Ad Code

بیوی سے زیادہ بہن وفادار

 بیوی سے زیادہ بہن وفادار

قسط نمبر 01

بیوی سے زیادہ بہن وفادار
قسط نمبر 01

ایک نٸ کہانی کے ساتھ حاضر ہوں یہ کافی پرانی ہے اور شاید کچھ لوگ پڑھ بھی چکے ھوں کافی لوگ گلہ اور شکوہ کر رہے ہیں کہ تصاویری کہانی میں مزا نہیں آتا اس لیے سب سے گزارش ھے کہ ڈاکٹر ہما والی کہانی ایسے پڑ ھ لیں اس کے بعد پوری کوشش ہوگی کہ کہانی کو تحریری انداز میں پیش کیا جاے لیکن آپ سب کو کھلے دل سے رسپانسدینا ہوگا لاہکس اور کمنٹ دل کھول کر کم سے کم جتنے فالورز ہیں اس کا چوتھا حصہ تو ہونا چاہیے امید ہے کہ آپ لوگ بات کو سمجھ گۓ ہونگے 

 یہ کہانی میں نے آج سے 8 سال پہلے 2008میں ایک رسالہ گلیمر کہانی کے نام سے آتا تھا. اس میں پڑھی تھی بہت سے لوگوں کو شاید اِس کا پتہ بھی ہو گا . ں لیکن کہانی کو شروع کرنے سے پہلے میں بتا دوں یہ کہانی جنوبی پنجاب کے کسی گاؤں کی سچی کہانی ہے کہانی کا نام ہے بہن بِیوِی سے زیادہ وفا دار تھی. اِس بات کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں کے کوئی بھی اِس کہانی یا کہانی کے کرداروں کو اپنے حالات و واقعات سے نتھی یامما سلت نہ کرے

میرا نام وسیم ہے میرا تعلق ملتان کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے میرے گھر کےکل 5 افراد ہیں .میں میری امی میرے ابّا جی میری دو بہن ہیں. سب سے پہلے میری بڑی بہن ہے جس کا نام فضیلہ ہے وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کی ماں ہے . پِھر دوسرے نمبر میرا ہے میری بھی شادی ہو چکی ہے اور آخر میں میری چھوٹی بہن نبیلہ ہے جو کے ابھی غیر شادی شدہ ہے. اب میں اصل کہانی کی طرف آتا ہوں یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں میٹرک کر کے فارغ ہوا تھا اور آگے پڑھنے کے لیے ملتان شہر کے ایک کالج میں جاتا تھا . میرے ابّا جی ایک زمیندار تھے ہمارے پاس اپنی10 ایکڑ

زمین تھی .ابّا جی کے ایک چھوٹا بھائی تھا آدھی زمین اس کی تھی آدھی میرے ابّا جی کی تھی میرے ابّا جی اور چا چا اپنے اپنے حصے کی زمین پے کاشتکاری کیا کرتے تھے جس سے ہمارے گھر کا نظام چلتا تھا. جب میرا کالج کا آخری سال چل رہا تھا تو میرے چھوٹا چا چا اس نے میرے ابّا جی کو کہا کے وہ زمین بیچ کر اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شہر میں جا کر سیٹ ہونا چاہتا ہے اور اپنے بیٹیوں کو شہر میں ہی اچھا پڑھانا چاہتا ہے میرے چا چےکی صرف 2 بیٹیاں ہی تھیں ، اِس لیے وہ اپنے حصے کی زمین بیچا چاہتا ہے. میرے ابّا جی نے بہت سمجھایا کے یہاں ہی رہو یہاں رہ کر اپنی بیٹیوں کو پڑھا لو لیکن اپنی زمین . نہیں بیچو لیکن میرا چا چا نہیں مانا اور آخر کار میرے ابّا جی نے اپنی بھی اور چا چے کی بھی زمین بیچ دی اور آدھی رقم چھوٹے چا چے کو دے دی اور آدھی رقم کو بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوا کر جمع کروا دی. اور پِھر ایک دن میرا چا چا اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شہر چلا گیا . اور میرے ابّا جی بھی گھر کے ہو کر رہ گئے . میری بڑی باجی کی عمر اس وقعت 27 سال ہو چکی تھی میرے ابّا جی نے زمین کے کچھ پیسوں سے باجی کی شادی کر دی میری باجی کی شادی بھی اپنے رشتہ داروں میں ہو ہوئی تھی میری باجی کا میاں میری خالہ کا ہی بیٹا تھا. میں نے جب کالج میں بارہویں جماعت پاس کر لی تو میرے گھر کے حالات اب آگے پڑھنے کی اِجازَت نہیں دیتے تھے. اور میں نے بھی اپنے گھر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ابّا جی پے بوجھ بنا گوارہ نہ کیا اور گھر کو سنبھالنے کا سوچ لیا. میں نے یہاں وہاں پے روزگار کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا . پِھر میں نے باہر کے ملک جانے کا سوچا پہلے تو میرے ابّا جی نے منع کر دیا لیکن پِھر میں نے ان کو گھر کے حالات سمجھا کر قائل کر لیا اور ابّا جی کے پاس جو باقی پیسے تھے ان پیسوں سے مجھے باہر سعودیہ بھیج دیا اور میں22 سال کی عمر میں ہی روزگار کے لیے سعودیہ چلا گیا. سعودیہ آ کر پہلے تو مجھے بہت مشکل وقعت برداشت کرنا پڑا لیکن پِھر کوئی 1 سال بعد میں یہاں سیٹ ہو گیا میں نے یہاں آ کر ڈرائیونگ سیکھ لی اور پِھر یہاں پے ہی ٹیکسی چلانے لگا . شروع شروع میں مجھے ٹیکسی کے کام کا اتنا نہیں پتہ تھا لیکن پِھر آہستہ آہستہ مجھے سب پتہ چلتا گیا اور میں ایک دن میں 14گھنٹے لگاتار ٹیکسی چلا کر پیسے کماتا تھا . آہستہ آہستہ میری محنت سے پاکستان میں میرے گھر کے حالات ٹھیک ہونے لگے اور تقریباً 5 سال میں میں 2 دفعہ ہی پاکستان گیا لیکن اِس محنت کی وجہ سے میرے گھر کے حالات کافی زیادہ ٹھیک ہو چکے تھے میں نے اپنے گھر کو کافی زیادہ اچھا اور مضبوط بنا لیا تھا ہمارا گھر 10مرلہ کا تھا پہلے وہ ایک حویلی نما گھر ہی تھا اس میں 3 کمرے اور کچن اور باتھ روم ہی تھا . پِھر میں نے سعودیہ میں رہ کر سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کیا آب وہ حویلی نما گھر مکمل گھر بن چکا تھا اس کو ٹھیک کر کروا کر 2 سٹوری والا گھر بنا لیا پہلی سٹوری پے 3 ہی کمرے تھے اور دوسری اسٹوری پے 2 اور کمرے باتھ روم اور کچن بنا لیے تھے . مجھے سعودیہ میں کام کرتے ہوئے کوئی 6سال ہو چکے تھے اس وقعت میری عمر 28سال تھی تو میرے ابّا جی نے میری شادی کا سوچا اور مجھے پاکستان بلا کر اپنے چھوٹے بھائی یعنی میری چا چے کی بڑی بیٹی سائمہ سے میری شادی کر دی. سائمہ کی عمر 25 سال تھی وہ میری چھوٹی بہن کی ہم عمر تھی . شہر میں رہ کر شہر کے ماحول زیادہ پسند کرتی تھی . اِس لیے میں جب سعودیہ چلا جاتا تھا تو وہ زیادہ تر اپنے ماں باپ کے گھر لاہور میں ہی رہتی تھی . جب میں پاکستان شادی کے لیے آیا تو ابّا جی نے میری شادی بڑی دھوم دھام سے کی اور میں بھی خوش تھا مجھے سائمہ شروع سے ہی پسند تھی وہ خوبصورت بھی تھی اور سڈول اور سیکسی جسم کی مالک تھی . اس کا قد بھی ٹھیک تھا اور گورا چاا اور بھرا ہوا جسم رکھتی تھی. سہاگ رات کو میں بہت خوش تھا کیونکہ آج سے مجھے ساری زندگی سائمہ کے جسم سے مزہ لینا تھا برات والے دن سب کام ختم ہو کر میں جب رات کو اپنے کمرے میں گیا تو سائمہ دلہن بنی بیٹھی تھی . میں نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور پِھر دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی اس سے کافی باتیں کی اور قسمیں وعدے لیے اور دیئے اور پِھر میں نے اپنی سہاگ رات کو سائمہ کو صبح 4 بجے تک جم کر 3 دفعہ چودا . میں ویسے بھی زمیندار کا بیٹا تھا گاؤں کے ماحول میں ہی زیادہ تر رہا تھا خالص چیزیں کھانے کا شوقین تھا میرا جسم بھی ٹھیک ٹھا ک تھا اور میرا ہتھیار بھی کافی مضبوط اور لمبا تھا تقریباً 7 انچ لمبا میرا لوں تھا . جس کی وجہ سے میں نے سائمہ کو پہلی ہی رات میں جام کر چودا تھا جس کا اس کو بھی ٹھیک ٹھا ک پتہ لگا تھا . کیونکہ صبح کو اس کی کمر میں درد ہو رہی تھی. جس کو میری چھوٹی بہن نبیلہ نے محسوس کر لیا تھا کیونکہ وہ سائمہ کی سہیلی بھی تھی . لیکن جب میں صبح سو کر اٹھا تو سائمہ میرے سے پہلے اٹھ چکی تھی اور وہ اندر باتھ روم میں نہا رہی تھی . میں نے جب بیڈ کی شیٹ پے نظر ماری تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ بیڈ کی سفید چادر بالکل صاف تھی اس پے سائمہ کی پھدی کے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا اور جہاں تک مجھے پتہ تھا یہ سائمہ کی زندگی کی پہلی چدائی تھی اور اِس میں تو اس کا میرے کافی اچھے اور مضبوط لن سے اس کی پھدی کی سیل ٹوٹنی چاہیے تھی اور خون بھی نکلنا چاہیے تھا . بس اِس ہی سوال نے میرا دماغ خراب کر دیا تھا



اگلے دن ولیمہ تھا اور میں سارا دن بس یہ سوچ میں تھا کے کیا سائمہ کی پھدی سیل نہیں تھی . کیا وہ پہلے بھی کسی سے کروا چکی ہے . یا لاہور میں اس کا کوئی یار ہے جس سے وہ اپنی پھدی مروا چکی ہے . بس یہ ہی میرے دماغ میں چل رہے تھے . یوں ہی ولیمہ والا دن بھی گزر گیا اور رات ہو گئی اور اس رات بھی میں نے 2 دفعہ جم کر سائمہ کی پھدی ماری لیکن سیل پھدی والی بات میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہی تھی . میں حیران تھا کے سائمہ دو دن سے دِل وجان سے مجھ سے چودوا رہی ہے اور کھل کر میرا ساتھ دے رہی ہے اور ہنسی خوشی میرے ساتھ بات بھی کر رہی لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دماغ بس سائمہ کی سیل پھدی والی بات پے ہی اٹک گیا تھا اور میں نے اپنے دِل و دماغ میں ہی وہم پال لیا تھا. ہر بندے کی خواہش ہوتی ہے اس کی ہونے والی بِیوِی صاف اور پاکباز ہو اور سیل پیک ہو لیکن میرے ساتھ تو شاید دھوکہ ہی ہو گیا تھا . ولیمہ والی رات بھی گزر گئی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں کروں تو کیا کروں اور کس سے اپنے دِل کی بات کروں . اور پِھر اگلی صبح سائمہ کے گھر والے آ گئے اور سائمہ اس دن دو پہر کو اپنے ماں باپ کے ساتھ لاہور اپنے گھر چلی گئی . سائمہ کے چلے جانے کے بعد میں بس اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا بس اپنے وہم کے بارے میں ہی سوچتا رہا میری بڑی باجی فضیلہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ گھر پے ہی آئی ہوئی تھی شادی کے بعد وہ اپنے گھر سسرال نہیں گئی تھی. میں شام تک اپنے کمرے میں ہی تھا تو 6 بجے کے وقعت ہو گا جب فضیلہ باجی میرے کمرے میں آئی اور لائٹ آن کر کے میرے بیڈ کے پاس آ گئی میں اس وقعت جاگ رہا تھا . باجی میرے پاس آ کر بولی وسیم کیا ہوا ہے یوں کمرے میں اکیلا کیوں بیٹھا ہے باہر سب ا می ابّا جی تمھارا پوچھ رہے ہیں . میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا باجی بس ویسے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور لیٹا ہوا تھا . باجی میرے بیڈ پے بیٹھ گئی اور میرے ماتھے پے ہاتھ رکھا تو مجھے بخار وغیرہ تو نہیں تھا اِس لیے باجی بولی تمہیں بخار بھی نہیں ہے پِھر طبیعت کیوں خراب ہے. میں نے کہا ویسے ہی باجی تھکن سی ہو گئی تھی تو جسم میں دردتھی . باجی نے کہا چل میرا بھائی لیٹ جا میں تیرا جسم دبا دیتی ہوں . میں نے کہا نہیں باجی میں بالکل ٹھیک ہوں بس تھوڑی سی تھکن کی وجہ سے ہے آپ پریشان نہ ہوں . میں بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور باجی سے بولا چلو باجی باہر ہی چلتے ہیں تو باجی اور میں باہر آ گئے باہر صحن میں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے . میں بھی وہاں بیٹھ گیا اور چائے پینے لگا اور یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگا . گھر میں شاید نبیلہ ہی تھی جو میری ہر پریشانی اور بات کو سمجھ جایا کرتی تھی وہ باجی کے چلے جانے کے بَعْد بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی گھر کی سا ری ذمہ داری اس پے تھی ابّا جی اور ا می کا خیال گھر کے کام سب وہ اکیلا کرتی تھی میں وہاں کافی دیر تک بیٹھ رہا باجی اور نبیلہ اٹھ کر کچن میں رات کا كھانا بنانے چلی گئی . اور میں وہاں سے اٹھ کر سیدھا چھت پے چلا گیا اور وہاں چار پای رکھی تھی اس پے لیٹ گیا اور دوباہ پِھر سائمہ کے بارے میں سوچنے لگا. . تقریبا 1 گھنٹے بعد نبیلہ چھت پے آئی اور آ کر بولی وسیم بھائی كھانا تیار ہو گیا ہے نیچے آ جاؤ سب انتظار کر رہے ہیں . میں نے کہا ٹھیک ہے تم چلو میں آتا ہوں وہ یہ کہہ کر نیچے چلی گئی اور میں بھی وہاں سے اٹھ کر نیچے آ گیا اور سب کے ساتھ مل بیٹھ کر كھانا کھانے لگا کھانے کے دوران بھی میں بس خاموش ہی تھا. كھانا کھا کر میں تھوڑی دیر تک امی اور ابّا جی سے باتیں کرتا رہا اور پِھر اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا اور آ کر بیڈ پے لیٹ گیا میں سوچنے لگا مجھے سائمہ سے بات کرنی چاہیے اور اپنا شق کو ختم کرنا چاہیے . پِھر میں یہ ہی سوچتا سوچتا سو گیا اگلے دن دو پہر کا وقعت تھا جب میں اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو فضیلہ باجی میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے بیٹھ گئی. کچھ دیر تک وہ بھی خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی پِھر کچھ ہی دیر بعد بولی وسیم مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے . میں نے ٹی وی کی آواز آہستہ کر دی اور باجی کی طرف دیکھ کر بولا کہو باجی آپ کو کیا پوچھنا ہے. باجی بولی وسیم میں 3 دن سے دیکھ رہی ہوں تم بہت چُپ چُپ رہتے ہو شادی تک تم اتنا خوش تھے اور شادی کی رات تک اتنا خوش نظر آ رہے تھے اور ویسے بھی سائمہ تمہیں پسند بھی تھی پِھر آخر ایسی کیا بات ہے تم شادی کی رات سے لے کر اب تک خاموش ہو کیا مسئلہ ہے مجھے بتاؤ میں تمھاری بڑی باجی ہوں کیا کوئی سائمہ کے ساتھ مسئلہ ہوا ہے . مجھے بتاؤ شاید میں تمھاری کوئی مدد کر سکوں. میں باجی کی بات سن کر تھوڑا بوكھلا سا گیا اور پِھر یکدم اپنے آپ کو سنبھالا اور باجی کو کہا باجی کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے اور نہ ہی سائمہ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے . آپ بلا وجہ پریشان نا ہوں . باجی نے کہا پِھر اپنے کمرے میں ہی کیوں بیٹھے رہتے ہو باہر کیوں نہیں نکلتے پِھر باجی تھوڑا ہنس کر بولی لگتا میرے چھوٹے بھائی کو سائمہ کی یاد بہت آتی ہو گی. میں باجی کی بات سن کر شرما گیا اور بولا نہیں باجی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے . باجی نے کہا اگر میرا بھائی اداس ہے تو میں سائمہ کو فون کرتی ہوں کے وہ جلدی واپس آ جائے اور آ کر میرے بھائی کا خیال رکھے . میں فوراً بولا نہیں باجی ایسا نہیں کرو میں بالکل ٹھیک ہوں کوئی اداس نہیں ہوں آپ اس کو نہ بلاؤ وہ اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہوئی ہے اس کو رہنے دو . باجی نے کہا اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی لیکن تم پِھر اپنی حالت ٹھیک کرو کوئی باہر نکلو کسی سے ملو بات کرو . میں نے کہا جی باجی آپ فکر نہ کریں میں جیسا آپ کہہ رہی ہیں ویسا ہی کروں گا. پِھر باجی کچھ دیر وہاں بیٹھی یہاں وہاں کی باتیں کرتی رہی اور پِھر اٹھ کر چلی گئی . میں نے سوچا مجھے گھر میں کسی کو شق میں نہیں ڈالنا چاہیے جب سائمہ آئے گی تو اس سے بات کر کے ہی کچھ آگے کا سوچوں گا2 دن کے بَعْد باجی اپنے گھر چلی گئی اور دن یوں ہی گزر رہے تھے پِھر کوئی ایک ہفتے بَعْد سائمہ واپس آ گئی اس کے ماں باپ ہی اس کو چھوڑ نے آئے تھے وہ ایک دن رہ کر واپس چلے گئے . میں ہر روز ہی سائمہ کے ساتھ بات کرنے کا سوچتا لیکن وقعت آنے پے میری ہمت جواب دے جاتی تھی . میں تقریباً ہر دوسرے دن ہی سائمہ کو چودلیتا تھا اس اس کا میرے ساتھ کھل کر ساتھ دینا اور ہنسی خوشی میرے ساتھ رہنا اور باتیں کرنا میرے شق کو ختم کر دیتا تھا لیکن اکیلے میں میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا . اور یوں ہی دن گزرتے جا رہے تھے اور آخر کام میری چھٹی ختم ہو گئی مجھے پاکستان آئے ہوئے 3 مہینے ہو گئے تھے اور میں ان 3 مہینوں میں سائمہ سے بات تک نہ کر سکا اور یوں ہی واپس سعودیہ چلا گیا . میں جب سعودیہ سے گھر پے فون کرتا تو سائمہ میرے ساتھ ہنستی خوشی بات کرتی رہتی تھی . مجھے سعودیہ واپس آ کر 1 سال ہو چکا تھا اِس دوران میں نے نوٹ کیا میری چھوٹی بہن نبیلہ مجھے سے زیادہ بات کرنے لگی تھی اور مجھے گھر کی ایک ایک بات بتاتی تھی اور میرے بارے میں ہوچھتی رہتی تھی . مجھے ایک وقعت پے شق ہوا شاید نبیلہ مجھے کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن وہ کہہ نہیں پاتی اور ہر دفعہ بس یہاں وہاں کی باتیں کر کے فون بند کر دیتی تھی . میرے سعودیہ آ جانے سے سائمہ زیادہ تر اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہتی تھی . کبھی 1 مہینہ اپنے ماں باپ کے پاس کبھی اپنے سسرال میں بس یوں ہی اس کا نظام بھی چل رہا تھا. یوں ہی 2 سال پورے ہوئے اور میں پِھر پاکستان چھٹی پے گھر آ گیا . مجھے آئے ہوئے 1 ہفتہ ہو گیا تھا . ایک دن میں نے اپنے ابا جی اور امی سے کہا کے آپ نبیلہ کے لیے کوئی رشتہ دیکھیں اب اس کی عمر بہت ہو گئی ہے . میری یہ بات کرنے کی دیر تھی وہاں پے بیٹھی نبیلہ غصے سے اٹھی اور منہ بناتی وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی . پِھر ابا جی بولے کے وسیم پتر دیکھ لیا ہے اِس کا غصہ ہم تو اِس کے پیچھے 2 سال سے لگے ہوئے ہیں، لیکن یہ ہے کے بات ہی نہیں مانتی . رشتہ تو بہت ہی اچھا ہے اِس کے لیے لیکن یہ مانتی ہی نہیں ہے . میں نے کہا ابا جی لڑکا کون ہے مجھے بتائیں تو ابا جی نے کہا لڑکا کوئی اور نہیں تیری پھوپھی کا بیٹا ہے ظھور پڑھا لکھا ہے شکل صورت والا ہے سرکاری ملازم ہے . میں نے جب ظھور کا سنا تو سوچنے لگا کے گھر والوں نے رشتہ تو اچھا دیکھا ہوا ہے لیکن آخر یہ نبیلہ مانتی کیوں نہیں ہے. پِھر میں نے کہا ابّا جی آپ فکر نہ کریں میں نبیلہ سے خود بار کروں گا . اور اگلے دن شام کو میں چھت پے چار پای پے لیٹا ہوا تھا تو کچھ دیر بعد ہی نبیلہ اوپر آ گئی اس نے دھو نے والے کپڑے اٹھا ے ہوئے تھے شاید وہ دھو کے اوپر چھت پے ڈالنے آئی تھی. جب وہ کپڑے ڈال کر فارغ ہو گئی تو بالٹی وہاں رکھ کر میرے پاس آ کر چار پائی پے بیٹھ گئی اور بولی وسیم بھائی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے . میں بھی اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا نبیلہ مجھے بھی تم سے ایک بات کرنی ہے . تو نبیلہ بولی بھائی اگر آپ نے مجھے سے میری شادی کی بات کرنی ہے تو میں آپ کو صاف صاف بتا دیتی ہوں مجھے شادی نہیں کرنی ہے . میں نبیلہ کی بات سن کر حیران ہو گیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا پِھر میں نے کہا نبیلہ میری بہن آخر مسئلہ کیا ہے تمہیں شادی کیوں نہیں کرنی ہے . کیا تمہیں ظہور پسند نہیں ہے یا کوئی اور ہے جس کو تم پسند کرتی ہو . مجھے بتاؤ یقین کرو میں برا نہیں گا اور غصہ نہیں کروں گا تم جیسا چاہو گی ویسا ہی ہو گا . نبیلہ فوراً بولی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے مجھے کوئی اور لڑکا پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں ظہور کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہوں میں بس اپنے گھر میں ہی رہنا چاہتی ہوں اپنے ماں باپ کے ساتھ مجھے شادی کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو میں نے کہا نبیلہ میری بہن تم پاگل تو نہیں ہو دیکھو اپنی عمر دیکھو 27 سال ہو گئی ہو کیوں اپنے اوپر ظلم کر رہی ہو . اچھی بھلی جوان ہو خوبصورت ہو کیوں اپنی زندگی تباہ کرنے لگی ہوئی ہو . تو وہ بولی بھائی مجھے یہ زندگی منظور ہے لیکن کم سے کم آپ کی طرح تو نہیں ہو گا نہ کے بِیوِی بھی ہو اور آپ کی نہ ہو اور بندہ اندر ہی اندر زخم کھاتا رہے

وہ یہ بات بول کر لال سرخ ہو چکی تھی اور وہاں سے بھاگتی ہوئی نیچے چلی گئی. نبیلہ کے اِس آخری بات نے مجھے حیرت کا شدید جھٹکا دیا اور میں حیران وپریشان بیٹھا سوچ رہا تھا کے نبیلہ کیا کہہ کر گئی ہے....

Wait for next part

Post a Comment

0 Comments