Ad Code

Taras pyar part 3

 تراس (پیاس)

قسط :3



وہ جو کوئی بھی تھا۔۔۔ وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے عظمیٰ باجی کے مین گیٹ کی طرف لے گیا ۔۔اور وہاں پہنچتے ساتھ ہی وہ اپنی کرخت آواز میں ۔۔میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔خبردار اگر تم نے کوئی حرکت کی تو۔۔۔!!!!!!!!!۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے سامنے کھڑا کیا اور دانت پیستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ خانہ خراب کا بچہ۔۔۔ انار خان کے ہوتے ہوئے تم نے اس محلے میں چوری کی جرات کیسے کی؟ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے منہ پر لپٹی ہوئی چادر کو کھینچ کر نیچے کر لیا۔۔۔ اور ۔۔پھر جیسے ہی اس کی نگاہ میرے چہرے پر پڑی ۔۔۔وہ۔۔۔ ایک دم پریشان ہو گیا ۔۔۔ اور مجھے دیکھ کر حیرت بھرے لہجے میں کہےے لگا۔۔۔ ۔۔۔ہما ۔۔۔ میم صاحب آآآآآآپ ۔۔؟؟؟؟؟؟ آپ ادھر کیا کر رہی تھی؟؟ ۔۔ یہ ہمارےمحلے کا سیکورٹی گارڈ تھا ۔انار خان ۔۔جس کے سامنے میں اس وقت مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔۔۔حقیقتاً وہ مجھے اس حلیئے میں دیکھ کر اچھا خاصہ خاصہ پریشان ہو گیا تھا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ میرے اس عمل کو کیا نام دے؟؟ ۔وہ کچھ دیر تک تو۔۔۔سوچتا رہا پھر ۔ تنگ آ کر وہ مجھے سے بڑی سختی سے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔سچ سچ بتاؤ کہ تم ادھر کیا کرنے آئی تھی؟ ۔۔ اور کھڑکی سے لگی کیا کر رہی تھی؟ مجھے پر اس وقت اس قدر گھبراہٹ اور شرمندگی طاری تھی کہ میں نے اس کے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔۔۔اس لیئے میں۔۔ اس کے سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے چپ چاپ کھڑی رہی اس نے چند سیکنڈ تک میرے جواب کا انتظار کیا پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور عظمیٰ کی کھڑکی کے پاس لے گیا ۔۔۔اور میرے ساتھ ہی کھڑے ہو کر کھڑکی کی دوسری طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس وقت وہاں کی صورتِ حال یہ تھی کہ عظمٰی باجی باہر کے حالات سے بے خبر ۔۔۔گھوڑی بنی ہوئی تھی اور بھا اس کو پیچھے سے چود رہا تھا۔۔۔۔ اور اتفاق ایسا تھا کہ دونوں کے چہرے دوسرے طرف( ہمارے بر عکس دوسری سائیڈ پر) ہونے کی وجہ سے انار خان ان کو ٹھیک سے نہ پہچان نہ سکا۔( یا اگر اس نے پہچان بھی لیئے تھے تو اس نے مجھ پر کچھ ظاہر نہ کیا تھا)۔۔کھڑکی سے لگ کر اس نے بس ایک جھلک ہی ان کی دیکھی اور پھر اس نے مجھے بازو سے پکڑا ۔۔۔ اور پہلےکی طرح کھڑکی سے دور لے جا کر بڑے غصے میں کہنے لگا اچھا تو تم یہ گندہ سین دیکھ رہی تھی ۔؟ اور کہنے لگا اپنی عمر دیکھو اور کام دیکھو ۔۔۔ ۔۔۔تم کو ایسی چیزیں دیکھتے ہوئے شرم نہیں آتی ۔۔۔ ؟ اُس ٹائم وہ بڑے غصے میں لگ رہا تھا ۔۔۔ پھر پتہ نہیں اس کو کیا ہوا کہ اس نے دوبارہ مجھے بازو سے پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔صبر کر ۔۔۔۔ میں تمھارے کرتوت میاں صاحب (ابا) کو بتاتا ہوں ۔۔ ابا کو نام سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے اور میں نے بڑی پریشانی سے کہا ۔۔۔ پلیزززززز ۔۔ خان صاحب ایسا نہ کریں۔۔ ۔۔۔ تو وہ اسی درشت لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔ دیکھو تمھارا ۔۔والد کس قدر شریف آدمی ہے اسی طرح تمہار والدہ اور گھر کا دوسرا لوگ کتنے اچھے ہیں اور ایک تم۔۔ہو کہ لڑکی ہو کر بھی۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنا فقرہ ادھورا چھوڑا اور ۔۔۔مجھے بازو سے پکڑ کر کہنے لگا ۔۔۔تم ابھی میرے چلو ۔۔۔ میں تمھارے والد کو سب حقیقت بتاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔اورمجھے پکڑ کر اپنے ساتھ زبردستی لے جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میری حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔ اور مجھے گھر کےساتھ ساتھ اب۔۔۔ عظمیٰ باجی کے گھر کا بھی ڈر لگنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میر ے اندازے کے مطابق اس وقت تک بھا کو عظمیٰ باجی کی چدائی سے فارغ ہو جانا چاہیئے تھا ۔۔۔ پھر میں سوچنے لگی کہ اگر اوپر سے بھا ۔بھی آ گیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ یہ سوچ کر میری تو جان ہی نکل گئی اور میں نے بڑے ہی عاجزانہ لہجے میں خان صاحب سے درخواست کی کہ خان صاحب پلیزززززززززز۔۔ مجھے چھوڑ دیں آ ئیندہ میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گی۔۔۔ میرا لہجہ اتنا عاجزانہ تھا کہ چلتے چلتے خان وہیں رُک گیا ۔۔ اور بازو سے پکڑے پکڑے دوبارہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔مجھے گیٹ کی اوڑھ میں لے گیا ۔۔ یہاں آ کر اس نے میرا بازو چھوڑا ۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔ اگر تم کہتی ہو تو ٹھیک ہے۔۔۔ ہم تم کو تمھار ا گھر نہیں لے جاتا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ لیکن بدلے میں تم ہم کو کیا دے گا؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ آپ جتنے پیسے کہتے ہیں میں دینے کو تیار ہوں ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر ۔۔۔ پراسرا ر لہجے میں بولا۔۔۔۔ اور اگر ہم تم سے ۔۔۔ پیسے نہ لینا چاہوں تو۔۔؟ خان صاحب کی یہ بات سُن کر میں تھوڑی سی پریشان ہو گئی اور خان صاحب کی طرف منہ کر کے بولی ۔۔وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔ خان صاحب پھر آپ کیا چاہتے ہو؟۔۔آپ کو جو چاہیئے میں دوں گی۔۔ تو وہ بدستور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنےلگا۔۔۔ سوچ لو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا جی میں نے سوچ لیا ہے ۔۔ آپ بس اپنی ڈیمانڈ بتاؤ؟ ۔۔ میری بات سُن کر اس نے بڑ ی ہی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔اور اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ اس بات پہ چپ رہنے کے لیئے تم نے ہم کو خوش کرنا ہو گا ۔۔۔۔ ۔۔۔ خان کے منہ سے نکلی ہوئی یہ بات میرے بلکل بھی پلے نہ پڑی اور میں نےاس سے کہا ۔۔۔ آپ کو کیسے خوش کرنا ہو گا؟؟۔۔۔ ۔۔۔ تو پہلی دفعہ میں نے خان کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی ننگی ہوس دیکھی ۔۔۔اس نے میری طرف بھوکی نظروں سے دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئےکہنے لگا۔۔۔ویسے ہی خوش کرنا ہو گا جیسا کہ ۔۔۔ (اس نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) وہ بی بی لوگ ۔۔۔اپنے دوست کو خوش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ خان کی بات سُن کر میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی ۔۔۔ اور پھر پتہ نہیں کہاں سے اچانک ۔۔ ایک دم۔۔۔۔سے بہت ساری شہوت میرے من میں اترآئی۔۔۔ جو فوراً ہی میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی خان سے چُدنے کی مجھ میں شدید خواہش پیدا ہو گئی۔۔۔ اوریہ خواہش اس قدر شدید تھی ۔۔کہ لمحے کے ہزراویں حصے میں ۔۔میری چوت ۔ نیچے سے گیلی ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن میں نے اپنی اس حالت کی بھنک خان صاحب کو نہ پڑنے دی ۔۔۔۔ اور بظاہر بڑی شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہو ؟ آپ ہوش میں تو ہو۔۔۔۔ تو میری بات سُن کر اس نے دوبارہ سے میرا بازو پکڑا اور کہنے لگا۔۔۔ خوچہ ٹھیک ہے۔۔۔ اگر تمھارا مرضی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔ لیکن ہم تمھارے والد کو یہ بات ضرور بتائے گا۔۔۔۔ اور مجھے لیکر چلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یہاں میں نے پھر تھوڑا سا ڈرامہ کیا ۔اور اس سے کہنے لگی دیکھو خان آپ کو جتنے پیسے چاہیئں میں دینے کے تیار ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔پلیزززز۔۔۔۔۔۔ جبکہ اندر سے دل تو میرا یہی چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ یہ بندہ ابھی کے ابھی میرے اندر اپنا لن ڈال دے ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے میں اس کو اپنی اندرونی حالت کا کسی صورت بھی نہیں بتا سکتی تھی۔۔۔ ۔دوسری طرف خان مجھے بازو سے پکڑ کر جب تھوڑا دور لے گیا تو۔۔ پھر میں نے سوچا یہی وہ وقت ہے ۔۔۔اور یہ سوچ کر میں خان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک دم رُک گئی ۔۔۔ اور ۔۔سوچنے کی اداکاری کرنے لگی۔۔۔اور کچھ سوچنے کے بعد میں نے ۔۔ اس کے سامنے ایسا شو کیا کہ جیسے میں یہ کام انتہائی ۔۔۔۔ مجبوری کے عالم میں کر رہی ہوں اور اپنا سر جھکا کر اس سے کہنے لگی ۔وہ خان صاحب۔۔وہ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ میری رضا مندی جاننے کو بے تاب تھا اور لیئے جب میں سر جھکائے ۔۔وہ وہ ۔کی گردان ۔ کرنے لگی ۔۔تو ان نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا چہرہ اوپر کیا ۔۔۔۔اور اپنی ہوس بھری نظریں مجھ پر گاڑتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی بولو ۔۔۔ ہم کو اور بھی کام ہیں ۔۔۔ تو میں نے ہارے ہوئے جواری کی طرح ۔۔۔ مرے ہو ئے لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ اور بات۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ کوئی مجبوری نہیں ہے بی بی جی۔۔۔۔۔۔ اگر تم نہیں کرنا چاہتی تو تمھارا مرضی۔۔ ہم تم کو مجبور نہیں کرے گا ۔۔۔ پھر مجھے دھمکی لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ ہم سب مہمانوں کے سامنے تمہارا یہ بات بتائے گا۔۔ ۔۔۔اور ایک دفعہ پھر مجھے گھسیٹنے لگا۔۔۔۔۔آخر تھک ہار (بظاہر) کر میں نے خان کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ۔۔ آپ مجھے کہاں لے جائیں گے۔۔ ؟ میری بات سُن کر خان کی باچھیں کھل گئیں اور بولا ۔۔۔ ہمارے کمرےمیں چلو ۔۔۔ تو میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ آپ کے گھر ؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔ڈرنے کا کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ تم ۔۔ ہمارا ساتھ ہمارے کمرے میں ۔چلو۔۔۔ ۔۔۔ اس وقت سب سے محفوظ جگہ وہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ بنا کوئی بات کیئے مجھے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔۔۔ اور سارے راستے ۔۔ میرے جزبات ۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس اچانک سیکس کے بارے میں سوچ سوچ کر بے قابو ہوتے جا رہے تھے ۔۔اور نیچے میری پھدی پر چیونٹیاں سی رینگ رہیں تھیں ۔۔۔اور ۔گرم تو میں بہت پہلے عظمیٰ باجی کا سین دیکھ کر پہلے سے ہی ہو چکی تھی ۔۔ پھر اپنے ساتھ ۔۔سیکس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں ۔۔۔ خان کا لن گھوم گیا ۔۔۔اور میں سوچنے لگی ۔۔۔ کہ پتہ نہیں اس کا لن کتنا بڑا ۔اور کتنا موٹا ۔۔ہو گا۔۔۔۔ اور جوں جوں میں خان کے لن کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی توں توں ۔۔۔۔۔ میں اندر ہی اندرمزید گرم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ خان کے لن کے بارے میں سوچتے سوچتے ۔۔۔ مجھے پھر سے عظمیٰ باجی یاد آگئی ۔۔۔ عظمیٰ باجی کا یاد آنا تھا کہ ۔۔ میرے زہن میں عظمیٰ باجی کا بھا سے کیا گیا سیکس سین ایک دفعہ پھر گھوم گیا ۔۔اور عظمیٰ کی پھدی اور بھا کے لن کا سوچتے ہی ۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔گرم سے گرم تر ہونے لگی۔۔۔۔ اس طرح ۔۔۔۔ خان کے گھر تک پہنچتے ۔۔ پہنچتے ۔۔۔میری پھدی مکمل طور پر بھیگ چکی تھی۔۔اور مجھ سے ۔کھل بند ہو ہو کر ۔۔خان کے لن کا تقاضہ کر رہی تھی۔۔۔۔۔ انار خان سکیورٹی گاڑد جسے ہم سب خان صاحب ہی کہتے تھے علاقہ غیر سے اس کا تعلق تھا اور ۔ہمارے محلے میں ہی رہتا تھا اور اسے رہنے کےلیئے ۔۔ ہمارے ہی محلے ہی کے ایک شخص جوکہ وکیل تھا ۔۔۔ نے اس کو اپنی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر کا ایک کمرہ دیا ہوا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ اور یہ سرونٹ کوارٹر ان وکیل صاحب کے گھر کے عین پیچھے واقعہ تھا۔اور اس سرونٹ کوارٹر تک پہنچنے کے لیئے ایک لمبی سی راہداری سے گزرنا پڑتا تھا۔جو کہ انہوں نے نوکروں کی آمد و رفت کے لیئے ایک بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ اور یہ راہداری چونکہ وکیل صاحب کے بیڈ روم کے پاس سے گزرتی تھی۔۔اور وہاں سے گزرنے والے ہر فرد کو وہ لوگ اندر سے باآسانی آتے جاتے دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔چنانچہ عظمیٰ باجی کے گھر سے چلتے ہوئے جب ہم دونوں وکیل صاحب کے گھر کے پاس پہنچے تو دیکھا ۔۔۔ کہ وکیل صاحب کے گھر کی ساری لائٹیں آن تھیں ۔۔ جن کو دیکھ کر میں پریشان ہو گئی اور خان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن میں نے خان صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی پریشانی کے آثار نہ دیکھے۔۔۔ وہ وکیل کے گھر کے پاس جا کر رُک گیا اور مجھے ایک طرف کر کے کہنے لگا میں اندر جا کر ان کا مین سوئچ آف کروں گا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی اندھیرا ہو ۔۔۔ تم نے گیٹ کے ساتھ والی راہداری سے ہوتے ہوئے سامنے کے پہلے کمرے میں چلے جانا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ جیسا ہی تم گیٹ کراس کرو گے میں مین سوئچ کو آن کر دوں گا ۔۔۔ ۔۔۔اس لیئے تم نے جتنی جلدی ہو سکے اندھیرا ہوتے ہی تیزی سے اندر جانا ہے۔۔۔یہ کہہ کر وہ وکیل صاحب کے گھر جانے لگا۔ اور جاتے جاتے ۔۔۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور دبی دبی۔۔۔۔ آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ اور اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی تو۔۔۔ پھر تیرا خیر نہیں۔۔۔۔ اب میں اس کو کیا بتاتی کہ میں خود اس سے چدنے کو تیار ہوں ۔۔ ورنہ بھاگنا ہوتا ۔۔۔۔ تو میں کب کی بھاگ چکی ہوتی ۔۔۔لیکن اس کی بات سُن کر میں چپ رہی ۔۔ وہ کچھ دیر تو میری طرف دیکھتا رہا ۔۔۔پھر وکیل صاحب کے گھر میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔


جیسے ہی خان صاحب نے مین گیٹ کراس کیا۔۔۔ اس کے چند یہی سیکنڈ کے بعد ۔۔۔ اچانک وکیل صاحب کی ساری کوٹھی اندھیرے میں ڈوب گئی۔۔۔ ادھر میں پہلے سے ہی تیار تھی اس لیئے جیسے ہی اندھیرا ہو ا ۔۔۔ میں تیزی سے گیٹ کے اندر داخل ہوئی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی۔۔۔ وکیل صاحب کی راہداری کو عبور کرتے ہوئے ۔۔۔ سرونٹ کوارٹر کے سامنے پہنچ گئی ۔۔۔ اس وقت میرے نیچے آگ لگی ہوئی ۔۔۔اور میں اپنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ۔۔۔ خان صاحب کا کمرہ دیکھنے لگی ۔۔ ۔۔۔ لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے خان کا کمرہ نظر نہ آ رہاتھا ۔۔۔۔لیکن پھر چند ہی سکینڈ کے بعد وکیل صاحب کے گھر کی ساری لائیٹس جل اُٹھیں ۔۔اور پھر اگلے چند لمحوں میں خان میرے پاس کھڑا تھا ۔۔۔۔ اور پھر وہ اپنے کمرے کی طرف گیا اور دروازے کی کنڈی کھول کر مجھے اشارہ کیا اور میں بھاگ کر اس کے کمرے میں پہنچ گئی۔۔۔ جیسے ہی میں اس کے کمرے میں پہنچی۔۔۔اس نے جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا کر میری طرف دیکھتے ہوئے مجھے ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ ۔۔۔۔کرسی پر بیٹھ کر میں خان کے کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔۔۔ جس کے وسط میں ایک چارپائی پچھی ہوئی تھی ۔۔۔ اور چارپائی پر ایک میلی سی تلائی پڑی تھی ۔۔۔اور ایک طرف ایک گندہ سا کولر بھی پڑا تھا ۔۔۔اور کمرے کے کونے میں ۔۔۔ایک گیس والا چولہا بھی دھرا تھا اور جس کے پاس ایک گندی سی کیتلی اور اس کے پاس دو تین کپ چائے کی پیالیاں پڑیں تھیں ۔۔۔ جبکہ کمرے کے دوسری طرف ایک ٹین کا صندوق رکھا ہوا تھا ۔۔۔ جس کے نیچے دو تین اینٹیں رکھ کر اسے اونچا کیا گیا تھا۔۔۔۔ ابھی میں خان کے کمرے کا مزید جائزہ لے ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں اس کی آواز گونجی ۔۔۔وہ کہہ رہا تھا ۔۔ کیا دیکھ رہا ہے میم صاحب یہ ہم غریب لوگوں کا ٹھکانہ ہے پھر وہ میرے نزدیک آیا ۔۔۔ اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میں بھی کرسی سے اُٹھ گئی۔۔۔ اور اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک مجھے اپنے سینے سے لگا کر دباتا رہا۔۔۔ جیسے ہی اس کی باڈی میری باڈی کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔۔ میرے سارے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔۔۔ لیکن میں نے اس کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔ اور اس کے گلے سے لگی رہی۔۔۔۔


  گلے سے لگانے کے کچھ در بعد اس نے اپنا منہ نیچے کیا اور دھڑا دھڑ میرے گالوں کے بوسے لینے لگا۔۔۔ اس کے انداز کی گرمی دیکھ کر ۔۔ میں بھی۔۔۔۔ موڈ میں آتی چلی گئی۔۔۔۔ لیکن بوجہ اس سے اس کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔ پھر اس کے کچھ دیر بعد اس نے مجھے خود سے الگ کیا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھ بڑھا کر ۔۔۔ قمیض کے اوپر سے ہی میرے دونوں مموں کو پکڑ لیا ۔۔اور ان کو دبانے لگا۔۔۔ وہ اس انداز میں میں میرے ممے دبا رہا تھا کہ۔۔۔۔ جس سے مجھے مزہ مل بھی مل رہا تھا اور ہلکا سا درد بھی ہو رہا تھا۔۔۔پھر میرے مموں کو دباتے ہوئے وہ کہنے لگا۔۔۔ واہ۔۔۔ میم صاحب تمہارے مما تو بہت سخت ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے گال کو چوم لیا ۔۔۔اور پھر اس نے میرے ممے بھی چھوڑے اور اپنی شلوار اتارتے ہوئے بولا ۔۔۔تم بھی اپنا ۔۔۔شلوار اتارو۔۔۔ لیکن میں ویسے ہی کھڑی رہی۔۔۔ وہ جب اپنی ساری شلوار اتار چکا تو ۔۔ میری طرف دیکھ کر بولا ۔۔ جلدی سے اپنی شلوار اتارو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے جان بوجھ کر کچھ ہیچر میچر کی ۔۔۔اور پھر اس کے دوسری تیسری دفعہ کہنے پر میں نے بھی اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی ۔اس نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور میرے سامنے اس کو لہرانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔ میرا خیال تھا کہ خان صاحب کا لن جیدے جتنا تو نہیں لیکن اس سے کم کیا ہو گا ۔۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا ۔۔۔ خان کا لن ۔۔جیدے کے لن سے ۔ کافی پتلا تھا ۔۔۔ ہاں لمبائی قدرے ٹھیک تھی۔۔۔ اور اس کے لن کی خاص بات یہ تھی۔۔ کہ خان کے لن کا ٹوپا ۔۔۔۔ٹوپا نہیں بلکہ ٹوپی تھی۔۔۔ پتلے لمبے لن کے آگے ایک تیر کی طرح سے نوک دار ۔۔ پتلی سی ٹوپی تھی۔۔۔۔ خان اپنا لن پکڑے پکڑے میرے پاس آیا ۔۔۔۔اس وقت اس کی نظریں میری گوری گانڈ اورموٹی رانوں پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ پھر اس نے میری قمیض کو اوپر کیا۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ میری گانڈ کو دیکھنے لگا۔۔ اور ۔۔ پھر اس پر ہاتھ پھیر کر بولا۔۔۔ اوہ ۔۔۔ میم صاحب تمھارا گانڈ تو چھوکرا لوگوں سے بھی اچھا ہے ۔۔۔ پھر اس نے مجھے نیچے جھکنے کو کہا ۔۔۔ اور جب میں نیچے جھکی ۔۔۔۔ تو اس نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے شروع کر دیئے اور بولا۔۔اُف تمھارا گانڈ کا ۔گوشت ۔ کتنا نرم ۔۔ ہے۔۔۔ بلکل مکھن کی طرح نرم اور ملائم ہے ۔۔۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ اور بولا۔۔۔۔۔ چلو اب کام اسٹارٹ کریں ۔۔۔ اور خود چارپائی پر بیٹھ کر کہنے لگا۔۔۔۔ چلو ۔۔ میم صاحب ۔۔۔ خود ہی میرے لوڑے کو اپنی گانڈ میں ڈالو۔۔۔ خان کے منہ سے یہ سن کر کہ وہ میری پھدی نہیں بلکہ گانڈ ۔۔۔ مارے گا ۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑی افسردہ ہوئی ۔


۔۔ لیکن ۔۔۔ بولی کچھ نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ بظاہر میں جو بھی کروا رہی تھی ۔۔۔ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ ۔۔۔خان کی بلیک میلنگ کی وجہ سے کروا رہی تھی ۔۔۔۔ اس لیئے مجبوراً ۔۔۔چپ رہی۔۔۔۔ اور اس سے بس اتنا کہا کہ ۔۔۔ خان جی پیچھے سے میرا پہلا موقعہ ہے۔۔۔ اس لیئے پلیززززز۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑا چونک گیا اور بولا ۔۔۔ پہلے کبھی آپ نے پیچھے سے نہیں کروایا ؟؟۔۔۔؟ تو میں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نہیں خان صاحب ۔۔ ۔۔یہ میرا پہلا موقعہ ہے۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ میم صاحب گانڈمارنا اور مروانہ بھی ایک نشہ کے مافک ہوتا ہے۔۔۔ ایک دفعہ جب آپ گانڈ مروانے کا عاد ی ہو گیا نا۔۔۔ تو پھر سب سے پہلے آپ لوڑے کو ادھر ہی ڈلواؤ گی۔اسی طرح جو بھی بندہ گانڈ مارنے کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ پھر گانڈ ہی مارتا ہے ۔۔اس کے بعد وہ چاپائی سے اُٹھا اور میری طرف بڑھتے ہوئے اس نے میرے سامنے اپنی دائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی کو تھوک گاپ کر اچھی طرح سے گیلا گیا اور پھر مجھے جھکنے کا کہا ۔اس کی بات سُن کر میں نے چارپائی کے کنارے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور اپنی گانڈ کھول دی ۔۔۔اتنے میں خان میرے پیچھے آیا اور ۔۔۔ ۔۔میری گانڈ کا معائنہ کرنے لگا پھر بولا میم صاحب اپنے دونوں ۔۔۔ ٹانگوں کو تھوڑا مزید ۔۔کھولو ۔ تو میں اپنی ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔۔ اور تب اس نے میری گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو تھوڑا کھولا اور ۔۔پھر اپنا منہ کو میرے سوراخ کے قریب لے گیا۔۔۔ اور پھر میری گانڈ کے سوراخ پر بھی ڈھیر سارا تھوک لگا دیا۔۔۔پھر وہ اوپر اُٹھا اور ایک دفعہ پھر اپنی درمیانی انگلی کو اپنے تھوک سے گیلا کیا ۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گیلی انگلی کو میری گانڈ کے گیلے سوراخ پر پھیرنے لگا۔اس کا یوں میری گانڈ کے سوراخ پر گیلی انگلی پھیرنا مجھے بڑا اچھا لگا۔۔۔ اور اس کی انگلی ۔۔۔ سے میری گانڈ میں مستی آنے لگی۔۔۔اس کے بعد ۔۔انگلی پھیرتے پھیرتے پہلے اس نے اپنی انگلی کی ایک پور۔۔۔ میرے سوراخ میں داخل کر دی ۔۔۔ اور جیسے ہی اس کی انگلی میری گانڈ کے سوراخ میں داخل ہوئی ۔۔۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک سسکی سی نکلی اور ۔۔۔اور میں سی سی سی۔کرنے لگی ۔۔اور میں نے اپنے سوراخ کے اندر اس کی انگلی کو واضع طور پر محسوس کیا۔۔۔۔ وہ کچھ دیر تک میری گانڈ کے سوراخ میں اپنی انگلی کو گھماتا رہا ۔۔۔۔ پھر اس نے وہ انگلی۔۔۔ باہر نکالی اور مجھے کہنے لگا۔۔۔۔ فکر نہ کرو میم صاحب ۔۔ میں نے تمھاری گانڈ کو اچھی طرح سے معائینہ کر لیا ہے ۔۔۔تمھارا ۔۔ گانڈ کا سوراخ بہت لچکدار ، نرم اور ریشمی ہے ۔۔۔ اور اس کا ساخت ایسا ہے کہ ۔ایک دفعہ جب کوئی لوڑا اس کے اندر داخل ہو جائے گا ۔۔تو کچھ دھکوں کے بعد ۔۔۔تمہارا گانڈ اس لوڑے کے لیئے خود بخود جگہ بنا دے گا اور ۔۔ تم لوڑے کو اپنے اندر لیکر مزہ کرو گی۔اور جو تمھارا گانڈ مارے گا ۔۔۔ اس کو بھی بہت مزہ آئے گا۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔میم صاحب میری اس بات کو مزاق نہ سمجھنا ۔۔ کہ ایک لمبے عرصے سے میں گانڈ مار رہا ہوں ۔۔۔ اور میں گانڈ کی ساخت دیکھ کر اپنے تجربے کی بنا پر ۔۔۔۔۔مجھے متاثر کرنے کے لیئے ۔۔ وہ پتہ نہیں کیا کیا بکواس کرتا جا رہا تھا۔۔۔ اور مجھے اپنے گانڈ مارنے کے تجربوں سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی بکواس پرکوئی کان نہ دھرا ۔۔۔ اور ۔۔ اس انتظار میں تھی کہ کب یہ اپنا لوڑا میرے اندر کرے۔۔۔۔

گانڈ کے بارے میں کچھ دیر تک لیکچر دینے کے بعد اس نے مجھے کہا کہ میم صاحب زرا میرا لوڑا تو اپنے ہاتھ میں پکڑو ۔۔۔ اور میں جو کہ اس کی چارپائی پر گھوڑی بنی تھی وہاں سے اُٹھی اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔ ۔اس کا پتلا سا لن بہت گرم تھا۔۔۔ اور جب میں نے اس کو دبایا تو وہ دب گیا۔۔۔ مطلب وہ کافی ڈھیلا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کا لوڑا پکڑے پکڑے خان کی طرف دیکھا تو وہ میری بات کا مطلب سمجھ کر بولا۔۔۔۔ تم سے بات کرتے ہوئے لوڑا تھوڑا ڈھیلا ہو گیا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ ابھی سخت ہو جائے گا ۔۔۔ تم اس کو تھوڑا دباؤ۔۔۔۔ اور میں اس کے لوڑے کو دبانے لگا۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ اس کا لن مزید سخت ہو گیا ۔۔۔ لیکن اس کے لوڑے میں سخت تناؤ ہرگز نہ آیا تھا۔۔۔ بس تھوڑا ڈھیلا پن تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس بات کا اس سے کوئی ذکر نہ کیا ۔۔۔ا ور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔۔ خان صاحب ۔۔۔ یہ کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ تو وہ بولا۔۔ ٹھیک ہے تم پہلے کی مافک چارپائی پر ہاتھ رکھ لو۔۔۔ اور میں نے دوبارہ سے اپنے دونوں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے پر ٹکائے اور اور پہلے کی طرح اپنی دونوں ٹانگیں کھول دیں۔۔۔ اب خان میرے پیچھے آیا اور ۔۔۔ گھٹنوں کے بل ۔۔۔ بیٹھ گیا۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری گانڈ کو کھول کر اپنا ۔۔۔ لوڑا ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔ لیکن اس سے پہلے اس نے۔۔۔ تھوک کی بجائے اس دفعہ ۔۔ میرے سوراخ کو آئیل سے اچھی طر ح چکنا کر لیا تھا ۔۔۔ اور یہ آئیل اس نے میری گانڈ کے اندر تک لگا دیا تھا۔۔۔ جب میری گانڈ اس آئیل سے اچھی طرح چکنی ہو گئی تھی۔۔۔ تو اس نے اپنے ڈھیلے لوڑے کی پتلی سی ٹوپی ۔۔۔ میرے سوراخ پر رکھی اور ہلکا سا دھکا دیا۔۔۔۔باوجود اس کے میرا سوراخ آئیل سے اچھی طرح سے چکنا ہوا۔۔۔ہوا تھا۔۔۔۔ پھر بھی اس کا لوڑا ۔۔۔ جب میرے سوارخ کے اندر داخل ہوا تو ۔۔۔ درد کی ایک شدید لہر اُٹھی ۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے آری سے میری گانڈ کو چیر دیا ہو۔۔۔ میں نے بہت ضبط کیا ۔۔۔ لیکن میرے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بے اختیار خان سے بولی۔۔۔ اُف خان صاحب بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔ اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔۔۔ تو وہ اپنے لوڑے کو بجائے میری گانڈ سے باہر نکالنے کے ۔۔۔۔اسے ۔۔۔ اندر باہر کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ بس تھوڑا ۔۔سا درد۔۔ اور برداشت کر لو۔۔۔۔ ۔ اس کے بعد ۔۔جب میرا ۔۔۔لوڑا ۔۔تمہارے سوراخ میں رواں ہو جائے گا۔۔۔ تو پھر تم کو مزہ ہی مزہ ملے گا۔۔ تو میں نے درد سے کراہتے ہوئے اس کو جواب دیا کہ۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہیئے ایسا مزہ۔۔۔ تم بس اپنے لوڑے کو میری گانڈ سے باہر نکالو۔۔۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے لوہے اک موٹا سا پائپ میری گانڈ میں دے دیا ہو۔۔۔۔تو خان بولا ۔۔ میم صاحب اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو اپنی چوت کے دانے کو مسلو۔۔۔ اور میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی چارپائی کے کنارے سے ہٹایا اور اسے اپنے دانے پر لے گئی۔۔۔ پھدی پر ہاتھ لگایا تو وہ آگ کی طرح تپی ہوئی تھی اور ڈھیروں ڈھیر پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔ میں نے اپنی پھدی کے اس گرم پانی میں اپنی انگلی ۔۔۔بھگوئی ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس گیلی انگلی کو اپنے پھولے ہوئے دانے پر لے گئی اور اسے مسلنے لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ جیسا کہ خان نے کہا تھا ۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح ہوا۔دانہ مسلنے سے مجھے درد کا احساس کچھ کم ہوا ۔۔۔ اور ۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ جب خان کا لوڑا ۔۔ میری گانڈ میں رواں ہو گیا تھا۔۔۔ تو اب مجھے اس کا گرم لن ۔۔۔ مزہ دینے لگ۔اور میں اپنے دانے کو بے تحاشہ مسلنے لگی۔۔۔۔۔ گو کہ درد اب بھی ہو رہا تھا ۔۔۔ لیکن اب درد سے زیادہ مجھے خان کے لوڑے کا ۔۔ ان۔۔۔ آؤٹ۔۔ مزہ دے ر ہا تھا۔۔۔ اور ابھی خان کو دھکے مارتے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ جیسے ۔۔ میری گانڈ میں ۔۔۔۔ گرم پانی کا سیلاب اتر آیا ہو۔۔۔ خان چھوٹ رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس احساس نے کہ ۔۔۔۔۔ گرم گرم منی میری گانڈ میں داخل ہو رہی ہے ۔۔ مجھے مست کر دیا ا ور میں نے اپنے دانے کو اور بھی تیزی سے مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور ۔۔ میں اپنی گانڈ کو خان کے لوڑے کے ساتھ جوڑ کر بولی۔۔۔ گھسے مارر۔ر۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔اور مارر۔۔۔ میری بات سن کر خان نے اپنی بچھی کھچی طاقت کو جمع کیااور میری گانڈ میں دو چار ذور دار گھسے مارے ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا کہ میری چوت سے بھی گرم پانی کا آتش فشاں نکل رہا ہے ۔۔۔۔اور خان کے ساتھ ہی میں بھی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد خان نے میری گانڈ سے اپنا لوڑا نکلا اور ۔۔۔ کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ میں نے پھرتی سے اپنی شلوار پہنی اور اس کی شلوار کو زمین سے اُٹھا کر پکڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ کہ جلدی کرو ۔۔۔ خان نے بھی شلوار پہنی اور بولا ۔۔۔۔ تم رکو ۔۔۔ میں باہر جا کر پہلے کی طرح مین سوئچ کو آف کرتا ہوں ۔۔۔ باقی تو تم کو پتہ ہی ہے ۔۔۔ میں نے اوکے کہا اور ۔۔۔ایک دفعہ پھر خود کو کالی چادر سے چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ کمرے سے باہر آ کر انتظار کرنے لگی۔۔۔ جیسے ہی۔۔۔ لائیٹ آف ہوئی۔۔۔۔ میں ۔دبے پاؤں چلتے ہوئے ۔۔وکیل صاحب کی کوٹھی سے باہر آگئی۔۔۔۔اور پھر گھر آ کر سکھ کا سانس لیا۔۔۔ پھر اچانک مجھے اپنی گانڈ میں پڑی خان کی منی کا خیال آیا اور میں بھاگ کر واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔ وہاں سے فارغ ہو کر ویسے ہی کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔۔ بھا میدا ۔۔۔ اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔ بھا نے تین چار دفعہ عظمیٰ کی چوت ماری ہو گی پھر خیال آیا کہ خان کی طرح بھا بھی گانڈ کا شوقین ہے کیا پتہ اس نے عظمیٰ کی گانڈ بھی ماری ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پستر پر آ کر دراز ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن چونکہ چار بجے ولیمہ تھا اس لیئے میں آرام سے اُٹھی ۔۔۔ نہا دھو کر باہر نکل گئی۔۔ دیکھا تو اکا دکا ۔۔۔ لوگ اُٹھے ہوئے تھے۔۔۔ میں چلتی ہوئی سیدھی ڈائینگ ہال میں گئی دیکھا تو وہاں لیڈیز کا کافی رش تھا مجھے دیکھ کر اماں بولی۔۔۔ آ جا ہما پتر۔۔۔ناشتہ کر لے ۔۔۔ اور میں اماں کے پاس بیٹھ گئی اور ناشتہ کرنے لگی۔۔۔ ناشتے کے دوران ہی اماں نے ایک کام والی کو آواز دی ۔۔۔ اور بولی۔۔۔ جمیلہ۔۔۔۔ زرا دیکھ کر آؤ کہ دلہن اُٹھی ہے کہ نہیں؟ اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ اگر دلھا دلہن اُٹھے ہوئے تو ان کے لیئے ناشتہ تم نے لیکر جانا ہے ۔۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔ کچھ دیر بعد جمیلہ ۔۔۔ واپس آئی اور اماں سے کہنے لگی۔۔۔ باجی ۔۔۔ وہ دونوں اُٹھے ہوئے ہیں اور دلہن ۔۔۔واش روم میں گئی ہے تو اماں مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ۔۔۔ تم نے ان دونوں کا ناشتہ لیکر چلی جانا ۔۔۔ اور ناشتہ کرنے کے بعد میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ جمیلہ کو اماں نے دوبارہ سے ان کا پتہ کرنے کو بھیجا ۔۔۔ تو اس نے واپس آ کر کہا کہ بھائی کہہ رہے ہیں کہ ناشتہ لے آؤ۔۔ میں نے ناشتے والی ٹرے جمیلہ کو پکڑائی اور خود اس کے ساتھ چل پڑی وہاں جا کر میں نے دروازے پر ناک کی ۔۔۔ اور پھر اندر گھس گئی۔۔۔ دیکھا تو دلھا دلہن بڑے موڈ میں بیٹھے تھے ۔۔۔ اور عطیہ بھابھی کافی خوش نظر آرہی تھی۔۔۔ تو نے یہ بات کا اندازہ لگایا کہ فائق بھائی نے بھابھی کی اچھی دھلائی کی ہو گی۔۔۔ میں نے ان کے آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ بھابھی جی ناشتہ کر لو کچھ دیر بعد۔آپ کو تیار کرنے کے لیئے ۔۔ بیوٹیشن بھی آنے والی ہو گی ۔۔۔ اور وہاں سے اُٹھ آئی۔۔۔اور کچھ دیر بعد بیوٹی پارلر والی بھی آ گئی اور میں اسے لیکر بھابھی کے کمرے میں چلی گئی اور وہ بھابھی کو تیار کرنے لگی ۔۔۔اسی طرح بھاگم دوڑ میں ولیمے کا ٹائم ہو گیا ۔۔۔ اور ہم لوگوں نے چونکہ ولیمے کا انتظام اپنے محلے میں ہی کیا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے ابا اور خاندان کے باقی بزرگ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔اور اب انتظار تھا تو ۔۔ تو لڑکی والوں کا کہ وہ لوگ آئیں تو ۔۔ ولیمہ شروع ہو اور میں عطیہ بھابھی کو لیکر سٹیج پر جاؤں ۔۔۔۔ کافی انتظار کے بعد بھابھی کے گھر والے آ گئے ۔۔۔ بھابھی کی رشتے داروں خاص طور پر بھابھی کی قریبی دوستوں نے بھابھی کے کمرے میں ہلہ بول دیا ۔اور پھر کمرے میں موجود باقی لڑکیوں کو باہر بھیج دیا ۔اور کمرہ بند کر دیا ۔ جس وقت یہ لیڈیز بھابھی کے کمرے میں داخل ہوئیں اس وقت میں ہاتھ دھونے کے لیئے واش روم میں تھی۔۔اس لیئے میں باہر جانے سے بچ گئی تھی ۔۔۔۔ واش روم کا دروازہ کھلا تھا اور اند ر کی ساری آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔ ہاتھ دھو کر جب میں تولیہ کی طرف بڑھی جو کہ ان کے واش روم کے دروازے کے پاس لٹکا تھا ۔۔۔تو اندر سے مجھے بھابھی کی کسی بے تکلف سہیلی کی آواز آئی۔۔۔ وہ بھابھی سے رات کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔ کہ سہاگ رات کیسی رہی۔۔۔ سہاگ رات کو سن کر میں ٹھٹھک گئی اور دروازے سے کان لگا کر۔۔۔ ان کی باتیں سننے لگیں۔۔۔۔ اب وہی لڑکی ۔۔۔۔ کہہ رہی تھی ۔۔۔ عطیہ سہاگ رات کے بارے میں بتاؤ نہ پلیزز۔ پہلے تو بھابھی نے ان کو ٹالنے کی بڑی کوشش کی ۔۔۔ لیکن وہ جو بھی تھیں بھابھی کی کزنز اور دوست وہ ۔۔۔ تھیں بڑی ڈھیٹ ۔۔۔۔ بار بار ایک ہی بات پوچھ رہیں تھی آخر مجبور ہو کر ۔۔۔ بھابھی کہنے لگی۔۔۔ اوکے یار پوچھو ۔۔۔ بتاتی ہو تو ایک آواز سنائی دی۔۔۔ سہاگ رات کسیی گزری؟ ۔۔۔ تو مجھے بھابھی کی شرمیلی سی آواز سنائی دی۔۔جی سہاگ رات بہت اچھی گزری۔۔۔ تو ان میں سے ایک کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔۔ درد ہوا تھا۔۔۔۔ ؟ تو میرے خیال میں بھابھی نے سر ہلا دیا ہو گا۔۔۔۔تو ۔۔۔ مجھے وہی آواز سنائی دی۔۔ اوئی۔ماں۔۔۔۔ پھر اس کی تجسس بھری آواز گونجی۔۔۔۔ کتنا درد ۔۔ہوا تھا ؟۔۔۔۔تو بھابھی نے ہنس کر کہا ۔۔۔ شادی کر لو ۔۔ خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنا درد ہوتا ہے ۔۔۔اور وہ لڑکی ہنس پڑی۔۔۔ جب سے یہ سہاگ رات والی بات شروع ہوئی تھی کمرے میں بڑی خاموشی سی چھائی تھی۔۔۔ اور ساری لڑکیاں ۔۔ بڑھے دھیان سے ۔۔۔۔ان کی باتیں سن رہی تھیں۔۔۔ میرے خیال میں ان لیڈیز کی کل تعداد دو یا تین ہو گی  

اور میرے خیال میں یہ لڑکیاں بھابھی کی بڑی ہی خاص دوست تھیں۔۔۔ جو اس سے اتنی بے تکلفی سے سہاگ رات کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔۔۔پھر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔۔۔ اور وہ کہنے لگی۔۔۔ اچھا یہ بتا ۔۔۔۔ دلہا بھائی نے ۔۔ کتنی شارٹس ماریں؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ کمرے میں کچھ دیر تو سناٹا رہا ۔۔۔ پھر اسی آواز نے دوبارہ سے پوچھا ۔۔۔ بول نا ۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگیں ۔۔۔ کیا بولوں ۔۔۔۔ بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔۔تب وہی آواز آئی۔۔۔آہا آہا ہا۔۔۔۔ تو جناب صاحبہ یہ بے شرمی اس وقت کہاں گئی تھی ۔۔۔۔ جب میری شادی ہوئی تھی اور اسی طرح تم سب میرے کمرے میں آ دھمکی تھیں۔۔۔ اور یہی سوال تم نے مجھ سے کہاتھا۔۔۔ تب تو میں نےسب بتا دیا تھا۔۔۔۔اور تم ہو کہ۔۔۔ نخرہ کرتی جا رہی ہو۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ سیدھی طرح ہمارے سوالوں کے جواب دو۔۔۔ ورنہ تم جانتی ہو کہ ہم لوگ تم سے دوسری طرح بھی یہ بات پوچھ سکتیں ہیں۔۔۔۔ اس کی تقریر سُن کر بھابھی کہنے لگی ۔۔یار ایک تو تم ایک دم غصہ کر لیتی ہو۔۔۔ میں تو مزاق کر رہی تھی۔۔۔۔ تو وہی آواز کہنے لگی۔۔۔ عطیہ بیگم میں تم کو اچھی طرح سے جانتی ہوں تم بڑی گھنی ہو ۔۔۔اور مزاق میں بات ٹال رہی ہو۔۔۔ لیکن سن لو ہم ٹلنے والیاں نہیں ہیں۔۔۔ اور باقی لیڈیز کی بھی آواز سنائی دی ۔۔۔ جی بلکل ۔۔۔۔ ہم بات سنے بغیر نہیں ٹلیں گی۔۔۔ تب بھابھی نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ جی پوچھو ۔۔۔ تو وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔۔۔اور بولیں۔۔۔۔ ہاں جی بتاؤ ۔۔۔ فائق بھائی نے کتنی شارٹس ماریں ۔۔۔ تو بھابھی نے شرمیلی سی ہنسی سے بولیں۔۔۔ جی تین۔۔۔ شارٹس ماریں آپ کے دلہے بھائی نے۔۔۔ اس پر ایک اور آواز گونجی ۔۔۔ ہائے ۔۔ دیکھو نا اس معصوم سی جان کا شارٹیں مار مار کر کیا حال کر دیا ہے۔۔۔۔تبھی ایک اور آواز سنائی دی اور یہ پہلی دفعہ بولی تھی ۔۔۔ وہ بھابھی سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ ساری شارٹس ایک ہی سٹائیل میں تھیں یا۔۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مختلف۔۔۔تو وہ کہنے لگی مختلف کی بچی۔۔۔۔۔ تفصیل سے بتاؤ۔۔۔ تو بھابھی بولی۔۔۔ پہلی دو۔۔ لٹا کر (یعنی کہ ٹانگیں اُٹھا کر) اور تیسری ۔۔۔ڈوگی میں۔۔۔ تو اس پر وہی لڑکی جو کہ ان میں شادی شدہ تھی کہنے لگی۔۔۔اُف۔۔۔ بولی۔۔۔۔ یار ۔۔۔ لٹا کر بھی ٹھیک ہے ۔۔ پر ڈوگی میں پھینٹی کھانے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔۔۔۔۔۔


 پھر ان میں سے ایک نے بھابھی سے پوچھا ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔ دلہا بھائی نے سک ( چوسنے ) کا بھی بولا۔۔۔ تو بھابھی کی بجائے۔۔۔وہی شادی شدہ خاتون کہنے لگی۔۔۔۔ ارے ۔۔۔شادی کے شروع دنوں میں ایسی فرمائیش نہیں کی جاتی۔۔۔ تو اس پر ایک اور لیڈی بولی۔۔۔ تو آپا۔۔۔ آپ سےشادی کے کتنے ماہ بعد ۔۔۔ یہ فرمائیش ہوئی تھی۔۔۔ تو وہ خاتون بڑی بے باکی سے کہنے لگی۔۔۔۔ارے مہینے کہاں ۔۔۔۔ جان ۔۔دوسرے تیسرے ہفتے میں ہی۔۔۔۔۔ ہم سے یہ کام شروع کروا دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔تو ان میں سے ایک دوسری خاتون کی اشتیاق بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔ آپا ۔۔۔ اس میں مزہ بھی آتا ہے یا۔۔۔؟؟؟؟ اور اس سے پہلے کہ آپا اس کی بات کو کوئی جواب دیتی ۔۔۔۔۔ ایک دم سے دروازہ کھلا اور اماں ۔۔۔ کے ساتھ فیملی کی کافی ساری لیڈیز کمرے میں داخل ہو گئیں۔۔۔ اور ان کو دیکھتے ہی وہ لڑکیاں ؎ چُپ ہو گئیں اور بزرگ عورتوں کے لیئے جگہ چھوڑ دی۔۔۔اماں کے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد خواتین کا ایک اور ریلہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اور کمرہ رش سے بھر گیا ۔۔۔ موقعہ غنیمت دیکھ کر میں بھی کمرے سے باہر نکل آئی ۔۔۔اور اس رش کا حصہ بن گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد اماں کی آواز سنائی دی۔۔۔ہما پتر۔۔۔ او ہما۔۔۔تو میں نے جلدی سے ان سے کہا ۔۔ جی اماں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ پتر یہاں رش ہو گیا ہے تم دلہن کو لیکر پنڈال میں آ جاؤ ۔۔۔اماں کی بات سُن کر میں نے اور عطیہ بھابھی کی دوستوں کے ساتھ پنڈال میں آ گئے ۔۔۔ اور ان کو لا کر سٹیج پر بٹھا دیا۔۔۔ دلہن کو سٹیج پر دیکھ کر سب ولیمے کی ساری خواتین اس کے پاس آ گئیں ۔۔۔۔اور میں وہاں سے کھسک کر نیچے آ گئی۔۔۔ اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ عظمیٰ باجی نظر آ گئی۔۔۔۔ بھابھی کی طرح وہ بھی بڑی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں ان کو دیکھ کر اندازہ لگا تھی کہ بھا نے اس پر کتنی شارٹس لگائی ہوں گی ؟ مجھے اپنی طرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے عظمیٰ باجی تھوڑی شرما گئی اور کہنے لگیں ۔۔۔کیا بات ہے۔۔؟ تم مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی کل کر طرح آج بھی آپ بڑی غضب لگ رہی ہو۔۔۔۔ میری بات سُن کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔ شکریہ ۔۔۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر بولی ۔۔۔۔ کہاں تھی تم ۔۔۔ میں کافی دیر سے تم کو تلاش کر رہی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ۔۔۔۔ خیریت باجی۔۔۔؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ میں تو خیریت سے ہوں ۔۔۔ لیکن کوئی خیریت سے نہیں ہے اور وہ پاگلوں کی طرح تم کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے ۔۔۔ باجی کی بات سُن کر میں ایک دم چونک گئی ۔۔۔۔ اور اپنا سر جھکاکر بولی۔۔۔۔ کون ڈھونڈ رہا ہے باجی؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔۔۔ بس بس اب زیادہ مچلی نہ بن ۔۔۔۔پھر ۔۔۔انہوں نے اپنے ہونٹ میرے کانوں کے قریب کیئے اور کہنے لگیں۔۔ ہما تمھارے ہونے والے منگیتر نے میری جان کھا ماری ہے۔۔۔وہ تم سے ملنا چاہتا ہے تو میں نے کہا۔۔۔۔ وہ کیوں باجی۔۔۔ تو وہ بولی۔۔۔ مجھے کیا پتہ جان۔۔۔ تم خود ہی اس سے مل کر پوچھ لو نا۔۔۔ پھر وہ اسی سرگوشی میں بولیں کہ وہ کب سے میرے گھر میں بیٹھا تمھارا اتنظار کر رہا ہے۔۔۔ اور مجھے بازو سے پکڑ کر بولی۔۔۔ چلو ۔۔۔ نواز کا نام سُن کر مجھ میں ایک عجیب سے شرماہٹ آ گئی ۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔ اور میں نے عظمیٰ کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ باجی۔۔۔۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ میری بات سُن کر عظمیٰ باجی بولی۔۔۔ کوئی نہیں دیکھتا یار۔۔۔ اور ویسے بھی تم اپنے ہونے والے منگیتر سے ملنے جا رہی ہو ۔۔۔۔ ہم چلتے چلتے عظمیٰ باجی کے گھر پہنچ گئے اور پھر گیٹ میں داخل ہو کر عظمیٰ باجی نے مجھے بازو سے پکڑ لیا ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ میری ایک بات سنوگی ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا جی باجی حکم کرو۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ دیکھو ہما تم میری سب سے اچھی دوست کی بیٹی ہو ۔۔۔ اس لیئے میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتی ہوں وہ یہ کہ۔۔۔۔ نواز سے تمھاری ملاقات میں کچھ کمزور لمحے بھی آئیں گے ۔۔۔ لیکن تم نے خود پر قابو رکھنا ہے ۔۔۔۔۔اور اس کو ایک حد سے آگے نہین بڑھنے دینا ۔۔ پھر تھوڑی رکی اور کہنے لگی۔۔۔۔ ہما اس مرد ذات کا کوئی بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے۔۔ کیونکہ یہ کمزور لمحات کا بھر پور فائدہ بھی اُٹھا لیتا ہے ۔۔اور پھر یہ کہہ کر لڑکی کو دھتکار بھی دیتا ہے کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں ۔۔۔ اور اس لڑکی کا کریکٹر ڈھیلا ہے ۔۔۔


 چلتے چلتے ہم عظمیٰ باجی کے ڈارائینگ روم تک پہنچ گئے ۔۔۔۔وہاں پہنچتے ہی اس نے کہا وہ اندر بیٹھا ہے وِش یو گُڈ لگ۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔ میری بات یاد ہے نا؟؟ اور میں سر ہلا کر اندر چلی گئی۔۔۔۔ سامنے صوفے پر نواز بیٹھا تھا مجھےدیکھتے ہی وہ اپنی جگہ پر اُٹھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ بڑا انتظار کروایا ہے آپ نے۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔اتنی دیر ہو گئی آپ کہاں تھی؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ میرا اتنظار کر رہے ہو۔۔۔ اور پھر اس کے سامنے جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ یک ٹک میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ ہما ۔۔۔یہ سوٹ تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے ۔۔۔ اس کی بات سُن کر پتہ نہیں مجھ میں اتنی شرماہٹ کہاں سے آ گئی ۔۔۔۔ اور میرا ۔۔۔چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔۔۔اور میں نے جھکے ہوئے سر کواُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی ۔۔۔۔آپ بھی تو اس ٹو پیس میں بہت شاندار لگ رہے ہو۔۔۔ میری بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ اسے یوں اپنے پاس بیٹھے دیکھ کر میں گھبرا سی گئی اور بولی۔۔۔ارے ارے۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہو؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ آپ کا ہاتھ پکڑ رہا ہوں ۔۔۔پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کی طرف لے گیا اور ۔۔۔ میرے ہاتھ کی پشت کو چوم کر بولا۔۔۔۔ آئی لو یو ہما۔۔۔۔۔۔ اس کے بوسے اور آئی لو یو سُن کر میں شرم سے گلنار ہو گئی۔۔اور اپنا سر جھکا لیا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے دل ہی دل میں اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔تب اس نے میرے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا اور بولا۔۔۔ ہما پلیزز میری طرف دیکھو نا۔۔۔ لیکن میں نے اپنی نگاہ نیچ کیئے رکھی۔۔۔۔۔۔۔تب اس نے بڑی منت سے کہا ۔۔۔۔ ہما یار پلیززززززززززز ۔۔۔۔ پلیززززززززززززززززز ۔۔۔۔۔۔۔۔میر ی طرف دیکھو نا۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اپنے چہرے کو تھوڑا اوپر کیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میں نے دیکھ لیا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو نا ۔۔۔۔۔ پلیززززززززززززززز۔۔۔تب میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے پیار ہی پیار ٹپک رہا رہا تھا ۔۔اور وہ بڑی ہی جگر پاش نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کا یہ انداز دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور شرم سے میرے گال تمتا اُٹھے۔۔۔۔  


ادھر نواز نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔ہما ۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔۔ ڈو ۔۔یو لو می۔۔۔ تو اس میں نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے کہا مجھے کیا پتہ۔۔۔ تو وہ تڑپ کر کہنے لگا۔۔۔ ہما پلیزززززززز ۔۔۔بس ایک بار ۔۔۔ ۔۔۔ ایک بار کہہ دو ۔۔۔ کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو۔۔۔ لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ اور گھبرا کر ایک بار پھر سے اپنا سر نیچے کر لیا۔۔۔اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔ پتہ نہیں اس کو میری یہ ادا کیسی لگی کہ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اس کے جسم کا میرے جسم سے لگنا مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ڈر بھی رہی تھی ۔۔۔ ۔اس کے بعد نواز نے ایک کام کیا اور مجھے اپنی باہنوں کے حصار میں لیکر کر اس نے میرے گالوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔۔ میں کچھ بولی تو نہیں ۔۔ لیکن اس کے اس ایکٹ سے میں شرم سے دوھری ہو گئی ۔۔۔۔اور ۔۔ بددستور اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔ ۔۔یہ یہ۔۔۔ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ کوئی آگیا تو کیا ہو گا۔۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے میڈم ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کہ لیکن مجھے تو ہے آپ تو چلے جاؤ گے پیچھے سے میں بدنام ہو جاؤں گی۔۔۔۔میری بات سُن کر وہ کہنے لگا ۔۔اچھا تو یہ بات ہے میں دیکھتا ہو ں کہ کون تم کو بدنام کرتا ہے ۔۔۔ تمہیں بدنام کرنے والے کی ذات کو میں ہستی سے ہی مٹا دوں گا۔۔۔۔ اور پھر سے میرے گالوں کو چومنے لگا۔۔۔۔ گال چومتے چومتے ۔۔۔جیسے ہی وہ میرے ہونٹوں کی طرف آیا ۔۔۔۔ میں نے ایک دم اپنا منہ پیچھے کر لیا ۔۔۔۔اور اس سے بولی۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ اس سے آگے نہیں ۔۔۔تو وہ منت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ بس ایک ہی کس ۔۔۔ ہما جسٹ ون کس۔۔۔۔ لیکن میں نے سختی سے انکار کر دیا ۔۔۔۔اور بولی۔۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔۔جتنا آپ نے کر لیا ۔۔اتنا ہی بہت ہے اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔اتنے میں عظمیٰ باجی بھی ۔۔۔ ہاتھ ٹرے لیئے کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔سوری نواز ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔ 


 باجی کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر نواز کہنے لگا۔تھینک یو میم۔۔۔ اب میں چلوں گا۔۔۔ اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا ۔۔۔ اس کے جاتے ہی عظمیٰ باجی نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ کر لینے دیتی نہ ایک کس۔۔۔ بے چارہ تم سے صرف ایک کس ہی تو مانگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور باجی کی یہ بات سُن کر میں حیران رہ گئی اور سمجھ گئی کہ وہ چھپ کر ہمیں دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی ۔۔۔ میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی اور میں نے باجی کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔ او ۔۔۔یو۔۔۔۔۔۔ تو عظمیٰ میری بات بھانپ کر بولی۔ ۔۔۔بھائی نظر تو رکھنی پڑتی ہے نا۔۔۔ اور مجھے چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔ ولیمے کے بعد فائق بھائی دلہن کے ساتھ اپنے سسرال چلے گئے ۔۔۔ وہاں سے ان دونوں نے اپنا ہنی مون منانے مری ۔۔کاغان ناران وغیرہ جانا تھا۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد ایک ایک کر کے گھر کے سارے مہمان بھی چلے گئے اور پیچھے ہم رہ گئے ۔۔۔اور پھر ہمارے گھر کی وہی پرانی روٹیں شروع ہو گئی ۔۔اور میں نے محسوس کیا تھا کہ جوں جوں میں بری ہوتی جا رہی تھی ۔۔ میں ۔۔ پہلے سے زیادہ ہا ٹ ہو گئی تھی۔۔۔ لیکن باہر کی بجائے میں فنگرنگ کو ترجیع دیتی تھی۔۔۔۔۔کیوں کہ باہر بہت رسک تھا۔۔۔یہ فائق بھائی کے ولیمے کے دس پندرہ دن بعد کا واقعہ ہے ۔۔۔ اس دن میرا کالج جانے کو جی نہیں کر رہا تھا اس لیے میں نے رات ہی اماں کو بتا دیا تھا کہ کل میں نے چھٹی مارنی ہے ۔۔۔ اور مجھے نہ جگایا جائے۔۔۔ دس بجے کا وقت تھا جب میں اُٹھی اس وقت تک سب گھر کے سب مرد اپنے اپنے کام کاج کو چلے گئے تھے۔۔۔میں اُٹھ کر میں باتھ روم گئی اور واپسی پر کھڑکی سے ایک نظر باہر ڈالی تو حسبِ معمول اماں چارپائی پر بیٹھی دوپہر کے کھانے کا بندوبست کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ کچھ گنگنا بھی رہی تھی۔۔۔۔ اماں پر ایک نظر ڈال کر میں واپسی کے گھومی تو اچانک میں نےدیکھا کہ عظمیٰ باجی کو دیکھا جو اماں کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔ ۔۔اسے آتا دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ یہ وقت تو اس کے آفس جانے کا تھا۔۔۔۔ اتنے میں اماں کی آواز گونجی وہ عظمیٰ کی طرف دیکھ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ارے آج تم آفس نہیں گئی۔۔۔؟ تو عظمیٰ باجی اماں کے پاس بیٹھے ہوئے بولی۔۔۔ ارے نہیں یار آج جانے کا موڈ نہیں تھا ۔۔۔سو چھٹی کر لی۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ بات کرکے عظمٰی باجی اپنا ہاتھ اپنی چوت کی طرف لے گئی اور اسے کجھانے لگی۔۔۔ میں نے اسے روٹین کی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔۔۔ لیکن عظمیٰ باجی نے بار بار اپنی چوت کو کھجایا تو اس بات کو اماں نے بھی نوٹ کیا اور وہ عظمیٰ باجی کوچوت کھجاتے ہوئے دیکھ کر بول اُٹھی۔۔۔۔کیا بات ہے عظمیٰ آج پھدی بڑی کجھائی جا رہی ہے؟ تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ ارے باجی اسی لیئے تو تیرے پاس آئی ہوں ۔۔۔۔ کال شام سے میرے یہاں بڑے زور سے کجھلی ہو رہی ہے ۔۔۔اسی لیئے تو میں آفس بھی نہیں گئی ۔۔۔ تو اماں اس کی چوت کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔کچھ علاج کیا اس کا؟ تو اماں کی بات کی سُن کر عظمیٰ اپنی چوت کو کجھاتے ہوئے بولی۔۔۔ ارے علاج کےلیئے ہی تو تیرے پاس آئی ہوں ۔۔۔ تم اتنی بڑی چداکڑ خاتون ہو تمھارے پاس کوئی علاج تو ہو گا نا اس کا ۔۔۔۔۔ عظمیٰ کا لفظ چداکڑ سن کر اماں ہنس پڑی اور ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔ ہاں میں چداکڑ ہوں ۔۔۔ لیکن میری جان میں اپنی پھدی کو لن سے چدواتی ہو ں ۔۔۔ تمھاری طرح ۔۔۔۔ بیگن ۔۔۔کھیرا ۔۔موم بتی اور جانے کیا کیا چیز نہیں لیتی اپنی چوت میں۔۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ باجی تھوڑی کھسیانی ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ تمہارے پاس تو سرکاری لنڈ ہے نا ۔۔۔ اس لیئے ایسی باتیں کر رہی ہو ۔۔اور ہم ٹھہری بے چاری بیوہ ۔۔۔۔ ہمارے لیئے تو بیگن ۔۔۔کیلا اور موم بتی وغیرہ ہی ہے نا۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔۔ تو اچھی طرح جانتی ہے کہ میں اپنے سرکاری لن پر کتنا انحصار کرتی ہوں ۔۔ پھر اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ تم کو ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنی چوت میں جب بھی کیلا یا موم بتی وغیرہ لیا کرو تو ان پر کنڈوم چڑھا لیا کرو۔۔۔۔۔اماں کی بات سُن کر عظمیٰ کہنے لگی ۔۔۔ یار بعض اوقات ۔۔۔۔۔ جوش میں یاد نہیں رہتا نا۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔۔ یاد نہ رکھنے کا نتیجہ دیکھ لیا۔۔۔۔؟تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔ نہ صرف دیکھ لیا بلکہ بھگت بھی لیا۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔ باجی پلیز اس کا اپائے بھی بتاؤ نہ۔۔۔۔ تو اماں نے کہا پہلے مجھے چیک تو کرنے دو۔۔۔۔اور اس سے بولی چلو اپنی پھدی چیک کروا۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ نے ادھر ادھر دیکھا اور بولی ۔۔۔ یہاں؟ تو اماں کہنے لگی۔۔گھر میں کوئی نہیں ۔سب لوگ کاموں پر گئے ہیں۔۔۔۔ ہاں ہما ہے لیکن تم کو معلوم ہے چھٹی والے دن وہ بارہ بجے سے پہلے نہیں اُٹھتی ۔۔۔۔اماں کی بات سُن رک عظمیٰ نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور اپنی آزار بند کھول دیا۔۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہٹ کر اپنی ننگی چوت اماں کے سامنے کر دی۔۔۔ اب اماں تھوڑا نیچھے جھکی اور اس کی چوت کا معائینہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تمہیں الرجی ہوئی ہے میری جان ۔۔۔۔ پھر انہوں نے میرے سامنے ۔۔۔عظمیٰ باجی کی چوت کو اپنی دو انگلیوں کی مدد سے کھولا اور عظمیٰ کی چوت کے اندر تک دیکھتے ہوئے ایک لمبا سا ۔۔۔ ہوں ۔کیا اور کہنے لگی ۔۔ساری چوت کے ارد گرد اور اندر تک۔۔ چھوٹے چھوٹے سرخ دانے سے ہیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے عظمیٰ سے کہا کہ تم نے اپنی چوت کو ڈیٹول سے دھویا؟۔۔۔تو وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔۔۔ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔ بس سیدھی آپ کے پاس آ گئی۔۔۔ تو اماں کہنے لگی چل میرے ساتھ میں تیری پھدی کو نہ صرف ڈیٹول سے دھوتی ہوں ۔۔ بلکہ اس پر ایک الرجی کی کریم بھی لگاتی ہوں ۔۔ تو عظمیٰ نے اماں کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔ شکریہ باجی۔۔۔۔ اور اماں کے ساتھ چل پڑی۔۔۔


ان کو واش روم میں جاتے دیکھ کر میں دوبارہ سے بستر پر ڈھیر ہو گئی اور سوچنے لگی کہ پتہ نہیں عظمیٰ باجی کن کن چیزوں سے اپنی پھدی کو چودتی ہے اور ۔۔۔ پھر سے سو گئی۔۔۔۔اس واقعہ کے تیسرے دن فائق بھائی اور عطیہ باجی گھر واپس آگئے اور ان کے آنے گھر میں بہار سی آ گئی۔۔یہاں میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتا دوں کہ فائق بھائی کا کمرہ میرے کمرے کے ساتھ ہی جڑا ہوا تھا ۔۔۔ اس لیئے میرا زیادہ وقت عطیہ بھابھی کے ساتھ گپ شپ میں گزتا تھا ۔۔۔اور وہ تھی بھی بڑی ہنس مکھ اور اچھی طبیعت کی ۔۔۔۔۔ اس لیئے کچھ ہی دنوں نے انہوں نے خصوصاً ابا اماں کے دل میں گھر کر لیا تھا۔۔۔۔اسی طرح دن گزرتے رہے ۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں کالج جانے کے لیئے تیار ہو رہی تھی۔۔۔ کہ دیکھا تو میری دراز میں ہئیر برش نہیں تھا ۔۔۔۔ کافی تلاش کیا۔۔۔ لیکن وہ نہیں ملا پھر سوچا کہ چلو ۔۔عطیہ بھابھی سے لے لیتی ہوں۔۔ان کے کمرے کی جاتے ہوئے میں نے سوچا کہ ۔۔ نیا جوڑا ہے کہیں ۔۔۔ تو پھر خیال آیا کہ یہ صبع کا وقت ہے اور اس وقت ۔۔۔۔ بھائی آفس جانے کی تیاری کر رہے ہوں گے اس لیئے ۔۔۔۔ ان کے کمرے میں جانے میں کوئی حرج نہ ہے یہ سوچ کر میں ان کےکمرے کا ہینڈل گھمایا تو پتہ چلا کہ کمرہ اندر سے لاک ہے۔۔ چنانچہ میں یہ سوچ کر کہ کھڑکی سے ان کو آواز دیتی ہوں ۔۔۔۔ اس کی طرف بڑھی چونکہ ان کا کمرہ راہدری کے آخر میں تھا ۔۔اس لیئے ان کے کمرے کی کھڑکی ۔بھی راہداری کے کونے میں تھی جس کی طرف گھر کے لوگ کم ہی ۔۔۔چنانچہ میں کھڑکی کی طرف گئی اور اندر جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔۔ اُف اندر کا نظارہ ۔۔۔ بڑا ہی توبہ شکن تھا۔۔۔میں نے دیکھا کہ بھائی ننگے کھڑے تھے اور عطیہ بھابھی ان کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑےہلا رہی تھی پھر بھائی اس کی طرف دیکھ کرکہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔ رات کی کیا بات ہے لیکن ۔۔۔ مارنگ فک ( صبع کی چودائی) کا بھی اپنا ہی مزہ ہے تو عطیہ بھابھی ان کے لن پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو فائق ۔۔۔ مجھےبھی رات سے زیادہ صبع کی چودائی میں زیادہ مزہ آتا ہے ۔۔۔ اسی اثنا میں بھائی کا لن بھی کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ۔۔۔فائق بھائی کا لن بھا کی طرح نہ تو زیادہ موٹا تھا اور نہ ہی اس کی طرح لمبا تھا ۔۔۔ بس ٹھیک تھا۔۔۔۔ جیسے ہی بھائی کا لن اپنے جوبن میں آیا ۔۔۔۔۔ عطیہ بھابھی ان سے کہنے لگی۔۔۔۔ چلو اب کرو۔۔۔۔تو بھائی اس کی طرف دیکھ کر شرارت سے کہنے لگے۔۔۔ نہ جی نہ۔۔۔ ہم تو رات کو چودتے ہیں دن کو چودنے کی ذمہ داری آپ کی ہے۔۔۔ عطیہ بھابھی بھائی کی بات سُن کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ جو حکم میری سرکار۔۔۔ اب لیکن اس سے پہلے آپ پلنگ پر لیٹو گے تو باندی۔۔۔۔ آپ کے لن پر سوار ہو گی نا ۔۔۔۔ تو بھابھی کی بات سُن کر ۔۔۔۔۔ بھائی شرارت سے کہنے لگے۔۔۔۔ کنیز ۔۔۔ اس سے پہلے کہ تم ہمارے ۔۔۔ سواری کے جانور پر سوار۔۔۔۔ہو ۔۔۔تم کو صلاح دی جاتی ہے کہ پہلے اس جانور کو اپنے منہ کے پانی سے اچھی طرح دھو یا جائے ۔۔ پھر اس کو اپنی زبان سے گیلا کر کے اسے چکنا کیا جائے ۔۔تا کہ جب تم اس پر سوار ہونے لگو تو ۔تمہاری سواری کا ۔ جانور پھسلتا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے ۔۔سوارخ میں داخل ۔ ہو سکے ۔۔۔۔۔ بھائی کی بات سُن کر بھابھی نے ٹیڑھی نظروں سے بھائی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ توبہ ہے ۔۔۔ ابھی رات کو تو اتنا چوسا ہے۔۔۔۔ اب پھر سے چوسوا گے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔تو بھائی اسی ترنگ میں کہنے لگے۔۔۔۔حکم کی تعمیل ہو۔۔۔۔۔اور خود بیڈ کے کنارے پر اس طرح سے لیٹ گئے کہ ان کی ٹانگیں تو بیڈ سے نیچے تھیں جبکہ۔۔۔۔باقی دھڑ پلنگ پر تھا۔۔۔۔اور ان کا لن کھڑا چھت سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ بھائی کا آرڈر سن کر عطیہ بھابھی آگے بڑھی اور گھٹوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی اور بھائی کا لن ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔ ایک تو تمہارا من بھی نا ۔۔۔لن چسوانے سے کبھی نہیں بھرتا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ابھی بھابھی کو لن چوستے تھوری ہی دیر ہوئی تھی کہ ۔۔ ان کا کمرہ ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ کی سسکیوں سے گونجنے لگا۔۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔اف۔۔۔ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔۔۔سس سس۔۔۔۔تب بھابھی نے بھائی کا لن اپنے منہ سے نکلا اور کہنے لگی ۔۔۔ عالی جاہ ۔۔۔ یہ آپ کے منہ سے کیسی آوازیں نکل رہیں ہیں تو بھائی کہنے لگے۔۔۔۔ ہماری یہ سسکیوں کی آوازیں ہیں کنیا ۔۔۔ جو تم نے اپنے عجب منہ سے غضب چوپا لگا کر نکالی ہیں۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگے۔۔۔ کنیز ۔۔ تمہارے اس لن چوسنے کے عمل نے ۔ ہمیں مزے کے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگیں عالی جاہ ۔۔آپ کے جانور کو چوس چوس کر میری ۔۔۔۔ چوت بھی پوری طرح گیلی ہو ہو کر پانی چھوڑ رہی ہے اگر اجازت ہو تو میں آپ کے جانور پر سوار ہو جاؤں ؟؟؟

تو بھائی کہنے لگے ۔۔بے شک ۔۔۔ کنیا ۔ہمارا لن چوس کر تم نے ہمیں اتنا مزہ دیا ہے کہ ۔اب ۔تم ہمارے لن پر بیٹھنے کی پوری طرح سے حق دار ہو۔۔۔ لیکن اس سے پہلے تم اپنی چوت کو ہمارے منہ کے قریب لاؤ کہ۔۔۔ زرا ہم بھی اس کا گیلا پن چیک کر سکیں ۔۔۔ بھائی کی بات سن کر بھابھی اُٹھی اور پلنگ پر چڑھ گئی ۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر ۔۔ اپنی چوت کو بھائی کے منہ کے قریب لے گئی۔۔۔اور پھر اسے بھائی کے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔ بھابھی کی چوت منہ پر لگتے ہی بھائی نے سب سے پہلے اپنی ناک کو بھابھی کی چوت کے قریب رکھا اور ۔۔اسے سونگھ کر کہنے لگے۔۔۔ ہوں ۔۔۔ مہک تو بہت اعلیٰ ہے کنیا ۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی ۔۔عالی جاۃ ۔ زرا ۔۔اپنی ۔ زبان لگا کر اس کا ذائقہ بھی چیک کیا جائے۔۔۔ ہماری چوت کا ذائقہ ۔۔۔۔ اس کی مہک سے سو گنا اچھا ہے ۔۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی نے۔ اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اسے بھابھی کی چوت پر لگا کر اسے چاٹنے لگے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بھابھی ۔۔۔ مست ہو گئی ،۔۔۔اور اپنی چوت کو بھائی کے منہ سے لگا کر رگڑا لگانے لگی۔۔


 چوت چٹوانے کے کچھ دیر بعد۔۔۔بھابھی ۔۔نے اپنی پھدی کو بھائی کے منہ سے ہٹایا ۔۔ اور اُٹھ کر ۔۔۔ پچھلے پیروں سے چلتی ہوئی بھائی کے لن کی سیدھ میں کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔ اس کا منہ بھائی کی طرف تھا پھر وہ تھوڑا نیچے ہوئی ۔۔۔اور اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بھائی کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔اپنی چوت کوبھائی۔۔۔کے لن کے نشانے پر رکھ کر ۔۔۔ آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگی۔ ۔۔۔ ۔۔ اور جب بھائی کا سارا لن بھابھی کی چوت میں غائب ہو گیا ۔۔۔تو اس نے ایک سسکی لی۔۔اور بولی ۔ فائق صاحب میری چوت آپ کے لن کو کھا گئی ہے ۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی شہوت زدہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ سرکار۔۔۔۔ آپ کے لن سے میری چوت بھر گئی ہے ۔۔۔ اب کیا کروں ؟ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو نیچے سے بھائی کی دبی دبی ۔۔۔آواز سنائی دی۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے جمپ مار ۔۔۔ جمپ مار۔۔۔ اور بھائی کی بات سنتے ہی بھابھی نے بھائی کے لن پر جمپ مارنا شروع کر دیئے ۔۔۔۔اور پھر کافی دیر تک وہ بھائی کے لن پر اُٹھک بیٹھک کرتی رہی۔۔جیسے جیسے بھابھی بھائی کے لن پر اوپر نیچے ہوتی ویسے ویسے ان دونوں کی گندی گندی باتوں میں اضافہ ہوتا جا رہاتھا ۔۔۔ بھابھی لن پر بیٹھتے ہوئے کہتی ۔گانڈو۔۔ میں اپنی پھدی سے تجھے چود رہی ہوں ۔۔۔اور بھائی۔۔۔ نیچے سے جواب دیتے ۔۔۔ گانڈو میں نے نہیں تم ہو۔۔ جس کی گانڈ میں ۔۔ میں نے اپنا یہ لن دیا ہے۔۔آہ۔۔۔ بہن چود۔۔گھسے تیز مار نا۔۔ تو بھابھی جواب دیتی ۔۔سالے گھسے تیز ہی تو مار رہی ہوں۔۔۔اور بھائی پھر سے سسکی لیکر کر کہتے ۔۔۔۔ عطیہ تیری چوت بڑی تنگ ہے۔ماں چود ۔۔۔ زور سے جمپ لگا نا۔۔تو بھابھی بھی ویسے ہی ترک بہ ترکی جواب دیتی ۔۔۔ تیری ماں چودوں ۔۔ مار تو رہی ہو جمپ۔۔۔ اور کیسے ماروں ؟ ۔زیادہ تکلیف ہے تو خود مار۔۔۔۔ تو بھائی کہتے جواب دیتے ۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔ عطیہ ۔۔۔۔ لن کو مزہ آ گیا ۔۔۔ تو بھابھی کہتی ۔۔۔فائق ق ق ۔۔میری یہ ۔ کی چوت ۔۔۔۔ صرف تیرے لیئے ہے ۔۔۔اور پھر ۔۔۔ جمپ مارنا شروع ہو جاتی ۔۔ ۔۔۔۔آخر کچھ دیر بعد۔۔۔بھابھی نے تیز تیز ۔۔ جمپ مرتے ہوئے بھائی سے کہا۔۔۔۔۔ عالی جاہ۔۔۔ کنیز کی چوت کا پانی۔۔اس کی چوت کے لبوں تک آ گیا ہے۔۔۔تو نیچے سے بھائی بھی کہنے لگے۔۔۔۔۔۔ میں بھی ۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی دونوں کے جسم کانپے اور ۔۔۔۔پھر اپنے اپنے منہ سے سیکسی آوازیں نکالتے ہوئے ۔۔۔ وہ دونوں ۔۔اکھٹے ہی چھوٹ گئے۔۔۔ بھابھی نے کچھ دیر تک تو بھائی کالن اپنے اندر رہنے دیا۔۔۔ پھر وہ پھرتی سے بھائی کے لن سے نیچے اتری۔تو میں نے دیکھا ۔کہ بھائی کا لن دونوں کی منی سے لتھڑا ہوا تھا ۔۔۔اسی اثنا میں ۔ بھائی لیٹے لیٹے کہنے لگے ۔۔۔۔۔اب ۔۔ کنیز کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لن پر لگی اپنی اور میری منی کو چاٹ کر صاف کرے۔۔۔اور بھابھی جو حکم کہہ کر نیچے جھکی اور اپنی زبان سے بھائی کا سارا لن صاف کر دی۔۔۔۔ بھائی کے لن کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد بھابھی اوپر اُٹھی اور بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ عالی جاہ ۔۔۔ آپ کے کہنے پر میں نے آپ کے لن پر لگے سارے ملبے کو چاٹ کر صاف کر دیا ہے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ جنابِ عالی ۔۔ میری پھدی میں پڑی منی کو کون صاف کرے گا؟تو بھائی کہنے لگے۔۔۔۔ عطیہ بیگم ہمارے علاوہ اور کس کی جرات ہے کہ وہ ۔۔۔تمہاری چوت کی طرف دیکھ بھی سکے اور اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے اُٹھتے ہی۔۔۔۔بھابھی۔۔ ان کی جگہ لیٹ گئی ۔۔۔اور بھائی گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئے اور بھابھی کی ٹانگوں کو پکڑ کر ان کو کھول دیا اور پھر ان کی پھدی میں پڑی ساری کی ساری منی چٹ کر گئے۔۔۔ ۔۔۔


 بھائی اور بھابھی کا یہ گرم سین دیکھ کر میری تو حالت ہی غیر ہو گئی اور ۔۔۔ میں وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں آ گئی ۔۔اور ۔۔۔خوب فنگرنگ کی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اب مجھے اس بات کا بھی پتہ چل گیا تھا ۔۔ کہ عطیہ بھابھی اور بھائی ۔۔دونوں ہی ۔۔ مارننگ فک ( صبع کے وقت کی چودائی ) کے شوقین ہیں ۔۔۔پھر اس کے بعد ۔۔۔ روز تو نہیں ۔۔۔البتہ ہر دوسرے تیسرے دن میں ان دونوں کے گرم شو کا مظاہر ہ ضرور دیکھا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلا شبہ فائق بھائی اور عطیہ بھابھی کا جوڑا بہت شوقین مزاج ۔۔ محبت کرنے والا ۔۔اور ایک گرم جوڑا تھا اور وہ دونوں روزانہ نت نئے طریقوں کے ساتھ سیکس کیا کرتے تھے اور دورانِ سیکس دونوں بہت ہی گندی گندی باتیں بھی کرتے تھے ایک دن کی بات ہے کہ اس دن کسی وجہ سے کالج میں چھٹی تھی ۔۔چنانچہ میں نے رات ہی اماں کو بتا دیا تھا کہ کل چھٹی ہے اور مجھے کسی نے نہیں اُٹھانا۔۔۔ اس لیئے میرے بتانے کی وجہ سے اگلی صبع اماں نے مجھے نہیں جگایا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں اس دن کالج ٹائم پر خود بخود ہی میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔ دیکھا تو ابھی صبع کے آٹھ ہی بجے تھے۔۔۔۔گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہی میرے زہن میں عطیہ بھابھی اور فائق بھائی کا خیال آیا ۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے ایک دم بستر سے جمپ لگائی ۔۔۔اور جلدی جلدی واش روم سے ہو کر فائق بھائی کے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔ ۔۔۔اور ان کے کمرے کا ہینڈل گھما کر دیکھا تو اسے لاک پایا۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھائی ابھی تک آفس نہیں گئے تھے۔۔۔اور ابھی اپنے کمرے میں ہی تھے ۔۔اور صبع کے ٹائم بھائی کا کمرے میں ہونے کا مطلب تھا ۔۔۔ کہ شو ۔۔آن ۔۔۔ہے۔۔۔ ۔۔ یہ بات سوچتے ہی میرے سارے جسم میں ایک سنسنی سی چھا گئی۔۔۔۔ اور آنے والے وقت کا سوچ کر میری چوت پر ۔۔۔ چیونٹیاں سی رینگنے لگیں ۔پھر میں نے ایک نظر اپنی راہداری پر دوڑائی تو دیکھا کہ ساری راہداری خالی تھی۔۔۔۔ چونکہ ابا اور فیض بھائی صبع صبع ہی اپنے اپنے آفس میں چلے جاتے تھے اس لیئے اماں اور فیض بھائی کی بیگم ان کو رُخصت کرنے کے بعد اپنے اپنے کمرے میں جا کر کم از کم گھنٹہ ڈیڑھ مزید ریسٹ کر تی تھیں اور پھر اس کے بعد اُٹھ کر وہ دوپہر کی ہانڈی روٹی وغیرہ کا بندوبست کیا کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ۔۔ چنانچہ ادھر سے بے فکر ہو کر میں دبے پاؤں چلتی ہوئی راہداری کے آخر میں جا پہنچی اور ۔۔۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو ۔میں نے ان کے ۔۔ کمرے کو خالی پایا۔۔۔۔۔۔۔ اور کمرے کو خالی دیکھ کر میں تھوڑا مایوس سی ہو گئی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس بات پر حیران بھی ہو رہی تھی کہ بھائی کا کمرہ لاک ہونے کے باوجود ۔۔بھی ۔ یہ دونوں کدھر چلے گئے؟ پھر مجھے واش روم کا خیال آیا ۔۔اور میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ان کے واش روم کا دروازہ تھوڑا کھلا ہوا تھا اور اس کھلے دروازے سے مجھے ایک سایا سا لہراتا ہوا نظر آگیا ۔۔اور اس سائے کو دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ وہ دونوں واش روم کے اندر ہوں گے۔ اور کچھ مطمئن ہو کر ان کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔اور ۔۔ میرا یہ انتظار زیادہ طویل ثابت نہ ہوا اور کچھ ہی د یر بعد میں نے بھائی اور بھابھی کو واش روم باہر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت بھائی ننگے تھے جبکہ بھابھی نے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے یہ کپڑے پانی سے مکمل طور پر بھیگے ہوئے تھے۔۔۔ اور بھائی کو ننگا دیکھ کر میں سوچ رہی تھی کہ دیکھو ۔۔۔۔ یہ لوگ آج سیکس کرنے کے لیئے کون سا نیا پارٹ پلے کرتے ہیں۔؟ ۔۔


۔ پھر میں نے دیکھا کہ بھائی چلتے چلتے ۔۔۔ صوفے کے پاس جا کر رُک گیا ۔۔۔۔ اور بظاہر روتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ آیا جی ۔۔!!! آپ نے مجھے ٹھیک سے نہیں نہلایا ۔۔۔۔ تو بھابھی اسے پچکارتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ دیکھ منا میں نے تمہیں اچھی طرح سے نہا تو دیا ہے ۔۔تو بھائی جو اس وقت منا کا پارٹ پلے کر رہا تھا کہنے لگا۔۔۔ کیا خاک نہلایا ہے ۔۔۔۔پھر اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے بولے ۔۔۔ دیکھیں نا ۔۔۔ آیا جی ۔۔۔۔ یہ جگہ تو ابھی بھی ویسی کی ویسی گندی ہے۔اور پھر جھوٹ موٹ رونے لگے۔۔۔۔ تب بھابھی نے بھائی کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بڑے پیار سے کہنے لگی۔۔۔ ارے ۔۔۔ارے۔۔ منا میری جان ۔۔۔ اتنی سی بات پر روتے نہیں ہیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھابھی نے بھائی کا نیم کھڑے لن کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا۔۔۔۔ اور بڑے غور سے اسے دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ کیا ہے اسے؟ صاف تو ہے ۔۔۔ اور ۔۔پھر بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ اس پر تو کوئی بھی گندگی نہیں لگی ہوئ ہے۔۔۔۔۔ تو بھائی نے بھابھی کی طرف دیکھ کر کہا کہ جھوٹ نہ بولیں آیا جی ۔ ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے لن کو پکڑ کر ہلا یا اور بھابھی کو اپنا ٹوپا دکھا کر کہنے لگے ۔۔۔ ادھر دیکھیں نا ۔۔ یہاں سے یہ کتنا میلا لگ رہا ہے۔۔اور ۔ کتنا گندہ بھی ہو رہا ہے۔۔۔ تو بھابھی نے ان کے ٹوپے کو دیکھ کر کہا ۔۔ نہیں منا ۔۔ یہ میلا نہیں بلکہ اس کا کلر ہی ایسا ہے۔۔۔پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ اچھا اگر تم کہتے ہو تو مان لیتی ہوں ۔۔۔ پھر بولی ۔۔چلو واش روم میں ۔۔ میں اسے دوبارہ سے صابن لگا کر دھو دیتی ہوں ۔۔۔ تو بھائی بچوں کی طرح ضد کر کے کہنے لگے ۔۔۔ جی نہیں ۔۔۔ اب یہ جگہ ۔واش روم میں صابن سے نہیں ۔ ۔۔ بلکہ ۔۔۔ ۔۔ اب آیا جی۔۔۔ آپ اسے ۔اپنی ۔۔۔ زبان سے صاف کریں گی۔۔۔۔۔۔ تو بھابھی جو اس وقت آیا کا رول نبھا رہی تھی ۔۔۔ نے ادھر ادھر دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ ٹھیک ہے منا ۔۔۔ میں تمھاری گندی جگہ کو اپنی زبان لگا کر صاف کرتی ہوں ۔۔۔ لیکن اس کے لیئے تم کو بھی میرے ساتھ ایک وعدہ کرنا ہو گا اور وہ یہ کہ تم اس بات کا کسی سے بھی زکر نہیں کرو گے۔۔۔ یہ کہہ کر بھابھی بھائی کے پاس پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور بھائی کے لن کو پکڑ کر اپنے سامنے کر دیا۔اور پھر اپنی زبان نکال کر کے نیم کھڑے لن پر پھیرنے لگی۔۔۔۔کچھ دیر بعد ۔وہ سارے لن پر زبان پھیرتی رہی اور پھر بھائی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ لو جی صاف ہو گیا۔۔اب خوش ۔۔ تو بھائی نے ایک نظر اپنے لن کی طرف دیکھا ۔۔تو بھائی کا لن ان کے تھوک سے چمک رہا تھا ۔۔۔ اور خاص کر ان کے ٹوپے پر بھابھی کا بہت سا تھوک لگا ہوا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھائی ۔۔بھابھی سے کہنے لگے۔۔۔۔۔ ۔۔۔آیا جی آپ کی زبان نے یہاں پر تھوک لگا کر اسے مزید گندہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ اس لیئے اب آپ اسے اپنے منہ میں لیکر ہونٹوں سے صاف کرو۔۔ اور بھائی کی بات سن کر بھابھی نے اپنا منہ کھولا ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر بھائی کا نیم کھڑا ۔۔۔ لن سارے کا سارا اپنے منہ میں لے گئیں اور ۔۔۔ ایک لمبا سا چوپا لگا کر کہنے لگیں۔۔۔۔لو منا ۔۔اب میں نے ۔ تمھاری ۔گندی جگہ پر لگا تھوک ۔لگا کر اسے ۔چوس کر بلکل صاف کر دیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔یہ دیکھ کر بھائی کسی بچے کی طرح مچلتے ہوئےبولے ۔۔۔۔۔۔ آیا جی ۔۔۔ آپ نے تو صرف میری سُو سُو والی جگہ ۔۔ صاف کی ہے ۔۔۔ جبکہ یہ جگہ (ٹٹوں کی طرف اشارہ کر کے ) تو ابھی بھی ویسی کی ویسی ہی گندی ہے۔۔۔ بھائی کی یہ بات سُن کر بھابھی نے بلکل آیا لوگوں کی طرح ۔بُرا سا ۔ منہ بنایا اور کہنے لگی۔۔ ۔۔۔ ادھر لا میرے باپ۔ اس کو بھی چاٹ کر صاف کر دیتی ہوں ۔۔۔اور پھر بھابھی نے بھائی کے لن کو پکڑ کر اوپر کی طرف اٹھایا اور ان کے بالز کو جو اس وقت نہانے کی وجہ سے کافی سُکڑے ہوئے تھے کو اپنے منہ کے قریب کیا ۔۔۔اور پھر اپنی زبان نکال کر ان کو بھی چاٹنے لگی۔۔۔۔۔ 


بھابھی کا بالز کو چاٹنے کی دیر تھی کہ میں نے دیکھا کہ بھائی کا لن جو اس وقت تک ہلکا سا کھڑا تھا۔۔۔ ایک دم سخت ہو کر اکڑ گیا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے بھابھی کے منہ میں دیا ہوا ایک ٹٹے کو ۔۔۔ ہٹایا ۔۔ اور پھر ٹٹوں کی جگہ دوبارہ سے اپنے لن کو بھابھی کے کھلے ہوئے منہ میں دے دیا۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی نے بس ایک نظر اوپر بھائی کی طرف دیکھا اور پھر بھائی کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ لن چوسنے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔ وہ اوپر اٹھی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ دیکھو منا ۔۔۔ صوفے پر بیٹھنے کی وجہ سے میری سُو سُو والی جگہ بھی کتنی گند ی ہو گئی ہے۔۔۔۔ اب تم اس کو چاٹ کر صاف کرو۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو صوفے کے اوپر کر کے لیا ۔۔۔اور اپنی گانڈ کو صوفے کے کنارے پر لے جا کر اپنی پھدی کو بھائی کے سامنے کر دیا۔۔۔ بھابھی کی پھدی کو اپنے سامنے دیکھ کر بھائی نیچے بیٹھا ۔۔۔اور عطیہ بھابھی کی چوت کا معائینہ کرنے لگا۔۔۔ اس وقت عطیہ بھابھی کی چوت سے پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر بھائی بولا۔۔آیا جی ۔۔۔ آپ کی سُو سُو والی جگہ تو بہت گندی ہو رہی ہے اور اس میں سے آف وائیٹ سا پانی بھی نکل رہا ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ منا ۔۔تم نے اس پانی کو ہی چاٹ کر صاف کرنا ہے ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی نے اپنی زبان نکالی اور بھابھی کی چوت کو چاٹنے لگا۔۔۔چونکہ اس وقت بھائی کی میری طرف پشت تھی اس لیئے میں اس بات کو اندازہ نہ لگا سکی تھی کہ آیا بھائی اپنی زبان کو بھابھی کو چوت میں ڈال کر چاٹ رہا ہے ۔۔۔ یا صرف ان کی پھدی کے کناروں سے رسنے والا پانی ہی چاٹا جا رہا ہے ۔۔۔ اس وقت جب بھائی بھابھی کی چوت چاٹ رہا تھا ۔۔۔ تو میں نے بھابھی کی منہ سے نکلنے والی دلشچ کراہیں سنیں ۔۔۔کراہتے ہوئے وہ بڑی مست آواز میں بھابھی سے کہہ رہی تھی۔۔۔ شاباش منا۔۔۔ سارا ۔۔۔۔ پانی چاٹ جا۔۔۔ اور صاف کر دے میری پھدی کو۔۔۔۔ اُف۔۔ف۔ف۔ منا ۔۔۔ میری پھدی پر وائیپر کی طرح اپنی زبان کو چلاؤ۔۔اور میرے خیال میں بھائی نے اپنی زبان کو ۔۔ وائیپر کی طرح ۔بھابھی کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ بھابھی بڑی مست آواز میں کہنے لگی۔۔۔یس ۔یس ۔۔ایسے ۔۔۔ شاباش۔ایسے چاٹ نہ میری پھدی کو ۔۔۔۔۔ اور اس طرح بھائی کافی دیر تک بھابھی کی چوت کو چاٹتا رہا ۔۔۔۔ پھر ایک دم وہ اوپر اُٹھا ۔۔۔۔ اور بھابھی کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔ آیا ۔۔۔ جی ۔۔۔ آپ کی سُو سُو والی جگہ کو میں مزید نہیں صاف کر سکتا ۔۔۔تو بھابھی نے بھائی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔وہ کیوں منا۔۔ تو بھائی نے ترنت ہی جواب دیا کہ وہ اس لیئے آیا جی کہ میں آپ کی سُو سپو والی ۔۔ جگہ کو جتنا ۔۔۔ چاٹ کر صاف کرتا ہوں ۔اندر سے اور ۔۔ زیادہ پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے ۔۔۔ آیا جی چیک کرو آپ کی سُو سُو جگہ کہیں اندر سے لیک ہو رہی ہے۔۔


                   ۔ تو بھائی کی بات سُن کر بھابھی کہنے لگی ۔۔۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ میری سُو سُو ۔۔۔ والی جگہ کہیں اندر سے لیک ہو رہی ہے پھر انہوں نے بڑے پیار سے بھائی کو مخاطب کیا اور کہنے لگی۔۔۔۔ مُنا ۔۔۔ ایک طریقے سے اس کی لیکیج بند ہو سکتی ہے تو بھائی کہنے لگا ۔۔۔وہ کیسے آیا جی؟ تو بھابھی کہنے لگی۔ وہ ایسے منا جی ۔۔۔ اگر تمھاری سُو سُو والی جگہ میری سُوسُو والی جگہ سے مل جائے تو شاید یہ لیکج بند ہو جائے ۔۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی حیران ہونے کی ایکٹنگ رکتے ہوئے کہنے لگے۔۔ آیا جی ۔سچ مُچ ۔۔میری سُو سُو والی جگہ جب آپ کی سُو سُو والی جگہ سے ملے گی تو اس طرح آپ کی لیکیج وال بند ہو جائے گی ؟؟ تو بھا بھی کہنے لگی۔۔۔ تم خود دیکھ لینا ۔۔۔ جب تمھاری سو سو والی جگہ میری سو سو والی جگہ سے ملے گی تو ۔۔ تھوڑا تمھارے اندر سے اور تھوڑا میرے اندر سے چپ چپا سا پانی خارج ہو گا اور پھر ۔اور پھر ہم دونوں کا یہ پانی مل کر میرے اندر ہونے سے آنے والے پانی کا اخراج بند کر دے گا ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر بھائی ایک دم نیچے لیٹ گیا اور کہنے لگا ۔۔۔ تو ٹھیک ہے آیا جی آپ ۔۔ میرے سُو سُو والی جگہ پر اپنی سو سو والی جگہ رکھو۔۔۔۔ بھابھی ۔۔۔کہ اس وقت جس کی نظریں بھائی کے لن پر جمی ہوئی تھیں ۔۔۔ ایک دم صوفے سے نیچے اتری اور ۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگوں کو بھائی کی دونوں رانوں کے درمیان لے گئی اور پھر ۔۔۔ کھڑے ہو کر اس نے اپنی دو انگلیوں کو اپنے منہ میں ڈالا اور ۔۔ بہت سا تھوک نکال کر بھائی کے لن پر مل دیا۔۔۔ جیسے ہی بھابھی نے بھائی کے لن پر اپنا تھوک ملا ۔۔۔ نیچے سے بھائی چلایا ۔۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو آیا جی۔۔۔۔ میری سُو سوُ والی جگہ پر تھوک لگا کر پھر سے اسے گندہ کر رہی ہو؟ ابھی ہی میں نے صاف کر وایا تھا ۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔ابھی مجھے کرنے دو ۔۔ اس کے بعد میں پہلے کی طرح اپنے اس تھوک کر چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔بھابھی کی بات سُن کر بھائی کہنے لگے۔۔۔ اگر پہلے کی طرح آپ چاٹ کر صاف کر دو گی تھو پھر ٹھیک ہے ۔۔آپ جتنا مرضی ہے تھوک لگا لو۔۔باھئی کی بات سُن کر ۔۔۔ بھابھی نے بھائی کے لن کا نشانہ لیکر کر ۔۔ نیچے بیٹھنا شروع کر دیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بھائی کا پورا لن اپنی چوت میں گم کر دیا۔۔۔۔ اس کے بعد وہ بھائی کے لن پر بیٹھے بیٹھے آگے پیچھے ہو کر ہلنے لگی۔۔۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے بھابھی کا منہ میری طرف تھا ۔۔جس کی وجہ سے مجھے بڑے ہی واضع طور پر بھائی کا لن بھابھی کی خوب صورت پھدی میں آتے جاتے ہوئے صاف دکھائی دے تھا ۔۔ ۔۔ کافی دیر گھسے مارنے کے بعد آخر بھابھی نے ایک چیخ ماری اور کہنے لگی۔۔۔ منا ۔۔۔۔ میں اپنے اندر تمھارا گرم ۔۔۔ پانی محسوس کر رہی ہوں ۔۔۔ کیا تم پانی چھوڑ رہے ہو ۔۔۔؟ تو بھائی کہنے لگی ۔۔۔آیا جی میرے اندر سے پانی نکل نکل کر آپ کے لیک ہونے والے سوراخ کی کے اندر گر رہا ہے پھر اچانک بھائی بھی چلائے اور کہنے لگے۔۔۔۔۔۔ آیا جی آیا جی۔۔۔۔ آپ بھی گرم گرم پانی ۔۔۔چھوڑ رہی ہو نا ۔۔۔ تو بھابھی چڑھتے ہوئے سانسوں میں بولی۔۔۔ ہاں منا۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی پانی چھوڑ رہی ہوں ۔۔۔۔۔پھر تیز تیز گھسے مارنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔۔وہ بھائی کے لن سے اُٹھی۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ اب لیکج بند ہو جائے گی تو بھائی اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آیا جی ۔۔۔ یہ جو میرے سُو سُو ۔۔والی جگہ کے آس پاس اتنا گندہ پانی لگا ہوا ہے ۔۔۔ اس کو چاٹ کر صاف کر و نا ۔۔۔ ؟ تو بھابھی کہنے لگی۔فکر نہ کرو منا ۔۔۔ میں تمہاری اس جگہ پر لگے ہوئے ایک ایک قطرے کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔۔ اس کے بعد وہ بھائی سے یہ کہتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔ کہ اپنی جگہ سے ۔۔۔۔ ہلنا نہیں ۔ منا ۔۔۔ میں بس ابھی آئی۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی بھابھی میرے سامنے چلتی ہوئی منظر سے غائب ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ادھر میں بھائی کے منی سے لتھڑے ہوئے لن کو دیکھ کر اپنی چوت کجھا رہی تھی۔۔۔ اور ۔۔۔ اس بات کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ کہ کب بھابھی آئے اور بھائی کے لن پر لگی ساری منی کو چاٹ کر صاف کر دے۔۔۔ کیونکہ مجھے بھابھی کا لن پر لگی منی کو صاف کرنے کا طریقہ بہت پسند آیا تھا ۔وہ اپنی زبان سے بھائی کے لن کو پہلی بار میں ہی چاٹ کر کچھ اس طرح صاف کیا کرتی تھی کہ مجال ہے جو ان کی مشترکہ منی کا ایک مائیکرو ۔۔ قطرہ بھی بھائی کے لن پر لگا رہ جاتا تھا ۔۔۔اور ان کی چودائی کا واحد یہ سین تھا کہ جسے دیکھتے ہوئے میں بہت ہی گرم ہو جاتی تھی ۔۔۔اور اپنا دانہ مسلتے ہوئے کئی دفعہ چھوٹتی تھی ۔۔اور اس وقت میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے بھابھی کے انتظار میں تھی کہ کب وہ آئے اور بھائی کے لن کو چاٹے ۔۔۔ تو میری بھی بھی چوت میں رکا ہوا پانی باہر آئے۔۔اسی لیئے ۔۔۔ میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے اندر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ کندھے پر ہاتھ پڑتے ہی میں نے اچھل کر پیچھے دیکھا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بھابھی ایک بڑی سی چادر میں خود کو لپیٹے عین میرے پیچھے کھڑی ہیں ۔۔ بھابھی کو اپنے سامنے دیکھتے میں حیرت سے کنگ ہو گئی اور اس سے قبل کہ میں ان سے کوئی بات کرتی ۔۔۔ انہوں نے میرے کندھے کو تھپ تھپا یا اور کہنے لگی۔۔۔۔ کیسا لگا ہمارا۔ شو۔!!!!!!!!!!!!۔۔۔ انہوں نے بس اتنا ہی کہا اور پھر بنا کچھ مزید بات کیئے واپس چلی گئی........


جس وقت بھابھی مجھ سے یہ بات کر رہی تھی اس وقت شرم کے مارے میرا جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ کہ ابھی زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔۔۔ ادھر ۔۔ بھابھی مجھ سے۔۔۔۔ یہ بات کر کے جس طرح اچانک آئی تھی ویسے ہی تیزی سے واپس چلی گئی۔۔ بھابھی کے جانے کے بعد ۔۔پہلے تو چند سکینڈ تک مجھے کچھ سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا اور میں کافی دیر تک حیران پریشان کھڑی رہی ۔۔ پھر اچانک مجھے ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔۔ اور کچھ ہوش آیا تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں سخت شرم محسوس کر رہی تھی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں چلو بھر پانی میں ڈوب مروں ۔۔۔ ۔۔۔ پھر مجھے سوچ آئی کہ اگر بھابھی نے میری اس حرکت کے بارے میں اماں کو بتا دیا تو کیا ہو گا؟؟ ۔پھر اس کے ساتھ ہی میں سوچا کہ کون سا بھابھی نے مجھے موقعہ پر پکڑ ا ہے ۔۔۔اگر بھابھی نے اماں کے ساتھ یہ بات کی تو میں صاف منکر ہو جاؤں گی کہ میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی ہے بھابھی ایسے ہی مجھ پر الزام لگا رہی ہے۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی خیال آیا کہ میری اماں بہت ۔۔۔ سمجھدار خاتون ہے ہو سکتا ہے کہ بھابھی کے سامنے وہ اس بات اک یقین نہ کرکے مجھے کچھ نہ کہے لیکن اس بات کا مجھے پکا یقین تھا کہ اماں نے نہ صرف یہ کہ بعد میں مجھ سے سخت انکوائیری کرنی ہے بلکہ ۔ بال کی کھال بھی اتار کر حقیت تک پہنچ ہی جانا ۔۔۔ ہے اور اگر اماں کو ساری حقیقت پتہ چل گئی تو۔۔۔۔اور یہ سوچ کر مجھے ایک جھرجھری سی آگئی۔۔ اور میں نے سوچا کہ اگر اماں کو سب حقیقت پتہ چل گئی تو اس نے مار مار کر میری ہڈی پسلی ایک کر دینی ہے ۔۔ کیونکہ بچپن میں اماں چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنا مارتی تھی ۔۔۔۔ تو اس بات پر۔۔۔تو اماں نے میری جان ہی نکال دینی تھی۔۔۔ اور ۔۔ مجھے اچھی طرح سے پتہ تھا کہ مارتے وقت اماں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھی۔۔۔ اس کے بعد میں نے یہ سوچا کہ میری اس حرکت سے بھابھی کیا سوچتی ہو گی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر بھابھی نے میری اس حرکت کے بارے میں بھائی کو بتا دیا کہ میں ۔۔۔ چھپ چھپ کر ان کا ۔۔۔ لائیو شو دیکھ رہی تھی تو ۔۔؟  


۔۔ بھائی میرے بارے میں کیا سوچے گا کہ اس کی بہن کیسی ہے ؟کہ اپنے سگے بھائی۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے میں نہ سوچ سکی۔۔۔ ۔۔۔ یہی بات سوچتے سوچتے میرے دل میں ایک یہ بات یہ بھی آئی کہ کیوں نہ میں گھر سے بھاگ جاؤں ۔۔۔ پھر یہ سوچ کر ۔۔۔۔ میں نے خود ہی اپنے اس فیصلے کو رد کر دیا کہ بھاگ کر میں جاؤں گی کہاں ؟ کیونکہ میں اچھی طرح سے جانتی تھی کہ میرے گھر والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اس لیئے کہیں نہ کہیں سے انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالنا ہے ۔۔۔ اور ۔۔ جب یہ لوگ مجھے ڈھونڈ لیں گے تو پھر ۔۔۔؟ ۔۔۔۔یہ سوچ کر میں نے بھاگنے کا اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے آپ پر لعن طعن شروع کر دی ۔۔۔ کہ مجھے کیا ضرورت تھی ۔۔۔ وہاں جانے کی۔۔۔اور یہ سوچ کر مین خود کو کوسنے دینے لگی۔اور ساتھ ساتھ کمرے میں ادھر ادھر چکر بھی لگاتی جا رہی تھی۔۔۔ کیونکہ مجھے کسی بھی طور قرار نہ آ رہا تھا ۔۔۔ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا ۔۔۔اور میں سخت پریشانی کے عالم میں مبتلا تھی خاص طور پر مجھے اس بات کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ آخر بھابھی نے مجھے اس وقت کیوں نہیں کچھ کہا؟ ۔۔۔ اور بات بھی یہی تھی کہ اگر اسی وقت بھابھی مجھے ڈانٹ دیتی تو شاید میں سنبھل جاتی لیکن ۔۔۔۔ مجھے اس نے کچھ بھی نہ کہہ کر مجھے ایک ایسی شرمندگی میں مبتلا کر دیا تھا کہ ۔۔۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آ رہی تھی کہ اس کے بعد میں کس منہ سے بھابھی کا سامنا کروں گی؟؟؟؟؟اور کس طرح سے بھابھی کو اس بات کا یقین دلاؤں گی کہ آج کے بعد دوبارہ میں کبھی ایسی حرکت ہر گز نہ کروں گی۔۔۔ اسی طرح کی باتیں سوچتے سوچتے اور کمرے کے چکر لگاتے لگاتے کافی ٹائم گزر گیا۔۔۔ ۔۔پھر اچانک میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک کی آواز سنی ۔۔۔ دستک کی آواز سنتے ہی ۔۔۔ میں بری طرح سے چونک گئی ۔۔۔اور ابھی میں یہ دیکھنے کے لیئے کہ یہ دستک کس نے دی ہے ۔۔۔۔ دروازے کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور بھابھی اندر داخل ہو گئی ۔۔۔ بھابھی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں نے اسے دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔۔ اور روتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ سوری بھابھی۔۔۔۔ ۔۔ مجھے روتا دیکھ کر بھابھی جلدی سے پیچھے مُڑی اور دروازے کو لاک کر دیا ۔۔۔ دروازہ لاک کر کے اس نے میری طرف دیکھا تو میں بھاگ کر اس کے پاس چلی گئی اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا ۔۔۔ میں روتی جاتی اور ساتھ ساتھ بھابھی سے یہ بھی کہتی جاتی تھی کہ آئی ایم سوری بھابھی۔۔۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی ۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اور پھر روتے روتے میں نے اپنے سر کو بھابھی کے کندھے سے ہٹایا اور ۔۔۔ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔ بھابھی ۔ پلیز زززززززززز ۔۔۔۔ ۔۔میری اس حرکت کے بارے میں ۔ اماں کو یا فائق بھائی کو ہر گز نہ بتایئے گا ۔۔۔ اور ایک بار پھر ہچکیاں لے لے کر رونا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ میری بات سُن کر بھابھی آگے بڑھی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر کہنے لگی۔۔۔ میری گڑیا ۔۔۔ میری جان۔۔۔تم سے یہ بات کس نے کہہ دی ہے کہ میں تمھاری کوئی بھی بات اماں یا فائق کے ساتھ کرنے والی ہوں؟؟؟ ؟ اور اس کے ساتھ ہی پر بڑے ہی پیار سے وہ میری بیک پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔ بھابھی کے منہ سے یہ بات سُن کر میں تو حیران رہ گئی ۔۔۔ اور ایک دم پیچھے ہٹ کر بڑی بے یقینی سے بھابھی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ریلی۔۔۔؟ ؟ ۔۔۔ آآآآ۔آپ ۔۔۔آپ ٹھیک کہہ رہی ہو کہ ؟ ۔۔۔۔۔ تو بھابھی میری بات کاٹ کر کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں میری گڑیا ۔۔۔۔ میں بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔۔۔ کہ فائق سے نہیں بلکہ کسی سے بھی تمھاری یہ بات نہیں کروں گی ۔۔۔ بھابھی کی بات سُن کر میں پھر سے آگے بڑھی اور ان کے گلے سے لگ کر بولی۔۔۔۔ آپ بہت گریٹ ہو بھابھی۔۔۔ اور ایک بار پھر رونے لگی۔۔۔ تو اس دفعہ بھابھی مجھے چُپ کراتے ہوئے بولی ۔۔ کہ ۔۔۔۔ارے ارے۔۔۔ یہ کیا تم نے رونے کا پرمٹ لے رکھا ہے ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ چپ کر جا گڑیا رانی۔۔۔۔کیونکہ ۔ مجھے روتے ہوئے بچے زرا بھی اچھے نہیں لگتے ہیں ۔۔۔ تو میں نے روتے ہوئے کہا کہ بھابھی ۔۔۔ میں بہت گندی ہوں ۔۔ اور میں نے بڑی بے غیرتی کی ہے ۔۔۔۔


میری بات سُن کر ایک دم سے بھابھی نے مجھے اپنے سے الگ کیا پرک اس نے میرے ماتھے کو چوما اورپھر ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ نہیں ۔۔۔میری گڑیا ۔۔۔ تم گندی نہیں ۔۔ہاں سیکسی ضرور ہو۔۔۔ ۔۔اور پھر شرارت بھرے انداز میری طرف دیکھ کرکہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا۔مس ہما۔۔۔ تو بھابھی کی بات سن کر میں نے اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر بھابھی آگے بڑھی ۔۔اور میری ٹھوڑھی کے نیچے اپنی دو انگلیاں رکھیں اور میرا منہ اوپر کر طرف کر کے بولی ۔۔۔۔ میری طرف دیکھ کر جواب دو نا۔۔۔۔۔ تو شرم کے مارے میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔میری یہ حرکت دیکھ کر بھابھی ۔۔۔ ۔ ہنسی اور شرارت بھرے انداز میں کہنے لگی ۔۔۔ اوہو ۔۔اس وقت تو بڑی شرمیں آ رہیں ہیں اور آنکھوں پر ہاتھ رکھا جا رہا ہے لیکن ۔۔۔۔ جس وقت ہما جی میں نے آپ کو دیکھا تھا ۔۔۔تو کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس وقت آپ کا ہاتھ کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا ؟ ۔۔۔ ۔۔ بھابھی نے مجھ سے یہ بات کی اور پھر بڑے زور سے ہنس پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔ ری لیکس یار ۔۔۔۔۔ اور ایک بار پھر سے اس نے میرا ماتھا چومنے کے لیئے مجھے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اور میرے ماتھے کو اوپر تلے ۔چار پانچ دفعہ چوم لیا ۔۔اور پھر ۔۔۔۔ اس کے بعد مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ ۔۔۔ ماتھا چومتے چومتے کس وقت بھابھی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے اور ۔کب ہم دونو ں کے ہونٹ ۔۔ آپس میں مل گئے۔۔۔۔۔بھابھی نے جب اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھا تو ۔۔۔۔ ۔۔۔ پہلےتو کچھ دیر تک میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ ۔۔۔ بھابھی میرے ساتھ کیا حرکت کر رہی ہے ۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے مجھے سمجھ آنا شروع ہو گئی ۔۔۔ لیکن میں نے بھابھی کی اس حرکت پر کوئی مزاحمت نہیں کی ۔۔ اور بھابھی جو بھی کر رہی تھی اسے کرنے دیا۔۔اس وقت بھابھی نے میرے نچلا ہونٹ ہونٹ کو اپنے دونوں میں ہونٹوں لیکر دبایا ہوا تھا اور اسے چوس رہی تھی ۔۔۔اور سچی بات تو یہ ہے کہ بھابھی کے نرم ہونٹوں کا میرے نرم ہوٹوں سے ملاپ مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔اور میں آہستہ آہستہ میں شاک سے باہر آتی جا رہی تھی۔اور شاید بھابھی بھی یہی چاہتی تھی کہ میں صدمے سے باہر آ جاؤں۔۔اسی لیئے وہ مسلسل میرے ہونٹوں کو چوسے جا رہی تھی ۔اور پھر۔۔ دھیرے دھیرے ۔بھابھی کی نرم۔۔۔ گرم کسنگ سے سے تھوڑی ہی دیر بعد میرے اندر گرمی کی لہریں سر اُٹھانے لگیں ۔اور دھیرے دھیرے میں مست ہونے لگی ۔ اور۔پھر۔۔ عطیہ بھابھی کا ۔۔۔ یوں میرا ہونٹ چوسنا مجھے بہت اچھا لگنے لگا۔۔۔اور ۔۔۔ پھر میں نے بھی بھابھی کواپنا ردِ عمل دینا شروع کر دیا۔۔۔ میرا رسپانس دیکھ کر بھابھی نے ایک لحظے کے لیئے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ نکالے اور میری طرف دیکھتے ہوئے میری زہنی کیفیت کا اندازہ لگانے لگی۔۔ ۔۔۔ 


  کچھ دیر تک میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھےے بغور دیکھنے کے بعد اس نے دوبارہ سے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔پھر ۔۔ اگلے ہی لمحے میرے ہونٹ چوستے چوستے بھابھی نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔اور میری زبان کے گرد اپنی زبان کو لپیٹ دیا۔۔۔ شروع سے ہی مجھے بھابھی کے منہ سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی۔۔لیکن شاید صدمے کی وجہ سے میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی تھی لیکن ۔ جب عطیہ بھابھی نے اپنی زبان کو میری زبان سے لپیٹ کر ۔۔۔اسے اچھی طرح چوسا ۔۔۔اور پھر اچانک ہی انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ سے واپس کھینچ لیا اور ۔۔پھر ۔ اپنی لمبی زبان کو منہ سے باہر نکال کر مجھے دکھاتے ہوئے ۔۔۔ بڑی ہی مخمور ۔۔۔ نظروں سے میری طرف دیکھا اور مست لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ ہما ۔۔ڈارلنگ۔۔۔ زرا غور سے میری زبان کی طرف دیکھو۔۔۔ میں نے ابھی اسی زبان سے تمھارے بھائی کے لن پر لگی اپنی اور اس کی ساری منی کو چاٹ کر صاف کیا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگی زرا اس کو چوس کر دیکھو۔۔۔۔ زرا ۔۔ اس کی مہک تو لے کر دیکھو۔۔۔ اس میں سے تم کو۔۔۔۔ہم دونوں کی مشترکہ منی کی مہک آئی گی ۔۔۔ ذائقہ آئے گا۔ٹیسٹ آئے گا ۔۔ اور پھر سے وہ مجھ پر ٹوٹ پڑی ۔۔۔ ادھر بھابھی کی یہ بات سن کر کہ اس کی زبان پر ابھی بھی ان دونوں کی منی کا ذائقہ لگا ہوا ہے ۔۔۔ میں بے حد پُر جوش ہو چکی تھی ۔۔اور میرا جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ کہ میں بھابھی کی زبان کو کھا جاؤں ۔۔اسی لیئے جیسے ہی بھابھی اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈالنے کے لیئے آگے بڑھی تو میں نے بڑے ہی گرمی اور اشتیاق کے ساتھ اس کی زبان کو اپنی زبان کی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ اور میں بھابھی کی ٹیسٹی زبان کو پاگلوں کی طرح چوسنے لگی۔۔۔۔ادھر بھابھی نے اپنی زبان کو چسواتے ہوئے۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور میرے دونوں دودھ پکڑ لیئے۔اور ان کو زورزور سے دبانے لگی۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد بھابھی نے اچانک ہی اپنی زبان کو واپس کھینچ کر میرے منہ سے باہر نکالا اور کہنے لگی۔۔۔۔بس بھی کر۔۔۔ہما ۔۔۔ میری زبان کو کھانا ہے کیا؟ تو میں نے پرُ ہوس نظروں سے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ پروگرام تو یہی ہے۔۔۔ تو عطیہ بھابھی ہنس کر کہنے لگی۔۔۔ پروگرام کی بچی۔۔۔۔ تم نے میری زبان چوس کر وہاں سے تو ساری منی ختم کر دی ۔۔۔ لیکن تمھاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اب منی وہاں سے کوچ کر کے (اپنی پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اب یہاں آ گئی ہے ۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں نے بنا کوئی جواب دیئے اس کی شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ تو بھابھی گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ارے ۔۔۔ارے۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔ تو میں ۔۔۔۔۔ نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔ جس طرح میں نے آپ کی زبان پر لگی منی کو چٹ کیا ہے ۔۔۔۔ ویسے ہی نیچے بھی آئی ہوئی منی کو چاٹ کر صاف کر دوں گی ۔۔۔۔ اور بھابھی کا آزار بند کھول دیا۔۔۔ اسی دوارن بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر میری شلوار بھی اتار دی۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی شلوار کو اتارا تو ۔۔۔بھابھی بڑے غور سے میرے گوشت سے بھری چوت کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھی اور میری پھدی پر اپنی دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی رکھی اور کر کہنے لگی۔۔۔ اُف۔۔۔ اتنی حسین چوت۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔ کوئی خوش قسمت ہی اس کو مارے گا ۔۔۔پھر انہوں نے بڑے ہی معنی خیز لہجے میں میری طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ ابھی تک کس کس نے نے ماری ہے؟ تو میں نے شرما کر کہا ۔۔ کسی نے بھی نہیں ۔۔۔کہ یہ ابھی تک اَن ٹچ ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔ نہیں ایسے نہ کہو بلکہ ایسے کہو کہ تمھاری چوت ابھی تک ان ٹچ تھی لیکن ۔۔۔اب میرے ہاتھ لگانے سے ان ٹچ نہیں رہی ۔۔۔ پھر ایک دم وہ سنجیدہ ہو گئی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔ایک بات کہوں ہما تو میں نے کہا ۔۔جی کہیئے ۔۔تو وہ بڑے ہی سیریس لہجے میں بولی ہما ۔۔شادی تک اسے اَ ن ٹچ ہی رہنے دینا ۔۔۔


 ۔۔۔۔ اور پھر سے میری پھولی ہو چوت پر اپنی انگلی پھیرنے لگی۔۔۔ میری پھدی پر انگلی پھیرتے پھیرتے جیسے ہی اس کی نگاہ میری چوت کے دانے پر پڑی جو اس وقت شہوت کی وجہ سے کافی پھولا ہوا تھا اسے دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی اور دانے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ تو سیکسی لڑکی ۔۔ میری طرح سے تم نے بھی خوب فنگرنگ کی ہے ۔۔۔ اور پھر وہ نیچے جھکی اور میرے دانے کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی۔۔۔ میرے دانے پر بھابھی کے نرم ہونٹوں کا لگنا تھا کہ۔۔۔ میرے مزے کے مارے میرا برا حال ہو گیا اور میں نے جھک کر بھابھی کو مموں اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر بھابھی نے اپنے منہ سے میری چوت اک دانہ نکالا اور سیکسی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ دودھ اچھے لگتے ہیں؟ تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔تو وہ کہنے لگی چوسو گی؟ تو میں نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ ہاں چوسوں گی ۔۔۔۔میری بات سن کر بھابھی اوپر اُٹھی اور اس نے اپنی قمیض اتار دی اور مجھے بھی اشارے سے ایسا کرنے کو کہا اور پھر کچھ دیر بعد ہم دونوں الف ننگی ہو گئیں ۔۔ بھابھی میرے اور میں بھابی کے خوب صورت جسم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ پھر بھابھی آگے بڑھی اپنے ممے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ لے بے بی میرا سارا دھودھ پی لو۔۔۔ اور میں نے بھابھی کے ممےچوسنے شروع کر دئے اور بھابھی جو کہ دورانِ سیکس گندی باتیں کرنے کی شوقین تھی کہنے لگی ۔۔۔ گشتی میرے ممے ایسے چوسو جیسے تم ۔۔۔گرمویں میں آم چوستی ہو۔۔۔ یا پھر شادی کے بعد ۔ نواز کا لن چوسو گی ۔۔۔ نواز کے لن کا سن کر مجھ میں جوش سا بھر گیا ۔۔۔۔ اور میں بڑی ہی بے تابی سے بھابھی کے ممے چوسنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولی۔۔۔اب بس۔۔۔۔بھی کر ۔۔۔ اور اپنے مموں سے میرے منہ ہٹا کر بولی۔۔۔۔ لن کے نام پر ۔۔۔ بڑا جوش دکھایا ہے تو نے۔۔۔۔ تو میں ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ کیا کروں بھابھی لن چیز ہی ایسی ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ویسے بائی دا وے کبھی کسی کا لن چوسا بھی ہے؟ تو میں نے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ نہیں بھابھی میں نے آج کسی کا لن نہیں چوسا۔۔۔ تو بھابھی میری طرف دیکھ کر مست لہجے میں کہنے لگی ۔تو۔۔پھر تم نے لائف میں کیا کیا ہے ؟ ۔۔۔ پھر وہ اپنی چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔ لن نہ سہی چلو آج میری چوت کو چوس کر مزہ لے لو۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ مجھے پکڑ کر پلنگ کی طرف لے گئی اور پھر مجھے پلنگ پر لٹا کر کہنے لگی ۔۔۔ تم نے کبھی سکس نائین کے بارے میں سنا ہے ؟تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔میری بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔چچ ۔۔چچ۔چچ۔ بے چاری سیکسی لڑکی جس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سکس نائین کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ سکس نائین بیک وقت ایک دوسرے کا لن پھدی چوسنے کو کہتے ہیں ۔۔ تو میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں بھابھی سے کہا ۔میں سمجھی نہیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ چل میں تجھے اس کا عملی مظاہرہ کر کے بتاتی ہوں کہ سکس نائین کیا ہوتا ہے ۔ پھر انہوں نے مجھے پلنگ پر لیٹنے کو کہا اور خود میرے اوپر آ گئی ۔۔اس وقت بھابھی کا منہ میری ٹانگوں کی طرف اور پھدی میرے منہ کی طرف تھی ۔۔۔۔پر بھابھی نے اپنے منہ کو پیچھے کی طرف گھما کر کہا ۔۔۔ ۔۔۔ ہما ۔۔۔ اوپر سے میں تمھاری پھدی چوسوں گی جبکہ اسی وقت نیچے سے تم نے میری چوت کو چاٹنا ہے ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ یہ ہوتا ہے سکس نائین۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے اپنی ٹانگیں کھلی کرنے کو کہا اور پھر میری پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا اور ۔۔۔ اپنی زبان سے میرے دانے کو چاٹنے لگی۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں نے اپنے منہ کو بستر سے تھوڑا اوپر اُٹھایا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی زبان کو عطیہ بھابھی کی چوت میں ڈال دیا۔۔ ۔۔ اس وقت عطیہ بھابھی کی چوت لیس دار پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔ اور میں نے اپنی زبان بڑھا کر اس کی چوت کا سارا لیس دار پانی چاٹنے لگی۔۔جبکہ عین اسی وقت بھابھی میری چوت کے دانے کو چاٹ رہی تھی ۔اور بھابھی اس مہارت سے اپنی زبان کو میرے دانے پر پھیر رہی تھی کہ۔۔۔جلد ہی میں بے چین سی ہونے لگی ۔۔ اور میرے اندر حدت بڑھنے لگی ۔۔۔اور جوں جوں یہ حدت بڑھتی جاتی میں نیچے سے میں اپنی چوت کو اوپر اُٹھا اُٹھا کر بھابھی کے منہ سے جوڑنے لگی۔۔ تجربہ کار بھابھی فوراً ہی ۔۔۔ میری تکلیف کو سمجھ گئی چنانچہ اس نے جلدی سے میرے دانے پر رکھا اپنا منہ ہٹایا اور پھر ۔۔۔۔اپنی زبان کو میری چوت کے لبوں پر لے گئی اور بڑی تیزی سے میری چوت چاٹنا شروع ہو گئی۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ایک انگلی سے کو میرے دانے پر بھی رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔عطیہ بھابھی کے اس عمل کے کچھ ہی دیر بعد ۔میں ایک دم تڑپی اور ۔ میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا۔۔۔ جو کہ بھابھی نے سارے کا سارا چاٹ لیا۔۔۔


 اور پھر اس نے اپنے منہ کو میری طرف گھما کر کہا ۔۔ تم تو بہت جلد چھوٹ گئی ہو ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ میرا خیال ہے ہمارے شو نے تم کو بڑا گرم کر دیا تھا ۔۔۔تبھی اتنی جلدی چھوٹ گئی ہو ۔۔۔اور اس کے ساتھ وہ پھر سے میر ے دانے پر اپنی زبان کو پھیرنے لگی ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔ پانی خارج ہونے کے بعد میں نے اپنی زبان کو اس کی چوت میں داخل کیا اور بھابھی کی طرح میں نے بھی اپنی ایک انگلی کو بھابھی کی چوت کے دانے پر پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔اور مختلف طریقوں سے بھابھی کی چوت چاٹتی گئی اور ۔اس طرح کچھ ہی دیر بعد عطیہ بھابھی نے بھی تڑپنا شروع کر دیا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی تڑپ کو نظرانداز کر کے ان کی ۔چو ت کو چوستی گئی۔۔۔ اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ بھابھی کا جسم تھرایا اور ۔وہ ایک دم تڑپ کر بولی۔۔ہائے میری چوت ۔۔ اُف ہما ۔۔ میری چوت ۔۔۔سے پانی نکلنے لگا ہے۔پھر بولی ۔۔۔ہما۔۔۔ہمم ما۔۔۔۔ میری چوت پر لگا پانی ایک قطرہ بھی نہ چھوڑنا۔۔۔ اور اس کےساتھ ہی انہوں نے میری پھدی پر رکھا اپنا منہ ہٹایا ۔اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی پھدی کو میرے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔اور ۔۔۔ اسے رگڑنے لگی۔۔۔۔ واؤؤؤؤ۔۔عطیہ بھابھی کی چوت کی ساری گرمی۔۔۔۔ پانی میں ڈھل رہی تھی۔۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ میرے منہ پر پھدی رگڑنے کی بھابھی کی رفتار تیز ہو گئی ۔۔۔تیزززززز ۔۔۔اور تیزززززززززز ۔۔اور ۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔ بھابھی کی چوت سے لیس دار پانی نکل نکل کر میرے منہ میں جانے لگا۔۔۔ اور بھابھی جھٹکے کھا کھا کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ گشتی تیزی سے زبان چلا۔۔۔۔۔۔۔ اور میری پھدی کو شانت کر دے۔۔اور اپنی پھدی کو اور بھی تیزی سے میرے منہ پر رگڑتی رہی۔۔۔اور نیچے سے اس کی چوت کا لیس دار پانی نکلتا رہا۔جو اس کی چوت کے لبوں سے ہوتا ہوا ۔۔آبشار کی طرح سیدھا میرے منہ میں گرتا رہا ۔۔۔۔۔ پھر ۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ خود بھابھی بھی شانت ہو گئی اور گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ۔مزہ آ گیا یار۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ بھی میرے برابر لیٹ گئی اور ۔۔۔ اپنے سانس درست کرنے لگی۔


تو میں نے بھابھی کی طرف دیکھتے ہوئےکہا کہ ۔۔سچ بھابھی ۔۔۔ آپ بہت سیکسی ہو ۔آپ کے سیکس سے میں بہت شانت ہو گئی ہوں۔اتنی دیر میں بھابھی اپنے سانس بحال کر چکی تھی اور میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ابھی کہاں جانی۔۔۔ تمہیں شانت کرنے کا ابھی ایک اور سٹیپ رہتا ہے بھابھی نے یہ کہا اور وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرے اوپر آ گئ

اور پھر بھابھی نے میری ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسالیں ۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے بھابھی نے کافی سارا تھوک نکال کر میری اور اپنی چوت کے دانے کو تھوک لگا کر تر کر لیا تھا ۔۔۔اس کے بعد بھابھی نے ۔۔۔ اپنی پھدی کو میری پھدی پر رکھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنے پھولے ہوئے دانے کو میری پھدی کے پھولے ہوئے دانے پر رکھا ۔۔اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ اب دیکھنا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ اور پھر وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑنے لگی ۔۔۔ اُف۔۔۔ عطیہ بھابھی اتنی تیزی سے اپنے دانے کو میرے دانے پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ کہ ہماری دونوں کی پھدیوں سے ایک بس چنگاریاں نہیں نکلیں ۔۔۔ باقی ۔۔اس نے کوئی کسر نہیں رہنے دی۔۔۔۔ بھابھی کی رگڑائی کے کچھ ہی دیر بعد میری تو حالت غیر ہو گئی اور میں بھی جوش میں آ کر نیچے سے اس کی رگڑائی کا بھر پور جواب دینے لگی۔۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہم دنوں کی پھدیوں نے آگ جیسا پانی اگلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ۔۔ جیسے جیسے ہماری پھدیوں سے گرم پانی بہہ بہہ کر باہر کی طرف آنا شروع ہوا ۔۔۔ ویسے ویسے ہم دونوں اندر سے ٹھنڈی ہونا شروع وہ گئیں تھیں۔۔۔۔ اور پھر ہوتے ہوتے ۔۔۔ ہم دونوں ۔۔۔ بلکل ہی ٹھنڈی ہو گئیں۔۔۔۔اور اتنی زیادہ مشقت کی وجہ سے۔کم ازکم میں تو بہت زیادہ تھک گئی تھی خود بھابھی کی آنکھیں بھی نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔۔ تبھی بھابھی نے مجھے ایک گرم سی کس دی اور بولی۔۔۔تھینک یو ہما۔۔۔اب میں جا کر سوؤں گی ۔۔اور پھر وہ کپڑے پہن کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔


 عطیہ بھابھی سے میرے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے تھےاب اس خوبصورت حادثے کے بعد ہمارے تعلقات میں مزید گہرائی آگئی تھی ۔۔ اور ہم نند بھابھی سے زیادہ ۔۔۔ ایک دوست کی اچھی بلکہ بہت دوست بن گئیں تھیں ۔۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد میں نے پھر کبھی عطیہ بھابھی اور بھائی کا سیکس شو نہیں دیکھا ۔۔ حالانکہ بھابھی نے بہت دفعہ کہا بھی لیکن پتہ نہیں کیوں خاص کر ان دونوں کا شو دیکھنے کو میرا دل نہیں کیا۔۔۔ جبکہ اس کے علاوہ کسی اور کا شو میں نے کبھی بھی مس نہیں کیا تھا ۔۔۔ اس طرح کافی ٹائم اور گزر گیا۔۔۔ اور اس دوران میری دوست نواز سے باقاعدہ منگنی ہو گئی تھی ۔۔ چونکہ منگنی کے موقعہ پر ایسی کوئی خاص بات نہ ہوئی تھی جو کہ آپ لوگوں کو سنانے کے لائق ہو اس لیئے میں اس قصے کو چھوڑتی ہوں ۔۔ ہاں یاد آیا منگنی کے کچھ دنوں بعد میں اور بھابھی گپیاں لگا رہی تھیں اور باتوں باتوں میں نے جب نواز کے بارے میں بھابھی سے سوال کیا تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولی ۔۔۔ ہما بے شک نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے اور بے شک وہ میرا فرسٹ کزن بھی ہے لیکن میری ساری ہمدردی تمھارے ساتھ ہے۔۔۔اسی لیئے میں تم کو بھابھی ہونے کی حثیت سے نہیں بلکہ ایک دوست اور لور ہونے کی حثیت سے بتا رہی ہوں کہ اس کے باوجود نواز تم سے بہت محبت کرتا ہے ۔۔۔ لیکن سہاگ رات اگر تمہارا خون نہ نکلا تو ۔۔۔ بڑی مشکل ہو جائے گی ۔۔۔ تو میں آنکھ مار کر کہا بھابھی جی آپ کا نکلا تھا ۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نکلتا تو تب نا جب تمھارے بھائی کی وہ پہلی بار ہوتی ۔۔۔تو میں نے حیران ہو کر اس سے کا کیا مطلب بھابھی؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میری گڑیا ۔۔ ہم لوگوں نے شادی سے پہلے ہی جسمانی تعلقات قائم کر لیئے تھے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔ لیکن اس کیس مںی تمھارے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے پھر بولی میری بات یاد رکھناہما ۔۔کہ شادی سے پہلے ۔اگرتم زیادہ تنگ ہوئی یا کوئی لڑکا زیادہ اچھا دوست بن گیا یا اسے دیکھ کر تم پر سیکس بھوت سوار ہو گیا ۔۔۔ تو میری جان ۔۔ شادی سے پہلے کبھی بھی اس کو آگے سے نہیں کرنے دینا ۔۔تو میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔ تو پھر بھابھی میں اس کو آگے سے نہ دوں تو کیا دوں۔۔۔ تو وہ اسی سیریس لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ مزاق نہیں ہے ہما۔۔۔ ۔۔۔۔ عورت کے پردہء بکارت کے بارے میں یہ لوگ بڑے سخت واقعہ ہوئے ہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ تو اس لیئے میری گڑیا ۔۔۔ آگے کے علاوہ تمھارے پاس دو اور سوراخ بھی ہیں۔۔۔ تم وہاں سے سیکس کر سکتی ہو سمجھ تو میں گئی تھی لیکن میں نے ویسے ہی ان کو چھیڑنے کی غرض سے کہا۔۔۔۔ وہ کون کون سے دو سوراخ ہیں بھابھی جان !!! زرا وضاحت تو کر دیں ۔۔تو وہ کہنے لگی۔بنو مت ۔۔۔اب تم اتنی بھولی بھی نہیں ہو جتنی شکل سے نظر آتی ہے ۔۔۔ ۔اس کے ساتھ ہی وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ہر چند کہ ہما ڈارلنگ تمہیں سب معلوم ہے لیکن پھر بھی میں تمھاری اطلاع کے لیئے بتائے دیتی ہوں کہ ان دو میں سے ایک سوراخ تمھاری شاندار گانڈ کے بیچ میں واقعہ ہے جہاں سے تم اور کام کرنے کے علاوہ کوئی سا بھی لن لے سکتی ہو اور دوسرا سوراخ تمھارے ہونٹوں کے بیچ میں ہے جہاں پر تم کھانے پینے کے علاوہ ۔۔۔ کسی کا لن بھی یا پھدی چوس سکتی ہو ۔۔۔ اور یہ دونوں سوارخ وہ ہیں کہ جن سے تم مزہ لے بھی سکتی ہو بلکہ اگلے کو مزہ دے بھی سکتی ہو۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس ٹاپک پر وہ کچھ اور روشنی ڈالتیں اماں ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ نند بھابھی کے بیچ کیا باتیں ہو رہیں ہیں ؟ اماں کو دیکھ کر بھابھی زرا نہ گھبرائی اور کہنے لگی کچھ خاص نہیں بس ویسے ہی فیشن کی باتیں کر رہیں تھیں کہ کس قدر جلد فیشن بدل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر اماں ہمارے ساتھ بیٹھتے ہو ئے کہنے لگیں۔۔ بات تو تم ٹھیک کہتی ہو ۔۔۔ عطیہ بیٹی۔۔۔اور ۔۔۔ پھر اس کے بعد اماں اور بھابھی فیشن کے ٹاپک پر گفتگو کرنے لیں۔۔۔ اس طرح کچھ مزید وقت گزر گیا ۔۔ یہ میرے فائینل ائیر کی بات ہے کہ اس دن میں نے کالج سے چھٹی کی تھی۔۔۔اور ۔گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ صبع میرے کالج میں چھٹی ہے اس لیئے مجھے کوئی نہ اُٹھائے اور پھر رات کو ایسی ڈٹ کر سوئی کہ اگلے دن بارہ بجے میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ دن کے بارہ بج رہے تھے ۔۔۔ بستر سے اٹھ کر میں نے ایک انگڑائی لی اور واش روم چلی گئی واپسی پر مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔۔۔ چنانچہ اپنے کمرے سے میں سیدھا کچن میں چلی گئی اور ابھی میں کچن سے کچھ دور ہی تھی کہ میرے نتھنوں میں اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں کچن میں داخل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ مختلف چولہوں پر تین چار قسم کی ہانڈیاں چڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ ان چولہوں کے پاس بھابھی کھڑی تھی ۔۔۔ بھابھی کو دیکھ کر میں نے ان سے کہا واہ۔۔۔ یہ اتنے ڈھیر سارے کھانے کس خوشی میں بن رہے ہیں ؟ کیا ہمارے گھر کسی کی دعوت ہے؟ تو بھابھی کہنے لگی ارے نہیں یار ۔۔۔ دعوت شاوت کوئی نہیں ۔۔ ہاں بات یہ ہے کہ بہاولپور سے عادل خان آرہا ہے ۔۔۔ تو میں نے بھابھی سے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے یہ بتاؤ مہاراج کس ٹائم پدھاریں گے۔۔۔ تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔ چار پانچ بجے تک پہنچ جائے گا پھر کہنے لگی۔۔۔ عادل کو دفتر واپسی پر فائق لیتا آئے گا۔۔۔ ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ اصل میں عادل خان میٹرک کے پیپر دے کر آج کل فری تھا اور گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہا تھا اس ۔۔۔ ٹائم پاس کرنے اور لاہور دیکھنے کی غرض سے ابو نے اسے لاہور میرے پاس بھیج دیا ہے ۔۔ بھابھی کی بات سُن کر میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ ضرور دکھاؤ جی لاہور ۔۔۔ کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ۔۔۔ جینے لاہور نہیں ویکھیا ۔۔۔۔ اور جمیا ہی نئیں ۔( جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ) ۔۔ اور پھر اپنا ناشتہ لیکر ڈائینگ ٹیبل پر آ گئی۔۔۔ شام پانچ کی بجائے چھ بجے فائق بھائی ایک دبلے پتلے سےلڑکے کو لیئے گھر میں داخل ہوئے۔یہ عادل خان تھا عطیہ بھابھی کا چھوٹا بھائی۔۔عادل خان کو دیکھ کر ہم لوگ تو حیران ہی رہ گئے تھے کیونکہ آخری مرتبہ جب اس کو دیکھا گیا تھا تو وہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ تھا ۔اور اس وقت اس کا قد بھی اتنا زیادہ نہ نکلا تھا لیکن اب یہ کہ نہ صرف اس نے قد بھی نکال لیا تھا بلکہ اب تو۔ اس کی مسیں بھیگ گئیں تھیں اور اس کے سانولے رنگ میں کافی کشش آ گئی تھی۔۔۔ فائق اور عادل کے گھر داخل ہو کر ملنے کے بعد بھابھی عادل سے پوچھنے لگی کہ لیٹ کیوں ہو گئے تھے تو عادل کی بجائے فائق بھائی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مت پوچھ یار ۔۔۔ بس پورے دو گھنٹے لیٹ آئی تھی میں تو انتظار کر کر کے پھاوا ہو گیا تھا اس پر بھابھی نے تشویش سے عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ خیریت ۔۔۔ بس کیوں لیٹ ہوئی تھی؟ تو عادل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ باجی بس راستے میں خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ لوگ لیٹ ہو گئے تھے۔۔۔ اور یوں عادل ہمارے گھر رہنا شروع ہو گیا ۔۔۔ عادل ایک سانولے رنگ کا پر کشش سا لڑکا تھا اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں قرار نہیں تھا اور پہلے دن سے میں نے اس کی آنکھوں میں ۔۔۔ ایک خاص قسم کی جنسی بھوک کو محسوس کر لیا تھا ۔ جب بھی موقعہ ملتا وہ خاص کر میری چھاتیوں پر اپنی نظریں گاڑ دیتا تھا اور میرے دیکھنے پر وہ اپنی نگاہیں ادھر ادھر کر لیتا تھا میں بظاہر تو اس بات سے لاعلم تھی ۔۔ تھی لیکن اس کا یوں اپنی چھاتیوں کو گھورنے سے میں اندر ہی اندر دیکھنے سے لطف اندوز ہوتی تھی۔۔پھر ایک دن کی بات ہے کہ اس دن کوئی سرکاری چھٹی تھی اس لیئے حسبِ معمول میں دن چڑھے تک سوتی رہی اور جب آنکھ کھلی تو واش روم جانے سے پہلے ایک نظر برآمدے کی طرف دیکھا تو ۔۔دیکھا کہ عظمیٰ باجی آئی ہوئی تھی ۔۔ اور میں سارے کام بھول کر کھڑکی سے لگ کر کھڑی ہو گئی کیونکہ بظاہر تو یہ دونوں خواتین (اماں اور عظمیٰ) بڑی ہی رکھ رکھاؤ اور ادب و آداب والی تھیں ۔۔لیکن میں یہ بات اچھی طرح سے جانتی تھی کہ تنہائی میں یہ دونوں ۔۔ بلکل بازاری اور رنڈی عورتوں کی گفتگو کرتی تھی۔۔۔ اور ان کی آپس میں ہونے والی یہ بے شرمی کی باتیں مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔ اسی لیئے جب بھی عظمیٰ باجی ہمارے گھر آتی تو میں کوشش کرتی تھی کہ چھپ کر ان دونو ں کی باتیں سنوں ۔۔ ۔ اس وقت بھی میں کھڑی سے لگی ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ لیکن اس وقت وہ دونوں سامنے والی شیخ صاحب کی بیگم کی برائیاں کر رہی تھیں ۔۔


اماں اور عظمیٰ باجی سے تھوڑے فاصلے پر عادل خان اور بھابھی بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ بھابھی چاپائی پر بیٹھی کوئی سبزی چھیل رہی تھی جبکہ عادل ان کے سامنے کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔ پھر شاید بھابھی نے عادل کو کسی کام کا بولا تو وہ کرسی سے اُٹھ کر اندر کچن کی طرف چلا گیا اور واپسی پر ایک بڑی سی پرات لے آیا ۔۔ اور بھابھی کے پاس رکھ دی۔۔۔۔۔ عادل کو کچن سے واپسی پر دیکھ کر عظمیٰ باجی نے اماں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور عادل کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔۔۔۔ یہ چکنا کون ہے؟ تو اماں بولی ۔۔۔ ہولی بول مرنیئے۔۔۔(آہستہ بولو) پھر سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔ یہ عطیہ کا بھائی ہے اور میٹرک کا امتحان دیکر ہمارے ہاں کچھ دن رہنے آیا ہے۔۔۔۔ میں نے دیکھا کہ اسی دوران بھابھی سبزی وغیرہ چھیل کر کچن کی طرف چلی گئی تھی جبکہ عادل خان ابھی تک کرسی پر بیٹھا ۔۔۔ چائے پی رہا تھا ۔۔۔۔اسی لمحے ۔۔ میں نے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا جو عادل خان کی طرف یوں دیکھ رہی تھی کہ جیسے چھوٹا بچہ بیکری میں جا کر پیسٹری کو دیکھتا ہے۔۔۔ وہ کچھ دیرتک عادل کو گھورتی رہی ۔۔پھر اس کے بعد وہ اماں سے مخاطب ہو کر بڑے ہی ذُو معنی الفاظ میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ دیکھنے میں تو عطیہ کا بھائی ایک دم چکنا ہے۔۔۔۔ باقی کی کیا رپورٹ ہے ؟ ۔۔۔ عظمیٰ کی بات سُن کر اماں نے بھی عادل خان کی طرف دیکھا اور پھر بولی ۔۔۔ ہوں ۔۔چکنا تو واقعہ ہی بڑا ہے ۔۔۔ پھر۔عظمیٰ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔اصل میں اسے آئے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں ۔۔ ۔۔۔اس لیئے۔۔۔ پھر انہوں نے عظمیٰ کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور سر ہلا کر کہنے لگیں ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔ ابھی پتہ چل جاتا ہے اور سرگوشی میں بولیں ۔۔اپنی چھاتی کو نمایاں کرو۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمیٰ نے جلدی سے اپنی قمیض کا ایک اور بٹن کھول دیا ۔۔ عظمیٰ باجی کا گلا ویسے بھی بہت کھلا ہوتا تھا۔۔۔ لیکن اب جو انہوں نے اپنا ایک بٹن مزید کھولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کی طرف جاتی ہوئی لیکر کچھ اور گہرائی تک دکھائی دینے لگی اس کے بعد انہوں نے اپنی قمیض کو تھوڑا اور سیٹ کیا تو اس سے عظمیٰ باجی کی چھاتیاں اس حد تک نمایاں ہو گئیں کہ اب بس ۔۔۔ ان کی چھاتیوں کے نپلز ہی ڈھکے رہ گئے تھے۔۔۔ اپنی چھاتیوں کو آخری حد تک نمایاں کرنے کے بعد انہوں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔اور بولیں یہ ٹھیک ہے تو اماں ۔۔ عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تمہاری چھاتیوں کو دیکھ کر کہیں بچہ بے ہوش ہی نہ ہو جائے اور پھر کہنے لگی تیار ہو جاؤ میں اسے بلانے لگی ہوں اور پھر انہوں نے وہیں سے آواز لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ عادل بیٹا ۔۔۔ زرا بھاگ کر فریج سے ایک گلاس پانی تو لانا۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عادل خان نے اپنی چائے کی پیالی وہیں رکھی اور اُٹھ کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس آیا ۔۔۔ تو اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔۔جو اس نے آ کر اماں کو پکڑانے لگا تو وہ بولیں ۔۔ارے مجھے نہیں بیٹا اپنی آنٹی کو دو۔۔۔ اور عادل نے عظمیٰ باجی کی طرف پانی کا گلاس بڑھا دیا۔۔۔۔۔ عظمیٰ باجی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پانی کا گلاس پکڑنے سے پہلے ۔۔ اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ نیلو باجی آج واقعہ ہی گرمی ہے یا ۔۔۔۔ مجھے لگ ایسا لگ رہا ہے ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس ے بڑے طریقے سے اپنا دوپٹہ کو اپنی چھاتیوں سے ہٹا دیا۔۔۔۔ ادھر اماں نے ایک نظر کچن کی طرف دیکھا ۔۔ اور بولیں ۔۔۔ ہاں عظمیٰ آج واقعہ ہی بڑی گرمی ہے ۔۔۔۔۔ ادھر عادل نے جیسے ہی گلاس پکڑانے کے لیئے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا ۔۔۔تو اس کی نظر ۔۔عظمیٰ باجی کی چھاتیوں پر پڑ گئی ۔۔۔جو اس وقت صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں والے محاورے کے عین مطابق ہو چکی تھی ۔۔۔اتنی شفاف اور زبردست چھاتیں دیکھ کر عادل خان عظمیٰ باجی کو پانی کا گلاس پکڑانا بھول گیا۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی ادھ ننگی چھاتیوں کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ اتنے میں عظمیٰ باجی نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا اور غٹا غٹ پی کر واپس گلاس کو اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔اور بولیں شکریہ بھائی۔۔۔ عادل خان عظمیٰ کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے ہی واپسی کے لیئے مُڑا تو اماں کہنے لگی بیٹا اگر برا نہ مانو تو ایک گلاس میرے لیئے بھی لے آؤ گے؟ اماں کی فرمائیش سنتے ہی عادل تیزی سے واپس مُڑا اور کچن کی طرف چلا گیا۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں نیلو باجی آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے ۔۔۔ تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے اس کی آنکھوں کی طرف نہیں دیکھا۔۔۔ جو مجھ سے یہ بات پوچھ رہی ہو؟ تو عظمیٰ باجی اپنی بائیں آنکھ میچ کر کہنے لگیں۔۔۔ نہیں یار میرا سارا دھیان اس کی نیکر کے بیچ میں تھا ۔۔۔۔۔ اور ہنس پڑیں ۔اور کہنے لگیں اسی لیئے تو میں نے تم سے یہ بات پوچھی ہے ۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ارے بابا گھوڑا گھاس۔۔۔ اور لوڑا ۔۔۔چوت نہیں کھائے گا تو کیا کرے گا ؟ ۔۔۔ پھر بولیں ۔مجھے تو ۔ یہ لڑکا ۔۔۔ بڑا ہی سیکسی لگتا ہے تو عظمیٰ باجی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہنے لگی تو پھر کیا خیال ہے تمھارا ؟ تو اماں بولیں ۔۔ وہی خیال ہے جو ایک سیکسی عورت کا ایک سیکسی مرد کے بارے ۔۔۔۔ یا پیاسی چوت کا ۔۔۔ لن کے بارے میں ہوتا ہے اتنے میں عادل پانی لیکر کر آتا ہوا دھائی دیا۔۔۔ تو اسے دیکھ کر اماں عظمیٰ باجی سے مخاطب ہو کر بولی۔ ۔۔تم دوپٹہ واپس لے لو۔۔کہ۔ اب چھاتیاں دکھانے کی میری باری ہے۔۔۔ اور اماں کی بات سُن کر عظمیٰ باجی نے جلدی سے اپنی چھاتیوں کو ڈھانپ دیا۔۔۔ اتنے میں عادل خان اماں کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ اس نے اماں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے چوری چوری عظمیٰ باجی کی چھاتیوں کی طرف نگاہ ڈالی تو۔۔۔۔۔۔ اسے وہاں اپنے مطلب کی چیز نظر نہ آئی ۔۔۔ اور وہ تھوڑا مایوس سا ہو گیا ۔۔ یہ دیکھ اماں کہنے لگیں۔۔۔۔ عادل بیٹا ۔۔۔ پوچھنا یاد نہیں رہا ۔۔۔تمھارے پیپر کیسے ہوئے تھے؟ تو عادل اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ بہت اچھے خالہ ۔۔۔ اور اسی دوران اس کی نظریں اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑ گئیں۔۔۔ عظمیٰ کےمقابلے میں اماں کی چھاتیوں نہ صرف یہ کہ بہت بھاری تھیں ۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ان کی اُٹھان بھی بڑی زبردست تھی۔۔۔ اس لیئے اماں کی چھاتیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے تو عادل خان ۔۔۔ حیران ہی رہ گیا ۔۔۔اور اماں کی چھاتیوں کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔۔ اتنی دیر میں اماں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیا اور گھونٹ گھنونٹ پینے لگیں اور عادل کو مخاطب کر کے بولیں ۔۔۔ آپ ان کو جانتے ہو؟ تو عادل نے چوری سے اماں کی چھاتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔ نہ نہیں ۔۔۔خالہ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ ان کا نام عظمیٰ ہے اور یہ ہماری ہمسائی ہیں اور پھر انہوں نے پانی پیتے پیتے ۔۔اچانک گلاس عادل کی طرف بڑھایا ۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ ۔۔۔ایک منٹ کے لیئے اسے پکڑو پلیزز۔۔ ۔۔۔اور ایسے ظاہر کیا کہ جیسے ان کو کہیں شدید خارش ہو رہی ہے ۔۔۔یہ دیکھ کر عظمیٰ باجی نے حیرانگی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کیا ہوا باجی ؟ تو اماں اپنی چھاتیوں کے اندر ہاتھ لے جاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔۔پتہ نہیں صبع سے مجھے یہاں بہت زیادہ خراش ہو رہی ہے ۔۔اماں کی بات سن کر عظمیٰ نے تشویش بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ نیلو باجی آپ کے یہاں کسی کیڑے نے کاٹا ہے ۔۔۔ تو اماں نے خارش کے بہانے اپنے ایک نپل کی ہلکی سے جھلک کراتے ہوئے بظاہر عظمیٰ سے کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھ نا یار ۔۔۔ میری جلد کس قدر سرخ ہو رہی ہے۔۔۔اور اپنا آدھا نپل بظاہر عظمیٰ لیکن عادل کو دکھایا ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اچانک ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے انہیں یاد ہی نہیں رہا تھا کہ عادل بھی وہاں کھڑا ہے ۔۔۔اور جلدی سے اپنی چھاتیوں کو دوپٹے سے ڈھک کر بولی سوری بیٹا ۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیکر ایک سانس میں ختم کر لیا۔۔۔۔۔ اور اسے دیکر بولیں ۔۔۔۔ جیتے رہو ۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


جیسے ہی عادل گلاس لیکر واپس مُڑا۔۔۔تو اچانک میری نگاہ اس کی نیکر پر پڑ گئی ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اس کی نیکر تنبو بنی ہوئی تھی۔۔۔اس کے جاتے ہی عظمیٰ نے اماں کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔ آپ بڑی استاد ہو نیلو باجی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔ کھتے یار۔۔۔۔ لیکن عظمیٰ نے ان کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا ۔اماں کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ کب تک؟ تو اماں بولیں۔۔۔تھوڑا صبر کر لو۔۔۔۔۔ پہلے مجھے تو اس چکنے کو چکھنے دے ۔۔۔۔پھر اس کے بعد اماں اور عظمیٰ باجی بے چارے عادل کے بارے مین گفتگو کرنے لگیں ۔۔۔۔اسی دورا ن مجھے بڑے زور کا پیشاب لگ گیا تھا ۔۔۔ اس لیئے میں واش روم میں چلی گئی ۔۔۔۔ اور پیشاب کرتے ہوئے ۔۔۔ بھی ۔۔۔ اماں اور عظمیٰ کے بارے میں سوچتی رہی کہ دیکھو ۔۔۔۔۔ یہ دونوں کب اس سے اپنی پھدیاں مرواتی ہیں ۔۔۔۔اور پھر میں نے دل ہی دل میں طے کر لیا کہ میں ان دونوں کا لزت سے بھر پور یہ شو ضرور دیکھوں گی۔۔۔ اور آنے والے وقت کا انتظار کرنے لگی۔۔۔


لیکن اس سے پہلے احتیاطً میں نے ایک دفعہ پھر سے اماں کے کمرے کا اس حسا ب سے جائزہ لیا کہ اماں کا شو کس اینگل سے اچھا نظر آئے گا ۔۔۔ لیکن کافی تلاش کے بعد بھی مجھے ایسی کوئی جگہ نہ ملی کہ جہاں سے میرا کام ہو سکتا تھا آخر میں نے اس کام کو وقت کی مناسبت سے کرنے کا فیصلہ کیا اور کمرے سے باہر آگئی۔۔۔اور اس کے بعد میں نے اماں کو نوٹ کرنا شروع کر دیا اور میں نے دیکھا کہ اماں بڑے ہی محتاط انداز میں عادل کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں ۔موقعہ بہ موقعہ وہ عادل کو اپنی چھاتیوں کا بھر پور نظارہ کرواتی تھی ۔۔۔ اور کبھی کھبی ۔۔۔ اپنی موٹی گانڈ کا بھی درشن کروا دیتی تھی۔۔۔۔۔ اماں کے یہ انداز دیکھ دیکھ کر دھیرے دھیرے عادل بھی اماں میں دل چپسی لینا شروع ہو گیا تھا۔۔لیکن وہ اماں کے مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے ۔۔۔ بہت جھجھک رہا تھا ۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود ۔۔۔۔چوری چوری ۔۔۔ ہوس بھری نظروں سے اماں کی چھاتیوں اور موٹی گانڈ کو دیکھا کرتا تھا ۔۔۔پورے گھر میں ہی وہ واحد فرد تھی کہ جو ان دونوں کے درمیان کم ہوتے ہوئے فاصلوں کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ میں ان دونوں کی یہ ساری باتیں نوٹ کر رہی تھی لیکن میں نے اس بات کا زکر ۔۔۔۔ عطیہ بھابھی سے نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپنی اماں کے بارے میں ان سے کوئی ایسی بات کرنے کا ارادہ بھی تھا۔۔۔۔ ایک دن کا زکر ہے کہ کالج سے واپسی پر جب میں عطیہ بھابھی کے کمرے میں پہنچی تو وہ بڑی تیار ہو رہی تھی تو میں نے سمجھا کہ وہ عادل کے ساتھ کہیں گھومنے جا رہی ہے کیونکہ جب سے عادل آیا تھا وہ دونوں بہن بھائی فائق بھائی کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے دن کہیں نہ کہیں گھومنے چلے جاتے تھے اسی لیئے بھابھی کو تیاری کرتے دیکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آج کہاں کی تیاری ہے؟ تو وہ پرا سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔ نہیں یار آج ہم عادل کے ساتھ نہیں بلکہ ایک بڑی ہی بورنگ جگہ پر جا رہے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ لاہور میں ایسی کون سی جگہ ہے جو آپ کو اتنی بور لگتی ہے کہ اس کے لیئے تیار ہوتے ہوئے آپ کا منہ بنا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ تم غلط سمجھی ہو ۔۔۔ میں عادل کے ساتھ نہیں بلکہ میں اور فائق کے ساتھ ہوٹل میں اس کی سالانہ میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہی ہوں تو میں نے اس سے کہا کہ سالانہ میٹنگ میں آپ کا کیا کام؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ یار پہلے ایک جلسہ ہو گا جہاں پر ان کا کھڑوس باس کمپنی کی کارکردگی کے بارے میں بتائے گا۔ کہ اس سال کمپنی نے کتنا منافع کمایا وغیرہ وغیرہ ۔۔ پھر اس کے بعد تقریرں ہوں گی اور آکر میں ۔۔۔ کھانا ۔۔۔تو میں نے بھابھی سے کہ اس میں اتنا منہ بنانے کی کیا بات ہے تو بھابھی کہنے لگی۔۔۔۔ تم نہیں سمجھو گی ۔۔۔ اور جلدی جلدی تیار ہونے لگی ۔۔۔ بھابھی کو تیار ہوتے دیکھ کر میں ان کے کمرے سے باہر نکلنے لگی اور جیسے ہی میں واپسی کے لیئے مُڑی تو اچانک بھابھی کہنے لگی۔۔۔ ہما ۔۔یار ہو سکتا ہے ہم کو واپسی پر کچھ زیادہ ہی دیر ہو جائے تو تم ایسا کرنا کہ عادل کو ٹائم پر کھانا وغیرہ دے دینا ۔۔۔ کہ اس کو کسی اور سے کھانا مانگتے ہوئے شرم آتی ہے اس پر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی عادل آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ ایسی بورنگ جگہ پر وہ جا کر کیا کرے گا پھر بولی ویسا میں نے اس سے پوچھا تو تھا لیکن اس نے صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ نہیں جا رہا ۔۔۔۔ 


  بھابھی کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرے زہن میں ایک ہی خیال آ رہا تھا ۔۔۔ کہ بھائی اور بھابھی کسی پارٹی میں جا رہے تھے۔۔۔ فیض بھائی کی بیگم ڈلیوری کے سلسلہ میں اپنے میکے گئی ہوئی تھی ۔۔۔ فیض بھائی آفس سے آ تے ہوئے پہلے اپنے سسرال جاتے تھے اور اس کے بعد رات گئے سونے کے لیئے گھر آتے تھے۔۔۔رہ گئے ابا ۔۔۔تو ان کی ٹائمنگ کا کوئی پتہ نہیں ویسے بھی وہ اکثر لیٹ ہی آتے تھے ۔۔۔اور ۔۔۔اب گھر میں صرف میں اماں اور ۔۔۔اور عادل بچتے ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔اور اگر میں بھی کہیں چلی جاؤں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔ تو آج ۔۔۔۔۔ پارٹی ٹائم ہے ۔۔ یہ سوچ کر میرا تن بدن جوش سے بھر گیا اور جلدی سے میں اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور کپڑےوغیرہ تبدیل کر کے دوپہر کے کھانے کے لیئے ڈائینگ ٹیبل پر پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے سے باہر نکلی تو عطیہ بھابھی فائق بھائی کے ساتھ جا رہی تھی میں نے ان کو جاتے دیکھا اور کہا ۔۔۔۔ آپ لوگ بہت جلدی نہیں جا رہے تو بھابھی کی بجائے بھائی کہنے لگے ۔۔ اصل میں پہلے ہم نے اپنے ایک اور کولیگ کے گھر جانا ہے پھر وہاں سے ہم لوگ اکھٹے ہو کر ہوٹل جائیں گے۔


 ان کے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر ۔۔۔ عادل کو تلاش کرنے لگی۔۔۔ لیکن وہ کہیں نہ ملا ۔۔۔ پھر مجھے یاد آیا اور میں اماں کے کمرے کی طرف جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سامنے سے مجھے عادل خان آتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔ وہ بڑی جلدی میں لگ رہا تھا ۔۔۔تو میں نے اس کو روک کر پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو ۔۔؟ وہ کہنے لگا۔۔۔وہ باجی۔۔۔ خالہ نے بلب لانے کو کہا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا کہ خالہ کے کمرے کا زیرو واٹ کا بلب فیوز ہو گیا ہے اس لیئے وہ لینے جا رہا ہوں۔۔ عادل نے مجھے یہ کہا اور باہر جانے لگا جیسے ہی عادل واپسی کے لیئے مُڑا تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ عادل کھانا کب کھاؤ گے ۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔باجی نے کھانا کھلا دیا تھا۔۔۔ تو پروگرام کے مطابق میں نے اس سے کہا کہ مجھے بڑے زور کی نیند آرہی ہے اس لیئے میں اپنے کمرے میں سونے جا رہی ہوں ۔۔۔ اگر بھوک لگے تو مجھے اٹھا دینا ۔۔۔اور اپنےکمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی عادل میری نظروں سے اوجھل ہوا۔۔ میں ایک دم واپس ہوئی ۔۔۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کے کمرے کی طرف جانے لگی ۔۔۔اماں کے کمرے کے پاس پہنچ رک میں رک گئی اور بڑے ہی محتاط انداز میں ۔۔۔ اور جھانک کر اندر دیکھا تو۔۔۔ اماں کا کمرہ خالی تھا۔یہ دیکھ کر میں تھوڑی پریشان ہو گئی۔۔۔ لیکن پھر بھی اپنی تسلی کے لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئ اماں کے کمرے میں داخل ہوئی ۔۔ اندر جاتے ہی تو مجھے واش روم سے پانی گرنے کی آوازیں آنے لگی ۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اندر اماں نہا رہیں تھیں ۔۔۔ اس لیئے میں دبے پاؤں چلتی ہوئی کمرے کی کھڑکی طرف گئی ۔۔۔ اور پردہ پیچھے کر کے کھڑکی کا شیشہ بھی کھو ل دیا۔۔۔۔  


           اسی اثنا میں واش روم سے پانی کے گرنے کی آواز بند ہو گئی اور میں نے آخری دفعہ کھڑکی کی طرف دیکھا اور اسے اپنی مرضی کے مطابق پا کر ۔۔۔۔۔ میں کمرے سے باہر ا ٓگئی۔۔۔اور ایک مناسب جگہ پر چھپ کر عادل کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ کوئی دس منٹ کے انتظار کے بعد عادل ہاتھ میں زیرو کا بلب لیئے مجھے اماں کے کمرے کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ اور میں چھپ کر اسے آتا دیکھنے لگی۔۔۔ کچھ دیر بعد اماں کے کمرے میں تھا ۔۔۔ جیسے ہی عادل اماں کے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔ میں بھی اپنی پناہ گاہ سے نکلی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اماں کی کھڑکی کے قریب پہنچ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی محتاط انداز میں اندر کی سن گن لیتے ہوئے اوپر کو اُٹھنے لگی ۔۔۔ اور اوپر اٹھتے وقت میں نے اماں کی آواز سنی وہ عادل سے مخاطب وہ کر کہہ رہی تھیں ۔۔۔ یہ ہما کہیں نظر نہیں آ رہی؟؟؟ تو عادل بولا۔۔ جی وہ سو رہی ہیں ۔۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم کو کیسے معلوم؟ اس پر عادل نے میری اس کے بیچ ہونے والی ساری گفتگو اماں کے گوش گزار کر دی۔۔۔۔ادھر دھیرے دھیرے میں بھی کھڑکی کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اماں ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی ۔۔۔ جس وقت عادل نے اپنی بات ختم کی تو اماں نے مُڑ کر عادل پیچھے کی طرف دیکھا تو واضع طور پر میں نے اماں کے چہرےپر گہرے اطمینان کی جھلک دیکھی تھی ۔۔۔ عظمیٰ ٹھیک کہتی تھی اماں بڑی استاد تھی ۔۔۔کس طرح سرسری سا لہجہ بنا کر اس نے میرے بارے میں عادل سے معلومات لے لی تھی پھر اماں ڈریسنگ سے ہٹی اور عادل کی طر ف مُڑ گئی۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اماں نے سفید رنگ کی ایک کھلے گلے والی تنگ سی قمیض پہنی ہوئی تھی۔اور اس قمیض کا گلا اتنا کھلا تھا کہ مجھے دور سے دیکھنے پر ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی اماں کی بھاری چھاتیاں قمیض پھاڑ کر باہر نکل آئیں گی تو قریب کھڑے عادل کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔۔اوپر سے نہانے کے بعد شاید اماں نے تولیئے سے اپنے گیلے بدن کو صاف نہیں کیا تھا جبھی تو اماں کی پتلی اور تنگ قمیض گیلی ہو کر اماں کے خوب صورت جسم کے ساتھ چپکی ہو ئی تھی۔۔۔جس سے اماں کا سارا جسم نظر آ رہا تھا ۔۔۔ اور میں نے عادل کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکائے کھڑا تھا ۔۔۔ لیکن اماں سے نظر بچا کر گاہے۔ان کے جسم کو بھی دیکھ لیتا تھا ۔۔۔ اور بار بار کبھی ایک اور کبھی دوسری ٹانگ پر وزن ڈال کر کھڑا ہو رہا تھا ۔۔۔تنگ قمیض کے نیچے اماں نے اس نے ایک ٹائٹ سا تنگ سا پجامہ پہنا ہوا تھا ۔اور مجھے پورا یقین تھا کہ اس سے اماں کے اس ٹائیٹ پاجامے سے گانڈ کی ایک ایک پھاڑی صاف نظر ا ٓرہی تھی۔۔ ۔۔۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ عادل کو اچھی طرح سے اپنے جسم کا نظارہ کرانے کے بعد اماں نے ایک سٹول پکڑا اور عادل سے مخاطب وہ کر کہنے لگی۔۔ بلب کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھو اتنی دیر میں میں ہولڈر سے پرنے بلب کو اتارتی ہوں ۔۔اور پھر اماں نے عادل کی طرف پشت کی اور پاس پڑے سٹول کو اٹھانے کے بہانے کافی زیادہ نیچے کو جھکی اور ۔۔۔ اپنی گانڈ کو نمایاں کر کے ۔ بولی ۔۔۔۔ یاد آیا ۔۔۔ عادل زرا دکھانا کہ تم کون سا بلب لائے ہو ۔۔۔ اور جیسے ہی عادل بلب پکڑ کر اماں کے قریب آیا تو ایک دم سے جھکی ہو ئی اماں ایک دم سے اوپر اُٹی ۔۔۔اور اماں کے یوں اوپر اُٹھنے سے ۔۔۔ اماں کی نرم گانڈ عادل کے لن سے ٹکرا گئی ۔۔ یہ دیکھ کر اماں جلدی سے بولی۔۔۔او سوری بیٹا۔۔۔ اور اس کے ہاتھ سے بلب لے کر دیکھنے لگی ۔۔اور بولی۔۔۔ بلب تو تم ٹھیک ہی لائے ہو۔۔۔ اور انہوں نے عادل کو بلب واپس کرتے ہوئے ۔۔۔سٹول اٹھایا ۔۔۔۔ جسے لیکر وہ ۔۔۔۔ کھڑکی کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔ چونکہ کھڑکی پر جالی لگی ہوئی تھی اور اندر ٹیوب لائٹ بھی جل رہی تھی اس لیئے کمرے کے اندر سے باہر دیکھے جانے کا کوئی احتمال نہ تھا۔اور ویسے بھی اس وقت اماں کی ساری توجہ عادل کو گھیرنے میں لگی ہوئی تھی ۔ جو بے چارہ ۔۔ سخت ڈرا ہوا تھا ۔۔ اندر سے اس کا دل کر بھی رہا تھا لیکن اماں کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے وہ پہل کرنے سے ڈر بھی رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جب میں نے اماں کو کھڑکی کی طرف آتے دیکھا تو میں جلدی سے پیچھے کو ہٹ گئی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی جھری سے کمرے کے اندر کا نظارہ دیکھنے لگی ۔ ادھر اماں عادل کو تڑپا کر مزہ لے رہی تھی۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی ۔۔


۔۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر اماں نے سٹول کو بلب کے نیچے رکھا اور اس کے اوپر چڑھ کر عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ زرا سٹول کو پکڑ کر رکھنا ۔اور سٹول کے اوپر چڑھ گئی ۔ اماں کی بات سُن کر عادل نے اپنے ہاتھ میں پکڑا زیرو کا بلب سامنے پلنگ پر رکھا اور سٹول کو پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔اپنی چھاتیوں کا تو اماں نے عادل کو نیچے ہی نظارہ کروا دیا تھا ۔۔۔ اور اب نظارہ کرانے کی باری ا ماں کی موٹی گانڈ کی بلاشبہ دیکھنے میں اماں کی گانڈ بڑی ہی دل کش تھی ادھر جیسے ہی عادل نے اماں کے سٹول کو پکر کر اوپر کی طرف دیکھا تو ۔۔ اس کی نظر سیدھی اماں کی بڑی سی گانڈ پر پڑی۔۔۔جو اس کی تنگ اور باریک پجامے سے اس قدر واضع نظر آرہی تھی کہ اس پر نظر پڑتے ہی عادل کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ اور اماں کی گانڈ کو دیکھتے ہوئے وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا رہا۔۔ ادھر اماں پرانے بلب کو اتارنے کے بہانے ۔۔عادل کو ہر زاویہ سے اپنی موٹی گانڈ کے درشن کروا رہی تھی۔۔۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی ۔۔عادل کی نظریں اماں کی دونوں ٹانگوں کے سنگم پر لگی ہوئیں تھیں۔پھر میری نگاہ عادل کے نیچے پڑی تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے اس کی نیکر پر بہت زیادہ اوپر کو اُٹھی ہوئی تھی۔اور عادل کی ایک نگاہ اماں کی گانڈ کی طرف اور دوسری اپنے لن کی طرف جا رہی تھی ۔۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہاتھا ۔۔۔اس وقت جزبات سے اس کا سانولہ چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔اور چہرے پر پسینے کے قطرے آئے ہوئے تھے جو مجھے یہاں سے بھی نظر آ رہے تھے۔۔ تھے۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لن کو بٹھانے کی بھی بہت کوشش کر رہا تھا۔۔۔ جتنا وہ لن کو نیچے بٹھانے کو کوشش کرتا ۔۔اتنا ہی اس کا لن ۔۔۔ تناؤ میں آ جاتا تھا ۔۔۔ اور وہ پریشانی سے کبھی اماں کو اور کبھی۔۔۔ اپنے لن کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات ڈر بھی رہا تھا کہ ۔ کہ کہیں اس کے لن کے ابھار پر اماں کی نظر نہ پڑ جائے ۔۔۔۔دوسری طرف اماں نے پرانا بلب اتارا اور بولی عادل ۔۔۔ سٹول کو پکا پکڑنا کہ میں نیچے آنے والی ہوں ۔۔۔ اماں کا نیچےآنے کا سن کر عادل نے جلدی سے اپنے لن کو پکڑا اور اسے اپنی نیکر کے نیفے میں اڑس لیا۔۔۔ اتنی دیر میں اماں نیچے آگئی اور گہری نظروں سے عادل کی طرف دیکھ بولی۔۔۔ یہ تم کو اتنا پسینہ کیوں آیا ہوا ہے؟ تو عادل ۔۔۔ گھبرا کر بولا۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔خالہ ۔۔۔۔ آج گرمی بہت ہے نا۔۔۔ تو اماں ذومعنی الفاظ میں کہنے لگی ۔۔۔ ہاں عادل بیٹا گرمی تو بہت ہے اور عادل کی طرف دیکھتے ہوئے بلب کو نیچے گرا دیا ۔۔۔اور کہنے لگی سوری اور عادل کے سامنے ہی نیچے جھک گئی۔۔۔ اُف اماں کے نیچے جھکنے سے ایک بار پر میرے ساتھ ساتھ عادل کی نظر بھی اماں کی بھاری چھاتیوں پر پڑی ۔۔۔۔۔ اور اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔۔۔۔۔اور بے بسی سے اماں کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ادھر اماں نے پرانے بلب کو فرش سے اُٹھایا اور پھر عادل سے کہنے لگی ۔۔۔۔ بیٹا میں سٹول کو پکڑتی ہوں ۔۔۔۔تم نئے بلب کو لگا دو۔۔۔ اماں کی بات سُن عادل نے بلب کو پلنگ سے اٹھایا اور سٹول پر چڑھ گیا۔۔۔ جبکہ اماں نے سٹول پر اپنا ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ عادل کی طرف دیکھتے ہوئے اسے ۔۔۔ خواہ مخواہ ہی ہدایت دیتے ہوئے بولی۔۔۔عادل بلب کو دائیں ہاتھ میں پکڑو ۔ورنہ یہ گر جائے گا ۔اور اماں کی بات سن کر عادل نے بلب کو بائیں سے دائیں ہاتھ میں منتقل کیا ۔ اس کے ساتھ ہی اماں نے بہانے سے اپنا منہ ۔۔۔۔ عادل کے پیٹ کےساتھ لگا لیا ۔۔۔اور ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ادھر عادل ہولڈر میں بلب کو لگانے کی کوشش کر رہا تھا اور ادھر اماں کا ۔۔۔ چہرہ کھسکتا ہوا ۔۔۔ عادل کے نیچے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔ اماں کی یہ حرکت دیکھ عادل نے ایک نظر نیچے دیکھا ۔۔۔اور پھر بلب لگانے لگا ۔۔۔۔ اور جیسے ہی عادل نے ہولڈر میں بلب پھنسانے کے لیئے اپنا ہاتھ اوپر کیا ۔۔۔۔۔۔عین اسی لمحے ۔ اماں نے نے اپنا منہ عادل کے پیٹ سے ہٹایا ۔۔۔۔۔اور۔۔۔ اور ۔۔ اپنے دونوں ہاتھ عادل کی رانوں پر رکھے اور ۔۔۔ عادل سے باتیں کرتے کرتے اچانک ہی اماں کا ہاتھ پھسلا ۔۔۔۔۔۔اوررررررررررررررررررررر۔۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک ہی عادل خان کی نیکر پھسل کر اس کے گھٹوں تک آ گئی ۔۔۔ ۔۔۔۔ نیکر نیچے ہوتے ہی ۔۔۔۔ اماں نے عادل ۔۔۔۔۔اور عادل نے اماں کی طرف دیکھا۔۔۔۔ اوررر

جیسے ہی اماں نے عادل کی نیکر کو بہانے سے کھینچ کر نیچے کیا تو ۔۔۔۔۔ بلب لگاتا ہوا عادل ایک دم سے چونک گیا اور اس نے بڑی حیرت اور خوفزدہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا اور اماں جو اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ کے منہ سے بظاہر حیرت بھری آواز نکلی۔۔۔۔اوہ۔۔۔ ادھر یہ دیکھ کر ۔۔ عادل نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھوں کو نیچے لے گیا اور اپنے ہاتھوں سے لن کو ڈھانپ لیا اور ۔۔۔ بڑی عجیب سی نظروں سے اماں کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ دوسری طرف اماں نے بھی ایکٹنگ کرتے ہوئے عادل سے کہا ۔۔۔سوری بیٹا۔۔۔ ایسے ہی میرا ہاتھ پھسل گیا تھا ۔۔۔ اصل بات تو عادل بھی خوب سمجھ رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے خیال میں ڈر کے مارے چپ تھا۔۔۔ ادھر اماں کی تجربہ کار نظروں نے عادل کی اس کیفیت کو بھانپ لیا تھا ۔۔۔ اس لیئے اماں آگے بڑھی اور عادل کی طرف کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ کوئی بات نہیں ایسا ہو جاتا ہے۔۔ چند سکینڈ تک وہ دونوں چپ رہے ۔۔ پھر اماں آگے بڑھی اور اس نے اپنا ہاتھ عادل کے ہاتھ پر رکھ دیا اور بڑے پیار سے اس کے ہاتھوں کولن کے آگے سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر عادل نے ڈر کے مارے اپنے ہاتھوں کو سختی سے اپنے لن پر دبا لیا اور میں نے دیکھا کہ اس وقت عادل ۔۔۔۔ کا پورا ۔۔ جسم کانپ رہا اب پتہ نہیں اس کی یہ کپکپاہٹ ۔۔شدتِ جزبات کی وجہ سے تھی ۔۔۔یا وہ سچ مُچ ڈر رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اماں کا رنگ بھی لال ٹماٹر ہو رہا تھا ۔۔۔اور ان کے جزبات عروج پر تھے۔۔۔اور مسلسل عادل کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔کہ کب یہ پیچھے کی طرف ہٹیں اور وہ عادل کے لن کا دیدار کر سکے ۔۔۔۔ اسی دوران اماں عادل کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ کیوں اس بے چارے پر اتنا ظلم کر رہے ہو؟ ۔۔آزاد کرو اس کو ۔۔۔۔ اور پھر سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔ لیکن اس دفعہ بھی عادل کا ہاتھ بڑی سختی سے اپنے لن پر ڈھانپا رہا ۔۔۔ تب اماں نے اس کو ایک سیکسی سمائل دی اور کہنے لگی۔۔۔ کیا ہوا۔؟ آگے سے ہاتھ کیوں نہیں ہٹا رہے؟ تو وہ کانپتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ وہ خالہ ۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر اماں نے بڑی حیرانی سے عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ ڈر لگ رہا ہے لیکن کس سے؟ پھر ادھر ادھر نظریں پھیرانے کے بعد کہنے لگی ۔۔۔ لیکن یہاں تو میرے علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے ۔۔۔ پھر تم کس سے ڈر رہے ہو؟ تو عادل ۔۔ گھٹی گھٹی سی آواز میں بولا۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔ وہ خالہ ۔۔۔ مجھے آپ سے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔تو اس کی بات سن کر اماں ایک دم ہنس پڑیں اور کہنے لگی۔۔۔ اودوں تے تو زرا وی نئیں سیں ڈریا س ۔۔۔۔ جدوں میری چھاتیاں ۔۔۔ ویکھ رہیں سیں ۔ہن برے ڈر لگ رہے نے تینوں ۔۔۔(اس وقت تو تم زرا بھی نہیں ڈرے تھے جب تم میری چھاتیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔اب تم کو بڑا ڈر لگ رہا ہے ۔۔) اماں کی بات سن کر عادل تھوڑا شرمندہ سا ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ سوری خالہ ۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ کوئی گل نئیں ۔۔ تو میری چھاتیاں نو ں اک واری ہور ۔۔ ویکھ لے( کوئی بات نہیں تم میری چھایتوں کو ایک دفعہ اور دیکھ لو) اس پھر اس کے بعد اماں نے عادل کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی قمیض اتارنا شروع کر دی ۔۔۔۔ ادھر جیسے جیسے ۔۔۔ اماں ۔۔اپنی قمیض کو اتار رہی تھی ویسے ویسے عادل پھٹی پھٹی نظروں سے اماں کی موٹی اور اُٹھی ہوئی چھاتیوں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔جزبات سے اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا اور ۔۔۔ جوش یا پھر ڈر کے مارے اس کا حلق خشک ہو رہا تھا ۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ بار بار اپنا تھوک نگل رہا تھا ۔۔۔اور اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر اسے تر بھی کر رہا تھا۔۔۔ ادھر اماں بھی عادل کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ بڑے ہی آرام آرام سے سے اپنی قمیض کو اتار رہی تھیں ۔ان کا بھی چہرہ سرخ تھا اور وہ بھی ملکہء جزبات بنی ۔۔۔کبھی عادل اور کبھی اس کے ہاتھوں میں چھپے لن کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔۔ پھر ایسا ہوا ۔۔ کہ اماں نے اپنی قمیض کو اس طریقے سے اتارا کہ اس کا ایک مما ۔۔۔ قمیض سے باہرآ گیا ۔۔۔۔ اور وہ عادل کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔ عادل۔۔۔ میری چھاتی کیسی ہے؟ تو عادل نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔تو اماں نے دوبارہ سے عادل کو مخاطب کر کے کہا ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ ۔۔۔ کہ میں تمھارے سامنے اپنی دوسری چھاتی کو ننگا کروں یا نہیں ؟ اور ۔۔۔ کھڑی ہو کر عادل کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ ادھر عادل ۔۔۔۔ جو بار بار اپنے تھوک کو نگل رہا تھا ۔۔۔ اس نے اماں کو کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔تو اماں دوبارہ زرا سختی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔ جلدی بتاؤ۔۔۔ تو عادل نے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے بمشکل یہ کہا ۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ تم میری مرضی پر چلو گے۔۔۔ تو عادل نے سر ہلا کر بس اتنا ہی کہا ۔۔۔ جی ی ی ی ی ۔۔۔۔ اس وقت وہ بہت نروس ہو رہا تھا ۔۔۔اس کی آنکھوں میں واضع طور پر ۔۔۔ جنسی ہوس نظر آ رہی تھی۔اور لن ر رکھے اس کے ہاتھ کافی آگے بڑھے ہوئے تھے ۔۔مطلب یہ کہ اس کا لن کھڑا ہو گیا تھا ۔۔ لیکن۔ دوسری طرف ۔۔ اماں کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا ۔۔اس کی وجہ یہ تھی ۔۔ اس نے اماں کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا ۔۔۔۔ادھر اماں ۔۔۔عادل کو بہت ٹیز کر رہی تھی۔۔۔۔۔اور اس کی حالت دیکھ کر مزہ لے رہی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اماں کی آنکھوں میں بھی لال رنگ کے جنسی ڈورے تیرتے ہوئے دیکھ لیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مجھے یقین تھا کہ اگر عادل نے سیدی طرح سے اماں کی چوت نہ لی تو اماں اس کا ریپ بھی کرسکتی تھی ۔۔۔ پھر اماں نے دوبارہ سے اس کو کہا کہ واقعی ۔۔۔ ہی میں اپنی مرضی کروں ؟ تو ایک دفعہ پھر عادل کہنے لگا ۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔ی ی ی ۔۔۔۔۔آپ اپنی مرضی کرو۔۔۔تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ تم کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا نہ ۔۔تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ نہ نہیں ۔۔ خالہ ۔۔۔۔۔ تب اماں نے اس سے کہا کہ میری مرضی تو یہ ہے کہ تم اپنے آگے سے ہاتھ ہٹا لو اور میں بھی اپنی قمیض کو اپنی دوسری چھاتی سے ہٹا دیتی ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اماں آگے بڑھی اور اس نے عادل کے ہاتھوں کو پکڑ کر لن سے ہٹانے کی کوشش شروع کر دی۔۔ پہلی بار کی نسبت اس دفعہ عادل نے اپنے لن پر رکھے ہوئے ہاتھوں کو آگے سے نہ ہٹانے کی بس واجبی سی کوشش کی ۔۔یہ بات بھانپتے ہوئے اماں نے تھوڑا زور لگایا تو۔۔ عادل نے ان سے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے لن کے آگے سے ہٹا دیا ۔۔۔۔


جیسے ہی عادل کے لن سے ڈھانپے ہوئے ہاتھ پیچھے ہٹے ۔۔ عادل کا لن پھنکارتا ہوا ۔۔۔سامنے آ گیا ۔۔۔اور اماں کے ساتھ ساتھ میں بھی اس کے لن کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ عادل ایک دبلا پتلا اور کمزور سا لڑکا تھا۔۔۔ لیکن اس کا لن ۔۔۔ اس کی جسمانی ساخت سے کے بلکل اُلٹ تھا ۔۔۔اور اس سے زرا بھی نہیں میچ کھارہا تھا ۔۔۔عادل کا لن اس کی عمر کے حساب سے کافی بڑا اور موٹا تھا ۔۔۔۔ لن کو دیکھ کر ایک لحظے کے لے لیئے اماں کی نظریں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔ اور وہ عادل کے شاندار لن دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی ۔۔۔۔پھر وہ آگے بڑھی اور عادل کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بڑے ہی سیکسی لہجے میں بولی۔۔۔ بڑا ودیا لن اے تیرا ( بڑا اعلیٰ لن ہے تمھارا ) اور بڑے پیار سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔پھر ۔۔۔ عادل کے لن پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ۔۔۔وہ اسی مست آواز میں عادل سے بولی۔۔۔دس نا ۔۔ اینا وڈا کویں کر لیا ای۔۔۔( بتاؤ نا اس کو اتنا بڑا کیسا کر لیا ہے ) اور پھر اس نے لن کو منہ میں ڈالنے کے لیئے اپنا منہ آگے بڑھایا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر کہ ۔۔اماں ۔۔اس کا لن اپنے منہ میں لینے لگی ہے ۔۔۔ عادل نے اپنے چوتڑ وں کو تھوڑی آگے بڑھایا ۔۔۔ لیکن عین وقت پر ۔۔۔اب یہ نہیں پتہ کہ اتفاق سے یا جان بوجھ کر۔۔۔جیسے ہی عادل کا لن اماں کے منہ کے نزدیک ہوا۔۔ اماں اپنے ہونٹوں کو عادل کے ٹوپے کے قریب لا کر ایک دم رک گئی اور ۔ ایک دم اپنے منہ کو عادل کے لن سے ہٹا لیا۔۔اور ۔ اس کی طرف نشیلی نظروں سے دیکھ کر بولی۔۔۔ تو دسیا ۔۔۔نئیں ۔۔ ۔۔۔۔۔(تم نے بتایا نہیں ) ادھر عادل جو زہنی اور جزباتی طور اپنے لن کو پر اماں کے منہ میں جاتا دیکھ رہا تھا۔۔اماں کے پیچھے ہٹنے سے ۔۔ مایوس سا ہو گیا ۔۔ لیکن بولا کچھ نہیں ۔۔۔ اس کے بعد اماں نے ایک بار پھر سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ اپنے منہ سے زبان نکالی اور ۔۔ ایسے شو کیا کہ جیسے وہ اس کے لن کو چاٹنے لگی ہو۔۔۔ اور پھر پہلے کی اماں نے اس دفعہ بھی اپنی زبان کو اس کے موٹے ٹوپے سے ہلکا سا ٹچ کیا اور ۔۔۔ منہ پیچھے کر کے کہنے لگی۔۔۔۔۔ بڑا گرم لن اے تیرا ( تمھارا لن بہت گرم ہے ) اور ایک دفعہ پھر اپنا منہ پیچھے کر لیا۔۔۔ اس طرح اماں نے جان بوجھ کر عادل کے ساتھ کافی دفعہ ڈرامہ کیا ۔۔اور اس کو خوب ترسایا ۔۔۔ اور مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اماں اس بے چارے کو اتنا ترسا کیوں رہی ہے ؟؟ ۔۔۔ کبھی وہ اپنی زبان کو اس کے لن سے بلکل اوپر سے گھما کر واپس لے آتی ۔۔۔اور کھبی ۔۔۔۔ اپنا پورا منہ کھول کر اس کے ٹوپے کو اپنے منہ کے اندر لینے کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔۔۔لیکن ۔۔۔ لن کو اپنے منہ کے اندر نہیں لیتی تھی۔۔۔۔اور ادھر ہر دفعہ عادل بڑی ہی بے قراری سے اپنی کولہوں کو اماں کے منہ میں لن دینے کے لیئے تھوڑا آگے کر تا جا رہا تھا ۔۔۔لیکن ہر دفعہ اماں اس کوجُل دے جاتی تھی۔۔ آخر تنگ آ کر عادل سٹول سے نیچے اترنے لگا ۔۔تو اماں کہنے لگی۔۔۔۔۔ نیچے کیوں اتر رہے ہو ؟ تو وہ بولا۔۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔ گھبرا کر وہیں رک گیا اور ۔۔۔ کہنے لگا۔۔۔ وہ خالہ ۔۔۔ اور ۔۔ چُپ کر کے اماں کی طرف دیکھنے لگا۔۔ تب۔۔۔ تو اماں نے دوبارہ اس سے پوچھا ۔۔۔ اور بولی۔۔۔ بتا ۔۔نا۔۔۔ تو وہ سر جھکا کر کہنے لگا۔۔ وہ خالہ میں تھک گیا تھا۔۔۔ عادل کی بات سن کر اماں بڑے ہی سیکسی انداز میں ہنسی اور اس کی طرف دیکھ کر بڑے ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ابھی سے تھک گئے ہو؟ ابھی تو کام سٹارٹ بھی نہیں ہوا ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عادل دوبارہ سٹول پر رک گیا ۔۔۔ اور پہلی دفعہ وہ بھی معنی خیز لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ میں اتنی جلدی نہیں تھکتا ۔۔میں تو بس۔۔۔۔۔ عادل کی بات سن کر اماں آگے بڑھی اور خوشی سے بولی ۔۔۔ شکر ہے کہ تم بولے تو۔۔۔ اور پھر اس کی طر ف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتا ۔۔۔ یہ تم بار بار اپنے کولہوں کو آگے کیوں بڑھا رہے تھے؟ اماں کی بات سن کر عادل کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔۔اور وہ بڑی بے بسی سے اماں کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ پھر میرے خیال میں اماں کو اس پر رحم آ گیا ۔۔۔اور وہ اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگی ۔۔۔ کہیں تم اپنے کولہوں کو اس لیئے تو آگے نہیں بڑھا رہے تھے کہ میں تمھارا ۔۔۔۔ لن چوسوں ؟ اور سوالیہ نظروں سے عادل کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔اپنا کام بنتا دیکھ کر اس دفعہ عادل نے تھوڑی دلیری دکھائی اور پھنسی پھنسی آواز میں بولا۔۔۔ جی۔۔ی۔ ی۔ ی ۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔تو ایسے بولتے نا۔۔۔ پھر اس کے لن کو آگے پیچھے کرتی ہوئی کہنے لگی ۔۔ چوپا لگوانے کا شوق ہے ؟ ۔۔اماں کی بات سن کر عادل نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔لیکن کچھ نہیں بولا ۔۔۔۔ تب اماں اس سے دوسرا سوال کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اچھا یہ بتا ۔۔اپنے لن کو پہلے کبھی کسی کے منہ میں ڈالا ہے؟ تو عادل نے جلدی سے نفی میں اپنا سر ہلا دیا ۔۔۔ تو اماں تھوڑے غصے سے کہنے لگی ۔۔۔ اینج نئیں ، منہ وں پُھٹ ۔۔ (ایسے نہیں ۔۔۔منہ سے بولو) تو عادل کہنے لگا ۔۔۔ نہیں خالہ ۔۔۔ تو اماں اس کے لن کو پکڑ کر پایر سے بولی ۔۔۔ایسا بول نا یار۔۔۔ اور میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔ کہ اب عادل میں تھوڑا تھوڑا ۔۔۔۔ اعتماد آتا جا رہا تھا ۔۔۔ورنہ پہلے تو وہ اماں کے سامنے بس گھگھو ہی بنا ہوا تھا۔۔۔ اس کے بعد اماں نے اس کے لن کو سہلاتے ہوئے کہا ۔۔ چنگا ۔۔۔ایہہ دس تینوں چوپے دا شوق کیویں پیئے؟ ( اچھا یہ بتاؤ تم کو چوپا لگوانے کا شوق کیسے ہوا؟ ) تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ وہ خالہ ۔۔۔ میں نے بی پی ۔۔۔ فلموں میں دیکھا ہے۔۔۔ تو اماں ایک گہرا سانس لیکر کر بولی ۔۔۔اچھا تے اے گل اے۔۔۔۔۔۔اور پھر اس نے عادل کے لن کے قریب اپنا منہ کیا اور پھر اس کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی عادل کا لن اماں کے منہ میں گیا ۔۔اس کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ عادل کی سسکی کی آواز سن کر اماں نے اس کا لن اپنے منہ سے نکلا اور کہنے لگی۔۔۔۔ صواد آیا ای ؟ ( مزہ آیا ہے) تو عادل کہنے لگا۔۔ خالہ ۔۔ بہت مزہ آ رہا ہے اور پھر اس نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اماں کے منہ میں دے دیا۔۔۔۔اور بولا ۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔اور ۔۔۔ چوسیں نا۔۔۔ اور عادل کی فرمائیش پر ۔۔۔ اماں نے عادل کے لن کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اماں نے عادل کے لن کو اپنے منہ سے نکلا اور عادل کی نیکر کو اتار کر بولی ۔۔۔اب نیچے آ جاؤ۔۔۔اور عادل سٹول سے نیچے اتر آیا ۔۔۔ اس وقت وہ کھا جانے والی نظروں سے اماں کی چھاتیوں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے یوں اپنی چھاتیوں کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر اماں نے جلدی سے اپنی قمیض اتار دی۔۔ اور اس سے کہنے لگی۔۔عادل کی طرف دیکھ کر اپنی ننگی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔۔ اور ۔۔پھر ترنگ میں آ کر بولی۔۔۔ دس میری چھاتی سونی اے یا ۔۔ اس ہمسائی دی چھاتی سونی سی؟ ؟ ہمسائی کا ذکر سُن کر تو عادل ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ ہمسائی پر کونسی ؟ ؟ اور جب اماں نے آنکھیں نکال کر کہا اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔وہی۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عادل ۔۔۔ تھوڑا گھبرا کر بولا۔۔۔پتہ نہیں خالہ میں نے ان کی چھاتیوں کو نہیں دیکھا ۔۔۔تو اماں کہنے لگی ۔۔۔اس دن دکھائی تو تھی اس نے اور تم بڑے غور سے اس کی طرف دیکھ بھی رہے تےل ۔۔۔تو عادل شرمندہ ہو کر کہنے لگا۔۔۔ سوری خالہ ۔۔تو اماں اس سے کہنے لگی۔۔۔ ارے اس میں شرمندگی کی کیا بات ہے ۔۔ پھر اس کی طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ اس کی خوب صورت چھاتیوں کو دوبارہ سے دیکھنا پسند کرو گے؟ تو عادل چھینب ۔۔۔سا گیا ۔۔۔لیکن منہ سے کچھ نہ بولا۔۔۔۔ تب اماں کہنے لگی ۔۔۔اگر تم کہو تو میں اس کی نہ صرف چھاتیوں بلکہ ۔۔۔ اس کی پھدی بھی دکھانے کا بندوبست کر سکتی ہوں ۔۔ پھدی کا نام سن کر واضع طور پر عادل کی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی اور میرے خیال میں اس کے منہ میں پانی بھی بھر آیا تھا۔۔تبھی تو میں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹوں س رال سی گری تھی۔۔ ۔۔۔اور ۔۔۔ پھر اس نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی خالہ ۔۔۔تو اماں اس سے کہنے لگی ، میری مرضی کو چھوڑ۔۔۔ تو اپنی بتا۔۔۔ تو عادل کہنے لگا۔۔۔ تو کیا وہ خالہ اس بات کے لیئے راضی جائے گی؟ ۔۔۔تو اماں اس کے لن کو ہلاتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ اس کی رضامندی تو مجھ پر چھوڑ ۔۔۔۔۔ اور ۔۔دوبارہ سے عادل کے لن کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اماں نے اس کے لن کو دو تین دفعہ ہی آگے پیچھے کیا تھا کہ اچانک عادل کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا ۔۔۔۔اور ۔۔ اس کے منہ سے ۔۔۔ ۔۔اوہ ہ ہ ہ ہ۔۔اوہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ کی آواز نکلی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی عادل کے لن سے ۔۔۔ منی کی ایک تیز دھار نکلی اور سددھی اماں کی ننگی چھاتیوں پر جا پڑ ئی۔۔۔۔ عادل کو چھوٹتا دیکھ کر اماں نے جلدی سے عادل کے ٹوپے کو اپنی چھاتیوں پر رکھا اور اس کے لن سے نکلنے والے گرم گرم ۔لاوے سے اپنی چھاتیوں کو سیراب کرنے لگی ۔۔ اب اماں عادل کی مُٹھ مارنے کے ساتھ ساتھ اس کے ٹوپے کو اپنی چھاتیوں پر بھی رگڑتی جا رہی تھی۔۔۔اس طرح عادل کے لن نکلنے والی منی اماں کی چھاتیوں پر گرتی رہی ۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر جب تک عادل کے لن سے منی کا آخری قطرہ نہ نکل گیا اماں اس کے لن کو آگے پیچھے کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔ 


پھر جب عادل کا لن منی سے خالی ہو گیا ۔۔۔تو اماں نے اس کے لن کو چھوڑ دیا اور اپنی چھاتیوں پر لگی ہوئی عادل کی منی کو ۔ اپنے ہاتھوں سے ملنے لگی۔۔۔۔۔ اور عادل کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ ننگی فلموں میں بھی ۔۔۔ گوریاں بھی ایسے ہی اپنے یار کی منی کو اپنی چھاتیوں پر ملتی ہیں نا۔۔۔ اماں کی بات سن کر عادل پُرجوش سا ہو گیا اور کہنے لگا۔جی خالہ۔۔۔۔ لیکن ایسا کرنے سے آپ کے ہاتھ گندے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ تو اماں اس سے کہنے لگی۔۔۔ کوئی گل نہیں ۔گندے ہاتھ ابھی صاف ہو جاتے ہیں ۔۔اور پھر اس کے سامنے ہی ۔۔اماں نے ۔اپنے ہاتھوں پر لگی عادل کی منی کو چاٹنا شروع ہو گئی۔۔عادل اماں کو اپنی منی چاٹتے دیکھ کر ایک دم مست ہو گیا اور بڑی ہی دل چسپی سے اماں کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ ادھر جب اماں کے ہاتھ پر لگا عادل کی منی کا آخری قطرہ بھی صاف ہو گیا تو اماں نے عادل کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ جن فلموں کا تم ذکر کر رہے تھے ان میں ۔۔۔ گوریاں مرد کی منی کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرتی ہیں نا؟۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے عادل کو ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھ دیا ور بولی ۔۔۔۔ ان کو دباؤ۔۔۔تو عادل نے اماں کے مموں پر ہاتھ رکھنے سے کچھ ہچکچا سا گیا ۔۔۔تو اماں بولی ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟؟؟ تو عادل اماں کی چھاتی کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اس کی بات کو سمجھ کر اماں کہنے لگی۔۔۔ چل رہنے دے ۔۔۔اور پھر اس سے بولی۔۔۔ اچھا یہ بتا۔۔۔ تم کو کس سٹائل میں چودنا پسند ہے ۔۔ تو عادل خاموش رہا ۔۔تو اماں ۔۔ کہنے لگی اچھا یہ بتا کہ ننگی فلموں میں جب گورا۔۔گوری کےساتھ کاروائی کرتا ہے تو ان کی اس کاروائی کے ملاپ کا کونسا طریقہ پسند ہے؟ اماں کی بات سن کر پہلے عادل ۔۔۔تھوڑا شرما سا گیا ۔۔۔ پھر اماں کے بار بار اصرار پر کہنے لگا۔۔۔خالہ ۔۔۔ وہ ۔۔ جب گوری ۔۔ گھوڑی بنتی ہے نا تو ۔ مجھے وہ والا ملاپ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔۔عادل کی بات سن کر اماں نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ تو کیا تم بھی مجھے گھوڑی بنا کر چو دو گے؟ اماں کی بات سن کر عادل کا سانولا رنگ کھل سا گیا اور وہ اماں کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔سیدھی طرح بول نہ بچے کہ میرے ساتھ کس طریقے سے ملاپ کرنا پسند کرو گے ؟۔۔۔تو عادل کہنے لگا۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی۔۔۔پھر ایک دم بولا۔۔۔ آپ وہی والا سٹائل بنا لو۔۔عادل کی بات سن کر ۔۔۔ اماں گھوم کر گھوڑی بننے ہی والی تھی کہ اس کی نظر عادل کے لن پر پڑ گئی اور بولی ۔۔۔ ہا۔۔ایہہ تے اجے کھلوتا ہی نئیں ؟( یہ تو ابھی کھڑا بھی نہیں ہوا ہے ) تو عادل بڑی شرمندگی سے بولا 


۔۔۔۔ سوری خالہ ۔۔تو اماں کہنے لگی کہ کس بات کی۔۔۔۔ سوری ۔۔۔۔تو وہ بولا ۔۔ وہ ۔۔ وہ میں ۔۔۔۔ جلدی ۔۔۔۔۔ تو اس کی بات سن کر اماں ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ تمھاری عمر میں ایسا ہو جاتا ہے ۔۔۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ اور پھر اس کے لن کو پکڑ کر ہلانے لگی۔۔۔ اور کچھ دیر تک ہلاتی رہی لیکن عادل کا لن جب پھر بھی ٹھیک سے کھڑا نہ ہوا ۔۔۔تو یہ دیکھ کر ۔۔ اماں نیچے بیٹھی اور اس کے لن کو پکڑ کر اپنے منہ ۔۔۔ کی طرف لے جانے لگی۔۔۔۔ تو اوپر سے عادل ۔۔ بولا۔۔۔ خالہ ۔۔۔خالہ۔۔۔۔تو اماں رک کر بولی کیا ہے؟ تو عادل کہنے لگا۔۔۔۔ وہ ۔۔۔چھوٹنے کی وجہ سے میرا کافی گندہ ہو گیا تھا۔۔۔ ۔۔اس کی بات سن کر اماں بولی۔۔۔۔ رہن دے ۔۔ اور اس کے لن کو منہ میں لے لیا۔۔۔اور کافی دیرتک چوستی رہی۔۔۔اسی دوران ۔۔ جب عادل کا نیم جان لن ۔۔۔ اپنی پوری تیاری سے کھڑا ہو گیا ۔۔۔تو اماں نے اسے اپنے منہ سے نکلا اور ۔۔۔ اس پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیر کر بولی۔۔۔ ہوں ۔۔۔ اب ٹھیک ہے نا۔۔۔اور پھراماں پلنگ کی طرف گھوم گئی اور اپنے دونوں ہاتھ پلنگ کے بازو پر رکھ دیئے اور پھر اپنی موٹی گانڈ کو پیچھے سے اٹھا کر عادل کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ادھر عادل اماں کی ۔۔۔موٹی ۔۔۔گوری اور مست گانڈ کو بڑی حیرانی اور پریشانی سے دیکھنے لگا۔۔۔اماں کی اتنی مست گانڈ کو دیکھ کر اس کا چہرہ ۔۔جوش سے تمتما رہا تھا پھر ۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔اماں کی گانڈ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔۔۔ تب اماں نے ایک بار پھر اپنی گانڈ کو اس کے سامنے ہلایا اور اس پر ہلکا سا تھپڑ ما ر کر بولی۔۔۔۔ کی۔۔ ویندیں اے ۔۔۔آ جا انیوں ہتھ لا کے ویکھ ۔۔۔ ایدے تے ہاتھ پھیر۔۔۔۔۔ تے فئیر ۔۔ملائی بنڈ اے میری ۔۔فئیر میری پھدی ویکھ تے ۔ اپنے لن نوں ایدے اندر پا دے ( کیا دیکھ رہے ہو آگے بڑھو ۔۔اور میری گانڈ پر ہاتھ پھیر کے دیکھو ۔۔کیسی نرم و ملائم گانڈ ہے میری اس پر اپنے ہاتھ پھیرو ۔۔پھر میری پھدی کو دیکھو ۔اور پھر لن کو اس کے اندر ڈال دو) ۔۔۔اماں کی بات سن کر عادل دھیرے دھیرے آگے بڑھا ۔۔۔اور پھر اماں کی گانڈ کے قریب آ کے رک گیا۔۔اور جیسے ہی عادل اماں کی مست گانڈ کے قریب پہنچا ۔۔۔اماں نے ایک دفعہ پھر اپنی گانڈ کو ہلایا اور اس پر تھپڑ مار کر بولی۔۔۔ میری بُنڈ ویکھ کے دس ۔۔۔ ننگی فلموں والی گوریوں دی بُنڈ چنکی ہوندی اے،۔۔۔ یا۔۔۔ میری بنڈ چنگی اے( میری گانڈ دیکھ کر بتاؤ ۔۔۔۔ کہ بلیو مووی والی گوریوں کی گانڈ اچھی ہوتی ہے یا میری یہ گانڈ اچھی ہے ) تو عادل اماں کی نرم و ملائم گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ نہیں ۔۔خالہ ۔۔۔ آپ کی چیز گوریوں سے سو درجے اعلیٰ ہے ۔۔اس کی بات سن کر اماں کہنے لگی ۔۔۔ جےمیری اعلیٰ اے ۔۔۔تے فیر ۔۔۔میری مار دا کویں نئیں ۔۔۔ ۔پھر کہنے لگی۔۔۔ چل فیر میری پھدی وچ اپنا لل پا۔۔۔( اگر تم کو میری چوت اعلیٰ لگی ہے تو پھر میری لیتے کیوں نہیں چلو اب میری چوت میں اپنے لن کو ڈال دو)


         اماں کی بات سن کر عادل بڑھا اور اپنے کو اماں کی چوت پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ۔۔۔۔عادل نے اماں کی چوت پر اپنا ٹوپا رکھا۔۔۔۔۔ ایک دم سے اماں نے پیچھے کی طرف جھٹکا کھایااور اپنی ہپس کو عادل کے فرنٹ کے ساتھ جوڑ لیا۔۔ ۔۔۔۔۔ جیسے ہی اماں کی بیک اور عادل کا فرنٹ آپس میں جُڑے۔۔۔ ۔۔۔عادل کا بڑا سا لن پھسلتا ہوا ۔۔۔۔اماں کی چوت میں داخل ہو گیا۔۔۔ عادل کا لن اندر داخل ہوتے ہی اماں نے ایک مست سی چیخ ماری ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اپنا منہ پیچھے کر کے عادل سے بولی۔۔۔ پھدی وچ پا ن دا مزہ آیا ای ( لن پھدی میں ڈالنے کا مزہ آیا ہے؟) تو پیچھے سے عادل کی آواز آئی ۔۔۔ ہاں خالہ ۔۔۔۔۔بڑا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔۔ عادل کی بات سن کر اماں ایک دم مست ہو گئی اور اپنی گانڈ کو عادل کی طرف دھکیلتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ عادل ۔۔۔زور دی گھسہ مار (عادل زور سے جھٹکا مارو۔۔۔) اور اماں کی بات سنتے ہی عادل نے زور زور سے جھٹکے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ اور کافی دیر تک وہ برے ہی پُر جوش طریقے سے اماں کی چوت میں جھٹکے مارتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر اس کے ہر جھٹکے کے جواب میں اماں ایک ہی بات بار بار کہتی ۔۔۔۔ زور دی عادل ۔۔۔۔ ہور زور دی ( عادل جھٹکے اور زور سے مارو)۔۔۔۔ اور اسی طرح ۔۔۔۔کافی دیر تک عادل اماں کی چوت مارتا رہا ۔۔۔ پھر اچانک اماں نے ایک چیخ ماری ۔۔۔۔اور پیچھے کی طرف منہ کر کے بولی۔۔۔۔۔زور دی مار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زور دی۔ہوررر۔۔ زور دی۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔اماں کی بات سن کر عادل نے بس دو تین ہی جھٹکے مارے ہوں گے۔۔۔ کہ اچانک ۔۔اس کے منہ سے بھی ۔۔آواز نکلی۔۔۔۔۔خالہ۔۔۔خ۔۔ا۔۔۔لہ ۔۔۔۔۔۔اور عادل کے کراہنے سے اماں سمجھ گئی کہ وہ چھوٹنے والا ہے اس لیئے انہوں نے خود ہی اپنی گانڈ کو عادل کے کی طرف مارتے ہوئے ۔۔۔۔کہا۔۔۔زور دی مار ۔۔۔ زو۔۔۔۔۔و۔۔۔ور دی۔۔۔۔ اور پھر اسی طرح چند جھٹکے مارنے کے بعد اماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے بھی ایک مست چیخ ماری اور بھی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔ ان دونوں کو چھوٹتے دیکھ کر اب میرا کھڑکی کے ساتھ مزید کھڑے رہنا فضول تھا۔۔۔ اس لیئے میں چپکے سے وہاں سے کھسک کر اپنے کمرے میں ا ٓ گئی۔۔۔۔ اور پلنگ پر لیٹ کر عادل کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ واؤؤؤ۔۔۔ کیا مست لن تھا اس کا ۔۔۔اور عادل کے لن کے بارے سوچتے ہی میری چوت پانی سے بھر گئی اور پھر اپنی چوت میں پانی کو محسوس کرتے ہی میں نے جلدی سے اپنی شلوار کا آزار بند کھولا اور ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اپنے بائیاں ہاتھ کو اپنی چوت پر لے گئی۔۔۔ ۔۔۔۔اور پھر اپنی پھدی کے گرم پانی کو چیک کرتے ہوئے ۔۔۔۔ ۔۔۔میں نے فنگرنگ کرنی شروع کر دی۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔


    اگلے چند دن میں نے اماں اور عادل کو بہت نوٹ کیا لیکن حیرت انگیز طور پر ان دونوں نے پہلے کی طرح ایسی ویسی کوئی کوئی حرکت نہ کی ۔۔۔اور تو اور ۔عادل کو پہلے کی طرح اماں نے اسے اپنی گانڈ یا چھاتیاں بھی دکھانے کی کوئی خاص کوشش نہ کی ۔۔۔۔۔۔ہاں یہ بات میں نے ضرور نوٹ کی تھی کہ۔۔پہلے کی طرح اب بھی عادل اماں کی موٹی گانڈ اوربھاری چھاتیوں پر اپنی نظریں ضرور گاڑتا تھا ۔۔۔۔ لیکن اب اس کی آنکھوں میں وہ شدید جنسی ہوس نہیں نظر آتی تھی۔۔۔ جو میں نے اماں کی لینے سے پہلے اس کی آنکھوں میں دیکھی تھی ۔میرا خیال ہے کہ چونکہ اس نے اماں کی دونوں چیزوں کو نہ صرف اچھی طرح سے دیکھ لیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اماں کی چوت مار بھی لی تھی ۔۔۔ اس لیئے شاید اس کے لیئے ۔۔۔ امان کی گانڈا ور چھاتیوں میں وہ کشش نہ رہی ہو۔۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔ ہو نہ ہو ۔۔۔ضرور اماں نے عادل کو اس بارے میں سمجھا دیا ہو ۔۔۔۔اسی لیئے اب وہ بظاہر اماں کی طرف سے بلکل ۔۔۔ ہی۔۔۔ لا پرواہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف عادل کا میرے ساتھ ابھی تک وہی رویہ تھا ۔۔۔۔۔۔اب بھی وہ موقعہ ملنے پر پہلے کی طرح مجھے خاص کر میری چھاتیوں کو گھورنے سے باز نہ آتا تھا۔۔ بلکہ میں نے غور کیا تھا کہ جس دن سے عادل نے اماں کی ماری تھی اس دن کے بعد سے وہ خاص کر میری چھاتیوں کو بڑی ہی پُر ہوس نظروں سے دیکھتا تھا ۔۔۔۔ ادھر عادل کا بڑا سا لن دیکھنے کے بعد ۔۔۔۔۔ بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے میں نے بھی اس کو تھوڑی زیادہ لفٹ دینی شروع کر دی تھی۔۔۔ میں اکثر ہی اس کے سامنے جھک جاتی تھی اور اسے اپنی گوری گوری چھاتیوں کا دیدار کرواتی تھی۔جسے چوری چوری وہ بڑے ہی اشتیاق سے دیکھا کرتا تھا۔اور اس وقت اس کی آنکھوں میں وہی ۔۔۔ شیطانی جنسی ہوس نظر آتی تھی ۔جو پہلے پہلے اماں کی موٹی گانڈ کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آیا کرتی تھی ۔۔۔ادھر عادل میری چھاتیاں دیکھنے کے بعد عادل اکثر ہی غیر ارادی طور پر اپنے لن کو ضرور کھجاتا تھا ۔۔ا ور اسے لن کھجاتا دیکھ کر میں بڑا انجوائے کرتے تھی۔اور کبھی کبھی تو میرا دل کرتا تھا کہ عادل کی بجائے میں اس کا لن کھجاؤں ۔۔۔لیکن!!!!!!!!۔۔۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں عطیہ بھابھی کے ساتھ کچن میں کھانا بنانے میں مدد کر رہی تھی ۔۔۔آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں اور کچن ۔۔۔۔ لیکن دوستو مجبوری تھی۔۔۔کہ جب تک میری منگنی نہ ہوئی تھی ۔۔۔ تب تک میں نے کبھی کچن کی شکل بھی نہ دیکھی تھی ۔۔۔۔اور نہ ہی اماں نے مجھے ۔۔۔۔ کچن میں لانےیا مجھ سے کھانا بنوانے کی کوئی ضرورت محسوس کی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی میری منگنی ہوئی تو اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد ۔ جب ۔۔ شادی کے لیئے نواز لوگو ں کا اصرار بڑھنے لگا تو ۔۔اچانک ایک دن ۔۔۔اماں کو یاد آ گیا ۔۔۔ کہ کھانا وغیرہ بنانے کے معاملے میں میں بلکل زیرو ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس لیئے ایک دن اماں نے عطیہ بھابھی سے کہا کہ۔۔۔۔عطیہ بیٹی تم اس ہڈ حرام کو بھی کھانا وغیرہ پکانا سکھا دو۔۔۔ کہ جب یہ اپنے گھر جائے گی اور اسے وہاں پر کھانا بنانا نہ آیا تو تو اس کے ساتھ ساتھ میری بھی بڑی سبکی ہو گی کہ ماں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا ۔۔۔۔ اس لیئے عطیہ بھابھی کے مشورے کے بعد اماں نے مجھے ۔۔۔۔ کچن کا راستہ دکھایا تھا ۔ ۔۔ چنانچہ اس دن سے بحکم اماں جان میں اکثر ہی بھابھی کے ساتھ خاص کر رات کا کھانا بنانے میں مدد کرتی تھی ۔۔۔ اور کھانا بنانے کے طریقے میں ۔۔۔ مجھے بھابھی سے بہت سی ٹپ مل گئیں تھیں ۔۔۔۔۔ اور اب تو بھابھی نے بھی متعدد دفعہ مجھ سے خود کھانا بنانے کو کہا تھا لیکن چونکہ ابھی میں نو آمواز تھی ۔۔اس لیئے۔۔۔۔ خود سے خودسے کھانا بنانے سے بہت ڈررہی تھی۔۔۔۔ کہ اگر پہلی دفعہ مجھ سے کھانا خراب بن گیا تو ۔۔۔ گھر والے میرا بڑا مزاق اُڑائیں گے ۔۔۔۔اسی خوف سے میں نے ابھی تک کھانا نہ بنایا تھا ۔۔۔ ہاں سب سے مشکل کام ( میرے لیئے) لہسن ۔۔ اور پیاز وغیرہ چھیلنا تھا۔۔۔۔۔ جو ابھی تک مجھ سے نہ ہو سکا تھا۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میں اماں کے حکم کے مطابق کھانا پکانے کے وقت بھابھی اور کبھی اماں کے ساتھ کچن میں ہی پائی جاتی تھی۔۔۔۔ کچن میں کام کرتے ہوئے کافی دنوں سے میں یہ بات نوٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔ کہ جیسے ہی بھابھی یا اماں کسی کام سے کچن سے باہر نکلتی تھیں تو عین اسی وقت اکثر اوقات ۔۔۔۔ عادل بھی کچن میں آ جاتا تھا ۔۔۔۔ اور کسی نہ کسی بہانے مجھے ٹچ کرتا تھا۔کبھی بہانے سے میری گانڈ کو ٹچ کرتا اور کبھی ۔۔۔ وہ میری چھاتیوں پر ہاتھ لگانے یا ۔۔۔۔ انہین ٹچ کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا ۔۔اسی طرح ایک دن کا زکر ہے کہ میں کچن میں کھڑی آلو چھیل رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک پیچھے سے عادل آ گیا ۔۔۔اور میرے پیچھے کھڑا ہو گیا۔۔۔اسے اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کر میرے بدن میں سرسراہٹ سی وہنے لگی۔۔اور میں بولی ۔۔۔ کیا بات ہے عادل ؟؟؟؟؟ تو میں بات سن کر وہ کہنے لگا۔۔۔آپی۔۔۔۔ کیا آپ مجھے جپس بنا دیں گی؟ تو میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ یہ آلو تو میں گوشت میں ڈالنے کے لیئے چھیل رہی ہوں تم پلیز ایسا کرو کہ کونے میں ٹوکری سے دو تین اور آلو لے آؤ ۔۔۔ تو انہیں چھیل کر میں تمہیں چپس بنا دوں گی ۔۔۔میرے کہنے پر عادل کچن کے کارنر میں پڑی ٹوکری سے آلو لایا اور پھر عین میرے پیچھے کھڑے ہو کرمجھے دو آلو پکڑاتے ہوئےبولا۔۔۔آپی اتنے موٹے آلو۔۔ٹھیک ہیں۔؟ اور اس کے ساتھ ہی وہ غیر محسوس طریقے سے میرےاور قریب آ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کے قریب آتے ہی ۔۔۔ایک منٹ میں ۔۔۔میں اس کی اصل تکلیف سمجھ گئی ۔۔۔۔ اور پھر اس کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے ۔۔۔۔میں نے اپنی پشت کو تھوڑا پیچھے کیا ۔اور اس کے ساتھ لگئی ۔۔۔اور اس سے بولی۔۔۔ کہ تمھارے منہ سے چپس کا سن کر اب تو میرا بھی چپس کھانے کو دل کر گیا ہے اس لیئے دو آلو اور لے آؤ۔۔۔۔ ادھر عادل کےساتھ بات کرتے ہوئے جیسے ہی میں نے اپنے کولہوں کو تھوڑا پیچھے کیا تھا ۔۔۔۔تو عادل نے موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ۔۔۔۔ جلدی سے اپنے اگلے حصے کو میری نرم گانڈ کے ساتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔۔اور پھر تھوڑا مزید آگے بڑھ کر میری گانڈ کی دراڑ میں اپنا نیم کھڑا لن رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ آپی۔۔آلو ۔۔اتنے ہی موٹے ٹھیک ہیں یا ۔۔۔تھوڑے لمبے بھی لاؤں؟ عادل کی ذو معنی بات کو سن کر ۔۔۔۔ اندر ہی اندر میں نےاس کا کافی مزہ لیا ۔۔۔ لیکن اس کے سامنے سنجیدہ سا منہ بنا کر بولی۔۔۔۔ یہ بھی ٹھیک ہیں لیکن اگر ان سے بھی تھوڑے بڑے اور موٹے ہوں تو کیا بات ہے ۔۔؟؟۔ میری بات سن کر عادل نے میری گانڈ کی دراڑ کے ساتھ اپنا نیم جان سا لن رگڑا .. اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے آپی کہ آپ کو موٹے اور لمبے آلو چاہیئں اور پیچھے ہٹ کر ٹوکری میں مطلوبہ آلو تلاش کرنے لگا۔۔۔ادھر عادل کی بات سن کر میں دل ہی دل میں حیران ہو رہی تھی کہ کیا یہ وہی عادل ہے کہ جب نیا نیا یہ ہمارے گھر آیا تھا تو اس کے منہ سے بات بھی نہ نکلتی تھی ۔۔۔اور کہاں یہ عادل ہے کہ مجھ سے موٹے اور لمبے آلو ۔۔۔( لیکن اندر کھاتے لن) کے بارے سوال کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ ہی دنوں میں اماں نے اسے کتنا ٹرینڈ کر دیا تھا ۔۔۔ کہ وہ اس قدر کھلے لفظوں میں میرے ساتھ ذُو معنی باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں اس بات پر بھی حیران ہو رہی تھی کہ اماں اس لڑکے کے ساتھ کس وقت کرتی ہو گی؟ کہ باوجود اتنی چوکسی کے میں ابھی تک ان کا سیکنڈ شو نہ دیکھ پائی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔پھر اچانک ہی میرے زہن میں خیال آیا کہ فائق بھائی کے آفس ، اور میرے کالج جانے کے بعد عطیہ بھابھی بھی کچھ دیر کے لیئے آرام کرتی تھی ۔۔۔اور یہی وہ وقت۔ہے۔۔ کہ جب گھر میں ۔۔ اور کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔اور جو خواتین گھر میں ہوتی بھی ہیں وہ اس وقت آرام کر رہی ہوتیں تھیں۔۔۔چنانچہ ہو نہ ہو عادل اسی وقت اماں کے ساتھ چودائی کرتا ہو گا ۔۔۔ اور جتنا میں اس کے بارے میں سوچتی جاتی تھی۔۔۔اتنا ہی مجھے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ۔۔۔۔ اماں ۔۔ ہماری جانے کے بعد اس لڑکے سے کرواتی ہو گی۔اور مجھے یہ سوچ سوچ کر غصہ بھی آ رہا تھا کہ یہ لوگ میرے کالج جانے کے بعد کیوں کرتے تھے۔۔۔ میرے آنے کے بعد کیوں نہیں کرتے تھے؟۔۔ میں انہی سوچوں میں ۔۔۔۔گم تھی کہ اچانک پیچھے سے مجھے عادل کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ یہ آپی ۔۔۔۔ اور میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ میں دو تین موٹے موٹے آلو پکڑے ہوئے تھے۔۔۔ اور وہ میری نرم ران کے ساتھ اپنے نیم کھڑے سے لن کو لگا کر کہہ رہا تھا ۔۔ یہ لو آپی ۔۔۔آلو ۔۔۔ یہ موٹے بھی ہیں اور لمبے بھی۔۔۔۔ میں نے اپنی ران پر اس کے لن کو واضع طور پر محسوس کر کے بھی کوئی ردِ عمل نہ دیا ۔۔۔اور بڑے سرد لہجے میں اس سے بولی شکریہ۔۔۔۔ تم انہیں کائنٹر پر رکھ دو۔۔ میں تھوڑی دیر تک تمھارے چپس بنا دوں گی۔۔۔۔۔ میرے لہجے کا سرد پن ۔۔دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا ۔۔۔اور تھوڑا ڈر بھی گیا۔۔۔ اور شکریہ آپی کہہ کر وہاں سے غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments