Urdu Sex Story
Ghar ki baat Ghar me
آصف سولہ سال کا نوجوان اور ہینڈسم لڑکا تھا ۔۔۔ وه اپنی فیملی میں بہت ہے
شریف اور سلجھا ہوا لڑکا مشہور تھا ۔۔۔ پڑھائی میں بھی اپنی عمر کے سارے
کزن سے تیز تھا ۔۔۔ اسکی ان عادتوں کو دیکھ کر سارے رشتہ دار ہی اس سے
بہت متاثر تھے۔۔۔ خاندان میں سب کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی آصف
سے ہی ہو ۔۔۔ مگر آصف کی امی کو کوئی جلدی نہیں تھی ۔۔۔ وه چاہتی تھیں کہ
پہلے آصف کی بڑی بہن کی شادی ہو اس کے بعد ہی اس کا رشتہ کہیں ہوگا اور
دو بچوں کے ساتھ بہت ہنسی خوشی ره رہی تھیں ۔۔۔ ان کی بڑی بیٹی ماریا ' جس ابھی شادی کو تو کافی دیر تھی ۔۔۔۔۔آصف کی امی کا نام طاہره بیگم تھا ۔۔۔ وه اپنے
کی عمر بیس سال تھی ' بی۔اے کرنے کے بعد گھر میں ہی رہتی تھی اور گھر کے
کام کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ آصف ایف۔اے کرنے کے بعد ابھی اپنی چھٹیاں انجوائے کر
رہا تھا ۔۔۔ آصف کے والد حمید خان جنہیں سب لوگ خان صاحب بلاتے تھے دبئی
میں کام کیا کرتے تھے ۔۔۔ آصف کے ابو کا لکڑی کا کاروبار تھا اور آصف کے
خالو وسیم انہی کی کمپنی میں نوکری کرتے تھے ۔۔۔ جبکہ آصف کی خالہ شہناز
انہی کی گلی مینان کے گھر کے سامنے والے گھر میں اپنی دو باره سالہ جڑواں
بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں جنہیں فیملی میں سب لوگ پیار سے ماہی اور افی
بلاتے ہیں۔۔۔۔۔ماہی اور افی بہت ہی شرارتی اور سب کی لاڈلی تھیں ۔ وه روزانہ
سکول سے سیدھا آصف کے گھر جاتیں اور ماریہ باجی سے ٹیوشن لیتی تھیں ۔۔۔
کبھی کبھی ماریہ خود ہی خالہ کے گھر جاکر انہیں ٹیوشن دے کر آتی تھی ۔ خالہ
شہناز کی خواہش تھی کہ آصف کی امی آصف کا رشتہ ان کی دو جڑواں بیٹیوں
میں سے کسی ایک بیٹی کے ساتھ کردیں ۔۔۔ کیونکہ ایک تو آصف بہت شریف اور
سلجھا ہوا لڑکا تھا جبکہ دوسری طرف آصف کے ابو بھی کافی امیر تھے مگر
آصف کی امی ہر وقت اپنی بڑی بیٹی ماریا کے رشتے کے بارے میں پریشان
رہتی تھیں ۔۔۔۔۔ماریا بے حد خوبصورت اور ذرا شوخ مزاج کی لڑکی تھی ۔۔۔ وه ہر
ایک کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ہروقت خوش رہتی تھی ۔۔۔ بس اس کے دل
میں ایک ہی غم تھا وه یہ تھا کہ ان بیس سالوں میں اسے آج تک کسی مرد کا ساتھ
نصیب نہیں ہوا تھا ۔۔۔ جس دن سے وه جوان ہوئی تھی اس دن سے وه اپنی شادی
کی خواب دیکھ رہی تھی ۔۔۔ مگر ابھی تک اسے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی
تھی ۔۔۔ سارا دن گھر کے کام کاج کرنے اور شام کو ماہی اور افی کو پڑھانے کے
بعد رات کو جب بہت تھک ہار کر سوتی تو اسے اپنے ساتھ کسی کی کمی ہمیشہ
محسوس ہوتی تھی ۔۔۔ مگر وه اپنے آپ کواس بات پر تسلی دے لیتی کہ آخر اس
کی امی اس کی خالہ بھی تو اکیلی ہی رہتی ہیں ۔۔۔ مگر اس تنہائی میں اس کے
موبائل نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔۔۔ آصف سولہ سال کی عمر میں بھی اپنی
امیکے ساتھ ہی سوتا تھا جبکہ ماریہ کے پاس اس کا اپنا الگ كمره تھا ۔۔۔ وه روز
رات کو کوئی پورن ویڈیو دیکھتی اور اپنی پھدی کو سہلا لیتی ۔۔۔ وه ابھی تک
کنواری تھی اس لئے وه اپنی پھدی کے اوپر سے ہی خود کو سکون پہنچاتی تھی
حمید خان اور وسیم کو دبئی گئے ہوئے پندره سے بیس سال ہونے کو تھے اور وه
ان پندره سے بیس سالوں میں ہرسال مشکل سے ایک دو بار ہی آ پاتے تھے ۔۔۔
باقی کا سارا سال آصف کی امی اور خالہ اکیلے ہی رہتی تھیں ۔۔۔۔۔اس دن آصف ٹی
وی دیکھنے میں مصروف تھا جب اس کی امی ٹی وی لاؤنج میں آئیں اور اس کو
ایک شاپردے کر خالا کے پاس بھیجا ۔۔۔ دبئی سے کچھ دن پہلے کچھ سامان آیا تھا
جو آصف کے ابو اور اس کے خالو نے بھیجا تھا ۔۔۔ آصف کی امی نے اپنا سامان
رکھ کر باقی سامان آصف کے ہاتھ اپنی بہن کے گھر بھجوا دیا ۔۔۔ آصف نے اپنے
گھرسے نکلکر سامنے خالہ کے گھر کا دروازه کھٹکھٹانے کے لیے جیسے یہ
دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازه خود بخود ہی کھل گیا ۔۔۔ انکا محلہ کافی محفوظ
علاقے میں تھا اس لئے دن کے وقت کوئی اتنا ٹینشن نہیں لیتا تھا ۔۔۔ آصف نے
اپنے پیچھے دروازه بند کیا اور گنگناتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔ ماہی اور افی
اس وقت سکول گئی ہوئی تھیں اس لیے گھر میں کافی سناٹا تھا ۔۔۔ آصف اپنی خالہ
کو ڈھونڈتا ہوا کچن میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہاں سے نکل کر اس نے
نے خالہ کو اونچی آواز دی مگر کوئی جواب نا آیا ۔۔۔ آصف کو لگا کہ کہیں اس
کی خالہ کو نیند ہی نا آ گئی ہو وه سیدھا خالہ کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔ مگر
جیسے ہی وه خالہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچا تو اس کے قدموں میں جیسے
بیڑیاں پڑ گئیں ۔۔۔۔۔اس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا اور نا ہے اسکی سمجھ
میں کچھ آ رہا تھا ۔۔۔ اس کی پیاری خالہ اسکے سامنے ۔۔
آصف کوئی بچہ نا تھا کہ اسے کسی بات کا علم نا ہو ۔۔۔ اس نے اپنے دوستوں کے
ساتھ مل کر بہت سی پورن موویز دیکھ رکھی تھیں ۔۔۔ وه جانتا تھا اسکی خالہ کیا
کر رہی ہیں مگر اسکے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا ۔۔۔ انسان اچھی طرح جانتا
ہے کہ اپنے جسم کے سکون کا کام ہر گھر میں ہر کوئی کرتا ہے مگر اپنے گھر
کا سوچ کر کبھی انسان کے لئے تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسکے گھر ک
ایسے کام کرتے ہیں ۔۔۔ آصف کے لئے بھی یہ کچھ ایسا ہے تھا ۔۔۔۔۔وه
دروازے پہ کھڑا منہ کھولے حیرت سے اندر دیکھ رہا تھا جہاں اس کے سامنے
بیڈ پر اس کی خالہ ننگی لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔ خالہ شہناز نے ہینڈزفری لگا رکھے
تھے اور ہاتھ میں موبائل پکڑے کچھ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ شاید اس وجہ سے انہوں
نے آصف کی آواز نہ سنی تھی ۔۔۔ خالہ نے اپنی ٹانگیں کھول کر اوپر اٹھائی ہوئی
تھیں اور ان کے ایک ہاتھ میں موبائل جبکہ دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں ان کی
پھدی کے اندر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔۔۔ خالہ نے اپنی نظریں موبائل کی
سکرین پر جما رکھی تھیں جبکہ ان کا ہاتھ بہت تیزی سے حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ پچ
... پچ ... کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ خالہ کے چہرے پر سکون
اور مزے کے ملے جلے تاثرات آصف کو واضح طور پر نظر آ رہے تھے ۔۔۔
اسکے پورے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور اسے اپنی ٹراوُ زر ذرا تنگ
ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ اس نے جیسے ہی اپنی ٹراوزر ٹھیک کرنے کے لئے
نیچے ہاتھ لگایا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔آصف کا لن اپنی خالہ کو ننگا
دیکھ کر ٹائٹ ہو چکا تھا ۔۔۔ پہلی بار اس نے کسی عورت کو حقیقت میں ننگا دیکھا
تھا ۔۔۔ اس نے پھر سے اپنا دھیان خالہ کی طرف کر دیا ۔۔۔ تبھی ایک دم خالہ کی
چیخ کیآواز آصف کے کانوں میں پڑی ۔۔۔ جسے سن کر ایک پل کیلئے آصف بھی
ڈر گیا ۔۔۔ شہناز خالہ نے آصف کو دروازے میں کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور انہوں
نے چیخ مار کر اپنے جسم کو چادر سے چھپا لیا تھا ۔۔۔ ڈر کے مارے آصف کی
دھڑکن بھی ایک سیکنڈ کے لئے جیسے رک سی گئی ۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ
وہوہاں سے ہٹ پاتا یا واپس باہر کی طرف بھاگتا اندر سے خالہ کی گرج دار آواز
آئی ۔۔۔۔۔۔ " آصف ۔۔۔۔ آصف ۔۔۔ اندر آوُ ۔۔۔ "۔۔آصف خالہ کی آواز میں شدید غصے کو
محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔ اس کے پاس اور کوئی چاره نہ تھا اس لیے وه چپ چاپ
خالہ کے کمرے میں داخل ہوا اور سر جھکا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔
غصے کے مارے شہناز خالا کا پورا چہره لال ہو چکا تھا ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں
سے جیسے آگ برس رہی ہو ۔۔۔ انہوں نے بیڈ کی سفید چادر سے اپنے آپ کو
ڈھانپ رکھا تھا اور ایک ہاتھ سے اس چادر کو اپنے سینے پر رکھے اپنی چھاتی
کو چھپایا ہوا تھا ۔۔۔ آصف کو خالہ کے ننگے کندھے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ خالہ نے
اپنے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس سے ان کی سفید اور لمبی گردن کے ساتھ
ساتھ گورے اور ننگے کندھے بھی آصف کو نظر آ رہے تھے ۔۔۔ مگر اس وقت
آصف کو صرف اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار نظر آرہی تھی ۔۔۔ خالہ نے شدید: غصے بھری آواز میں پوچھا ۔۔۔۔۔۔خالہ : " یہ کیا گھٹیا حرکت ہے ۔۔۔ شرم نہیں آتی
کسیکے روم میں ایسے نہیں جھانکتے ۔۔۔ اور بے شرموں کی طرح نا جانے کب
سے کھڑے ہوۓ تھے ۔۔۔ بتاؤ ۔۔۔ ہے کوئی جواب تمھارے پاس ۔۔۔ میں ابھی تمہاری
امی کو فون کرتی ہوں اور بتاتی ہوں تم نے جو گھٹیا حرکت کی ہے ۔۔۔ "۔۔امی کے
نام کی دھمکی سن کر ایک دم سے آصف کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ اسے لگا
جیسے اس کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ایک دم اس کے سر پر آگری ہو ۔۔۔ اس کی
ہمت نے ایک دم جواب دے دیا اور وه ایک دم بلک بلک کر رونے لگا اور ہاتھ
جوڑ کر بولا ۔۔۔۔۔آصف : " خالہ پلیز ۔۔۔ امی کو کچھ نا بتائیے گا ۔۔۔ وه مجھے جان
سے مار دین گی ۔۔۔ میں تو بس آپ کو یہشاپر دینے آیا تھا آپ کے گھر کا دروازه
کھولا تو میں خودی اندر آگیا مجھے کیا پتا آپ یہاں یہ سب کچھ کر رہی ہوں گی ۔۔۔
پلیز خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں میں نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی
ہے لیکن جب میں نے آپ کو دیکھا تو پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں وہاں سے ہل
ہی نہیں پایا ۔۔۔ میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھا میں بس آپ کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔
سوری خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ آپ اتنی پیاری لگیں مجھے میں خود کو
دیکھنے سے روک ہی نہیں پایا ۔۔۔ معاف کر دیں خالہ دوباره ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔
"۔۔آصف کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔ جبکہ شہناز خالہ کے چہرے پر آصف بات
سن کر ایک مسکراہٹ آئی ۔۔۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد کسی کہ منہ سے اپنے
لیے تعریف سننا اچھا لگا تھا ۔۔۔ اور اوپر سے آصف بلاکا معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔
شہناز نے فوراً ہی مسکراہٹ چھپائی اور بڑے سپاٹ لہجے میں آصف سے کہا
۔۔۔۔خالہ : " چلو آج تو میں تمہیں معاف کر رہی ہوں لیکن خبردار اگر ایسی حرکت
دوباره کبھی کی تو ۔۔۔ اور پریشان نہ ہو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گی اور تم
نے بھی یہ بات دوباره کبھی کسی کے سامنے نہیں دوہرانی ۔۔۔ اب تم جاؤ اور یہ
شاپر وہاں صوفے پہ رکھتے جاوُ ۔۔۔ "۔آصف ایک دم سے کھل اٹھا ۔۔۔ اور فوراً بولا
۔۔۔۔آصف : " خالہ آپ بہت اچھی ہیں ۔۔۔ میں وعده کرتا ہوں آگے سے احتیاط سے
کام لوں گا ۔۔۔ آپ بس کسی کو کچھ نہ بتائے گا ۔۔۔ میں آپ کے سارے کام کر دوں
گاجو بھی آپ کہیں گی بس آپ امی کو شکایت نہ لگائے گا ۔۔۔ "۔خالہ : " اچھا اچھا
اب زیاده مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ بولا نا کسی کو نہیں بتاؤں گی تم
اب یہاں سے جاوُ ۔۔۔ باقی اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ۔۔۔ "۔۔آصف جلدی
سے بیڈ سے اٹھا اور شاپر کو صوفے پررکھتے ہی باہر کی طرف چل پڑا ۔۔۔
جیسے ہی وه دروازے کے پاس پہنچا اسے پیچھے سے خالہ نے آواز دی ۔۔۔ آصف
جیسے ہی پیچھے مڑا اسے ایک بار پھر شدید جھٹکا لگا ۔۔۔ کیونکہ خالہ نے جس
ہاتھ سے چادر کو پکڑ کر اپنی چھاتی کو چھپا رکھا تھا وه ہاتھ انہوں نے نیچے کر
کہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا ۔۔۔ اور چادر بھی گر کر انکی گود میں پڑی تھی جس
سے خالہ کا جسم آگے سے مکمل طور پر ننگا تھا ۔۔۔ آصف کو لگا جیسے اس کی
قسمت ایک دم اس پر مہربان ہو گئی ہو ۔۔۔ خالہ کے ممے بڑے سائز کے سفید اور
گول تھے اور انکے ہلکے براؤن رنگ کے نیپلز غضب ڈھا رہے تھے ۔۔۔ آصف
کی جیسے ساری دنیا ایک دم تھم سیگئی ۔۔۔ خالہ جان بوجھ کر اسے دعوت نظاره
دے دہی تھیں ۔۔۔ اس کا دل چاہا کہ وقت یہیں تھم جائے اور وه خالہ کے ممے
دیکھتا ہی رہے ۔۔۔ شہناز کو اپنےبھانجے کا اس طرح ترسی ہوئی نظر سے دیکھنا
اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اسے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا ۔۔۔ اور آصف کی ٹراوُ زر
میں بنا تنبو نما ابھار اسے اپنی تعریف لگا ۔۔۔ اس ابھار سے شہناز کو اچھی طرح
آئیڈیا ہو چکا تھا کہ آصف بھی اپنے باپ پر گیا ہے ۔۔۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ
اس کی بڑی بہن کتنی تعریفیں کرتی تھی اپنے شوہر خان صاحب کے لن کے سائز
کے بارے میں ۔۔۔ اور اسے حیرت تھی کہ سولہ سال کی عمر میں ہی آصفکا لن
اسکے شوہر وسیم کے برابر تھا ۔۔۔۔۔شہناز چاہتی تھی کہ اسکا بھانجا اسی ستائشی
نظروں سے اسے دیکھتا رہے اور سرہاتا رہے ۔۔۔ مگر وه اتنا جلدی رشتوں کی حد
کو پھلانگنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ آصف خیالوں کی دنیا میں کھویا شاید اپنی خالہ کے
ممے چوسنے کا خواب دیکھ رہا تھا تبھیوه خالہ کی آواز سے چونکا ۔۔۔۔خالہ : "
بس کر دو اب بھانجے صاحب ۔۔۔ اور جاتے ہوے دروازه بند کرتے جانا ۔۔۔ " خالہ
کے چہرے پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔آصف ایک دم شرمنده سا ہوا
اور واپس دروازے کی طرف مڑا ۔۔۔ اس نے دروازه بند کرتے ہوے مڑ کر اپنی
خالہ کو دیکھا تو وه بھی اس دیکھ رہی تھیں اور ان دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔
آصف جاتے ہوے ایک آخری دیدار کی خاطر دروازه آہستہ آہستہ بند کر رہا تھا ۔۔۔
جبکہ اسکی خالہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بیڈ پر لیٹ چکی تھی اور انکا
ایک ہاتھ پھر سے انکی ٹانگوں کے درمیان حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ آصف نے ایک
نظر بھر کر خالہ کو دیکھا اور انکے مموں کی دل ہی دل میں تعریف کرتے ہوے
درواز بند کر دیا ۔۔۔۔۔وہاں سے نکل کر جب وه بیرونی دروازے تک پہنچا تو اسے
احساس ہوا کہ اسکے ٹراوُ زر میں اسکا کھڑا ہوا لن تنبو بنا چکا ہے ۔۔۔ وه ڈرتے
ڈرتے خالہ کے گھر سے نکلا تو اسکی خوش قسمتی تھی کہ گلی میں دور دور
تک کوئی نہیں تھا ۔۔۔ آصف جلدی سے بھاگ کر اپنے گھر میں داخل ہوگیا ۔۔۔: اسکی امی کچن میں کام کر رہی تھیں ۔۔۔ آصف ان سے نظریں بچا کر سیدھا امی
کے کمرے میں باتھ روم میں گھس گیا ۔۔۔ آصف کیوں کہ اسی کمرے میں سوتا تھا
اس لئے اسکے لئے آسانی ہو گئی کہ امی کا کمره گھر کہ شروع میں ہی تھا ۔۔۔
جلدی سے باتھ روم میں جاتے ہی آصف نے اپنے کپڑے اتار دئیے ۔۔۔ اور اپنے لن
کو سہلانے لگا ۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے خالہ کی پھدی میں جاتی انگلیاں اور
انکے بڑے ممے گھوم رہے تھے اور اسکے ہاتھ کی رفتارمزید تیز ہو گئی ۔۔۔ اسکا
دماغ کام کرنے سے قاصر تھا بس ہوس سوار تھی ۔۔۔ اپنے لن کی مٹھ مارتے ہوے
اسے سامنے کھونٹی پر امی کا برا نظرآیا ۔۔۔ ہوس اس قدر سوار تھی کہ آصف
نے وه برا کھینچا اور چومنے اور سونگھنے لگا ۔۔۔ اسے امی کی ایک مانوس
خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہوگئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں
امی کی خوشبواور خالہ کے ننگے جسم کر خیال نے آصف کو فارغ ہونے پر
مجبور کر دیا اور جھٹکے کھاتے ہوے وه زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے
فارغ ہوا تھا ۔۔۔۔۔آصف باہر ٹی۔وی لاؤنج میں آیا جہاں ماریا ماہی اور افی کو ٹیوشن
پڑھا رہی تھی ۔۔۔ وہاں اسکی نظر صوفے پر بیٹھی اسکی امی پر پڑی ۔۔۔ طاہره
بیگمکے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ آصف اٹھ کر انکے ساتھ صوفے پر
جا بیٹھا اور بڑے فکر مندی کے انداز میں انکی پریشانی کی وجہ پوچھی ۔۔۔ طاہره
بیگم نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور جلدی سے نظر چرا کر " کچھ نہیں "
کہتے ہوے کچن میں چلی گئیں ۔۔۔ آصف اپنی مستی میں مست خیالوں میں کھو گیا
اور طاہره بیگم کچن میں کھڑی اپنے جذبات کی تشریح کرنے کی ناکام کوشش میں
مصروفتھی ۔۔۔ اس وقت اسکے دل میں غصے اور شرمندگی کے جذبات گردش کر
رہے تھے ۔۔۔ غصہ اس بات کا کہ ابھی ابھی اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے
بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تھا ۔۔۔ اور شرمندگی اس بات کی تھی کہ طاہره
نے جب اپنے بیٹے کو اپنے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تو اسے روکنے کے
بجائے وه اسے دیکھتی ہی رہی ۔۔۔ وہایک پل کے لئے اسکے بیٹے سے ایک مرد
بن گیا جو اسکے نام کی مٹھ مار رہا تھا ۔۔۔ طاہره کو یہ اچھالگا تھا اور اسی بات
کی شرمندگی اسے کھائے جا رہی تھی ۔۔۔
سارا دن ایک عجیب کشمکش میں گزارنے کے بعد بھی طاہره یہ سمجھنے سے
قاصر تھی کہ آخراسے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے برا کو چومتے اور سونگھتے
ہوے مٹھ مارتے دیکھ کر اچھا کیوں لگا تھا ۔۔۔ وه کبھی خود کو کوسنے لگتی تو
کبھی وه منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتا ۔۔۔ ایک طرف بیٹے کی اس
حرکت پر مصنوئی غصہ اور دوسری طرف اپنے بیٹے کی محبت کی شدت ۔۔۔ وه
پریشان تھی کہ آخر کس جذبے کو چھپائے ۔۔۔۔۔اسی بےچینی کے عالَم میں سارا دن
گزارنے کے بعد رات کو جب طاہره بیڈ پر آ کر لیٹی تو وہاں پہلے سے لیٹے اپنے
بیٹے آصف کو زیرو بلب کی مدھم روشنی میں دیکھنے لگی ۔۔۔ وه نیند میں بہت پر
سکون اور معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔ طاہره نے ایک پل کے لئے سوچا کہ اپنی ماں
کی نیند اور ہوش اڑانے کے بعد خود مزے سے سو رہا ہے ۔۔۔ اسکو دیکھتے
ہوئے نا جانے کیوں طاہره کو اس پر پیار آنے لگا اور وه دل ہی دل میں سوچنے
لگی ۔۔۔۔۔طاہره : " ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر ایسا کیا دیکھا اس نے مجھ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ چالیس سال کی
عورت میں ایسی کیا دلچسبی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے باپ نے تو کبھی نظر بھر
کر نہیں دیکھا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اندازه نہیں تھا کہ اس طرح چاہا جانا اتنا
حسین احساس ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں اتنی اچھی لگتی ہوں اسکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ
میرا برا چومتے ہوے مجھے یاد کر کہ اپنے لن کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خوبصورت لن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا موٹا اور پیارا لن ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی احساس ہے نہیں ہوا کہ میرا بیٹا
اتنا بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا جانے کیا سوچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تصور کر رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے چومنے کا تصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے چھونے کا تصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری برا
کے ساتھ کھیل رہا تھا ضرور میرے مموں کو چوسنے کا تصور کر رہا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "۔۔طاہره کی بے چینی اب ایک انوکھی خوشی میں
بدل چکی تھی ۔۔۔ وه اپنے بیٹے کو اپنے ممے چوستے ہوےتصور کرنے لگی ۔۔۔
طاہره آصف پر جھکی اور اسکا گال چوم لیا ۔۔۔ آصف گہری نیند میں تھا ۔۔۔ طاہره
نے جیسے ہے اپنے جوان بیٹے کو چوما تو ایک عجیب اور میٹھی سنسناہٹ اسے
اپنی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس ہوئی ۔۔۔ وه پیچھے ہٹتے ہوے ایک بار رکی اور
پھر سے بہت آرام سے اور پیار سے اپنے بیٹے کو چوم لیا ۔۔۔ طاہره کو بہت پیار آ
رہا تھا ۔۔۔ اور ایک مرد کا ساتھ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اپنے بیٹےکو چومتے
ہوے طاہره کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔۔ طاہره کچھ سوچے بغیر
اپنے ہاتھ کو اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی پر رگڑنے لگی ۔۔۔ ایک میٹھا
احساس اسے چاروں طرف سے جکڑ رہا تھا ۔۔۔ اسکی پھدی پہلے سے ہی کافی
گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔طاہره آنکھیں بند کر کے بیڈ پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔ وه اپنی
آنکھیں بند کے اپنے بیٹے کو مٹھ مارتے ہوے دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ طاہره کا ہاتھ
اسکے ممونکو دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکے قمیض کے دامن کوہٹا کر اسکی
شلوار کے اندر اسکی پینٹی میں گھس چکا تھا ۔۔۔ طاہره نے اپنی انگلیوں کو اپنی
: پھدی پر رگڑتے ہوے دو انگلیاں اندر گھسا دیں ۔۔۔ ایک ' پچ ' کی آواز کے ساتھ دو
انگلیاں اسکی گیلی پھدی میں گھس چکی تھیں ۔۔۔ ایک مزے کی شدید لہر اسے بہا
لے جا رہی تھی ۔۔۔ طاہره بغیر کسی خوف اور شرمندگی کے اپنے بیٹے کے لن کا
تصور کرتے ہوے اپنی پھدی میں انگلیاں اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ اپنے ممے
دباتے ہوے طاہره کی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کا جھٹکے کھاتا ہوا جوان لن
لہرانے لگا ۔۔۔ طاہره کی آنکھیں بند اور منہ کھل چکا تھا ۔۔۔ اسے اپنا سارا خون
ٹانگوں کی طرف جاتا محسوس ہوا ۔۔۔ اسکی انگلیوں کی رفتار اور کمرے میں
گونجتی پچ پچ کی آواز شدت اختیار کر چکی تھی ۔۔۔ آخری بار یہ احساس اسے کب
ہوا شاید اسے یاد بھی نہیں تھا اور نا ہی وه یاد کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ایک منٹ سے
بھی کم وقت میں وه فارغ ہونے لگی تھی ۔۔۔ طاہره نے جھٹکے کھاتے ہوے آنکھیں
کھول کر اپنے بیٹے کو سوتے ہوے دیکھا ۔۔۔ اور اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوے وه
فارغ ہونے لگی ۔۔۔ طاہره کا پوراجسم جھٹکے کھاتا ہوا اچھل رہا تھا ۔۔۔ اسکی
ساری پینٹی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ اوروه فارغ گئی ۔۔۔۔۔طاہره نے اپنی گیلی انگلیوں
کو دیکھا تو اسکے ذہنمیں شرارت سوجھی ۔۔۔ اس نے جھک کر ان گیلی انگلیوں
کو اپنے بیٹے کے ہونٹوں پر پھیرا ۔۔۔ آصف نیند میں ہی اپنے ہونٹوں پر زبان
پھیرتا ہوا کروٹ بدل کر سوگیا ۔۔۔ طاہره کی ایک دم ہنسی نکل گئی کہ ابھی ابھی
اسکے بیٹے نے اپنی ماں کی پھدی کو ٹیسٹ کیا ۔۔۔ وه ابھی تک مکمل ہوش میں نا
تھی ۔۔۔ وه اپنے بیڈ سے اٹھی اور باتھ روم میں چلیگئی ۔۔۔ وہاں طاہره نے خود کو
صاف کیا اور کچھ سوچتے ہوے اس نے اپنی گیلی پینٹی کھونٹی پر ہی لٹکا دی
اور باہر آ کر سو گئی ۔۔۔۔۔صبح آصف کو ناشتے کے لئے اٹھا کر خود کچن میں
چلی گئی ۔۔۔ طاہره کو کچن میں کام کرتے ہوے رات کا منظر یاد آیا تو اسے
شرمندگی کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ اسے خود سے ہی گھن آنے لگی ۔۔۔ اس نے
کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وه اپنے شوہر کے علاوه کسی اور مرد کا سوچے گی
۔۔۔ اور وه مرد کوئی اور نہیں اسکا سگا بیٹا تھا ۔۔۔ رات کو شاید وه مکمل ہوش میں
نا تھی مگر اب ہوش آیا تو پچھتاوا اسکی سانس روکنے لگا ۔۔۔ ایک دم اسے اپنی
پینٹی کا خیال آیا ۔۔۔ وه بھاگی بھاگی اپنے کمرے کی طرف گئی تو آصف نہا کر
باہر نکل آیا تھا ۔۔۔طاہره نے اسے کچن میں بھیج کر باتھ روم کی طرف رخ کیا ۔۔۔
باتھ روم میں جاتے ہی اسے ایک بار پھر اسے شرمندگی نے گھیر لیا ۔۔۔ کیونکہ
اسکی پینٹی ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی پر شفٹ ہچکی تھی ۔۔۔ ے :۔ ہو
ایک دن غصے اور شرمندگی میں گزارنے کے بعد اب اگلا دن طاہره کو صرف :
اور صرف شرمندگی میں گزارنا تھا ۔۔۔ یہ دوسرا دن تھا کہ طاہره کا نا تو کسی کام
میں دل لگتا اور نا ہی وه آصف سے نظریں ملا پاتی تھی ۔۔۔ یہ بے چینی اس
کھائے جا رہی تھی ۔۔۔ رات میں تو اسے بہت مزه آیا تھا مگر دن کی شرمندگی
کافی تکلیف ده تھی ۔۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ وه اپنے بیٹے کے لن
کویاد کر کہ اسکے ساتھ لیٹے ہوے اپنی پھدی کا پانینکال چکی تھی ۔۔۔ دن میں
کبھی اسے شرمندگی گھیر لیتی تو کبھی اسے آصف کا تگڑا لن یاد آ جاتا ۔۔۔ اس
کے لئے مشکل ہو رہا تھا ان خیالات کو اپنے ذہن سے نکالنا ۔۔۔۔۔تبھی ایک دم اسکا
فون بج اٹھا ۔۔۔ طاہره اپنے ہوش میں واپس آئی اور فون اٹھایا ۔۔۔ فون کے دوسری
طرفاسکی بہن شہناز تھی ۔۔۔ شہناز ہمیشہ سے اسکی بہن سے زیاده اسکی دوست
رہی تھی ۔۔۔ طاہره کا بہت دل کیا کہ وو اپنی بہن کو سب کچھ بتا دے ۔۔۔ مگر شرم
کے مارے کچھ نا بول پائی ۔۔۔ اسے لگا ووخود ہی سب ٹھیک کر لے گی ۔۔۔ رسمی
حال احوال کے بعد شہناز نے سودا سلف لانے کے لئے آصف کو اپنے گھر
بھیجنے کا کہا ۔۔۔ آصف کا نام سن کر طاہره کا دل ایک بار زور سے دھڑکا تھا ۔۔۔
بہت عجیب کیفیت تھی ۔۔۔ ایک بیٹے کی وجہ سے ماں کی ایسی حالت ۔۔۔ طاہره نے
خود پر قابو کرتے ہوے آصف کو آواز دی ۔۔۔ آصف اپنے کمرے سے باہر آیا تو
طاہره نے اسے اپنی خالہ کے گھر جانے کا کہا ۔۔۔خالہ کا نام سن کر آصف کے
چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ۔۔۔ مگر طاہره یہ دیکھ نا پائی کیونکہ وه خود اپنے بیٹے
سے نظریں چرا رہی تھی ۔۔۔۔۔بھاری قدموں کے ساتھ چلتا ہوا آصف خالہ کے گھر
پہنچا ۔۔۔ وه آگے آنے والے وقت سے ڈر رہا تھا ۔۔۔ خالہ کے گھر پہنچا تو خالہ ٹی۔
وی لاؤنج میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ آصف خالہ کےپاس جا کر کھڑا
ہوگیا ۔۔۔ اسکی خالہ نے کالے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح کھلے
گلے میں سے انکے ادھ ننگے ممے دعوت نظاره دے رہے تھے ۔۔۔ آصف خالہ کی
خوبصورتی میں ہی کھو گیا ۔۔۔ شہناز نے اسے اپنے مموں کو تاڑتے ہوے دیکھ لیا
تھا اور اسے یہ بہت اچھا لگا ۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر ایک لمبا سانس لیا جس سے
اسکے ممے مزید اوپر کو اٹھتے گئے ۔۔۔ وه اپنے بھانجے کی کھلتی ہوئی آنکھیں
دیکھ کر مسکرانے لگی ۔۔۔ شہناز نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کا اشاره
کیا ۔۔۔۔۔شہناز نے پیار سے اپنے بھانجے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔خالہ : "
آصف ۔۔۔ کل جو کچھ ہوا میں معافی مانگتی ہوں ۔۔۔ غلطی صرف تمہاری نہیں
میری بھی تھی ۔۔۔ مجھے وه سب کچھ کرتے ہوے دروازه بند کرنا چاہیےتھا ۔۔۔ اور
میں کچھ زیاده ہی غصہ ہو گئی تم پر ۔۔۔ تم اپنی خالہ سے ناراض تو نہیں ہو نا ۔۔۔
"۔آصف کو تو لگا تھا آج اسکی شامت آنی ہے ۔۔۔ مگریہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی
تھی ۔۔۔۔آصف : " خالہ آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں ۔۔۔ آپ کا گھر ہے آپ جو
مرضی کریں ۔۔۔مجھے آپ کی پرائیویسی کا خیال کرنا چاہیے تھا ۔۔۔ مجھے تو آپ
کا شکریہ ادا کرنا چاہیے آپ نے اس بات کو راز رکھا اور امی کو نہیں بتایا ۔۔۔
"۔خالہ : " کیا بتاتی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا خیر یہ بتاؤ اپنا وعده تو یاد ہے نا ۔۔۔
"۔آصف : " کونسا وعده ؟؟؟ "۔خالہ : " تم نے ہی تو کہا تھا اگر میں یہ بات تمہاری
امی کو نا بتاؤں تو تم میرے سارے کام کروگے ۔۔۔ بس سمجھو کام پر گیا ہے تم
سے ۔۔۔ "۔آصف : " ہاں جی بلکل یاد ہے اپنا وعده ۔۔۔ آپ حکم کریں۔۔۔ "۔خالہ : "
پہلے وعده کرو میں جو کہوں گی کرو گے ۔۔۔ منع نہیں کرو گے ۔۔۔ اور نا کبھی
کسی کو کچھ بتاؤگے ۔۔۔ "۔آصف : " یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے ۔۔۔ میرا وعده
ہوگیا آپ جو کہیں گی کروں گا ۔۔۔ منع نہیں کرونگا اور نا کسی کو کچھ بتاؤں گا ۔۔۔
"۔خالہ : " شاباش بیٹا ۔۔۔ چلو آ جاؤ ۔۔۔ "۔۔شہناز نے اپنے بھانجے کا ہاتھ پکڑا اور
اسے صوفے سے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئی ۔۔۔ آصف کو تجسس ہو رہا تھا
کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو کسی کو بتانا نہیں ۔۔۔ ایسا ایک ہی کام اسکے ذہن
میں آرہا تھا مگر وه تو ممکن نہیں تھا خالہ کے ساتھ ۔۔۔ آصف چپ چاپ خالہ کے
پیچھے چلتا ہوا انکی گول مٹکتی گانڈ کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ خالہ نے ایک بار مڑ کر
دیکھا تو اپنے بھانجے کو اپنی خالہ کی گانڈ کو تاڑتے دیکھ کر اچھا لگا اور وه
مسکرا کر آصف کو اپنے کمرے میں لے آئی ۔۔۔۔۔آصف کو بیڈ پر بیٹھا کر شہناز
اسکے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ آصف کی نظریں اپنی خالہ کے جسم کو ماپ رہی
تھیں ۔۔۔ شہناز کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔۔۔ اس نے اسی
مسکراہٹ کے ساتھ اپنے قمیض کا دامن پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچنا شروع
کر دیا ۔۔۔
شہناز نے اپنے قمیض کا دامن پکڑ کر قمیض اتار دیا ۔۔۔آصف اپنی خالہ کو سرخ .
رنگ کے برا میں دیکھ کر مچلنے لگا ۔۔۔ وه برا بڑی مشکل سے اسکی خالہ کے
مموں کو سنبھالے ہوے تھا ۔۔۔ آصف کا لن اسکی پنٹ میں اکڑ کر سخت ہو چکا تھا
۔۔۔ شہناز کو اپنےبھانجے کا اکڑا ہوا لن اپنی تعریف لگا اور وه مسکراکر اپنا برا کا
ہک کھولنے لگی ۔۔۔ آصف کے لئے یہ سب ایک خواب جیسا تھا ۔۔۔ اسکے لئے
یقین کرنا مشکل تھا کہ اسکی خالہ اسکے سامنے اپنا قمیض اتار چکی تھی اور اب
اپنا برا کھولنے لگی تھی ۔۔۔۔۔جیسے ہی شہناز نے اپنا برا کھولا آصف کا لن ایک
دماکڑ کر سخت ہوگیا ۔۔۔ اتنا خوبصورت ممے آصف نے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔۔۔
شہناز کے ممے بڑےاور سفید تھے ۔۔۔ ان پر ہلکے براؤن رنگ کے نپلز غضب
ڈھا رہے تھے ۔۔۔ انکے مموں سے بلکل نہیں لگتا تھا کہ وه دو بچوں کی ماں ہیں
۔۔۔ ابھی بھی اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھا ہوا تھا اور ویسے ہی سر اٹھا کے
کھڑے تھے جیسے کسی جوان لڑکی کے ممے ہوں ۔۔۔ خالہ کا جسم بہت
خوبصورت حد تک بھرا بھرا تھا ۔۔۔ انکا رنگ بہت سفید تھا اور انکی نرم اور
خوبصورت کمر ۔۔۔۔ اف ۔۔۔۔ آصف کبھی خالہ کے چہرے کی طرف دیکھتا تو کبھی
انکے مموں اور انکی ننگی کمر کو دیکھنے لگتا ۔۔۔ آصف کے لئیے کنٹرول کرنا
بہت مشکل ہوگیا تھا ۔۔۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ وه ایکدم جھپٹ پڑے اور اپنی خالہ
کے مموں کو چوسنے لگے ۔۔۔ اس کی خالہ اس کی سامنے ننگی کھڑی تھی مگر
ابھی تو اس کا ڈر نکلا نہیں تھا ۔۔۔ شہناز اپنے بھانجے کی آنکھوں میں شہوت '
محبتاور حیرت کے جذبات دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ اور اپنے بھانجے کی پینٹ میں بنا
ہوا تنبو اسکی پھدی میں ہلچل مچا رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر اپنے ممے اپنے بھانجے کے
سامنے ہلانے کے بعد شہناز بولی ۔۔۔۔شہناز : " بیٹا جو لوگ دیکھتے رہتے ہیں نا
وه بس دیکھتے ہی ره جاتے ہیں ۔۔۔ کامیاب تو وه ہوتا ہے جو سوچتا نہیں کر گزرتا
ہے ۔۔۔ "۔۔آصف خالہ کی بات سمجھ گیا ۔۔۔ آخر اسکی خالہ اپنا قمیض اتارے اسکے
سامنے ننگی کھڑی تھی اب اس سے زیاده کیا دعوت دے ۔۔۔ آصف نے کانپتے
ہاتھونسے اپنی خالہ کی کمر کو پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے خالہ کی کمر کو پکڑ
کر انکو اپنے پاس کیا ۔۔۔ خالہ کے ممے آصف کے چہره کے سامنے لہرا رہے
تھے ۔۔۔ آصف نے بہت پیار سے خالہ کے نپل پر پیار کیا ۔۔۔ شہناز کی سانسیں تیز
ہونے لگیں تھیں ۔۔۔ جس سختی سے آصف نے اسکی کمر کو پکڑ رکھا تھا وه
شہناز کو بہت گرم کر رہی تھی ۔۔۔ اور جیسے ہی آصف نے شہناز کے مموں پر
زبان پھیری اور اسکے نپل کو منہ میں لے کر چوسا تو شہناز کی پھدی میں آگ
بھڑک اٹھی جسے بجھانے کے لئے ایک سیلاب اسکی پھدی سے بہنے لگا
۔۔۔۔۔شہناز بہت پیار سے اپنے بھانجے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی اور اسکے
سر کو اپنے مموں پر مزید دبانے لگی ۔۔۔ آصف جس شدت سے اسکے ممے چوس
رہا وه شہناز کو شہوت کے جذبات میں بہا لےجا رہاتھا ۔۔۔ دوسری طرف آصف
جسے ہوش سنبھالنےکے بعد پہلی بار ممے دیکھنا ' انھیں چھونا اور چوسنا نصیب
ہوا تھا مدہوشی کی سی حالت میں تھا ۔۔۔ آصف اپنے ہاتھوں کو خالہ کی کمر پر
پھیرتے ہوے انکی شلوار کے اندر لےگیا اور انکے چوتر پکڑ لئے ۔۔۔ شہناز نے
اپنی گانڈ پر اپنے بھانجے کے ہاتھوں کو محسوس کیا تو تڑپ اٹھی ۔۔۔ اس نے
آصف کے سر کو پکڑ کر اپنے مموں پر دبا دیا اور اپنے جسم کو مزید اسکے
قریب کر لیا ۔۔۔ شہناز کی گانڈ بہت بڑی اور موٹی اور نرم تھی ۔۔۔ آصف باری
باری اپنی خالہ کے دونوں ممے چوس رہا تھا ۔۔۔ وه خالہ کے نپل کو منہ میں لیتا
اور بچوں کیطرح چوسنے لگتا ۔۔۔ کبھی زبان نکال کر چاٹنے لگتا ۔۔۔ شہناز کی
شلوار میں مانو جیسے سیلاب آ چکا ہوں ۔۔۔اس کے لیے اب برداشت کرنا ناممکن
ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔شہناز نے آصف کے ایک ہاتھ کو اپنی گانڈ سے اٹھایا اور آگے سے
لا کر اپنی شلوار کے اندر گھسا کر پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔ آصف نے جیسے ہی خالہ
کی پھدی کو چھوا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔ خالہ کی پھدی بہت گیلی ہو
چکی تھی ۔۔۔ آصفنے اپنی خالہ کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر مسلا اور ایک نظر اپنی
خالہ پر ڈالی تو خالہ کی آنکھوں میں شہوت ابل رہی تھی اور انکے چہرے پر
معنی خیز مسکراہٹ تھی ۔۔۔ آصف نے اپنا ہاتھ خالہ کی شلوار سے باہر نکالا تو
شہناز کے چہرے پر بے چینی امڈ آئی ۔۔۔ مگر آصف نے فوراً خالہ کی شلوار کو
پکڑا اور اتارنے لگا ۔۔۔ شلوار اترتے ہی خالہ کی پھدیآصف کے سامنے آ گئی ۔۔۔
خالہ کی پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ شہناز نے اپنی پھدی اور جسم کے بال
اچھی طرح صاف کر رکھے تھے ۔۔۔۔۔آصف نے اپنی خالہ کی شلوار اتار کر سائیڈ
پر کی اور بیڈ سے اتر کر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔ شہناز کی سانسیں بہت
تیز ہو چکی تھیں اور شہوت کے مارے اسکا پورا جسم تپ رہا تھا ۔۔۔ شہناز اپنے
بھانجے کو اپنی ٹانگوں کے درمیان بیٹھے دیکھ کر اسکے چھونے کا انتظار کر
رہی تھی ۔۔۔۔آصف نے اپنی خالہ کی پھدی کے ہونٹوں کو تھوڑا سا کھولا اور اپنا
چہره پاس کر کے اپنی زبان خالہ کیپھدی کے دانے پر پھیری تو شہناز تڑپ اٹھی
۔۔۔ شہناز کے جسم نے جھٹکا کھایا اور اس نے آصف کا سر پکڑ کر اپنی پھدی پر
دبانا شروع کر دیا۔۔۔ آصف نے اپنی خالہ کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ شہناز
مزے کی انتہا گہرائیوں میں ڈوبی اپنی کمر کوہلا ہلا کر اپنے بھانجے کے چہرے
پر اپنی پھدی رگڑ رہی تھی ۔۔۔.کچھ ہی دیر میں شہناز کو لگا وه فارغ ہونے والی
ہے تو اس نے جلدی سے آصف کا چہره اپنی پھدی سےہٹایا اور اسے اوپر اٹھا کر
بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔ آصف کے بیڈ پر لیٹتے ہی شہناز اس پر جھپٹ پڑی اور اس کی
پینٹ کو اتارنے لگی ۔۔۔ شہناز بہت تیز تیز ہاتھ چلا رہی تھی جس سے اس کی
شہوت صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔۔۔ آصف نے بھی جلدی سے اپنی شرٹ کے بٹن
کھول کر شرٹ اتار کر سائیڈ کردی جب کہ شہناز اس کی پینٹ کو اتار کر اس کے
اوپر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔ دونوں مکمل طور پر ننگے ہو چکے تھے جب کہ شہناز
آصف کے لن کو اپنے ہاتھمیں پکڑ کر ہلاتے ہوئے اسے اپنی پھدی پر سیٹ
کررہی تھی ۔۔۔ شہناز کے لیے اب داشت کرنا ناممکن ہوچکا تھا اب وه مزید کوئی
انتظار کیے آصف سے چدوانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔شہناز نے آصف کے لن کی ٹوپی اپنی
ان دونوں کی جسم میں دوڑ گئی اور ان دونوں کے منہ سے ایک ہی وقت میں " آ آ پھدی کے اوپررکھی اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھتی گئی ۔۔۔ مزے کی ایک شدید لہر
پہلی بار اپنا لن کسی کی پھدیمیں ڈالے فارغ ہونے کے لئے تیار تھا ۔۔۔ شہناز آ آ ه ه ه " کیآواز نکلی ۔۔۔ شہناز ویسے ہی فارغ ہونے کے قریب تھی جبکہ آصف
اوپرنیچے اٹھ کر اپنے بھانجے پر جھٹکے مار رہی تھی ۔۔۔ جبکہ اپنے اوپر
جھٹکے کھاتی خالہ آصف کو بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔ شہناز خالہ
اپنےبھانجے کا لن اپنی پھدی میں لیے جھٹکے کھارہی تھی جبکہ اس کے ممے
اچھل اچھل کر گر رہے تھے ۔۔۔ آصف کے لیے یہ منظر بے حد خوبصورت تھا ۔۔۔
تبھی ایک دم آصف کو اپنا لن خالہکی پھدی میں جکڑتا ہوا محسوس ہوا اور شہناز
کے جھٹکوں کی رفتار بھی شدید تیز ہوگی ۔۔۔ آصف نےاپنے دونوں ہاتھوں سے
خالہ کے مموں کو پکڑ لیا اور نیچے سے خود بھی جھٹکے مارتے ہوئے خالا کا
ساتھ دینے لگا ۔۔۔۔۔کچھ ہی لمحوں میں شہناز اور آصف دونوں فارغ ہونے لگے ۔۔۔
آصف اپنی ساری منی خالہ کے اندر نکالتا گیا جبکہ شہناز اپنے بھانجے کے لن پر
فارغ ہوتے ہوے اسے کے اوپر لیٹتی گئی ۔۔۔ شہناز کو تو یاد بھی نہیں تھا کہ
آخری بار اسے اس قدر مزه کب آیا تھا کیونکہ آصف کا لن اپنے خالو سے کہیں
زیاده بڑا تھا ۔۔۔ لیکن ایک بات تو طے تھی کہ شہناز نے اپنے طور پر یہ فیصلہ
کرلیا تھا کہ آج جو کچھ بھی ہوا ہے یہ آخری بار نہیں تھا ۔۔۔ یہ مزه اس قدر شدید
تھا کہ شہناز کو لت لگ چکی تھی ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف آصف نے پہلی بار کسی
عورت کو چھوا تھا یا اس کے ساتھ سیکس کیا تھا ۔۔۔ وه عورت بھی اس قدر
خوبصورت ' حسین اور سیکسی جسم کی مالک اور اس کی اپنی سگی خالہ تھیں
۔۔۔۔۔شہناز نے آصف کا لن اپنی پھدی سے نکالا اور کپڑے سے اچھی طرح صاف
کرنے کے بعد آصف کےساتھ بیڈ پر لیٹ کر اسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ آصف نے
اپنی خالہ کے گلے لگتے ہی ان کے ممے کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا
جب کہ شہناز بہت پیار سے اپنے بھانجے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنےلگی ۔
۔خالہ شہناز نے آصف کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔۔شہناز : "
آصف بیٹا تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری خالہ اتنی ہی کوئی چالو عورت ہے کہ کسی
کے ساتھ بھی سو جائے گی ۔۔۔ یہ زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ میں تمہارے خالو
کے علاوه کسی کے ساتھ سیکس کیا ہے ۔۔۔ یہ تو بس اکیلے ره کر میں اب تھک
چکی ہوں اور اوپر سے تم ہو ہی اتنے پیارے کہمجھ سے رہا ہی نہیں گیا ۔۔۔ اتنے
عرصے سے تمہارےخالو گھر نہیں آئے تو تم خود ہی سوچو آخر میں جاؤں تو
جاؤں کہاں جب جسم کی بھوک اتنی زیاده بڑھ جاتی ہے تو ۔۔۔ بس تم یہ بات کبھی
کسی کو بھی نہ بتانا یہ ہم دونوں کا راز ہی رہے گا ۔۔۔ اوربدلے میں تم جب چاہوں
اپنی خالہ سے پیار کر سکتے ہو ۔۔۔ تمہیں بھی بہت مزه ملے گا اور میرے بھی
جسم کی پیاس بجھتی رہے گی ۔۔۔ "۔۔آصف نے اپنی خالہ کے ممے چوستے ہوئے
ایک بار سر اٹھایا اور بولا ۔۔آصف : " آپ پریشان نہ ہوں خالہ میں یہ بات کسی کو
بھی نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ اور اب تو میں روز ہی آپ کے گھر آؤں گا اور جی بھر کر
ہم دونوں چدائی کریں گے ۔۔۔ میرا تو دل ہی نہیں بھر رہا آپ کے ممے چوسنے
سے ۔۔۔ اوپر سے آپ ہیں ہی اتنا خوبصورت اور سیکسی میں تو روز ہی پہنچ
جاؤں گا آپ کی پھدیمارنے کے لیے ۔۔۔ "۔آصف یہ بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑا
جبکہ خالہ بھی اس کی بات سن کر ایک قہقہ لگا کر بولیں ۔۔۔۔شہناز : " تم بھی
کسی سے کم نہیں ہو میری جان ۔۔۔ آج تم نے خالہ کی پھدی جس طرح سے ماری
ہے میرا بس چلے تو میں تمہیں اپنے بستر سے نکلنے ہی نہ دوں ۔۔۔ بس تو یہ
سمجھو تمہیں خالہ کی طرف سے مکمل چھوٹ ہے تمہارا جب دل کرے تو تم آکر
خالہ کو چود سکتے ہو ۔۔۔ تمہاری خالہ کی پھدی کو ہر وقت اب تمہارا ہی انتظار
رہے گا ۔۔۔ "۔۔خالہ کے منہ سے پھدی کی بات سن کر آصف نے خالہ کی پھدی پر
ہاتھ رکھ کر دبایا اور ان کے ممے کو چوم کر بولا ۔۔آصف : " خالہ اگر آپ برا نہ
مانیں تو آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔ "۔شہناز : " میری جان اب تمہیں کسی بھی
بات کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے جو دل میں آتا ہے پوچھ لو ۔۔۔ "۔۔آصف
خالہ کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔آصف : " آپ نے کہا نہ کہ خالو اتنے
عرصے سے گھرنہیں آئے تو آپ کے جسم کی پیاس اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آپ
سے برداشت کرنا ناممکن ہو گیا تھا ۔۔۔ تو آپ اپنی پیاس بجھانے کے لیے کیا کرتی
تھیں ۔۔۔ اور میرے ابو بھی تو اتنے عرصے سے نہیں آئے تو کیا امی کی بھی
پیاس اس قدر شدید ہو گی اور وه کیا کرتی ہوں گی ؟؟؟ "۔۔اپنی پھدی پر اپنے
بھانجے کا ہاتھا پھرتے ہوئے محسوس کرکے شہناز بالکل مدہوش ہونے لگی تھی
۔۔۔ شہناز نے آصف کو گلے سے لگایا اوراپنی مدہوش ہوتی آواز میں بولی ۔۔شہناز
Wait next part
0 Comments