی آواز میں ان سے کہا۔۔۔۔ "اسے" تو پرے کریں کہ مجھے بڑی بُری طرح سے چبھ رہا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر اس کو جوش آ گیا ۔۔۔ اور ایک دم سے اس نے مجھے اپنے طاقتور ہاتھوں میں پکڑ کر تھوڑا گھما دیا۔جس سے میری پشت ان کی طرف ہو گئی۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے ۔۔۔ نیچے جھکنے کو کہا ۔۔ ان کے کہنے پر میں نیچے جھکی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہنے لگی۔۔۔ کہ ۔۔آپ میرے ساتھ کیا کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔ ایسا نہ کریں پلیززززززززز۔۔۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور جلدی سے اپنی شلوار نیچے کی اور مجھے سے بولے۔۔ حنا ۔۔۔ ریلنگ کو پکڑ کر تھوڑا مزید جھک جاؤ۔۔۔۔۔۔ اور میں نے سیڑھیوں کی ریلنگ کر پکڑا ور کافی زیادہ نیچے کی طرف جھک گئی۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر احسان نے میری شلوار کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔ کہ میرا آزار بند کھول سکے ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بڑی چالاکی سے خود ہی اپنی شلوار کو تھوڑا نیچے کردیا ۔۔۔ اس پر اس کی پیچھے سے آواز سنائی دی۔۔۔۔ اچھا اچھا ۔۔الاسٹک ہے۔۔۔اور پھر ۔۔اس نے کھیچ کر میری شلوار کو نیچے اتار دیا۔۔۔۔۔۔

 میری گوری گوری اور موٹی گانڈ کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔ ہما ۔۔جی۔۔۔۔ آپ کی ہپس تو غضب کے ہیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی ٹانگوں کو مزید کھلا کرنے کو کہا ۔۔۔۔اور جب اس کی منشا کے مطابق میری ٹانگیں کھلی ہو گئیں تو اس نے ۔۔۔۔۔اپنے لن کو میری چوت کی دیواروں سے رگڑا ۔۔۔۔اور بولا۔۔۔ اُف ۔۔ تم کتنی گرم ہو ہما۔۔۔اور پھر ہلکا سا دھکا لگا کر اپنے لن کو میری چوت میں داخل کر دیا۔۔اس کے لن کا داخل ہوتے ہی خود بخود میرے منہ سے ایک دل کش سے سسکی نکلی ۔۔اؤچ چ چ۔۔۔اور میں بڑی مست آواز میں بولی۔۔۔ نہ کریں نا پلیزززززز۔۔ اس نے میری بات کو نظر انداز کیا اور ایک زبردست گھسا مارا جس سے اس کا لن میری چوت میں جڑ تک اتر گیا۔۔۔۔ اس کا لن میری چوت میں اترنے کے ساتھ ہی میرے پورے وجود میں مزے کی ایک تیز لہر اُٹھی اور میں اس لہر میں بہہ گئی اور ۔۔۔پھر ڈرامہ چھوڑ کر اپنی چوت کے اندر گھسے احسان کے لن کو انجوائے کرنے لگی ۔۔۔ ادھر احسان گھسا مارتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ ہما جی ۔۔۔آپ کی چوت تو بہت ٹائیٹ ہے ۔۔۔ ۔۔ تو میں نے مستی میں کہا ۔۔۔۔اسے کھلا کر دو میری جان۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور پھر اس نے میری چوت میں گھسوں کی برسات کر دی ۔۔۔ دوسری طرف احسان کے ہر گھسے سے میری چوت کا بند بند کھلنے لگا ۔۔۔ اور وہ مسلسل گھسے مارتے ہوئے میری پیاسی چوت کو پیاس بجھانے میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔۔احسان میری چوت میں گھسے پہ گھسا مارتا رہا ۔۔۔ اور اس کے ہر گھسے پر میری چوت پانی چھوڑتی رہی ۔۔۔اس دن اس کے طاقتور لن نے میری چوت کی جم کر ٹھکائی کی۔۔۔۔ اور کافی دیر تک وہ مجھے چودتا رہا۔۔۔۔ پھر اچانک اس کے دھکوں کی رفتار میں اضافہ ہو گیا ۔۔اور میں سمجھ گئی کہ۔۔۔احسان ۔۔چھوٹنے والا ہو گیا ہے۔۔۔ اس کےساتھ ہی میری ۔۔۔ چوت بھی اس کے لن کے گرد ٹائیٹ ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔ ٹائیٹ ۔۔۔اور ٹائیٹ ۔۔۔۔۔۔ اور اس کا طاقتور لن میری ٹائیٹ پھدی میں اپنا راستہ بناتے ہوئے ۔۔۔۔ تیزی سے ان آؤٹ ہونے لگا۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔ میری چوت کی دیواروں نے اس کے لن سے نکلنے والی گرم گرم منی کی دھار کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اس طرح کافی دیر تک میری چوت میں وہ اپنے گرم پانی کو نکالتا رہا اور میری تراس بھری چوت کو اپنے پانی سے سیراب کرتا رہا ۔۔۔ پھر ۔۔۔ کچھ لمحوں کے بعد اس کے لن سے پانی نکلنا بند ہو گیا ۔۔۔ تو اس نے کھینچ کر میری چوت سے اپنا لن نکلا ۔۔۔۔اور میں نے اس بنا کوئی بات کیئے۔۔۔ اپنی شلوار اوپر کی اور۔۔۔ بھاگ کر اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔۔۔ اور ۔ ۔۔ بستر پر گِر گئی ۔۔اور پھر اپنی چوت میں 

انگلی ڈال کر احسان کے طاقتور لن سے نکلنے والی منی کو اپنی انگلی سے باہر نکالا اور پھر اس انگلی کو اپنے منہ میں لے گئی اور احسان کی منی ٹیسٹ کرنے لگی۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ اس کی منی بہت مزیدار تھی۔۔۔۔


اس چودائی کے بعد چاہیئے تو یہ تھا کہ میں احسان سے روز چدواتی لیکن۔۔۔۔ ایسا نہ ہو سکا اس کی وجہ حنا باجی تھی۔۔۔ اس نے ہمیں ایسا کوئی چانس نہیں دیا ۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ۔۔۔ کہ ایک بار پھر سے میری چوت ۔۔۔ کسی طاقتور لن کے لیئے تڑپنے لگی۔۔۔۔


اسی ا ثنا میں پنڈی میں ہمارے دو ماہ پورے ہو نے اسے دو دن قبل میں نے نواز سے پوچھا کہ ۔۔۔ کب چلنا ہے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کل ہیڈ آفس سے بات کر کے بتاؤں گا۔۔ اگلے دن جب نواز آفس سے واپس آیا تو اس کا چہرہ دیکھ کر ہی میں سمجھ گئی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔ لیکن میرے پوچھنے سے قبل ہی نواز کہنے لگا ۔۔۔ ہما ڈارلنگ ۔۔۔ سوری ۔۔ ہیڈ آفس کی طرف سے پنڈی کو ایک پراجیکٹ ملا ہے۔۔۔۔۔ جس کا ہیڈ مجھے بنایا ہے اس لیئے ہمیں دس پندرہ دن مزید یہاں رکنا پڑے گا۔۔۔۔ نواز کی بات سن کر میں نے برا سا منہ بنایا اور بولی ۔۔۔ یہ کیا مزاق ہے یار ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ یہ مزاق نہیں ہے میری جان ۔۔۔ حقیقت ہے۔۔۔ اور پھر مجھے چومتے ہوئے بولا۔۔۔۔ بس 10/15 دنوں ہی کی تو بات ہے ڈارلنگ ۔۔۔۔جہاں دو ماہ گزر گئے ہیں وہاں۔۔۔ کسی نہ کسی طرح یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے۔ مرتی کیا نہ کرتی ۔۔۔ ا س لیئے میں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ سے وہی روٹین شروع ہو گئی۔۔۔۔ اسی دوران ۔۔۔۔نواز کی ملتان والی پھوپھو بھی فوت ہو گئی۔۔۔ لیکن نواز اپنے پراجیکٹ میں اس قدر بزی تھا کہ کوشش کے باوجود بھی ہم ملتا ن نہ جا سکے ۔۔۔ اور نواز اور میں نے ٹیلی فون پر ہی پھوپھا جان تعزیت اور آنےسے معزرت کر لی ۔۔۔اس پر انہوں نے کہا ہماری معزرت کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔ آپ لوگوں نے "دسویں " پر ہر حال میں آنا ہے۔۔۔ میں نے اور نواز نے ان کے ساتھ وعدہ کر لیا ۔۔ کہ پھوپھو کے دسویں پر ہم لوگ ضرور حاضری دیں گے۔۔ اس کے بعد نواز نے دن رات محنت کر کے ۔۔۔ جیسے تیسے اپنے پراجیکٹ کو ختم کیا ۔۔مجھے چونکہ ٹرین میں سفر کرنے کا بہت شوق تھا ۔۔ اس لیئے میری فرمائیش پر نواز کے دفتر والوں نے بزریعہ ٹرین پنڈی سے ملتان کے لیئے ائیر کنڈیشن کوپے کی دو سیٹیں بُک کر لیں جس میں برتھ بھی ہوتا ہے ۔ یہاں میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ٹرینوں کی حالت بہت بری ہوتی تھی ۔ جگہ جگہ ٹرین خراب ہو جاتی تھی ۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی بہت سخت خطرہ تھا ۔۔۔۔اسی لیئے زیادہ تر لوگ ٹرین کا سفر ۔ کرنے سے گھبراتے تھے۔۔۔ خود مجھے بھی نواز نے سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ۔۔ ہم لوگ ڈائیو پر ملتان چلے جاتے ہیں لیکن پھر میرے ٹرین میں سفر کرنے کے شوق کی وجہ سے ۔۔۔اس نے ٹرین میں جانے کے لیئے بکنگ کرا لی۔۔۔۔اور آخر کار وہ دن بھی آ گیا۔۔۔ کہ جس دن ہم لوگوں نے پنڈی سے ملتان کی طرف جانا تھا۔۔۔۔۔۔


راولپنڈی سے کراچی جانےٹرین پر ملتان کے لیئے ہم لوگ پلیٹ فارم نمبر 3 سورار ہو گئے ہمیں ٹرین پر چڑھانے کے لیئے دونوں میاں بیوی ( احسان بھائی اور حنا باجی ) آئے تھے ۔۔۔۔ ۔۔۔جو ہمیں اپنے کوپے تک چھوڑ کر گئے ۔یہ چار والا کوپا تھا جو اس وقت بلکل خالی تھا۔چونکہ یہ ٹرین پنڈی سے ہی تیار ہو کر کراچی جاتی تھی ۔۔۔۔اس لیئے راولپنڈی سے چلنے کی وجہ سے ٹرین کی زیادہ تر سیٹیں خالی تھیں ۔۔۔۔ ہمارا کوپا بھی خالی تھی یہ دیکھ کر ہم نے اپنا سامان وغیرہ ایڈجسٹ کیا ۔۔اور کچھ ہی دیر بعد ٹرین چل پڑی۔۔۔۔۔ ۔ اور میں اور نواز ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ لگانے لگے ۔۔۔اور بالخصوص میں باہر کا نظارہ دیکھتے ہوئے ٹرین کے سفر کو انجوائے کرنی لگی۔۔یہ دیکھ کر نواز اوپر برتھ پر چڑھ گیا اور کہنے لگا کہ جان جی ضرورت ہوئی تو مجھے اُٹھا دینا ورنہ میرا پروگرام تو یہ کہ ملتان تک سو کر میں اپنی نیند پوری کر وں ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو ایسے کرنے سے روک دیا اور بولی ۔۔ کہ میں اکیلی بور ہو جاؤں گی اس لیئے میرے ساتھ بیٹھو ۔۔۔۔ اس کے بعد تم سو جانا ۔۔۔۔ کہ ابھی تو بڑا ٹائم پڑا ہے۔۔اور میری بات سن کر وہ بے چارہ نیچے اتر آیا اور بڑی بے دلی سے میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ ۔۔۔۔جہلم تک ہمارا کوپا خالی رہا ۔۔۔ جہلم پر ٹرین کے رُکتے ہی کچھ مزید لوگ بھی ٹرین میں سوار ہو گئے ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ ہمارے کوپے پر دستک ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ہاتھ میں بکنگ چٹ پکڑے ہوئے ایک لمبا سا ماڈرن لڑکا اور اس کے ساتھ ملتی جلتی شکل کی ایک ماڈرن سی لڑکی ہمارے کوپے میں داخل ہو گئے لڑکے نے بلیو رنگ کی جین پر سفید رنگ کی چیک والی شڑٹ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ جو کہ اس پر کافی چچ رہی تھی ۔جبکہ لڑکی نے برانڈڈ شلوار قمیض پہن رکھی تھی ۔ لڑکا اور لڑکی بہت خوب صورت۔۔ اور شکل سے وہ دونوں کسی کھاتے پیتے گھرانے کے فرد لگ رہے ۔وہ دونوں ہم سے ہیلو ہائے کرتے ہوئے سا منے والی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔کچھ دیر بعد تعارف پر پتہ چلا کہ وہ واقعی وہ دونوں بہن بھائی تھے۔۔۔ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے لڑکی نے اپنا نام رُوشا اور لڑکے کا نام وقار عرف وکی بتلایا ۔ میرے خیال میں لڑکی کی عمر 28،29 سال ہو گی جبکہ لڑکا 25،26 سال کا لگتا تھا دونوں ہی غیر شادی شدہ اور بہت خوبصورت تھے ۔۔۔۔اپنی حرکات و سکنات کی وجہ سے وہ دونوں بڑے ہی فرینڈلی اور کھلے ڈھلے ماحول کے عادی لگتے تھے۔۔اس لیئے تھوڑی ہی دیر میں میری رُوشا کے ساتھ دوستی ہو گئی اور ہم آپس میں باتیں کرنی لگیں۔ یہ لاہور پہنچنے کے بعد کی بات ہے ۔۔ نواز نے جب مجھے رُوشا سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو وہ یہ کہتا ہوا اوپر برتھ کی طرف چلا گیا کہ وہ زرا ریسٹ کر نے لگا ہے لے۔۔مجھے معلوم تھا کہ ریسٹ تو ایک بہانہ ہے اصل میں سونا چاہتا تھا ۔۔ اس وقت چونکہ مجھے بھی ایک خاتون کی رفاقت میسر آ گئی تھی اس لئیے میں نےاسے برتھ پر جا کر سونے دیا۔۔۔۔۔ باتوں باتوں میں رُوشا نے بتایا کہ وہ کراچی کے رہنے والے ہیں ۔۔۔اور اپنے کسی عزیز کی شادی کے سلسلے میں وہ لوگ جہلم آئے ہوئے تھے میں اور رُوشا پرانے دوستوں کی کافی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرتی رہیں ۔۔۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ باتیں کرتے کرتے اچانک ہی مجھے اونگھ سی آ گئی ۔۔ اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔پھر پتہ نہیں کتنی دیر تک میں ایسے ہی سوئی رہی ۔۔۔ پھر کسی وجہ سے سے میری آنکھ کھل گئی اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے میں نے اپنی آنکھوں کو تھوڑا سا کھولا اور۔۔۔۔ اور ٹرین کے باہر کی طرف دیکھا تواس وقت ٹرین کسی مضافاتی بستی سے گزر رہی تھی ۔۔۔۔آس پاس کافی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس بستی کے چند آوارہ کتے بھونکتے ہوئے ٹرین کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھی رُوشا کی طرف نگاہ کی ۔۔۔۔۔۔۔تواسے بھی سوئے ہوئے پایا۔۔۔۔ رُوشا سے ہوتی ہوئی میری نگاہ۔۔۔ وکی کی طرف چلی گئی اور میں نے دیکھا تو اس کی بھی آنکھیں بند تھیں اور وہ بھی اونگھ رہا تھا ۔۔۔ اور پھر وکی کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک ہی میری نگاہ روشا کی طرف گئی ۔۔۔تو۔۔میں نے دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ کہ سوئی ہوئ روشا کا ہاتھ ۔۔۔۔ عین وکی کی رانوں پر پڑا تھا ۔۔ یہ دیکھ کر پہلے تو میں۔تھوڑا حیران ہوئی پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گئی کہ وہ سوئی ہوئی ہے اور سوئے ہوئے آدمی کو کیا پتہ کہ اس کا ہاتھ کہاں جا پہنچا ہے ۔۔ ۔میں ابھی یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک روشا کے ہاتھ میں تھوڑی جنبش ہوئی ۔۔اور ۔اس۔۔۔ وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ جب میں نے دیکھا کہ رُوشا کا ہاتھ سرکتا ہوا ۔۔۔ وکی کے لن کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ میں نے نظر اُٹھا کر رُوشا کی طرف دیکھا تو وہ بدستور سوئی ہوئی تھی ۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا تو وہ سرکتا ہوا ۔۔۔وکی کے لن کی طرف جا رہا تھا ۔۔ یہ سین دیکھ کر ۔۔۔۔ میرے جزبات میں بھی کچھ کچھ ہونے لگا۔اور میں بڑی دل چسپی سے یہ منظر دیکھنے لگی۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ایک نظر وکی کی طرف ڈالی تو رُوشا کی طرح اس کی بھی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔۔ خیر میں بڑی تفریع کے موڈ میں روشا کے ہاتھ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ جو اس وقت سرکتا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکی کے لن کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔اور روشا کے ہاتھ کو وکی کے لن کے قریب دیکھ کر جانے کیوں ۔۔ میرے جزبات میں بھی ہلچل سی مچنی شروع ہو گئی۔۔لیکن میں اپنے جزبات پر قابو پایا اور اپنی ساری توجہ روشا کے ہاتھ کی طرف کر دی۔۔۔ جو وکی کے لن کے قریب پہنچ چکا تھا ۔۔ ۔ادھر پتہ نہیں وکی کے لن کو اس بات کی کیسے خبر ہو گئی تھی کہ رُوشا کا سرکتا ہوا خوبصورت ہاتھ ۔۔۔ اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ وکی کے لن والی جگہ سے اس کی پینٹ ۔۔۔۔ ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔ ادھر روشا کا سرکتا ہوا ہاتھ اب ۔۔۔۔۔۔۔ وکی کے لن کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گئی کہ اب روشا کا ہاتھ ۔۔۔ وکی کے لن کے بلکل اوپر پڑا تھا۔۔۔۔۔ روشا کا ہاتھ اپنے لن پر پڑتے ہی ۔۔۔۔چند ہی سیکنڈز میں وکی کی پینٹ کا ابھار بہت ابھر گیا تھا ۔۔۔۔ اور پھر میں نے چونک کر وکی کے اس ابھار کو دیکھا۔۔۔۔۔اور دل ہی دل میں اس کےلن کے سائز ۔۔۔کا اندازہ کرنے لگی اور وکی کے لن کا اندازہ کرتے ہی میں حیرت زدہ سی ہو گئی۔۔۔۔ کیونکہ پینٹ کے ابھار کے مطابق وکی کا لن کافی بڑا نظر آ رہا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر میری چوت سلگنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ کیونکہ احسان کی چدائی کے بعد سے میں ابھی تک کسی سے نہیں چدی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر وکی کے لن پر پڑا ہوا روشا کا ہاتھ ۔۔۔ تھوڑا ہل رہا تھا ۔۔۔اوہ۔۔۔وہ ۔۔۔ پینٹ کے اوپر سے ہی وکی کا لن سہلا رہی تھی۔۔۔۔ یہ سین دیکھ کر میں نے روشا کے چہرے کی طرف دیکھا تو روشا کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر اچانک روشا نے مسکراتے ہوئے مجھے آنکھ مار دی۔۔۔۔۔ روشا کو آنکھ مارتے دیکھ کر جواباً میں بھی تھوڑا مسکرائی ۔۔۔۔۔اور۔۔پھر میں نے بھی اسے آنکھ مار دی۔۔۔۔۔میری آنکھ دیکھ کر روشا نے وکی کو کہنی ماری ۔۔۔۔اور میں نے دیکھا تو روشا کی طرح وکی بھی میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔اور جیسے ہی ہم دونوں کی نظریں ملیں ۔۔۔اس نے بھی مجھے آنکھ مار دی۔۔۔ لیکن میں نے اس کا کوئی ردِ عمل نہ دیا ۔۔۔اور ٹرین کے باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔ لیکن اندر سے میرا بھی جی چاہ رہا تھا کہ میں روشا کی طرح وکی کو بھی آنکھ مار دوں ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میں ایسا نہ کر سکی ۔۔۔۔ اور ٹرین کے باہر دیکھنے لگی ۔تھی۔۔۔۔ ٹرین کے باہر دیکھنے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔میں نے اپنی نگاہ روشا کی طرف کی تو اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا ہاتھ ابھی تک ۔۔۔۔ وکی کے لن پر تھا۔۔۔ اور وہ وکی کے لن کو ہلکےہلکے مساج کر رہی تھی ۔۔۔۔پھر میں نے وکی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی ہوئیں تھیں اور وہ میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے اس دفعہ وکی نے مجھے آنکھ نہیں ماری ۔۔۔ بلکہ اس نے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اپنی ٹانگوں کو پھیلا لیا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ میری ٹانگ سے ٹچ ہونے لگی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی دونوں ٹانگیں ۔سمیٹیں اور انہیں ۔ سیٹ کے اوپر کر لیا ۔۔۔اور چوری چوری وکی کی طرف دیکھا ۔۔۔تو وہ اپنے جوتے اتار رہا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میری نگاہ اس کے ابھری ہوئی پیٹ پر گئی تو اس پر ویسے ہی روشا کا ہاتھ دھرا تھا۔۔اور وہ دھیرے دھیرے وکی کے لن پر مساج کر رہی تھی۔۔۔۔۔وکی کے لن کا ابھار دیکھ کر ۔۔میرے اندر لن لینے کی ۔۔ تراس۔جاگ اُٹھی اور ۔۔ میں بہت بے چین سی ہو گئی ۔۔۔۔ اور اب میرے دل میں وکی کے لن کی خواہش پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اتنی دیر میں وکی نے اپنے جوتے اتارے۔۔اور ۔۔۔ تھوڑا اوپر کر کے اپنے پاؤں کو سیدھا کر لیا۔۔۔ ۔۔۔ چونکہ وکی ایک لمبا تڑنگا سا نوجوان لڑکا تھا ۔۔اس لیئے اس کے پاؤں ہوا میں اُٹھے اور سیدھے میری سیٹ کے ساتھ والی خالی جگہ پر پڑ گئے ۔۔۔۔میں وکی کی اس حرکت کا مطلب بہت اچھی طرح سمجھتی تھی۔۔۔اور اندر سے میرا دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔ وہ۔۔۔ میرے ساتھ کچھ ۔۔۔۔ کرے ۔۔اور میں اس کا بھر پور رسپانس دوں ۔۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ نامعلوم خوف کی وجہ سے میں ایسا نہ کر پا رہی تھی ۔ اور جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں ایک بہت گرم عورت ہوں۔ اور سیکس کے معاملے میں ۔۔ میرے جزبات بہت جلد بھڑک اُٹھتے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔اوپر سے میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ۔۔ایک بڑے سے لن والا لڑکا ۔۔ مجھے اپنی طرف مائل کر رہا تھا ۔۔۔اور میں اس سے اپنی جان بچا رہی تھی۔۔۔ لیکن کب تک؟ اور ویسے بھی میری چوت بے پناہ تراس ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ میں وکی کے آگے زیادہ دیر تک میں مزاحمت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔اورپھر وہی ہوا۔۔۔ وکی کی پینٹ کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے اب آہستہ آہستہ میرے اندر نامعلوم خوف کی جگہ ۔۔۔شہوت ۔۔۔نے جنم لینا شروع کر دیا ۔۔

محترم قارٸین یہ اس کاوش کی آخری قسط ہے، ہماری کوشش تھی کہ آپ سب کو پسند آئے اور امید کرتے ہے سب نے اس سے بھرپور مزے لیے ہوں گے تو سب سے درخواست ہے کہ اپنی لائکس اور کمنٹس کر کے اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے تاکہ ہماری حوصلہ افزائی ہو سکے شکریہ۔۔۔ اب چلتے ہیں کہانی کی طرف ۔۔۔۔


ادھر میرے ساتھ والی خالی جگہ پر پڑا ۔۔۔ ۔ وکی کا ایک پاؤں ۔۔۔اب کھسک کر تھوڑا اور آگے بڑھ آیا تھا۔۔۔اور میں نے کن اکھیوں سے اس کے پاؤں کی طرف دیکھا ۔تو سینٹی میٹروں کے حساب سے اسے اپنی طرف بڑھتا ہوا پایا ۔۔۔یہ دیکھ کر میں دوبارہ سامنے دیکھنے لگی ۔۔۔اور ایک بار پھر ۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی میری نظر وکی کی پینٹ میں ۔۔۔۔ بہت ابھرے ہوئے لن کی طرف چلی گئی اور اس کے لن کو دیکھ کر ۔۔۔ میرے اندر بھڑکنے والی میٹھی ۔۔میٹھی ۔۔ آگ مزید تیزی سے بھڑکنے لگی ۔۔ پھر میں نے ایک نظر اوپر برتھ کی طرف ڈالی ۔ جہاں پر نواز سویا ہوا تھا۔۔۔ تو اسے سوئے ہوئے ہی پایا ۔۔۔۔ ۔۔ جبکہ دوسری طرف چیونٹی کی رفتار سے سرکتا ہوا۔۔۔۔۔۔ وکی کا پاؤں اب بلکل میرے قریب آ پہنچا تھا ۔۔ ۔۔۔ پھر اس کا پاؤں ۔۔تھوڑا اور سرکا۔۔اور اب اس کے پاؤں اور میری گانڈ میں چند ہی سینٹی میٹر کا فاصلہ رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ اسے روکوں ۔۔ یا آنے دوں ۔۔۔۔ ؟ اور اس سے پہلے کہ میں کوئی ہاں یا ۔ ناں میں فیصلہ کرتی ۔۔۔ میں بلا ارادہ اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر کو اُٹھی اور۔۔۔ پھر پہلو بدلنے کے بہانے میں نے ۔۔۔ وکی کے پاؤں کے ساتھ اپنی گانڈ کو جوڑ دیا۔۔۔۔ مجھ پر شہوت غالب آ چکی تھی ۔۔۔ اس لیئے وکی کے آگے میری مزاحمت دم توڑ چکی تھی اور اب میں ۔۔ بھی وکی کی سیکس بھری شرارت کو انجوائے کرنا چاہتی تھی ۔ چنانچہ جیسے ہی اس کے پاؤں نے میری نرم گانڈ کو محسوس کیا فوراً ہی ا س نے اپنے انگھوٹھے سے میری گانڈ پر مساج کرنا شرو ع کردیا۔ میں نے کچھ دیر تو اسے مساج کرنے دیا ۔۔۔ پھر ایک نظر اوپر برتھ کی طرف دیکھا تو نیچے کے حالات سے بے خبر نواز ۔۔۔۔


 ہلکے ہلکے خراٹوں سے سو رہا تھا۔۔ ادھر سے مطمئن ہو کر میں دوبارہ پہلو بدلنے کے بہانے اوپر اُٹھی اور اس کے ساتھ ہی اپنی گانڈ کے ساتھ لگے وکی کے پاؤں کو اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں لے آئی۔۔۔مجھے ایسا کرتے دیکھ کر وکی نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔۔۔اور پھر اس کا انگھوٹھا سرکتا ہوا ۔۔۔ عین میری پھدی پر آ کر رک گیا ۔۔۔اور پھر اس نے میری پھدی پر اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے مساج کرنا شروع کر دیا۔۔۔اور میں اس کے انگھوٹھے کے لمس سے مست ہونے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے انگھوٹھے کے دل کش مساج سے کچھ ہی دیر بعد میری چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔ اور پہلے تو چوت کا یہ گیلا پن میری پھدی کے اندر تک ہی محدود رہا ۔۔۔پھر وکی کے مسلسل مساج سے ۔۔۔ میری چوت کا یہ گیلا پن ۔۔۔ پانی میں تبدیل ہو گیا ۔۔۔۔ اور اس پانی ۔۔ سے میری شلوار گیلی ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔ جب میری چوت سکے ساتھ چپکی ہوئی میری شلوار اچھی طرح گیلی ہو گئی تو ۔۔۔۔ اس کے بعد یہ پانی شلوار سے رسنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔اور رستے رستے ۔میری چوت کا۔۔ یہ پانی۔۔۔۔ اس کے انگھوٹھے کے موزے پر جا لگا ۔۔اور اسے بھی چکنا کر دیا۔۔۔۔ اور جیسے ہی اس کے موزے کا نگھوٹھے والا حصہ میری چوت کے پانی سے گیلا ہوا اس نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا ۔۔۔اور اس کےساتھ ہی ۔میں بڑی بے تابی سے تھوڑا آگے کھسکی ۔۔ اور اپنی چوت کو اس کے انگھوٹھے پر دبا دیا۔۔۔۔ جس سے اس کے پاؤں کے انگھوٹھے کا ۔تھوڑا سا حصہ میری چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔۔۔اس پر وکی نے بیٹھے بیٹھے اپنے بدن کو تھوڑا آگے کیا ۔۔۔اور میری چوت میں پڑے اپنے انگھوٹھے کے اگلے حصے کو ہلانے لگا۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنے جسم کو تھوڑا آگے کیا ۔۔۔اور اپنی شلوار کو تھوڑا ڈھیلا کر کے اس کے انگھوٹھے کو باآسانی اپنی چوت میں آنے جانے کی سہولت دی۔۔۔ اور پھر ویسے ہی نظر اُٹھا کر دیکھا تو رُوشا کی آنکھ بھی کھلی ہوئی تھی اور وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔مجھے اپنی چوت میں وکی کا انگھوٹھا لیتے دیکھ کر اس نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور ایک فلانگ کس اچھال دی۔۔۔ میں اپنی گرم چوت میں وکی کا انگھوٹھا لیئے انجوائے کر رہی تھی کہ اچانک اوپر سے نواز نے کروٹ بدلی۔۔۔اور میرے ساتھ ساتھ وکی بھی ڈر گیا اور اس نے فوراً اپنے انگھوٹھے کو میری چوت سے ہٹا دیا۔۔۔ اور اپنے آپ کو ٹھیک کر کے بیٹھ گیا۔۔۔ پھر۔۔ تھوڑی دیر تک ایسے ہی بیٹھا ۔۔۔ نواز کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔ اور پھر جب اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ۔۔۔۔ نواز ۔۔ دوبارہ سے سو گیا ہے ۔۔۔تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھا اور مجھے باہر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے چلا گیا ۔۔۔ میں نے اُٹھنے سے پہلے ایک نظر نواز کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ تو اسے پہلی والی حالت میں پایا ۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے اپنی شلوار کو ٹھیک کیا اور وکی کی طرف جانے کے لیئے اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ عین اسی وقت رُوشا نے بھی اپنی جگہ سے اُٹھنے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ساتھ اُٹھنے کی وجہ سے ہم دونوں ۔۔۔ ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑی ہو گئیں ۔۔ ۔۔۔ درمیانی فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ہماری چھاتیاں ایک دوسرے کے ساتھ مس ہو رہی تھیں ۔۔۔ہم دونوں نے ایک نظر اپنی چھاتیوں پر ڈالی اور پھر ا یک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔ دونوں کی آنکھوں میں ۔۔شہوت کے لال ڈورے ۔ تیرتے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ اس کے بعد میں نے اور رُوشا نے ایک ساتھ اوپر برتھ کی طرف دیکھا اور پھر بغیر کسی جھجک کے رُوشا نے اپنی زبان باہر نکلالی اور میری طرف دیکھ کر اپنے منہ کو آگے کر دیا ۔۔۔۔ اسے اپنی زبان نکالتے ہوئے دیکھ کر میں نے بھی اپنی زبان کو منہ سے باہر نکالا اور ۔۔۔اپنی زبان کو روشا کی زبان کے ساتھ ٹچ کر دی۔ایک دوسرے کے ساتھ زبانیں ٹچ کرنے سے ہم دونوں کے اندر سے ایک بجلی سی کھڑکی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی رُوشا میرے ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔ میں جو پہلے ہی بہت گرم ہو رہی تھی ۔۔روشا کی زبان چوسنے سے اور بھی گرم ہو گئی۔۔۔اور گرمی کے مارے میری چوت میں گویا تندور ۔بن گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ روشا کی زبان سے زبان ملا نے کے بعد ۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے بڑا ہی ٹائیٹ ہگ دیا اور پھر اسے ۔۔۔۔ ٹاٹا کرتے ہوئے باہر نکل گئی – باہر آ کر دیکھا تو وکی کوپے کے آخر میں ٹرین کے دروازے کو پکڑ کر کھڑا تھا ۔۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھ کر اس نے ہاتھ ہلایا اور اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔میں نے ادھر ادھر دیکھا تو۔۔۔۔ کوپے میں کافی سناٹا تھا ۔۔ ویسے بھی یہ رات کا وقت تھا اور زیادہ تر لوگ اپنے اپنے کوپے کو لاک کئے سو رہے تھے۔ پھر بھی وکی کی طرف جاتے ہوئے میرا دل بڑی زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔ ۔۔چنانچہ میں نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا اور دبے پاؤں چلتی ہوئی ٹرین کے دروازے کے پاس چلی گئی ۔ ۔۔۔میں بھی چلتی ہوئی اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی ۔ ٹرین کے دروازے پر کھڑا وکی بظاہر باہر کا نظارہ لے رہا تھا ۔۔ اور۔۔اس کے ساتھ کھڑی ہو کر میں بھی ۔ بظاہر ۔۔ باہر کا نظارہ کرنے لگی ۔۔۔ جیسے ہی میں اس کے پاس کھڑی ہوئی ۔۔۔۔ وکی نے آہستہ سے مجھے ہائے بولا ۔۔۔ اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔۔۔ میں نے بھی ہائے کہا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے ایک نظر کوپے کی گیلری کی طرف دیکھا اور ۔۔۔اپنی باہنوں کو میرے گرد لپیٹ دیا۔۔۔اور میرے ماتھے پر بوسہ دیکر کر بولا ۔۔۔ میم۔۔۔ آپ بہت سُندر ہو ۔۔۔۔ 


تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ جی شکریہ۔۔اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ٹرین کے ددروازے پر ۔۔یوں ۔وکی کے ساتھ کھڑے ہوئے میں تھوڑی مضظرب بھی تھی۔۔۔ لیکن میرے اندر کی بے چینی ۔۔۔۔ مجھے چین نہیں لینے دے رہی تھی۔۔۔۔اس لیئے میں نے اپنے جسم کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔۔ اس نے جلدی سے ایک نظر کوپے کی گیلری کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ہونٹوں کو آگے لے آیا ۔۔۔اور میرے ہونٹؤں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔۔ چند سکینڈ تک انہیں اپنے منہ میں لیکر چوستا رہا ۔۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ میرے منہ سے الگ کر دیا۔۔۔۔ اور سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ آپ بہت گرم ہو میم ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہاتھ سرکتا ہوا میری چوت کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔اور اس نے میری چوت کو اپنی مٹھی میں لیا۔۔۔اور اسے دبا کر بولا۔۔۔۔ اُف۔۔۔ میم ۔۔۔۔آپ کے نیچے تو آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔اب میں نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔اور اس کی پینٹ پر لے گئی ۔۔۔اور پھر اس کی زپ کو کھول دیا ۔۔۔اور پھر میں نے ایک نظر کوپے کی گیلری پر ڈالی ۔۔۔ اور اسے سنسان پا کر ۔۔۔۔۔ اور اس کے لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔ اور پیاسی پیاسی نظروں سے اس کے لن کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔وکی کا لن موٹا تو اتنا نہیں تھا ۔۔۔ لیکن لمبا بہت تھا۔۔۔ اب میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اس کے لن کو پکڑ کر سہلانے لگی۔۔۔اس کا لن پکڑتے ہی میری پھدی میں سنساہٹ سی ہونے لگی۔۔۔اور وہ وکی کے لمبے لن کو اپنے اندر لینے کے لیئے۔۔ کھل بند ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھ پر شہوت کا بڑا شدید حملہ ہوا ۔۔۔ اور میں نے بے خود سی ہو گئی اور اس کا لن سہلاتے سہلاتے میں نے اپنا منہ اس کے منہ کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔۔۔اور زبان نکال کر اس کے گال چاٹنے لگی۔۔۔۔اور پھر اس کے گال چاٹتے چاٹتے میں اپنی زبان کو اس کے کان کے قریب لے گئی۔۔۔۔اور اس کے کان کی لو کو چاٹ کر اس کے کان میں سر گوشی کی اور ۔۔۔ اسے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمھارا لن چایئے وکی ۔۔۔میری سرگوشی سن کر وکی کے جزبات بھی مزید بھڑک اُٹھے اور اس نے بھی مجھے چما دیا اور وہ بھی سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔۔ مجھے بھی تمہاری چوت چاہیئے میم ۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر پھر سے میری چوت کُھل بند ہونے لگی ۔۔۔اور وکی کا لن سہلاتے سہلاتے ۔۔۔۔۔۔ میرا جی مچلنے لگا ۔۔۔اور میں نے ایک بار پھر چور نظروں سے کوپے کی گیلری میں دیکھا ۔۔سب سناٹا تھا ۔۔ یہ دیکھ کر میں تھوڑا ۔۔۔ نیچے جھکی ۔۔۔تو مجھے وکی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ میرا لن چوسو میم۔۔۔ اس کی بات سن کر میں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھی اور ۔۔۔اپنی زبان نکال کر اس کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔اور پھر جلدی سے وکی کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔ اور تیزی سے چوسنے لگی۔۔۔ اس کے ساتھ کوپے کے دوسری طرف اچانک ہی ۔۔۔۔کچھ آواز سنائی دی ۔۔ جسے سن کر میں خوف ذدہ ہو گئی ۔۔۔۔اور وکی کا لن چھور کر جلدی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ میری دیکھا دیکھی وکی نے بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے لن کو پینٹ کے اندر کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میں بنا پیچھے دیکھے اپنے کوپے میں آ گئی دیکھا تو۔۔۔۔ رُوشا جاگ رہی تھی جیسے ہی میں اندر داخل ہوئی اس نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔۔۔اور میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور اس سے برتھ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے پوچھا کہ پیچھے سے میرا خاوند تو نہیں اُٹھا ؟؟ تو وہ میرے کان میں بولی۔۔۔ فکر نہ کرو ۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔۔۔ تمھارا خاوند اُٹھ بھی جاتا تو میں نے اسے ایسے الجھانا تھا کہ سالا یاد کرتا ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر ہم دونوں آپس میں دھیمی دھیمی آواز میں باتیں کرنے لگیں – کافی دیر کے بعد وکی کوپے میں داخل ہوا اور ہمارے پاس آ کر رُوشا سے سرگوشی میں بولا۔۔۔ ۔۔۔ میں ان کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں تم نے پیچھے سے ان کے خاوند کو کور کرنا ہے جسے سن کر روشا نے ہاں میں اپنا سر ہلا دیا ۔۔۔اور کہنے لگی ویسے تم انہیں لے کہاں جا رہے ہو؟؟ کہ اگر اِن کیس ایمر جنسی ہو جائے تو میں تم لوگوں کو کہاں مطلع کروں ؟ 


 

۔۔۔۔ اس پر وکی نے روشا سے کہا کہ ہم اسی سائیڈ کے آخری کوپا میں ہوں گے ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا وکی وہ جگہ محفوظ تو ہے نا ؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ فکر نہیں کرو میم۔میں نے سب پتہ کر لیا ہے ۔۔ وہ کوپا ملتا ن سے کراچی کے لیئے بُک ہے ۔۔۔ اور۔ ملتان سے پہلے کے جملہ حقوق ۔ میں نےٹی ٹی صاحب سے ۔۔ اپنے نام پر بُک کروا لیئے ہیں ۔۔۔وکی کی بات سن کر رُوشا حیرانی سے بولی ۔۔۔ وہ کیسے وکی ۔۔۔؟ تو اس کی طرف دیکھتے ہوئے وکی نے ۔۔۔۔ بڑے معنی خیز لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔ پیسہ میڈم ۔۔ پیسہ ۔۔۔ وکی کے منہ سے پیسہ کی بات سن کر روشا نے سر ہلا دیا۔۔ اس کے ساتھ ہی وکی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ چلیں میم۔۔؟؟؟؟؟؟؟ اس کی بات سنتے ہی میرا دل بڑی زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔ اور ایک عجیب سے مستی مجھ پر چھانے لگی۔۔لیکن اس پہلے میں نے نظر اُٹھا کر برتھ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ تو نواز ویسے ہی سو رہا تھا۔۔۔ مجھے اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے رُوشا کہنے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اس بندے کی تم فکر نہ کرو میم۔۔۔ میں اسے سنبھال لوں گی۔۔۔۔ اس وقت تک مجھ پر پوری طرح سے شہوت غالب آ چکی تھی ۔۔۔ اور میرے اندر ایک ہل چل سی مچی ہوئی تھی۔۔اور مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا ۔ ۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے ایک بار پھر چوری چوری نواز کی طرف دیکھا ۔۔۔اور وکی سے بولی۔۔۔۔ تم جاؤ میں آتی ہوں۔۔ میری بات سن کر و ۔۔ وکی مجھے جلدی آنے کی تاکید کر تے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔۔ وکی کے با ہر نکلتے ہی ۔۔۔ روشا نے مجھے دبوچ لیا اور میرے ساتھ کسنگ کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر تک کسنگ کرنے کے بعد اس نے میرے منہ سے اپنا منہ ہٹایا اور مجھے وکی کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ رُوشا کی بات سن کر میں نے ایک نظر برتھ پر ڈالی اور ۔۔۔۔۔پھر مطمئن ہو کر باہر نکل گئی۔۔۔۔


کوپے کے دروازے پر پہنچ کر میں نے ہلکی سی دستک دی تو وکی نے جلدی سے دروازہ کھول دیا ۔۔۔ جیسے ہی میں دروازے سے اندر داخل ہوئی ۔۔۔ وکی نے دروازہ لاک کیا اور۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چمٹتے ہوئے بولا۔۔۔اتنی دیر کیوں لگا دی میری جان۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کے ہونٹ میرے ہونٹوں کی طرف بڑھے اور ۔۔ اس نے میرے ہونٹ اپنے منہ میں لیئے اور انہیں چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس کے بعد کافی دیر تک ہم دونوں نے خوب کسنگ کی ۔۔۔پھر وکی نے مجھے کوپے کی سیٹ پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔ اور اس کے کہنے پر میں چُپ چاپ سیٹ پر لیٹ گئی ۔۔ مجھے سیٹ پر لٹا کر وکی ۔۔۔۔ ٹرین کے فرش پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اور میرے چوتڑ پکڑ کو مجھے تھوڑا اوپر اُٹھنے کو کہا۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی ہپس اوپر کی ۔۔۔۔۔ 


وکی نے میری شلوار اتار دی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ بڑے غور سے میری ننگی رانوں کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے باری باری میری دونوں رانوں کو چوما ۔۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اپنےمنہ کو میری رانوں کے بیچ میں لے آیا۔۔اور زبان نکال کر میری نرم رانوں کو چاٹنے لگا۔۔۔۔ اس کی زبان کا لمس پاتے ہی میں نے ہلکا ہلکا کراہنا شروع کر دیا۔۔۔ پھر رانوں سے ہوتی ہوئی اس کی زبان میری چوت کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔اور۔۔۔ کچھ ہی سیکنڈز کے بعد اس کی زبان میری گرم پھدی سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔۔ اور پھر اس نے میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔اور سب سے پہلے اس نے میری چوت کے گیلے پن کو چاٹ کر صاف کیا ۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے میری پھدی کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر کو انہیں چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ وکی کے اس کام سے مجھے کتنا مزہ مل رہا تھا۔۔۔ اور اس کی زبان کے نیچے کس طرح سے میں تڑپ رہی تھی۔۔۔اور اس کےساتھ ہی میری پھدی نے دوبارہ سے رسنا شروع کر دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر اس نے میری چوت کے ہونٹوں کو اپنے منہ سے نکالا اور دوبارہ سے میری پھدی سے رسنے والے جوس کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔مجھے اس کام سے بہت مزہ مل رہا تھا لیکن عین اس وقت میری پھدی نے لن کے لیئے تڑپنا شروع کر دیا۔۔۔۔ تب میں سیٹ سےا وپر اُٹھی اور اس کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ اب بس کر دو ۔۔۔۔ اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور پھر سے اپنی زبان کو میری چوت کے اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ اوپر اُٗٹھا اور مجھے اپنی قمیض اوپر کر کے چھاتیاں ننگی کرنے کو کہا۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنی برا سمیت اپنی قمیض اوپر کر لی ۔۔۔۔ ٹرین کے فرش پر بیٹھا ہوا وکی ۔۔۔ کھسک کر میری چھاتیوں کے قریب آ گیا ۔۔۔اور پھر اس نے میری چھاتیوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔اور کہنے لگا۔۔ آپ کے بریسٹ تو بہت غضب ہیں میم اس کے ساتھ ہی اس کی نگاہ میرے اکڑے ہوئی نپلز پر پڑی ۔۔۔تو انہیں دیکھ کر اس کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی ۔۔۔اور اس نے مر ے نپلز کو اپنی انگلیوں میں لیا اور بولا۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔میم۔۔۔ کتنی خوب صورتی سے یہ اکڑے ہوئے ہیں۔۔۔ اور پھر انہیں اپنی انگلیوں میں لیکر انہیں مسلنے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ پھر وہ تھوڑا نیچے جھکا اور ۔۔۔میرے اکڑے ہوئے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر کر چھوٹے بچوں کی طرح انہیں چوسنے لگا۔۔۔۔ جیسے جیسے وہ میری چھاتیوں کو چوستا جاتا ویسے ویسے میرے نیچے سے پانی کا اخراج تیز سے تیز تر ہوتا جا تا تھا۔۔۔ چھاتیاں چوسنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو میری چوت کی طرف لے گیا اور میرے دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔۔۔۔ اس کی اس حرکت سے میں تو مر ہی گئی۔۔۔اور بے خود ہو کر اونچی آواز میں سسکیاں لینے لگی۔۔۔ آہ۔۔۔ ہ ہ ہ۔۔ بس کر دو پلیززززززززززززز۔۔۔۔۔۔۔اور پھر جزبات کی شدت سے میرے منہ سے نکل گیا۔۔۔۔۔ مجھے چودو ۔۔۔ نا پلیززززززززززززززززززززززز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری سیکسی آواز سن کر وہ بھی جوش میں آ گیا ۔۔۔اور ۔۔۔ پھر میری چوت کو چوم کر شدید جزباتی انداز میں بولا۔۔ اتنے دن کے بعد کو ئی رس بھری عورت ملی ہے ۔۔۔ مزہ لینے دو نا میم۔ ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔ اندر ڈالو گے تو مزہ نہیں آئے گا کیا۔۔؟ تو وہ بولا۔۔۔۔۔۔ ہاں مزہ آئے گا ۔۔ لیکن پہلے میں تمھارے خوب صورت جسم سے مزہ اُٹھانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔۔ یہ مزہ بعد میں بھی لیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ اس وقت تو پلیززززززز ۔۔۔۔۔ مجھے چودووو۔۔۔۔میری بات سن کر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔ میری طرح اس کی آنکھیں بھی جزبات کی شدت اور شہوت کی تیش کی وجہ سے جل رہیں تھیں ۔۔۔ پھر اس نے مجھے کلائی سے پکڑا ۔۔۔۔ اور اُٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور خود اپنی پینٹ اتارنے لگا۔۔۔۔ جب تک میں ٹرین کی سیٹ سے اوپر اُُٹھی وہ اپنی پینٹ اور انڈر وئیر دونوں اتار چکا تھا۔۔۔اور اس کی دونون ٹانگوں کےد رمیان اس کا لمبا سا لن اوپر کی طرف منہ کیئے جھوم رہا تھا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے فوراً ہی اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔ زبان نکال کر اس کے ٹوپے کو چاٹنے لگی۔۔۔۔ تو وہ مزہ لیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ منہ میں ڈالو میم ۔۔۔۔منہ میں ڈالو۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ٹوپا۔۔۔ چٹوانے سے مزہ نہیں ملتا ؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ ہاں ملتا ہے۔۔۔ پر اصل مزہ تب ہی آتا ہے جب آپ جیسی کوئی میم میرے لن کو اپنے خوب صورت منہ میں ڈالے۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی میں اس کے لن کو اپنے منہ میں ڈالا ۔۔۔اور ۔۔اسے دھیرے دھیرے چوسنے لگا۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی اس کے لن کو اپنے منہ میں ڈالا۔۔۔۔ اس نے ایک گرم سی سسکی لی۔۔۔۔سس۔سس۔ اف ۔۔۔ میم م م ۔۔۔ اور چوسو نا۔۔۔۔اور میں نے بڑے مزے سے اس کے لن کو چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔


پھر کچھ دیر بعد میری طرح وہ بھی کہنے لگا۔۔۔۔۔ بس پلززززززز۔۔۔ تو میں نے لن کو منہ میں لیئے ہوئے اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔لن منہ سے نکالیں میم اور مجھے اپنی چوت مارنے دیں ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کے لن کے دو تین چوپے ۔اور لگائے ۔۔۔اور اس کے لن کو منہ سے نکال دیا۔۔۔ اور اس نے مجھے گھوڑی بننے کا اشارہ۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔اور میں سیٹ پر ہی گھوڑی بن گئی۔۔ اب وہ میرے پیچھے آیا اور۔۔اپنی لن کی نوک کو میری چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔اس کے لن کی نوک کر میری چوت پر رکھتے ہی میرے منہ سے ایک سسکی نکل گئی۔۔۔۔ جسے سن کر وہ کہنے لگا کیا ہوا ۔۔ میم؟؟؟ ۔۔۔ابھی تو میں نے اپنے لن کو اندر ڈالا ہی نہیں تو میں جسے اس وقت لن کو اپنے اندر لینے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔۔۔۔ پیچھے مُڑ کر اس کی طرف دیکھااور چلائی۔۔۔۔ باتیں نہ چود۔۔ مجھے چود۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک زبردست گھسا مارا ۔۔۔جس سے اس کے پورے کا پورا لن میری چوت میں اتر گیا۔۔۔ اور اس کےساتھ ہی میرے منہ سے بلند آواز میں ۔۔۔۔ چیخ نکلی ۔۔۔اوئی ماں ۔۔۔۔۔ مر گئی میں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے لن کو میری چوت میں ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ جب بھی زور کا گھسہ مارتا ۔۔۔ تو اس کا لن میری چوت کے پتہ نہیں کس کونے میں لگتا کہ جسے کھا کر میری چوت پانی پانی ہو جاتی اور اس کے ساتھ ساتھ ۔آپ ہی آپ میرے منہ سے۔۔۔ نہایت سیکسی ۔۔۔زبردست اور دل کش قسم کی سسکیان برآمد ہونا شروع ہو جاتیں۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنے گھسوں کی رفتار تیز کر دی ۔۔۔۔ اور اس کے ہر گھسے سے میں خود کو ہواؤں میں اُڑتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بار بار میرے منہ سے ہیجان سے بھر پور اور شہوت انگیز طریقے سے اس کا نام نکلنے لگا۔۔۔۔وکی ۔۔۔۔ وکی۔۔۔۔ میری جان وکی۔۔۔۔۔ چود دے مجھے۔۔۔چود ۔۔۔ناں ۔۔۔ ہائے وکی ۔۔۔۔۔ اس کا نام لیتے لیتے اچانک مجھے۔۔۔اپنے اندر ۔چوت میں منی کا طوفان اُٹھتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ اور اور میری چوت کے سارے ٹشو ز۔۔ ۔ وکی کے لن کے گرد اکھٹے ہو گئے ۔۔اور انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ وکی کے لن کو اپنی جکڑ میں لے لیا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی ۔۔۔گانڈ کو وکی کے فرنٹ کے ساتھ بڑی مضبوطی سے جوڑ دیا۔۔۔اور چلانے لگی۔۔۔۔وکی۔۔۔۔ وکی۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔ میں۔۔۔۔۔بس چھوٹنے والی ہوں ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ یہ سن کر وکی کو بھی جوش آ گیا اور اس نے میری چوت میں اور تیزی سے گھسے مارنے شروع کر دیئے ۔۔۔ اور پھر میری طرح اس کی بھی بس ہو گئی۔۔اور وہ بھی جوش آ کر چلانے لگا۔۔ مم مم میم۔۔۔۔ میں بھی ۔۔ میں بھی۔۔۔دوسری طرف ۔ اور مجھے ایسا لگا کہ میری چوت کا سارا پانی باہر کی طرف بھاگ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مستی میں آ کر میں نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔اپنی چوت کو وکی کے لن سے رگڑنے لگی۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں اکھٹے ہی چھوٹ گئے۔۔۔۔۔ اس چودائی کے بعد مجھے اتنا مزہ آیا ۔۔۔۔۔ کہ گاہے بگاہے میں نے بڑی رازداری سے مختلف لوگوں سے اپنی چوت کو مروانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنا میں اپنی چوت کو مرواتی ۔اتنا ہی وہ لن کے لیئے تڑپتی تھی ۔۔۔پھدی مروانے سے میری چوت وقتی طور پر ٹھنڈی تو ہو جاتی تھی ۔۔۔لیکن ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ۔۔ میری چوت کی تراس ۔۔پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی تھی۔۔۔۔ اس تراس کو بجھانے کے لیئے میں مزید چوت مرواتی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اس سے میری تراس۔۔۔۔ مزید ۔۔ بڑھ جاتی۔۔۔گویا ۔۔ کہ میرے ساتھ مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی والا معاملہ ہو رہا ہے۔۔۔۔ میری تراس بجھنے میں نہیں ا ٓرہی۔۔۔ جتنا بھی مروا لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد دوبارہ۔۔ میری پھدی کو پھر سے لن کی بھوک لگ جاتی ہے ۔۔۔ دوستو میں کیا کروں۔۔۔جوں جوں دوا کرتی ہوں ۔۔ مرض بڑھتا جا تاہے ۔۔۔۔۔کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments