Ad Code

Taras pyas episode 2


 تراس(پیاس)

قسط 2

جیسے ہی بھائی کے لن نے منی چھوڑی ۔۔۔ میں بڑی احتیاط سے سٹول سے نیچے اتری اور سٹول کو پکڑ کر وہاں سے چل دی۔۔ کیونکہ سٹول کو ان کے کمرے میں یا کہں آگے رکھنے میں بڑا ۔۔خطرہ تھا ۔۔۔ اس لیئے میں سٹول کو لیئے ہوئے ۔۔۔واپس اپنے برآمدے کی طرف آگئی ۔ اور پھر۔۔۔ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر میں نے اس سٹول کو وہاں رکھا اور آگے چل دی۔۔۔۔۔۔اس وقت شہوت سے میرا بہت برا حال ہو رہا تھا ۔ میرے سارے جسم میں۔۔۔۔ میرے اندر تک۔۔۔ ایک آگ سی لگی ہوئی تھی ۔۔اور اس آگ ۔اور شدید جنسی خواہش سے میرا انگ انگ ۔۔۔ بھڑک رہا تھا ۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ میں کیا کروں ۔۔۔ میں اپنی پھدی کو کہاں لے جاؤں ۔۔۔ کون ہے جو اس کی آگ کو ٹھنڈا کرے گا ؟؟ کہ معاملہ اب میری برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔ ۔اور سوچتے سوچتے مجھے جیدے سائیں کی یاد آگئی۔۔۔۔ اور پھر میں نے تہیہ کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ۔۔۔ آج رات میں جیدے کا لن لے کر رہوں گی۔۔۔اس سوچ نے مجھے کچھ سنبھالا دیا ۔۔۔اور میں جنسی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آ گئی ۔۔اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ۔۔میں بڑے محتاط انداز میں ۔ برآمدے سے ہوتی ہوئی ۔میں ۔۔ اپنے کمرے میں پہنچ گئی ۔۔۔۔۔


کمرے میں جا کر میں آئینے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی اور اپنا جائزہ لینے لگا۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ گرمی اور شہوت کی وجہ سےمیرا چہرہ لال ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اور ۔۔جس کی وجہ سے میرا میک اپ خاصہ خراب ہو چکا تھا۔میرے جسم سے پسینے کی بُو آ رہی تھی اور ۔اسی طرح میرے کپڑوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی ۔۔۔چنانچہ میں نے ایک نظر خود کو دیکھا اور پھر الماری میں لٹکا مہندی کا دوسرا سوٹ نکالا اور ۔۔ باتھ روم میں گھس گئی۔۔اور جلدی جلدی نہا کر باہر آ گئی۔۔۔اور پھر ہلکا سا میک اپ کیا ۔۔ اور بہت سا پرفیوم لگا کر باہر نکل آئی ۔۔۔ زیادہ مقدار میں پرفیوم لگانے کی یہ وجہ تھی کہ مجھے اپنے اندر سے منی کی بُو آ رہی تھی ۔۔۔۔ اور میں ڈر گئی تھی کہ میری اس بُو کو کوئی اور نہ ۔۔۔ جان لے ۔۔۔۔۔۔۔ تیار ہو کر جیسے ہی میں لان میں پہنچی تو دور سے اماں نے مجھے دیکھ لیا اور وہ تیر کی طرح چلتی ہوئیں میرے پاس آ کر مجھے ڈانٹتے ہوئے بولیں۔۔ یہ تم بار بار کہاں گم ہو جاتی ہو۔۔۔ پھر پیار سے کہنے لگیں ۔۔ دیکھو چندا ۔۔۔ ہماری ساری برادری ا کھٹی ہوئی ہوئی ہے۔۔۔ اور یوں اچانک تمھارا غائب ہو جانا کسی طور بھی مناسب نہ ہے ۔۔۔ پھر انہوں نے میری طرف گھوری ڈالی اور بولیں ۔۔ ویسے بائی دا وے تم اب تک تھی کہاں ؟ تو میں ان سے کہا ۔۔ جانا کہاں ہے اماں ۔۔۔ پہلے تو ۔۔۔پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔ میں ان لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔۔ اور اماں حرام ہے جو ان لڑکیوں نے سوائے ایک دوسرے کی غیبت کے ۔۔۔ یا ۔۔۔ کپڑوں کے کہ کس نے کیسا ڈریس پہنا ہے ۔۔ کوئی اور بات کی ہو۔۔۔۔ اس کے بعد پھر میں بور ہو کر تھوڑا ادھر ادھر گھومی اور پھر ۔۔۔ کمرے میں جا کر نہائی اور نیا ڈریس ۔۔۔ پہن کر آپ کے سامنے ہوں۔۔۔ میری بات سُن کر اماں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولی۔۔۔ پتہ نئیں کیوں ۔۔تُو باقی لڑکیوں سے مختلف کیوں ہے۔۔پھر مجھے آنکھیں نکالتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ خبردار ۔۔جو اب تو کہیں ادھر ادھر ہوئی ۔۔۔۔ جا کر اپنے مہمانوں کو اٹینڈ کر ۔۔۔ اور اس سے پہلے وہ کوئی اور بات کرتیں ۔۔۔ اچانک ان کے چہرے پر شگفتگی ظاہر ہوئی اور وہ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے آگے بڑھیں ۔۔۔۔ میں نے بھی اماں کی طرح سامنے دیکھا تو ۔۔۔ وقار انکل اور صدف آنٹی ۔۔ لان میں داخل ہو رہے تھے۔۔ان کے ساتھ ابا تھے اور پیچھے ان کا ملازم ۔۔۔ ہاتھ میں بہت سے گفٹ پکڑے آرہا تھا۔۔۔ اتنی دیر میں اماں اور میں ان کے پاس پہنچ چکے تھے ۔۔ جاتے ہی اماں نے انکل کو سلام کیا اور آنٹی کے ساتھ گلے لگتے ہوئے بولیں ۔۔۔ آپ لوگ لیٹ کیوں ہوئے ؟؟؟؟۔۔۔تو آنٹی سے پہلے ہی انکل نے بول پڑے اور کہا کہ۔۔۔ بھابھی میں تو صبع سے ہی تیار ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔ لیکن ۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے ۔۔۔۔۔ بیگم صاحبہ کی تیاری ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی۔۔۔ آخر خُدا خُدا کر کے ۔۔ بیگم صاحبہ تیار ہوئیں تو۔ ہم لوگ آپ کے پاس حاضر ہو گئے ۔۔۔ انکل کی بات سُن کر آنٹی ترنت ہی کہنے لگیں۔۔۔ توبہ توبہ نیلو ۔۔۔۔ یہ شخص تو میرے سامنے ہی جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔ میں تو تیار تھی ۔۔۔ ان صاحب نے ہی لیٹ کیا ہے ۔۔۔ اور ۔۔اس سے پہلےکہ آنٹی اور انکل کی ۔۔ یہ تکرار مزید آگے بڑھتی۔۔۔۔ فوراً ہی ابا درمیان میں کود پڑے اور ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ چلو اس بات کو دفعہ کرو کہ کون کس کی وجہ سے لیٹ ہو گیا۔۔۔۔ اب آؤ کہ آپ کے انتظار میں ۔۔۔ ہم نے ابھی مہندی کا پروگرام شروع نہیں کیا ہے ۔۔۔۔ ابا کی بات سُن کر انکل بولے۔۔۔۔۔ او ہو یار ۔۔۔۔ تم نے پروگرام شروع کر دینا تھا ۔۔ ہماری وجہ سے خواہ مخواہ دوسروں کو بھی تکلیف دی۔۔۔ تو ان کی بات سُن کر اماں کہنے لگیں۔بھائی صاحب آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ جب تک آپ نہ آتے تو میاں صاحب (ابا) نے پروگرام شروع نہیں کرنا تھا ۔۔۔ امان کی بات سُن کر آنٹی کہنے لگیں سوری ۔۔ نیلو ۔۔۔ اور پھر ملازم کو آگے کیا اور بولیں ۔ہم لوگ آپ لوگوں کے لیئے کچھ گفٹس وغیرہ لائے تھے ۔۔ اور اس کے بعد ملازم نے وہ سامان نیچے رکھ دیا۔۔۔ اتنے زیادہ گفٹس دیکھ کر اماں نے آنٹی کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ صدف یار تم بھی تکلفات میں پڑ گئی ہو ۔۔۔۔۔ اور پھر پاس سے گزرنے والی ایک کام والی کو آواز دی اور اپنے پرس میں سے ایک چابی نکال کر اس کے حوالے کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ اس ( وقار انکل کا ملازم ) کے ساتھ جاؤ اور یہ سارا سامان میرے کمرے میں رکھ کر کمرہ لاک کر دینا ۔۔۔۔۔اور چابی مجھے دے جانا ۔۔۔۔۔ اس ملازمہ نے اماں کے ہاتھ سے چابی لی اور اچھا ۔۔ باجی جی کہہ کر اس بندے کے ساتھ وہاں سے چلی گئی ۔۔۔ 


 ان کے جاتے ہی ابا نے اماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ نیلو۔۔۔ اب مہندی کا پروگرام شروع کر دو۔۔۔ اور وقار انکل سے بولے ۔۔۔۔ چل یار ۔۔۔۔ اس کے بعد فواراً ہی اماں نے فائق بھائی کی مہندی کا فنگشن شروع کرا دیا ۔۔ ۔۔۔ اور وقتی طور پر میں اپنے اندر بھڑکی سیکس کی آگ کو بھول کر اس فنگشن کا حصہ بن گئی اور بڑھ چڑھ کر اس تقریب میں حصہ لینے لگی۔۔۔۔اور خوب ہلا گلہ کیا ۔۔۔ چونکہ ایسے موقعوں پر اماں کے انتظامات ہمیشہ سے ہی بہت اعلیٰ ہوتے ہیں اس لیئے دو تین گھنٹے کے بعد مہندی کا یہ فنگشن بخیر و خوبی اختتام پزیر ہو گیا ۔۔۔۔پھر اس کے بعد کھانے کا دور شروع ہوا ۔۔ اس کے لیئے ہم نے کیٹرنگ والوں کو بلایا ہوا تھا ۔۔ اور سارا بندبست بھی انہی کا تھا۔۔ ۔ لیکن اس کے باوجود عورتوں کی سائیڈ پر میں اماں ، بھابھی اور ایک دو اور رشتے دار خواتین دیکھ بھال کر رہیں تھیں ۔کہ کس کو کس چیز کی ضرورت ہے ۔۔جبکہ مردوں کی طرف بھا میدا ۔۔۔ فدا بھائی ( فائق سے چھوٹے اور حمید بھائی سے بڑے)اور ابا کے ساتھ ساتھ فیض بھائی نگرانی کا کام سر انجام دے رہے تھے۔۔۔ جبکہ کیٹرنگ والے ٹیبل تک کھانے پہنچا رہے تھے۔۔ اماں نے میری ڈیوٹی ۔۔ انٹرنس پر لگائی تھی۔۔۔ وہاں سے ہی وہ مجھے کہہ دیتی کہ ہما۔۔۔۔ وہ کونے میں ۔۔ چاول ختم ہو گئے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور میں ۔۔۔ باہر جا کر یا ۔۔ کسی ویٹر کو اس کے بارے میں کہہ دیتی تھی۔۔۔ ابھی کھانا آدھا ہی ہو ا تھا کہ مجھے مجھے بھابھی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہیں تھی ۔۔۔ ہما امی کے ٹیبل پر پانی پہنچاؤ۔۔ اتفاق سے اس وقت آس پاس کوئی ویٹر نظر نہ آ رہا تھا ۔۔ اس لیئے میں، مین سروس والی جگہ گئی اور ان کے سپر وائزر کو پانی کا کہا ۔۔۔اور وہ جی اچھا کہہ کر اس کا بندوبست کرنے لگا ۔۔۔ اور میں جیسے ہی واپسی کے لیئے مُڑی۔۔۔۔ مجھے سامنے سے جیدا سائیں آتا دکھائی دیا ۔۔۔ اس نے دور سے ہی سپروائیزر کو مخاطب کر کے ہانک لگائی کہ سر جی۔۔۔ مردوں میں قورمہ ۔۔۔۔ ختم ہو گیا ہے۔۔۔ اور پھر اس کی نظریں مجھ سے ملیں تو میں نے اس کو وہیں رُکنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھتا ہوا ۔۔۔ ایک طرف دیکھتا ہوا ۔۔۔ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ اس کی طرف جانے سے پہلے میں نے ۔۔ اس کو لبھانے کی خاطر اپنے دوپٹے کو تھوڑا سائیڈ پر کر لیا ۔۔ ۔۔ جس کی وجہ سے میرے کھلے گلے والی قمیض سے میری چھاتیوں کی طرف گہرائی کی طرف جاتی ہوئی لکیر ۔کافی ۔حد تک ۔ نمایاں ہو گئی تھی ۔میری چھاتیوں کا اتنا نظارہ اس کے لیئے کافی تھا ۔۔اور پھر ۔۔ میں اس کے پاس چلی گئی اور بولی۔۔۔ جب سب چلے جائیں تو مجھ سے ملنا ۔۔۔ تو وہ بظاہر باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ کہاں ملنا ہے ؟؟۔۔۔ گھر تو سارا ۔۔ مہمانوں سے پُر ہے۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔ پر آج تم نے مجھے ہر صورت مجھ سے ملنا ہے ۔۔۔میری بات سُن کر وہ میری طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔اور پھر وہ میری گوری چھاتیوں کے درمیان بنی گہری لکیر کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولا ۔۔۔ ایک جگہ ہو سکتی ہے۔اگر تم آسکو تو۔۔۔اس کی بات سُن کر میرے اندر سوئی ہوئی شہوت نے سر اُٹھایا اور ۔۔۔ میں نے بڑی بے تابی کے ساتھ اس سے پوچھا ۔۔۔۔ تم جگہ بتاؤ میں ہر صورت وہاں پہنچو ں گی۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ میرے کمرے کے پاس آ جانا۔۔۔ میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے کہا۔۔۔ کہ ٹھیک ہے لیکن اس سے پہلےتم موقعہ دیکھ آنا ۔کہ آل اوکے ہے ۔۔ اور پھر مجھے اشارہ کرنا ۔۔۔تو میں آ جاؤں گی۔۔۔ جیدے نے میری بات سُنی اور ۔۔ایک بار پھر سے چھاتیوں کی طرف جاتی ہوئی لکیر پر ایک نگاہ ڈال کر دوبارہ سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر ی اور بولا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے بی بی جی۔۔۔۔۔ میں موقعہ دیکھ کر آپ کو اشارہ کر دوں گا۔۔۔ ۔۔۔۔ اوراس نے میرے گورے مموں پر اپنی نظریں گاڑ دیں ۔ جبکہ میں نے اس کی نظروں کہ پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سے کہا کہ دیکھنا ۔۔۔۔ جگہ سیف ہو۔۔۔ تو وہ۔۔ اپنے لن پر ہاتھ مار کر بولا۔۔۔۔۔آپ بے فکر رہو۔۔ میں سب سمجھتا ہوں ۔۔۔۔

اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب کھانا ختم ہوا ۔ ۔۔ اس لیئے کھانا کھاتے ہی ۔ نزدیک والے لوگ بارات کا ٹائم پوچھتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔۔۔۔ جبکہ دور والوں کے لیئے اماں نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا ۔۔ اس لیئے کوئی خاص پرابلم نہ ہوئی ۔۔۔۔ اور جانے والے چلے گئے اور مہمان اپنی اپنی جگہو ں پر ایڈجسٹ ہو گئے تو ۔میں بھاگی بھاگی گئی ۔۔اور اپنا مہندی والا سوٹ اتار کر رات والا سوٹ پہن لیا ۔۔ اور پھر برا بھی اتار کے واش روم میں رکھ دی۔اب میں بنا برا کے تھی۔۔۔پھر میں نےاپنی قمیض کے اوپر ایک بڑی سی چادر لی اور ڈرائینگ روم کی طرف چلی گئی۔۔جہاں پر بھابھی اور کچھ دوسری خواتین ۔۔۔ پہلے سے بیٹھی تھیں ۔۔ اور آج کی تقریب کے بارے میں گفتگو کر رہیں تھیں ۔۔۔میں بظاہر تو ان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی لیکن میرا سارا دھیان اور توجہ دروازے اور کھڑکی کی طرف تھا ۔۔۔ کہ جہاں سے جیدے نے آ کر مجھے اشارہ کرنا تھا۔۔۔ اور اس انتظار میں ۔۔۔۔ اندر ہی اندر میری پھدی کو لن کا بخار چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ اور ۔۔۔ آہستہ آہستہ چوت کے اندر گرم پانی جمع ہو نا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور میں بے بڑی تابی۔۔۔کے ساتھ جیدے کا اتنظار کر رہی تھی۔۔۔ 


 کافی دیر کے بعد جیدا ۔۔دورازے میں نمودار ہوا ۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔ ادھر آپا جی (اماں ) تونہیں آئیں ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے اشارہ کیا۔۔۔ اس کا اشارہ دیکھ کر ۔۔ میرا دل دھک ۔۔۔۔ رہ گیا ۔۔۔ اور میری شلوار کے اندر میری چوت پر چونٹیاں سی رینگنے لگیں ۔۔ اور میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ ۔اور۔چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کسی نے جیدے کو اشارہ کرتے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا؟ ؟؟۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن وہ خواتین مختلف عورتوں کے کپڑوں اور میک اپ پر اس زور و شور سے تبصرہ کر رہیں تھیں ۔۔۔ کہ جیدے کی طرف کسی نے خاص دھیان ہی نہ دیا تھا ۔۔ بلکہ جیدے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ۔۔۔ بھابھی نے ایک لحظے کے لیئے جیدے کی طرف دیکھا ۔پھر وہ کسی خاتون کی جیولری کی بات کرنے لگی اور درمیان میں بات رُوک کر بولی ۔ نہیں جیدے وہ یہاں نہیں ہیں۔۔۔۔ اور پھر اس خاتون کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئیں۔۔۔ جیدے کے جانے کےکچھ ہی دیر بعد میں نے ایک زبردست انگڑائی لی ( جو کہ تھی ۔۔۔تو شہوت کی وجہ سے لیکن لیڈیز یہ سمجھیں کہ مجھے نیند آ رہی ہے) اور بولی ۔۔۔ خواتین اب آپ بھی سو جاؤ کہ صبع برات پر بھی جانا ہے ۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی کہنے لگیں ۔۔۔ تم کو نیند آ رہی ہے تو تم جاؤ ۔۔۔ ہم بھی باتیں کریں گے۔۔۔ اور میں اُٹھنے لگی تو وہ بولیں ۔۔۔۔ اماں نے دو کُڑیاں تمھارے کمرے میں سلائی ہیں ۔۔۔ تو میں نے کہا کوئی بات نہیں بھابھی۔۔۔ اور ۔۔ بظاہر ڈھلیے ڈھالے انداز میں وہاں سے اُٹھ گئی۔۔۔ اس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔۔۔ اور میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جیدے کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔جو ہمارے گھر کی چھت پر واقعہ تھا اور ۔۔۔ عام طور پر یہ خالی ہی رہتا تھا ۔ یہ ممٹی کے ساتھ بنایا گیا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔۔۔ اور عام طور پر اس میں گھر کا پرانا سامان وغیرہ ہی رکھا جاتا تھا ۔۔۔ سیڑھیاں چڑھ کے ممٹی تھی اور ممٹی کے بلکل ساتھ ہی یہ سٹور نما کمرہ تھا۔ اور اماں نے جیدے کو خاص طور پر یہ کمرہ دیا تھا ۔۔۔ کیوں دیا تھا ۔۔۔۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔۔۔


میں سیڑھیاں چڑھ کے ممٹی کے پاس گئی تو وہاں جیدا کھڑا تھا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور میں بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ۔۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔ جیدا جو کہ دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔۔۔ نے آگے بڑھ کر کُنڈی لگائی ۔۔۔ اور پھر مجھے دبوچ لیا۔۔۔۔


میں نے بھی اس کا پورا پورا ساتھ دیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ چمٹ گئی۔۔۔ اور اس کےساتھ ہی اپنا ہاتھ اس کی دھوتی کی طرف لے گئی ۔۔۔۔ اور دھوتی کے اوپر سے ہی اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔ جیسے ہی میں نے جیدے کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔ وہ تھوڑا پیچھے ہٹا۔۔۔۔ اور اس نے ہاتھ بڑھا کر میری چادر اتار دی۔۔۔۔ اور پھر قمیض اوپر کی۔۔۔۔۔ اور پھر میرے ننگے ممے دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔ تھلے کُج نئیں پایاَ ( نیچے کچھ نہیں پہنا) تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میں تمھاری خاطر برا اتار کر آئی ہوں ۔۔۔۔میری بات سُن کر وہ نہال ہو گیا ۔۔ اور میری قمیض اتار دی ۔۔۔ اور میرے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اور ان کو بڑے غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ تمھارے ممے بلکل تمھاری ماں جیسے ہیں۔۔۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ زرا بڑے ہیں اور ان کو ابھی بڑے ہونا ہے ۔۔۔ پھر وہ میرے بدن کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔ تمھارا جسم بھی نیلو باجی کی طرح ہے ۔۔۔۔ اور میرے مموں پر پل پڑا ۔۔۔۔ اور میرے نپلز کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کی زبان نے جیسے ہی میرے نپلز کو چھوا ۔۔۔ تو میرے سارے بدن میں ایک جھر جھری سی ۔۔۔ پھیل گئی ۔۔۔ اور میں سیکس کی زیادتی کی وجہ سے کانپنا شروع ہو گئی۔۔۔ اور میرا دل کر رہا تھا کہ وہ میرے دونوں مموں کو اپنے منہ میں لے اور ان کو کھا جائے۔۔ ۔۔ لیکن۔۔۔۔ میں شدتِ جزبات سے اس کہ یہ نہ کہہ سکی اور ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ میرے منہ سے ایک کراہ سی نکل گئی ۔۔سس۔۔او۔۔ہ۔۔۔۔۔۔اور میں نے جیدے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔۔۔۔۔ میرے ممے چوس س س س س س ۔۔۔ادھر جیدا میری بات سنے بغیر ہی باری باری میرے دونوں ممے چوسے جا رہا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد اس نے میرے مموں کو اپنے منہ سے باہر نکلا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ بڑے مزے کے ہیں تیرے ممے۔۔۔۔ اور پھر وہ پیچھے ہٹا اور اپنی قمیض اتارنے لگا۔۔۔ اور مجھے بھی اشارہ کیا میں تو پہلے سے ہی تیار تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے جھٹ سے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔ اور پھر جیدے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ جو اب اپنی دھوتی کو اتار کر ایک طرف رکھ رہا تھا۔۔۔ اپنی دھوتی کو ایک طرف رکھنے کے بعد وہ میری طرف بڑھا۔۔۔۔واؤ۔۔۔ؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ اس کے مٹیالے رنگ کا مضبوط جسم بالوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔ اس کی چھاتی کافی بڑی اور سینہ فراک تھا۔۔۔ اس کے بازؤں کے مسلز ۔۔۔کی رگیں پھولی ہوئیں تھیں اور ۔۔۔ بہت خوب صورت لگ رہیں تھیں ۔۔۔ جیدے کا پیٹ بلکل بھی نہیں تھا ۔۔ اور پیٹ سے نیچے۔۔۔ اس کا مضبوط ۔موٹا ۔۔۔لمبا اور ۔۔ تنا ہوا۔۔۔۔ لن ۔اپنی مستی میں ۔۔ کھڑا تھا ۔۔۔۔ اور اس لن کو دیکھ کرمیرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔۔ ادھر جیدا ۔۔ کی نظریں میری چوت کی طرف لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ میری پھدی پر بہت گوشت ہے اور یہ ابھری ہوئی ہے۔۔۔اور کھڑی حالت میں میری پھدی کی چھوٹی سی لکیر دیکھنے میں بہت مزہ کرتی ہے( میں روز آئینے میں اسے بڑے غور سے دیکھتی رہتی تھی) اور پھدی کے اوپر ۔۔۔۔ ایک نیم سرخ رنگ کا موٹا سا دانہ تھا۔۔۔ جو اس وقت شہوت کی وجہ سے کچھ اور زیادہ پھولا ہوا تھا۔۔۔۔ اور جیدے کی نظریں میری پھدی سے ہوتی ہوئی ۔۔۔اب دانے پر آ کر ٹک گئیں تھیں۔۔۔۔ تب وہ آگے بڑھا ۔۔۔ اور مجھے اپنے بازؤں پر اُٹھا کر اپنی منجھی پر لے گیا۔۔۔ جس پر صرف تلائی بچھی ہوئی تھی۔۔۔۔ اور جا کر اس چارپائی پر آہستہ سے پھینک دیا۔۔ اور پھر خود بھی جمپ مار کر میرے اوپر آ گیا۔۔۔ اور میرے منہ پر جھک گیا اور ۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ ملا دیئے اور ۔۔۔۔ میرے کنوارے ہونٹوں کا رس چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اور اس کے ہونٹ چوسنے سے میرے اندر بھڑکتی ہوئی آگ مزید بھڑک رہی تھی۔۔۔۔ پھر اس کے بعد جیدے نے اپنی زبان کو میری زبان سے ٹکرایا ۔۔۔ اور پھر میری زبان کے گرد اپنی زبان کو لپیٹ لیا۔۔۔ اپنی کھردری زبان سے میری زبان کو چوسنےلگا۔۔۔ جیدے کا زبان چوسنا تھا ۔۔۔ کہ ایک دم میں اندر کی آگ۔۔۔ بھڑک اُٹھی۔۔۔ اور میں بے چین ہو گئی اور ۔۔۔ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ یہ دیکھ کر جیدے نے کچھ حیرانی سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور بولا کیا ہوا۔۔۔ تو میں نے اس سے کچھ نہیں کہا اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے دبانے لگا۔۔۔۔ اُف۔فف۔ اس کا لن تھا کہ لوہے کا ایک بہت موٹا سا ڈنڈا۔۔۔ کہ جس کو ذور لگا کر دبانے سے بھی وہ نہ دب رہا تھا۔۔۔۔۔ 


مجھے اپنا لن پکڑے دیکھ کر تجربہ کار جیدا ایک سیکنڈ میں ساری بات سمجھ گیا اور ۔۔۔۔ اور سر ہلا کر بولا ۔۔ ہلا ہلا ۔۔(اچھا اچھا)۔۔۔ اور میرے سامنے چارپائی پر لیٹ گیا ۔۔۔ اور بولا۔۔۔۔ میرا لن چیک کر۔۔۔ اور میں اُٹھی اور اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ کر بیٹھ گئی اور اس کے لن کو جڑ سے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ لیا۔میں دراصل اس کی لمبائی کا اندازہ لگانا چاہتی تھی۔۔۔۔ اس کا لن اپنی مٹھی میں پکڑ کر۔۔ دیکھا تو اس کا بہت سا لن میری مٹھی سے بہت زیادہ باہر بچا ہوا تھا ۔۔ اس لیئےاب میں نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی آگے بڑھایا اور اپنے اس ہاتھ کی مٹھی کے ساتھ دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں اس کا باقی کا لن بھی پکڑ لیا ۔۔۔۔ اور دیکھا تو ۔۔ میری دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں سے اس کا لن بہت زیادہ باہر تھا۔۔۔ جیدا بڑی دل چسپ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ لیکن وہ بولا کچھ نہیں۔۔۔۔ بس اس نے اتنا ہی کہا۔۔۔۔۔لن نوں تھوڑا گِلا کر ( لن کو تھوڑا سا گیلا کر لو) ۔۔۔ اور میں نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے لن سے ہٹائے اور اس پر تھوک دیا ۔۔ پھر اپنا یہ تھوک اس کے سارے لن پر مل دیا ۔۔۔ اور پھر اس کے لن کو اپنی مٹھی میں پکڑا ۔۔۔ اور جیدے کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ اپنے ہاتھ کو اوپر نیچے کر نے لگی۔۔۔ مجھے مٹھ مارتا دیکھ جیدے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ اور میں کچھ دیر تو ۔۔۔ اس کی مٹھ مارتی رہی۔۔۔ پھر میری برداشت جواب دے گئی اور میں جیدے کی طرف دیکھتے ہوئے نیچے جھکی اور اس کے موٹے سے ٹوپے کو چوم لیا۔۔۔ جیسے ہی میرے نرم ہونٹوں کا لمس اس کے ٹوپ پر پڑا ۔۔۔ جیدے نے ایک دم آنکھیں کھلیں اور مجھے۔۔ پچکارتے ہوئے بولا۔۔۔لن چُنگنڑ تے جی کردا اے تے چُنگ لے( لن چوسنے پر دل کر رہا ہے تو چوس لو۔۔) جیدے کی بات سن کر میں نے اپنا منہ کھولا اور اس کا موٹا ٹوپا ۔۔۔ اپنے ہونٹوں میں لیر۔ اسے اسے چوسنے لگی۔۔۔ میرے نرم ہونٹوں کا لمس اتنا دل فریب تھا ۔۔۔ کہ تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ جیدا بے قرار ہو گیا ۔۔۔ اور اس کے منہ سے ایک سسکی نما آواز نکلی۔۔۔ ہائے اوئے۔۔۔۔اور پھر وہ بڑی شہوت بھری نظروں سے مجھے لن چوستے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔ابھی میں اس کے سخت لن کو مزید چوسنا چاہتی تھی۔۔۔ کہ اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور بولا۔۔۔ سویر ہونے والی ہے۔۔۔ میں اس کی بات سمجھ گئی اور اس کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اس کے ساتھ چارپائی پر لیٹ گئی۔۔۔ جیدا اپنی چگہ سے اُٹھا۔۔۔ اور میری ٹانگوں کے بیچ میں آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔ اور میری ابھری ہوئی پھدی پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔۔۔۔پھر اس نے اپنی ایک انگلی۔۔۔ میری چوت کے لبوں پر پھیری اور بولا۔۔۔۔ توں تے کافی ۔۔۔ چھُٹی ہوئی ایں ( تم تو کافی چھوٹی ہوئی ہو) پھر میرے کچھ کہے بغیر ہی اس نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھ دیا ۔۔۔۔ اپنی زبان نکال کر میرے سوراخ کو چاٹنے لگا۔۔۔۔ اُف۔۔۔ اس کے موٹے ہونٹوں نے اس کی کھردری زبان نے۔۔۔۔ جیسے ہی میری پھدی کے نرم لبوں کو چھوا۔۔۔۔۔میری حالت جو پہے ہی کافی خراب تھی۔۔۔ مزید خراب ہونے لگی۔۔۔۔ اور میرا جسم گرمی کی وجہ سے پسینے میں شرابور ہو گیا۔۔۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں مسلسل چھوٹے جا رہی تھی اس لیئے میری پھدی اور اس کے ہونٹوں کے آس پاس کا ایریا ۔۔۔ میری منی سے لتھڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔چنانچہ جیدے نے میری چوت کے آس پاس کا سارا ایریا اپنی کھردری زبان سے چاٹ کر صاف کیا اور پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔ تیری پھدی دا صواد وی تیری ماں دی پھدی ورگا اے( تمہاری چوت کو ٹیسٹ بھی تمھاری ماں کی چوت جیسا ہے) اور اس کے بعد کافی دیر تک وہ میری پھدی کو چاٹتا رہا ۔۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میری پھدی سے منہ اُٹھا کر کہتا ۔۔۔جوانی ویچ تیری ماں دی وہ پھدی ایسراں دی صوادی سی( جوانی میں تمہاری ماں کی چوت بھی ایسی ہی ٹیسٹی تھی)وہ بڑی مستی سے میری پھدی کو چاٹے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔


کچھ دیر کے بعد اس نے میری پھدی سے اپنا منہ ہٹایا اور میری طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔ تیار ہو جا میں تیری ۔۔ پھدی مار ن ولا آں( تیار ہو جاؤ میں تمھاری پھدی مارنے لگا ہوں )۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ اوپر اٹھا اور اور میری دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا ۔۔۔اور پھر اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔ اور اس کے ہیڈ پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا۔۔۔۔ اور پھر وہ ٹوپا میری چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔ اورلبوں کے اندر رگڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔میرا کنواں نمبر اے ( میرا کتنا نمبر ہے) تو میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا۔۔۔ کیا مطلب ؟ تو وہ کہنے لگا مطب یہ کہ ۔۔۔اس سے پہلے کتنے لوگوں سے چوت مروا چکی ہو ۔۔۔ تو میں نے شرماتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ کہ یہ میرا پہلا موقعہ ہے۔۔۔میری بات سن کر اس کو ایک جھٹکا سا لگا ا ور اس نے اپنے کندھوں پر رکھیں میری دونوں ٹانگوں کو نیچے اتارا ۔۔۔ اور بولا۔۔۔ مجھے نہین مارنی تیری پھدی۔۔۔ تو میں نے حیران ہو کر اس سے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں اس نے اپنا ایک قصہ سنایا ۔۔۔۔۔جومختصراً یوں ہے کہ۔۔ایک دفعہ گاؤں میں اس نے چوہدریوں کی میری طرح سے ایک گرم اور کنواری لڑکی کو چودا تھا ۔( جو کہ پہلے ہی کافی دفعہ چدوا چکی تھی) ۔۔ لیکن حمل ہونے پر اس نے جیدے کا نام لگا دیا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے چوہدریوں سے اس کو کافی مار پڑی تھی اور وہ تھانے میں بھی بند رہا تھا۔۔اور اگر میرے نانا نہ اس کو بچاتے تو چوہدریوں نے اسے مار ہی دینا تھا ۔۔۔ ساری بات سُن کر میں نے اس سے کہا کہ۔۔۔ اس لڑکی کا اور میرا کیس الگ ہے ۔۔۔ تو وہ ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔۔۔۔ میں باقی سب کام کر لوں گا۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہو گا۔۔لیکن دوسری طرف مجھ پر شہوت کا شدید غلبہ تھا ۔۔ اور میں بضد تھی۔۔ کہ وہ میری پھدی مارے ۔۔آخر وہ اس بات پر راضی ہوا ۔۔ کہ وہ میری چوت میں اپنا پورا ۔ لن نہیں گھسائے گا ۔۔۔۔۔ میری چوت میں ایک اینچ تک اپنا لن ڈال کر وہ۔۔۔اسے اندر باہر کرے گا ۔۔۔ایک اینچ اس لیئے کہ اس کے بقول ۔۔۔ آگے میرا پَردہ بَکارَت (hymen ) شروع ہو جانا تھا۔۔۔ یہ طے کر کے اس نے پھر سے میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور ۔۔۔ میری چوت میں ایک اینچ تک اپنا لن ڈالا ۔۔۔( جو کہ اس کا ٹوپاے پر مشتمل تھا) اور اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔۔ ادھر میرا دل کر رہا تھا ۔۔ کہ جیدے کا لن میری چوت کی دیوراروں سے ٹکراتا ہوا۔۔۔ میری چوت کی گہرائی تک جائے۔۔ لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔۔۔ تاہم ۔۔۔۔۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق ۔۔۔۔۔ مجھے اتنا مزہ تو نہ آیا ۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ میں نے اپنی چوت میں اس کے ٹوپے کو بہت انجوائے کیا۔۔۔کچھ دیر تک وہ ایسا کرتا رہا اور ۔۔۔ پھر ۔۔۔ اچانک اس نے اپنا لن باہر نکلا اور ۔۔۔۔ تیزی سے مٹھ مارنے لگا۔۔۔۔ اسے مٹھ مارتے دیکھ کر مین بھی اُٹھ کر بیٹھ گئی اور اب اس نے میرا ایک مما پکڑا۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔میں نے اس کا لن پر رکھا ہاتھ ہٹا کر اپنا ہاتھ وہاں رکھا ۔۔۔ اور بڑی تیزی کے ساتھ اس کی مٹھ مارنے لگا۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد جیدے کے حلق سے۔۔۔۔ عجیب و غریب۔۔۔۔ آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں۔اور وہ ا ُلٹا سیدھا ہونے لگا۔۔۔ اور مزے کے مارے کراہنے لگا۔۔۔۔پھر اس کے منہ سے ۔۔۔ اووووووووہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ ۔۔کی آواز نکلی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کے لن سے گاڑھی منی کی ایک دھار سی نکلی جو سیدھا جا کر میرے ممے پر پڑی ۔۔۔ اور اس کے لن سے منی نکلتے دیکھ کر میں بھی جزباتی وہ گئی اور ۔۔۔ میں نے تیزی سے اپنا منہ آگے کیا اور اس کے لن کو اپنے ہونٹوں میں دبوچ لیا۔۔۔ اور اس کے لن سے نکلنے والی باقی ماندہ منی کو اپنے منہ میں ہی لے لیا ۔۔۔۔اور۔۔۔اس کے لن سے نکلنے والی ۔ مزی کا آخری قطرہ بھی چوس لیا۔۔۔۔اور جب اس کا لن منی سے بلکل خالی ہو گیا ۔۔۔ تو میں نے اس کا لن اپنے منہ سے نکلا اور ۔۔۔ اس کی چارپائی سے نیچے آ گئی اور کپڑے پہننے لگی۔۔۔ جبکہ جیدا ۔۔۔۔ اپنی چارپائی پر لیٹا لمبے لمبے سانس لینے لگا۔۔۔۔ سب سے پہلے میں نے قمیض پہنی اور ابھی میں شلوار پہن ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ دروازے پر ۔۔۔ ہلکی دستک ہوئی۔۔۔۔ دستک کی آواز سنتے ہی میں اچھل پڑی اور جیدے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس کے چہرے پر بھی سراسیمگی ابھری اور وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ اتنے میں ۔۔۔ جیدے کے دروازے پر ایک دفعہ پھر دستک ہوئی۔۔۔۔ اور ۔۔ اس کے ساتھ ہی۔۔۔ ایک نسوانی آواز ۔۔۔ نے سرگوشی میں کہا ۔۔۔ جیدے ۔۔۔دروازہ کھولا۔۔۔۔ یہ میں ہوں۔۔۔نسوانی آواز سنتے ہی مجھے حیرت کا ایک شید ید ترین جھٹکا لگا کیونکہ میں نے وہ آواز پہچان لی تھی۔۔۔کیونکہ یہ نسوانی آواز اور کسی کی نہیں ۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نسوانی آواز اور کسی کی نہیں ۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔ یہ آواز۔۔۔بلکہ یہ آواز تو جیدے کے ساتھ آئی ہوئی ہمارے کام والی خاتون جمیلہ کی تھی اس کی آواز سُن کر میں اس لیئے بھی حیران ہوئی تھی کہ جمیلہ بہت چُپ چاپ اور اپنے کام سے کام رکھنے والی عورت تھی اور کم از کم میں نے تو اس میں ایسی کوئی بات نہ دیکھی تھی ۔۔ اسی لیئے میں بڑی حیرانی سے جیدے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اسی دورران تیسری دفعہ دروازے پر دستک ہو ئی اور پھر اچانک ہی جیدے نے میری طرف دیکھ کر مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور جییے ہی میں اس کے قریب پہنچی اس نے مجھے اپنی چارپائی پر لٹایا اور میرے اوپر چادر دیکر کر بولا ۔۔آپ نے اپنا منہ چادر کے اندر ہی رکھنا ہے اور خود کو سوتا ہوا ظاہر کرنا ہے ۔۔۔ میں اس کی بات نہ سمجھی کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے لیکن پھر بھی اس کے کہنے پر میں اس کی چارپائی پر لیٹ گئی اور اپنے منہ کو چادر سے ڈھانپ لیا ۔۔ ادھر جیدے نے دروازہ کھولنے میں مزید چند سیکنڈ لگائے اورپھر نیند بھری آواز میں بولا ۔۔ کون ہے ؟ تو باہر سے جمیلہ کی دبی دبی آواز سنائی دی۔۔ جیدے میں ہوں جمیلہ ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی جیدے نے دروازہ کھولا جمیلہ ایک دم سے اندر کمرے میں داخل ہو گئی اور جیدے سے کہنے لگی اتنی دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی تم نے کھولا کیوں نہیں؟ تو جیدا نیند بھر ی آواز میں بولا نیک بخت تم کو تو پتہ ہی ہے کہ شادی والے گھر میں کتنے کام ہوتے ہیں ۔۔۔ اس لیئے میں بڑا تھکا ہوا تھا اور لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔پھر اس نے جمیلہ کی طرف دیکھا اور اسے کہنے لگا اچھا ۔۔یہ ۔ بتاؤ تم اس وقت کیسے آئی ہو۔۔۔؟؟ ؟؟ جیدے کی بات مکمل ہوتے ہی ۔۔۔ میں نے جمیلہ کی پُر ہوس آواز سنی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔جیدے میرا ۔۔ بڑا دل کر رہا تھا تم سے ملنے کو ۔۔۔ اس لیئے میں تم سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی جیدے نے بھی اسی کی طرح دبی دبی آواز میں جواب دیا وہ کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔ جی تو میرا بھی بہت کر رہا تھا کہ تمھاری لوں ۔۔ لیکن کیا کروں ۔۔۔ وہ دیکھو ۔۔۔۔ نیلو باجی ایک مصیبت کو میرے کمرے میں سلا گئی ہے ۔۔۔ جیدے نے بات کرتے ہوئے شاید اپنی چارپائی کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کیونکہ جیسے ہی جیدے نے اپنی بات مکمل کی تھی میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ اور پھر وہ سرگوشی میں جیدے سے پوچھنے لگی ۔۔۔ یہ کون ہے؟ تو جیدا بولا۔۔۔۔۔۔ کسی مہمان کا بچہ ہے اس کو جگہ نہیں ملی تو نیلو باجی نے اسے میرے پاس سلا دیا ہے اور دیکھ لو میں خود نیچے فرش پر سویا ہوا ہوں ۔۔۔ جیدے کی بات سُن کر میرے خیال میں جمیلہ نے نیچے فرش پر بنے جیدے کے بستر کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اوہو۔۔۔ باجی نے یہ مصیبت کہاں سے سلا دی ۔۔۔۔۔ آج اتنا زیادہ دل کر رہا تھا۔۔۔ تو جیدے نے اس سے بڑے ہی عاشقانہ لہجے میں کہا ۔۔۔ کوئی بات نہیں یار پنڈ جا کر کر لیں گے۔پھر شاید اس نے جمیلہ کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔ کیونکہ میں نے جمیلہ کی گھبرائی ہوئی آواز سنی تھی تھی وہ کہہ تھی ۔۔ یہ کیا کر رہا ہے جیدے۔۔۔۔بچہ اُٹھ جائے گا۔۔۔ جمیلہ کی یہ بات سُن کر میرے کان کھڑے ہو گئے تھے اور میں نے اپنی چادر کو تھوڑا سا سرکایا اور ۔۔۔ باہر کا منظر دیکھنے لگی۔۔۔ اوہ۔۔ کیا دیکھتی ۔۔۔۔ ہو ں کہ جیدے کا پورا ہاتھ ۔۔جمیلہ کی شلوار میں گھسا ہوا تھا ۔۔۔ میری طرح شاید جمیلہ نے بھی الاسٹک والی شلوار پہنی ہوئی تھی۔۔ اسی لیئے اس کی شلوار نیچے نہیں آ ئی تھی۔۔ جیدے نے شاید اپنی ایک انگلی جمیلہ کی چوت میں ڈالی تھی ۔۔ انگلی اندر ڈالتے ہی جیدا ایک دم چونک گیا اور دبی دبی آواز میں جمیلہ سے بولا۔۔۔تیری پھدی نے تو کافی پانی چھوڑا ہوا ہے۔۔۔ تو جمیلہ کہنے لگی ۔۔ اسی لیئے تو تیری پاس آئی تھی۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ تھوڑا پیچھے کیا اور جیدے کو چوم کر بولی۔۔۔۔ دوجی وی پا نا۔(میری چوت میں دوسری انگلی بھی ڈالو) ۔اور پھر شاید جیدے نے دوسری انگلی بھی جمیلہ کی چوت میں ڈال تھی۔۔۔ اور پھر وہ اسے تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنے لگا۔۔ جیسے ہی جیدے کی انگلیوں میں تیزی آئی ۔۔ جمیلہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔اپنی چوت میں جیدے کی انگلیوں کا مزہ لینے لگی۔۔۔ پھر کچھ ہی دیر کے بعد۔۔۔ جمیلہ۔۔ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سسکی لی۔۔۔ اور اس کا سارا جسم کانپنے لگا۔۔۔ اور جیدے سے بولی۔۔۔۔ چھیتی چھیتی انگل مار نا جیدیا( تیز تیز انگلی مارو نا جیدے) اور پھر اگلے چند سیکنڈز کے بعد جمیلہ جیدے کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ وہ۔۔۔ چھوٹ گئی تھی۔۔جمیلہ کے چھوٹنے کے بعد جیدے نے اپنی انگلیوں کو اس کی چوت سے نکلا۔۔ تو میں نے دیکھا کہ جیدے کی موٹی موٹی انگلیوں پر جمیلہ کی منی لگی ہوئی تھی۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک جمیلہ اپنے سانس بحال رکتی رہی۔۔۔ پھر جب وہ شانت ہو گئی تو جیدے نےاس سے کہا ۔۔۔ کج گزارا ہویا اے ( کچھ گزرا ہوا ہے) تو جمیلہ کہنے لگی۔۔۔ چھُٹ تے گئی آں پر۔۔ بھانبڑ ودھ گیا اے ( میں چھوٹ تو گئی ہوں پر میرے اندر لگی آگ اور بھڑک گئی ہے) اس کی بات سن کر جیدا بولا ۔۔۔ فکر نہ کر پنڈ جا کے تمھاری ساری کسر نکال دوں گا۔۔۔۔۔ اور ۔ اور پھر بڑے طریقے جمیلہ کو وہاں سے چلتا کر دیا۔۔۔ اور جب جمیلہ وہاں سے چلی گئی تو جیدے نے پھر سے اپنا دروازے کو بند کیا اور مجھ سے بولا ۔۔۔ آ جاؤ بی بی جی ۔۔۔۔ جیدے کی آواز سنتے ہی میں جمپ مار کر بستر سے نیچے اتری اور جیدے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔ جیدے ۔۔۔ کر لینا تھا نہ اس بے چاری کو۔۔۔۔ تو جیدا میری طرف دیکھ کر مسکرایا ۔۔۔۔اور بڑے پراسرار لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔۔ یہاں اتنی وی آئی پی پھدیوں کے ہوتے ہوئے ۔۔۔ میں بھلا اس پینڈو کی پھدی کو کیسے مار سکتا تھا۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر بولا ۔۔۔۔ آپ ٹھہرو میں زرا باہر کا جائزہ لے کر آتا ہوں ۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد آ کر بولا۔۔ سب ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہے اس کی بات سنتے ہی میں بڑے محتاط انداز سے وہاں سے نکلی اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔۔اور سارا راستہ یہی سوچتی رہی ۔۔۔میری پھدی تو اس نے لی نہیں ۔۔صرف اماں کی لی ہے ۔۔۔ تو پھر وی آئی پھدیوں سے جیدے کی کیا مراد تھی۔۔۔ اماں کے علاوہ ضرور اور خواتین بھی ہیں جن کی جیدا پھدیاں مارتا ہے ۔۔ااماں کے علاوہ وہ کون ہو سکتی تھیں ؟۔۔۔۔ میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے لگی۔۔۔۔


اگلے دن بارات تھی ۔۔۔۔چنانچہ میں صبع صبع اُٹھی اور شادی کی تیاریوں میں اماں کا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ ہم دونوں ماں بیٹی بھائیوں اور ابا کے کپڑے بیگ میں ڈال رہیں تھیں کہ اچانک اماں کی نظر دروازے پر پڑی تو اس وقت عظمٰی باجی کمرے میں داخل ہو رہیں تھیں اماں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔ہما ۔۔۔ اگر تم کو کہیں عظمٰی کی بچی نظر آ گئی نا تو خبردار ۔۔۔ اس سے کو ئی بات نہیں کرنا ۔۔۔ میں نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا ہے۔۔۔ عین اسی لمحے عظمٰی باجی اماں کے قریب پچی چکی تھی اور اس نے اماں کی حقہ پانی والی بات سُن لی تھی۔۔اور اماں کی بات ختم ہوتے ہی اس نے کہا ۔۔۔ ہما ۔۔ کس کی جرات ہے جو مابدولت کا حقہ پانی بند کر سکے ۔۔۔ عظمٰی باجی بظاہر تو مجھ سے مخاطب تھی لیکن درپر دہ وہ اپنی بات اماں کو سنا رہی تھی پھر اس کے بعد اس نے اماں کو کہا ۔۔ سوری آپا ۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی تھی لیکن فائق کی مہندی پر نہ پہنچ سکی تھی۔اس کے لیئے بہت بہت معزرت ۔۔تو اماں نے اس کی طرف دیکھا اور بظاہر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ بے شرم عورت تم نے وعدہ بھی کیا تھا کہ کم از کم تم مہندی ضرور اٹینڈ کر و گی۔۔۔ تو عظمٰی باجی بولی ۔۔۔ آپا میں نے کہا تو تھا ۔۔ لیکن مصروفیت ایسی آن پڑی تھی کہ میں چاہ کر بھی نہ آ سکی تھی ۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ ابھی بھی ابو لوگ کراچی میں ہی رُکے ہوئے ہیں۔۔۔ اور آپ لوگوں کی شادی کی وجہ سے میں اکیلی ہی کراچی سے آئی ہوں ۔۔ پھر اس کے بعد تھوڑی دیر اور گلے شکوے ہوتے رہے ۔ اور پھر عظمٰی باجی نے اماں کو اپنی مجبوری بتائی کہ کس وجہ سے وہ فائق بھائی کی مہندی میں شامل نہ ہو سکی۔۔۔ ۔۔۔اب میں یہاں اپنے پڑھنے والوں سے عظمٰی کا تعارف کر اتی ہو ں ۔۔ اس خاتون کا پورا نام عظمٰی سرمد ہے اور وہ اماں کی بیسٹ فرینڈ ز میں سے ایک ہے عظمٰی باجی ایک 34/35 سا ل کی خوبصورت ،دل کش ۔۔۔ رکھ رکھاؤ والی اور بڑی ہی نستعلیق قسم کی خاتون تھی ۔۔۔ ان لوگوں کا تعلق کراچی سے تھا اور کراچی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے عظمٰی کا سارا خاندان لاہور شفٹ ہو گیا تھا ۔۔۔ عظمٰی ایک بیوہ خاتون تھی اور اس نے بیوہ ہونے کے بعد بھی اپنے سسرال میں یہ کہہ کر رہنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ کہ میرا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے۔۔ ۔۔۔ ویسے تو عظمٰی باجی کو جاب کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی کہ اس کے سسر کا اچھا خاصہ بزنس تھا ۔۔۔لیکن ۔۔۔ دل بہلانے اور ٹائم پاس کرنے کے لیئے وہ جاب کرتی تھی۔اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں بڑی اچھی پوسٹ پر فائز تھی۔۔۔ بیوہ ہونے کے باوجود ۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہر وقت ایک عجیب سی شرارت رقص کرتی نظر آتی تھی ۔۔۔ اور اس کی خاص بات اس کے سیکسی ہونٹ تھے اور جب وہ اپنے ان سیکسی ہونٹوں پر خاص کر سُرخ رنگ کی لپ سٹک لگاتی تھی تو اس لپ سٹک کی وجہ سے اس کے ہونٹ بڑے ہی جاندار اور سیکسی نظر آتے تھے ۔۔۔ اور اس کے یہ جاندار اور سیکسی ہونٹ دیکھ کر میں نے بڑے بڑے لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ عظمٰی باجی کی شخصیت میں بھی اماں کی طرح ایک خاص ۔۔۔ وقار ، رُعب اور دبدبہ ہونے کی وجہ سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس سے کوئی بات کر سکے ۔۔ یہاں تک کہ میں بھی اب تک اس کے قریب نہ ہو سکی تھی ۔ کیونکہ ایک تو وہ خود بھی سب کے ساتھ ایک خاص فاصلہ رکھنا پسند کرتی تھی ۔ دوسری جاب پر جانے کی وجہ سے وہ کچھ بزی بھی رہتی تھی ۔۔۔ ہاں اماں کی اس خاتون کے ساتھ بہت بنتی تھی۔۔۔ اورہمسائے ہونے کے ناطے ان لوگوں کے ساتھ ہماری بڑی اچھی علیک سلیک بلکہ دوستی تھی۔

اماں نے جب عظمٰی باجی کی زبانی اس کی مجبوری سنی تو انہوں نے باجی کی معزرت قبول کر لی ۔۔۔اور پھر عظمٰی باجی بھی مختلف کاموں میں ہمارا ہاتھ بٹانے لگی۔۔۔ اور پھر کام کرتے ہوئے وہ اماں سے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ باجی پلیز بتاؤ نا ۔۔کہ بارات چلنے کا رائٹس ٹائم کیا ہ ے ؟؟؟۔۔۔ تو اماں ۔۔ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔۔۔ چندا جب تم اور تمھارے جیسی اور بیبیاں تیار ہو جائیں گی ۔۔ نا ۔۔ تو بارات اسی وقت روانہ ہو جائے گی۔۔۔  


 اماں کی بات سن کر عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔ پلیز باجی میری بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دو نا ۔۔تو اماں نے ایک دفعہ پھر ہنستے ہوئے اپنی پرانی بات دھرا دی ۔۔۔ اور عظمٰی نے تائید میں سر ہلا دیا اور پھر اماں سے بولی۔۔۔۔۔جیسا کہ آپ کو پتہ ہے باجی کہ میں آج صبع ہی کراچی سے لاہور پہنچی ہوں اس لیئے مجھے پلیز اپنے چلنے کا ٹائم اور اپنا پلان بتائیں تا کہ میں اس کے مطابق تیار ہو سکوں ۔۔۔اس کے بعد عظمٰی باجی نے ایک دفعہ پھر اپنا جملہ دھرایا اور کہنے لگی۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ آپ لوگوں کا پلان کیا ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ تو اماں نے اس سے کہا کہ یار ہم لوگوں کا پلان تو یہ ہے کہ ہم لوگ یہاں سے 10/12 بجے نکلیں گے ہماری بارات ڈائیریکٹ دلہن والوں کے گھر نہیں جائے گی بلکہ برات یہاں سے بہاولپور کے ماڈل ٹاؤن اے میں جا کر اترے گی جہاں پر میرے فسٹ کزن کے بیٹے کرنل ماجد کی اپنی کوٹھی ہے اور اس نے اصرار کر کے ہمارا سارا بندوبست اپنے ہاں کیا ہوا ہے۔۔۔ وہاں جا کر ہم لوگ ایک رات ریسٹ کریں گے پھر اگلے دن صبع صبع ہماری بارات ایک دوسری گلی میں جو کہ ماجد لوگوں کے قریب ہی واقعہ ہے جائے گی اور ہماری کوشش ہو گی کہ بارہ ایک بجے تک شادی کی ساری رسومات ادا کر کے کہ کہ ہم لوگ ایک دو بجے وہاں سے چل پڑیں تو رات۔۔۔ آٹھ نو بجے تک ہم لوگ واپس لاہور پہنچ جائیں گے ۔۔۔ اماں کا سارا پلان سُن کر عظمیٰ بولی ۔۔۔ ٹھیک ہے باجی میں دس بجے تک تیار ہو کر آ جاؤں گی۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ خبردار عظمٰی کی بچی ۔۔۔دس بجے کا مطلب دس بجے ہی ہو گا۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگی ٹھیک ہے باجی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد گھر آئے ہوئے سب مہمان اُٹھنا شروع ہو گئے اماں نے جلدی سے ان کے لیئے ناشتہ لگوا دیا اور پھر ۔۔۔ ناشتے کے بعد بھا میدا ۔۔۔ اماں کے پاس آیا اور اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ۔۔۔آپ کے حکم کے مطابق ۔ دونوں کوسٹریں آ گئیں ہیں ۔۔۔ اور ایک دم ریڈی ہیں بس آپ لوگوں تیاڑ ہوں تو ہم چلیں ۔اس کی بات سُن کر امان کہنے لگیں شاباش میدے یہ ہوئی نا بات۔۔۔ مہمان ناشتہ کر لیں تو ہم چلتے ہیں ۔۔اماں کی بات ختم ہوتے ہی بھا نے سوالیہ نظروں سے اماں کی طرف دیکھا اور ڈرتے ڈرتے بولا۔۔۔ والدہ حضوڑ ۔۔۔ اجازت ہو تو وہ ڈانسر لڑکے بھی ساتھ لے جاؤں؟ ۔زڑا شغل میلا رہے گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اما ں نے بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔ بلکل کوئی اجازت نہیں ہے اور ہاں خبردار ۔۔۔۔ اپنے ابا سے اس بارے میں بات تک بھی نہ کرنا ۔۔۔۔ تو بھا بولا ۔۔۔ والدہ۔۔۔ وہ۔۔ تو اماں اس کی بات کو کاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ زیادہ ٹر ٹر نہ کر ۔۔۔ جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔اور اب یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔۔ بھا میدا اماں کی جھاڑ سنی اور پھر منہ بناتا ہوا۔۔۔۔۔ کان لپیٹ کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا-

اس کے جاتے ہی اماں منہ ہی منہ میں بُڑبڑائی اور بولی ۔۔۔ حرام دا۔۔۔۔ پتہ نئیں کدوں منڈیاں دی جان چھڈے گا ( حرامی پتہ نہیں کب لڑکوں کی جان چھوڑے گا) اس کے بعد کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا۔۔۔ چنانچہ ناشتہ کے بعد اماں اور ابا کی بار بار کی تاکید اور ۔۔۔ محنت سے آخرِ کار سب مہمان گھر سے کوسٹروں میں بیٹھنے کے لیئے ایک ایک کر کے روانہ ہو گئے اور آخر میں ہم ۔۔۔اپنی فیملی کے لوگ ہی ہی رہ گئے ۔۔تب ابا نے بھا میدے کو اپنے قریب بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔۔ حمید تم نے اپنی تیاری کر لی ہے؟ تو بھا میدا ۔۔۔ فخریے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ ابا جی آپ وہم نہ کڑو ۔۔۔ میں نے سب انتظام کڑلیا ہے۔۔ میڑے ساڑے دوستوں کے پاس اسلحہ ہو گا اور ہم دو گاڑیوں میں سوار ہوں گے ایک دلہے کی گاڑی اور مردوں والی کوسٹر کے ساتھ ہو گی جبکہ دوسری گاڑی ۔۔۔ لیڈیز کوسٹر کی حفاظت کرے گی۔۔۔۔۔ تو ابا نے بھا سے بولے حمید ایک تواپنے اپنے اسلحہ کے لائیسنس ضرور ساتھ رکھنا ۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ابا کا لہجہ سخت ہو گیا اور وہ کہنے لگے دوسری بات یہ کہ اپنے اسلحہ کو چھپا کر رکھنا ہے ۔۔۔ خبردار جو کسی نے کسی بھی وقت اپنے اسلحہ کی نمائش کی تو۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد کچھ ضروری باتیں سمجھانےکے بعد ابا اور اماں نے مل کر گھر کو تالا لگایا اور پھر وہاں کھڑے ہو کر دعا کی اور ہماری بارات بہاولپور کی طرف چل پڑی ،۔۔۔۔۔۔


اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے دلہے کی کار میں فائق بھائی کے ساتھ میں اور ابا بیٹھے تھے جبکہ اماں لیڈیز کوسٹر میں بیٹھی تھیں ۔۔۔ ہم وہاں سے تقریباً گیارہ بارہ بجے کے قریب چلے تھے اور راستے میں ایک دو جگہ رکنے کے بعد شام کو بہاولپور پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ سب سے آگے ہماری گاڑی تھی اور پیچھے دونوں کوسٹریں ۔۔۔ایک میں لیڈیز سوار تھیں جبکہ دوسری جینٹس سے بھری ہوئی تھی۔۔ اور ان کوسٹروں کے پیچھے مختلف دوست احباب کی کاریں تھیں۔۔۔ جیسے ہی ہماری گاڑی رُکی فائق بھائی کی ساس سسر اور دیگر لوگوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور پھر رسمی جملوں اور ہنسی مزاق کے بعد ہم لوگ ماجد انکل کی کوٹھی میں چلے گئے یہ ایک پرانی طرز کی بڑی سی دو منزلہ کوٹھی تھی اور اس میں اوپر نیچے کوئی 25 /30 کمرے تھے ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر اور گیسٹ بیڈ اس کے علاوہ تھے ۔۔۔ ماجد انکل کے گیسٹ بیڈ پر فائق بھائی اور ان کے دوستوں نے قبضہ کر لیا ۔۔۔ جبکہ سرونٹ کوارٹر میں ان کے ملازموں کے ساتھ ساتھ ایک دو کمرے جیدے وغیرہ کے لیئے مختض کئے گئے تھے۔۔۔ کرنل ماجد ایک گٹھے ہوئے ۔۔ مضبوط جسم اور خوبصورت باڈی کے آرمی آفیسر تھے ۔۔اور ان کے بارے میں بتا دوں کہ یہ اماں کے فرسٹ کزن کے سب سے بڑے لڑکے تھے اور آجکل کراچی میں پوسٹ تھے ان کی شادی بہاولپور کے کسی نواب کی پڑپوتی سے سے ہوئی تھی ۔ان کی نوابی تو عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی ۔۔۔ جبکہ ان خاتون کی نوابی ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی۔۔۔ماجد انکل کی بیوی تھی تو بہت کیوٹ ۔۔پر۔۔۔۔وہ۔ بڑی ہی مغرور اور تُنک مزاج تھی ۔۔ ۔۔ خواہ مخواہ ہی لیئے دیئے رکھتی تھی ۔۔۔ ہم لوگ اسے نک چڑھی آنٹی کہتے تھے۔۔۔ اس میں ابھی تک نواب ذادیوں والا نخرہ پایا جاتا تھا۔اور یہ کوٹھی انکل کو سسرال کی طرف سے جہیز میں ملی تھی۔۔۔۔۔ آنٹی جس قدر نک چڑھی اور تُنک مزاج تھیں ماجد انکل اسی قدر اچھے اور فرینڈلی بندے تھے اور اماں کے ساتھ تو ان کی بہت زیادہ بنتی تھی کہ کسی زمانے میں یہ لوگ گاؤں میں اکھٹے رہتے تھے ۔۔۔ اماں کی وجہ سے ہی انکل نے ہمارے لیئے نہ صرف یہ کہ ساری کوٹھی خالی کر دی تھی اور خود اپنے سسرال میں رہ رہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے لیئے کھانے کا بھی بندوبست کیا ہوا تھا۔۔


چنانچہ رسمی عیلک سیلک اور گپ شپ کے بعد کرنل ماجد ابا کے پاس آئے اور بولے ۔۔۔ میاں جی پہلے چائے پیو گے یا کھانا لگوا دوں ؟؟ ۔۔۔تو ابا نے حسبِ عادت سارا ملبہ اماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ یار نیلو سے پوچھ لو ۔۔۔۔ جیسے وہ کہتی ہے کر لو۔۔۔ تو ماجد انکل بولے ۔۔۔ کُچ تُسی وی دس دیا کرو میا ں جی (کچھ آپ بھی بتا دیا کرو میاں صاحب ) تو ابا ہنس کر بولے۔۔۔ سمجھا کر نا یار۔۔۔۔ اور پھر وقار انکل کےساتھ ایک جانب بڑھ گئے ۔۔۔اب انکل نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ہما اپنی اماں کو تو بلا کر لاؤ۔۔۔میں نے ان کی بات سُنی اور اندر چلی گئی۔۔۔ اور تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں کو ڈھونڈھ لیا اماں عظمٰی باجی کا فائق بھائی کی ساس کے ساتھ تعارف کروا رہی تھیں ۔۔۔ اور ابھی مزید بات چیت سے پہلے ہی میں اماں کے پاس پہنچ گئی اور ان کو بتایا کہ اماں آپ کو ماجد انکل بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔میری بات سُن کر اما ں نے عظمٰی سے معزرت کی اور میرے ساتھ چل پڑی ۔۔راستے میں مجھ سے پوچھا کہ کیا کہہ رہا تھا تیرا انکل؟ تو میں نے ان کو ساری بات بتا دی۔۔۔ میری بات سُن کر اماں بولی۔۔۔ مجال ہے جو یہ شخص خود پر بھی کبھی کوئی بات لے ۔۔۔ اتنے میں ہم لوگ کرنل ماجد کے پاس پہنچ گئے تھے وہ سامنے صوفے پر بیٹھے کسی کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے اماں کو دیکھتے ہی تیر کی طرح ان کے پا س آئے اور بولی۔۔۔ کی خیال اے باجی کھانا لگا دوں یا چائے شائے چلے گی ۔۔۔ تو اماں کہنے لگی ۔۔۔ یہ بات میاں صاحب سے پوچھو نا ۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر ماجد انکل ہنس پڑے اور کہنے لگے ۔۔۔ جی میں نے ان سے پوچھا تھا ۔۔۔ اور حسبِ روایت انہوں نے گیند آپ کی کورٹ میں پھینک دی ہے اور ۔۔ انہوں نے آپ سے ملنے کو کہا ہے ۔۔۔ اس پر اماں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔۔ ویسے کھانے کا ٹائم تو ہو ہی رہا ہے۔۔ چلو ایسا کرو۔۔۔ تم پے ج کھانا لگوا دو۔۔۔۔ میں وہاں سے نکلی اور مین حال کی طرف چل پڑی کہ جہاں ساری برات والی خواتین۔۔ بیٹھی ڈھولکی پر شادی کے گیت گا رہیں تھیں ۔۔۔دیکھا تو وہاں تھوڑی سی خواتین ڈھولکی بجا رہیں تھیں جبکہ ان کے آس پاس ٹھرکی ٹائپ لڑکے کھڑے ان کو تاڑ رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی میں حال میں پہنچی ایک بہت ہی گُڈ لُکنگ قسم کا لڑکا اچانک میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑے ادب سے سلام کر کے بولا۔۔۔۔ ہما جی میرا نام ۔۔ دوست نواز ہے اور میں آپ کی بھابھی کا کزن بلکہ بھائی ہوں ۔۔۔ پھر اس نے اپنا اتھ آگے کیا اور بولا ہائے ہما۔۔۔ مجھے اس لڑکے کی بات کرنے اور ہاتھ آگے بڑھانے کا یہ انداز بہت برا لگا ۔۔۔۔ اور میں اسے نظر انداز کرتے ہوئے خواتین کے پاس جا بیٹھی۔۔۔ اور ان کے ساتھ مل کر گیت گانےاور تالیاں بجانے لگی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔ ایک خادمہ وہاں آئی اور بولی ۔۔۔ تمام لیڈیز ۔۔ باہر لان میں آ جائیں کہ وہاں کھانا لگ گیا ہے ۔۔۔ کھانے کا نام سنتے ہی خواتین میں بھگڈر سی مچ گئی اور وہ اُٹھ کر تیزی کے ساتھ لان کی طرف جانے لگیں۔۔۔ جبکہ میں وہیں بیٹھی رہی ۔۔۔ اور رش کم ہونے کا انتظار کر نے لگی۔۔۔اور جب خواتین کا رش کچھ کم ہوا تو میں اپنی جگہ سے اُٹھی اور باہر کی طرف جانےلگی ۔۔۔ تو دروازے پر پھر وہی لڑکا مل گیا ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا۔۔۔۔ اوہو ۔۔۔ میں آپ ہی کو لینے کے لیئے آ رہا تھا۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔ کمرے سے لان تک وہ میرے کان کھاتا رہا لیکن ۔۔۔ میں نے بہت پہلے ہی طے کر رکھا تھا کہ چاہئے کچھ بھی ہو ۔۔۔ میں نے کھبی بھی کسی بھی صورت میں کسی اجنبی بندے کو کوئی لفٹ نہیں دینی۔۔۔ 


وہ لڑکا باہر لان تک میرے ساتھ آیا اور اس نے مجھ سے بات کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن بے سود ۔۔۔۔ ادھر میں نے اس کے ساتھ بڑا ہی سرد رویہ رکھا ۔۔۔ لیکن وہ ایک عجیب ڈھیٹ ہڈی تھی کہ لان تک میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔۔۔ اور جیسے ہی ہم لان میں داخل ہوئے ماجد انکل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ نواز جی۔۔۔۔ سروس تیز کر واؤ ۔۔۔۔ اور میں ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اماں کے پاس چلی گئی ۔۔ جہاں پر اماں دوسری خواتین کے ساتھ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔اور مین وہاں بیٹھ گئی۔۔۔۔ جبکہ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ خواتین سے باتیں بھی کر تی جا رہیں تھیں۔۔۔ اماں کی دوسری طرف عظمٰی سرمد بھی بیٹھی ہوئی تھی اور حسبِ معمول اس کی اماں کے ساتھ کسی بات پر بحث ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ اماں سےمخاطب ہو کر کہہ رہی تھی ۔۔۔ نیلو جی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟ تو اماں کہنے لگیں ۔۔ جی فرمایئے کونسی بات آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آئی ؟؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ جب آپ لوگو ں نے شادی سے ایک رات قبل یہاں سٹے کرنا تھا تو ۔۔۔ پھر آپ لوگوں نے الگ الگ سے مہندی کیوں رکھی ہے ؟ اور کہنے لگی ۔۔۔قسم سے اگر آج دونوں کی اکھٹا مہندی ہوتی تو کتنا مزہ آتا ۔۔۔ پھر اس نے اماں کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ میری بات کو جواب نہیں دیا آپ نے نیلو باجی۔۔۔ تو اماں کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ جواب کیا دینا ۔۔۔ پہلی بات تو یہ کہ کارڈ چھپاتے وقت تک ہاورا پروگرام یہ تھا۔۔۔ کہ ہم شادی والے دن صبع صبع گھر سے نکلیں گے اور پھر رات گئے تک۔۔۔۔۔ واپس لاہور پہنچ جائیں گے۔۔۔ لیکن پھر عین وقت پر ماجد نے اصرار کیا کہ اس کے ہاں ایک رات ٹھہرا جائے۔۔۔ کیونکہ اس کے خیال میں ہمارے پروگرام کے مطابق عمل ہوا تو بارتی سمیت سب لو گ تھک کر چُور ہو جائیں ۔۔ اور شادی کو ٹھیک سے انجوائے نہیں کر سکیں گے۔۔ اس لیئے ۔۔۔ چندا ۔۔۔ پبلک کے پُر زور اصرار پر ہم لوگ۔۔۔۔ یہاں ایک رات رُکنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔ تو عظمٰی کہنے لگیں ۔۔۔۔ تو کیا ہوا ۔۔۔ آپ پھر بھی مہندی کا پروگرام اکھٹے کر سکتے تھے۔۔۔ اس کی بات سُن کر اماں نے مجھے گلاس میں پانی بھرنے کا کہا اور میں نے جلدی سے ان کے گلاس میں پانی بھرا ۔۔۔تو اماں نے گلاس کو اپنے ہونٹوں کےساتھ لگایا اور ۔۔۔ پانی کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر ا۔۔۔ پھر انہوں نےعظمٰی کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔سوری یار ۔۔۔۔ گلے میں روٹی کا نوالہ پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔اور پھر ایک لمبی سانس بھر کے بولیں ۔۔جو بات تم نے کہی ہے نا عظمٰی۔۔ یہ بات ہمارے بھی دماغ میں آئی تھی۔۔۔ لیکن تم کو تو اپنے بھائی جان (ابا) کا پتہ ہے ۔۔۔ کہ ایک بار جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ تجویز سُن کر وہ کہنے لگے۔۔۔ کہ میں اپنے آفس والوں اور سب عزیزو اقارب و مہندی کے کارڈ وغیرہ دے چکا ہوں ۔۔۔ اور دوسری ا ور اصل بات یہ ہے میاں صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مخلوط فنگشن انہیں ہر گز پسند نہ ہیں ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر عظمٰی ہنس پڑی اور بولی۔۔۔ رہنے دیں باجی۔۔۔ آپ نے چاہا ہی نہیں ہو گا۔۔۔ ورنہ ۔۔ میاں جی کی کیا مجال ۔۔۔۔ ہے۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ اماں اس بات کا کوئی جواب دیتی ۔۔۔ عظمٰی کی بات پر لیڈیز کا ایک فرمائشی قہقہہ پڑا۔۔۔ اور بات آ ئی گئی ہو گئی۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سب لوگ خاص کر لیڈیز وہیں لان میں ہی بیٹھ گئیں اور نیچے گھاس پر دری بچھوا کر وہاں ڈھولک رکھ لی گئی اور ایک بار پھر سے شادی کے گیت شروع ہو گئے۔۔۔ میں نے کچھ دیر تو ان کا ساتھ دیا ۔۔ پھر مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اور میں وہاں سے اُٹھ کر اندر روم کی طرف چل پڑی ۔۔۔ تو دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے کوئی گھسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں گیلری میں اس انتظار میں کھڑی ہو گئی کہ جونہی واش روم فارغ ہو تو میں ۔۔۔ جاؤں۔۔۔اتنے کیا دیکھتی ہوں کہ وہی ڈھیٹ لڑکا۔۔۔ میرے پاس آ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔ آپ کس کو تلاش کر رہی ہیں۔۔۔ تو میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔۔۔ اور خاموش کھڑی رہیں ۔۔۔ پھر اس لڑکے نے میرے طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ہما ۔۔ جی پلیز آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔۔۔۔۔۔ میں بس ۔۔۔ میں بس۔۔۔۔۔ آپ مجھے بہت اچھی لگیں ہیں۔۔۔۔ تو میں نے بظاہر فرش پر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ زلیل آدمی کو ٹھیک سے لڑکی بھی پٹانی نہیں آتی۔۔۔ پتہ نہیں کیسے اس نے میرے دل کی بات سُن لی اور کہنے لگا۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔۔۔ آپ یقین کریں میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں ۔۔۔ میں تو ۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ یقین کریں ہما جی ۔۔۔ خود میرے پیچھے بہت سی لڑکیا ں پھرتی ہیں۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ سامنے کمرے والے واش روم کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔ واش روم سے جیدا باہر نکل آیا ۔۔۔ اور جیسے ہی جیدا واش روم سے باہر آیا ۔۔۔ میں نے اس لڑکے جس نے اپنا نام دوست نواز بتایا تھا ۔۔ کی بات کا کوئی جواب دیئے بغیر ۔۔۔ آگے بڑھی اور واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔


کچھ دیر بعد جب میں فارغ ہو کر باہر نکلی تو دیکھا کہ وہی لڑکا جیدے کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔۔ ۔۔اور پھر مجھے دیکھتے ہی وہ لڑکا وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا ۔۔۔ اور اب اکیلا جیدا ہی وہاں کھڑا رہ گیا تھا ۔۔۔پتہ نہی کیوں ۔ جیدے کو دیکھ کر ایک دم میرے اندر کی۔۔۔تراس ۔۔۔ بھڑک اٹھی ۔۔۔۔ اور ۔۔ ایک دم سے ہی میری ہوس نے سر اُٹھایا ۔۔۔۔اور اس کےساتھ ہی نیچے میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔ اور میں اپنی چوت کو مسلتے ہوئے جیدے کے پاس پہنچ گئی۔۔۔ اور قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ کہتی وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی آپ کو ایک بات بتاؤں ۔۔ تو میں نے اس سے کہا بولو۔۔ جناب۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ جو لڑکا یہاں کھڑا تھا کون ہے؟ تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔ تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی یہ لڑکا۔۔۔ایک بہت بڑے زمیندار کا اکلوتا بیٹا ہے ۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے برا سا منہ بنایا اور بولی۔۔۔ اکلوتا ہو یا کھوتا ۔۔۔ مجھے اس سے کیا؟ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ یہ صبع سے ایویں ہی میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔۔۔ میری بات سن کر جیدا کہنے لگا بی بی کوئی بھی ایسے ہی نہیں کسی کے پیچھے پڑتا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ دفعہ کر جیدے ۔۔۔ اور پھر میں نے گیلری میں ادھر ادھر دیکھا اور اس کو کمرے کے اندر آنے کا بولا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا ۔۔ میں نے اپنا ہاتھ جیدے کی دھوتی میں ہاتھ ڈالا اور اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔ اس وقت تک جیدے کالن ایک چھیچھڑا سا بنا ہوا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلنا شروع کیا تو اس چھچھڑے میں جان آنا شروع ہو گئی ۔۔۔چنانچہ میں اسے مزید مسلتے ہوئے جیدے سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔جیدے آج رات پھر تم نے مجھ سےملنا ہے ۔۔۔میری حرکت دیکھ کر ۔۔۔۔۔اور میری بات سن کر جیدا کچھ گھبرا سا گیا اور اس سے پہلے کہ اس کا لن لوہے کی طرح اکڑ جاتا ۔۔ اس نے میرے ہاتھ سے اپنا لن چھڑایا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ہما۔۔۔۔ ۔۔۔ اور بولا ۔۔۔ یہاں کوئی بھی کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے لن کو دھوتی میں کر لیا۔۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ بی بی جی ۔۔۔ اس انجان جگہ پر ہم کیسے مل سکتے ہیں؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔ یہ انجان جگہ نہیں ہے اور تم نے مجھ سے ضرور ملنا ہے تو وہ میرے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔۔ایک تو تم بچوں کی طرح ہر بات میں بڑی ضد کرتی ہو۔۔۔ پھر بولا۔۔۔ لیکن اس دفعہ تم نے مجھے بتانا ہے کہ میں نے تمھارے ساتھ کہاں جانا ہے۔ اور مجھ سے اپنا لن چھڑا کر باہر نکل گیا۔۔۔ کچھ دیر بعد میں بھی اس کے پیچھے پیچھے باہر آ گئی اور لان کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔تو اچانک ایک خوبصورت سی خاتون نے میرا راستہ روک لیا اور بولی۔۔۔ کیسی ہو ہما۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن پہچان نہ پا ئی تاہم میں نے بڑی خوش اخلاقی سے اس کی باتوں کا جواب دیا۔۔۔ اور پھر اس خاتون سے ایکسکیوز کرتے ہوئے اماں کی طرف چلی گئی۔۔۔۔ جہاں اماں ایک اجنبی خاتون کے ساتھ بڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔ جیسے ہی میں وہاں پہنچی ۔۔۔۔ تو اماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ ہما بیٹی خالہ کو سلام کرو ۔۔۔ تو میں نے اس خاتون کو بڑے ادب سے سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔۔۔ وہ دونوں باتیں کر رہیں تھیں کہ مجھے عظمٰی باجی نے آواز دیکر اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔ اور بڑے معنی خیز لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ کیسی لگی میڈم ؟ تو میں نے عظمٰی باجی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا مطلب ہے جی آپ کی بات کا۔؟؟۔ تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ ابھی پتہ چل جائے گا بچہ۔۔۔۔ اور چپ ہو گئی۔۔۔ اب میرے دل میں اس بات کی کھد بُد شروع ہو گئی کہ یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔۔ لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔۔ آخر لاکھ منتوں اور ترلوں کے بعد عظمٰی باجی کہنے لگیں ۔۔۔جہا ں تک میرا قیاس ہے یہ خاتون اپنے بیٹے کےلیئے تمہاری اماں کے پاس آئی ہے۔۔


 عظمٰی باجی کی بات سُن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔ اور حیرت کے مارے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔۔۔اور میں کبھی عظمٰی باجی کی طرف اور کبھی اس خاتون کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔ مجھے یوں حیران ہوتا دیکھ کر عظمٰی باجی ۔۔ گنگنا نے لگی۔۔۔ چھوڑ بابل کا گھر۔۔۔۔تم کو پیا جی کے گھر ۔۔۔ ایک روز جانا پڑے گا۔۔۔ ادھر میں بڑی حیرانی سے سوچ رہی تھی کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔ اسی دوران وہ خاتون اماں کے پاس سے اُٹھ کر جانے لگی۔۔۔ تو احتراماً اماں بھی اپنی جگہ سے اُٹھی اور کافی آگے تک اس خاتون کو چھوڑ کر آئی۔۔۔۔ جیسے ہی اماں واپس اپنی کرسی پر بیٹھی۔۔۔ میں عظمٰی باجی سے اُٹھ کر اماں کے پاس پہنچ گئی اور جاتے ہی اماں سے پوچھنے لگی۔۔۔ اماں یہ خاتون کون تھی ؟ میری بات سنتے ہی اماں نے ایک نظر عظمٰی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ بڑی کمینی ہے یہ عورت ۔۔۔۔اس کے پیٹ میں تو کوئی بات رہتی ہی نہیں ہے۔۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ارے تم ان کو نہیں جانتی ۔۔۔ یہ اپنی شفقت آپا تھیں ۔۔۔۔ چاچے منظور کی بیوی ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا وہ تو ٹھیک ہے پر اماں یہ بتاؤ ۔۔کہ ۔ یہ محترمہ آپ کے پاس کیا کر رہی تھی ؟ تب اماں اچانک سنجیدہ ہو گئی اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ دیکھ ہما ۔۔۔۔گو کہ انہوں نے خود تو نہیں کہا ۔۔۔ لیکن میں نے ادھر ادھر سے سنا ہے کہ یہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔تمہارے رشتے کے سلسلہ میں بڑی دل چسپی رکھتے ہیں۔۔۔ تو میں نے ایک دم اماں سے کہہ دیا کہ اماں ابھی میں نے پڑھانا ہے اور میں نے ابھی سے کوئی شادی وادی نہیں کرنی ۔۔۔ تو اماں نے مجھے پچکارتے ہوئے کہا کہاکہ میری جان۔۔۔ کون کافر تمھاری شادی کروا رہا ہے ۔۔۔ ابھی تو ان لوگوں نے کسی کی معرفت صرف اس بات کے اشارے دیئے ہیں۔۔آگے نصیب میں ہوا تو ۔۔۔ تمھارے رشتے کی بات پکی ہو جائے گی ۔۔۔اپنے رشتے کی بات سُن رک میرے من میں ایک عجیب سی سرسراہٹ سی شروع ہو گئی ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دلہے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔اور دلہے سے ہوتی ہوئی بات ۔۔سہاگ رات تک گئی ۔۔۔اور سہاگ رات کا سوچ کر میری چوت کی تراس۔۔۔ مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔ اور چوت صاحبہ جو کہ پہلے ہی جیدے کا لن دیکھ کر کافی گرم ہو رہی تھی اب مزید گرم تر ہو گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ رات کو جیدے سے ملنا تو ہے ۔۔۔ پھدی کی گرمی ختم نہ سہی اس کا لن کم تو کر ہی دے گا۔۔۔ میں نے یہ سوچا اور پھر وقتی طور پر شانت ہوگئی۔۔۔۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ عظمٰی باجی کی آواز میرے کانوں میں گونجی وہ کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔ ہما ہم سب فائق کے سسرال اس کی دلہن سے ملنے جا رہے ہیں تم بھی چلو ۔۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ چل پڑی ۔۔فائق بھائی کے سسرال کا گھر وہاں سے تھوڑا ہی دور تھا۔۔۔ میں عظمٰی اور تین چار اور خواتین ۔۔۔ ان کے گھر چلے گئے۔۔۔ دلہن کے گھر کے بڑے لوگ یعنی کہ اس کیے ماں باپ اور بڑے ۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ ماجد بھائی کی کوٹھی میں تھے اور وہ بے چارے اماں ابا اور بارات کی خدمت میں جُتے ہوئے تھے ۔ اور ایک ایک بندے سے پوچھ رہے تھے کہ سر چائے ہو جائے ۔۔۔ اور کوئی چیز تو نہیں چاہیئے۔۔وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ ادھر عطیہ بھابھی کے گھر میں اس کی قریبی دوست اور رشتے دار خواتین بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔ میں خواتین کو لیئے ہوئے سیدھا ہال میں چلی گئی۔۔۔ جہاں دلہن درمیان میں اور باقی ۔۔۔لڑکیاں اس کے آس پاس بیٹھیں ہوئیں تھیں اور وہ ذور ذور سے کسی بات پر ہنس رہیں تھی ۔۔۔ عطیہ بھابھی کے سامنے ایک ڈھولک بھی پڑی تھی ۔۔۔ لیکن اس وقت وہ سب لیڈیز ڈھولک کی بجائے آپس میں خوش گپیاں لگا رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تراس (پیاس)

قسط 08

ہمارے داخل ہوتے ہی ۔۔۔ وہاں پر ایک دم شور مچ گیا ۔۔۔ اور دو تین لڑکیاں عطیہ بھابھی کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں ۔۔ کل سے پہلے آپ لوگوں کا داخلہ اس گھر میں منع ہے تاہم ۔۔۔ کچھ دیر کی گفتگو ۔۔منت سماجت ۔۔اور ۔۔۔ بات چیت کے بعد ۔۔وہ لڑکیاں عطیہ بھابھی کے سامنے سے ہٹ گئیں ۔۔۔ اور ہمیں عطیہ بھابھی کے پاس بیٹھنے کی جگہ دی۔۔۔۔ ابھی ہم لوگ عطیہ بھابھی سے باتیں ہی کر رہے تھے کہ چائے کا دور شروع ہو گیا ۔۔۔ اور اچانک پتہ نہیں کہاں سے وہی لڑکا نمودار ہوا ۔۔۔ اور مجھے چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے بولا۔۔کیسی ہو ہما۔۔۔۔ اس کو یوں اپنے ساتھ بے تکلف ہوتے دیکھ کر مجھے غصہ تو بہت آیا ۔۔۔ لیکن میں خود پر جبر کر گئی ۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالی پکڑنے کے لیئے جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔ اس نے پیالی دیتے ہوئے بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے میرے انگوٹھے کے ساتھ اپنا انگھوٹھا ٹچ کیا ۔۔۔۔ میں اس کی شرارت سمجھ تو گئی ۔۔ لیکن موقعہ ایسا تھاکہ میں اس کو کوئی جواب نہ دے سکتی تھی۔۔۔ اس لیئے خون کے گھونٹ پی کر چپ رہی۔۔۔


عطیہ بھابھی کے پاس ہم کافی دیر تک رہے ۔۔پھر رات کافی ہو گئی تو عظمٰی باجی کہنے لگی ۔۔۔ کہ اب ہمیں چلنا چاہیئے۔۔۔۔ ان لوگوں نے ہمیں روکنے کی کافی کوشش کی لیکن ۔۔۔ ہم لوگ وہاں نہ رُکے اور جب واپس آنے لگے تو ان میں نے دو تین خواتین اور وہی لڑکا ۔۔۔۔۔ ہمیں چھوڑنے کے لیئے ماجد بھائی کی کوٹھی تک آیا ۔۔۔۔۔ کوٹھی پہنچتے ہی ہمارا ٹاکرا ۔۔۔ اماں کےساتھ ہو گیا وہ ہمارا ہی انتظار کر رہیں تھیں ۔اور انہوں نے ہمیں اپنے اپنے کمروں کا بتایا اور سونے کی تاکید کرتے ہوئے خود وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔ اپنے کمرے میں پہنچتے ہی میں نے اپنا بیگ کھولا ۔۔۔ اور رات کے پہننے والے کپڑے نکال لیئے۔۔۔ اور پھر کپڑے تبدیل کرنے کے لیئے جیسے ہی واش روم کی طرف بڑھی۔۔۔ تو وہاں خواتین کی لمبی قطار کو دیکھ کر میں وہاں سے باہر آ گئی اور کوئی اور کمرہ دیکھنے لگی ۔۔ لیکن اتفاق سے میں جس کمرے میں بھی جھانک کر دیکھا اسے ہاؤس فُل ہی پایا۔۔۔ اور پھر میں اپنے کپڑے ہاتھ میں لیئے وہاں سے آگے چلی جاتی ۔۔۔ اس طرح چلتے چلتے میں گیلری کے آخری سرے تک پہنچ گئی ۔۔۔ یہاں پہنچ کر میری نظر ایک چھوٹے سے دروازے پر پڑی ۔۔ اور میں بلا سوچے اس میں گھس گئی۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں سرخ رنگ کا دبیز ساقالین بچھا ہوا تھا ۔۔۔ اور اس کمرے میں دو تین کرسیاں اور وکٹورین سٹائل کے دو سنگل سیٹر صوفے ایک طرف پڑے تھے جبکہ ان کے بلکل سامنے دو ٹرپل سیٹر صوفے پڑے تھےاور دیواروں پر بھاری پردے لگے ہوئے تھے میں نے ان پردوں ہٹا کر دیکھا تو یہ کھڑکیاں تھیں جو کہ باہر ۔۔لان کی طرف کھلتی تھیں۔۔۔ ۔۔۔ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ان کی سیٹنگ کی بلکل کوئی سمجھ نہ آئی اور میں نے ایک نظر کمرے کی طرف دیکھا اور جلدی سے پکڑے تبدیل کیئے اور باہر نکل آئی۔۔۔ اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ راستے میں اچانک مجھے ایک خیال آ گیا اور میں دوبارہ بھاگتی ہوئی اس کمرے کی طرف چلی گئی اور اب ایک نئے اینگل سے اس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔ اور مجھے یہ کمرہ اپنے کام کے لیئے نہایت مناسب معلوم ہوا ۔۔ کیونکہ ایک تو یہ برآمدے میں سب سے آخر میں تھا۔کہ جہاں لوگوں کا آنا جانا بہت کم تھا ۔۔ اور دوسرا اس کی بناوٹ ایسی تھی کہ دور سے کسی کو گمان بھی نہ ہوتا تھا ۔۔۔ کہ یہاں کوئی کمرہ ہے ۔۔اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد میں اپنے کمرے میں گئی اور کپڑوں کو رکھ کر میں سیدھا سرونٹ کوارٹر کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اور پھر جیدے کو ایک مخصوص اشارہ کیا ۔۔۔ اور خود باہر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد جیدا ۔۔ میرے پاس کھڑا تھا اور وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بظاہر بڑی نیازی سے پوچھ رہا تھا کہ کہاں چلنا ہے؟ لیکن میری نظر اس کی دھوتی پر تھی ۔۔ جو اس کے رضامندی کا ثبوت دی رہی تھی ۔۔ دھوتی میں جیدے کا لن نیم کھڑا تھا۔۔۔پھر میں نے اس کو مطلوبہ کمرے کی لوکیشن سمجھائی تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ لیکن وہاں تو کوئی کمرہ نہ ہے ؟ تو میں نے کہا یہی تو بات ہے وہاں پر ایک خفیہ کمرہ ہے اور پھر اس سے کہا کہ وہ مناسب فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے آجائے ۔۔۔

جیدے کو ہدایت دے کر میں آگے بڑھی اور اس خفیہ کمرے کی طرف چلنے لگی۔۔۔۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد جیدا بھی اس کمرے میں آگیا ۔۔۔ اور کمرے داکل ہو کر اس کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔۔۔ اور بولا۔۔۔ کمال ہے بی بی جی ۔۔۔ میں نے صبع سے اس برآمدے کے کوئی سو چکر لگائے ہوں گے ۔۔ لیکن مجھے اس کمرے کا بلکل بھی پتہ نہیں چلا ۔۔۔ ابھی جیدے یہ کہہ رہا تھا کہ میں گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گئی۔۔۔۔جیدے کی دھوتی سے اس کا لن نکال لیا۔۔۔ اور اس کی طر ف دیکھنے لگی۔۔۔ جیدے کا کالا لن ۔۔۔ ابھی نیم کھڑا تھا۔۔۔۔ میں نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور اسے کو دبانے لگی۔۔۔میرے نرم ہاتھوں کا لمس پاتے ہی جیدے کا لن ۔۔۔ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اور میں اس کے شیش ناگ کو پھن پھیلاتے ہوئے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔ جیدے کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور میں اس کے شاندار لن کا جائزہ لینے لگی تو جیدا بولا ۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔ زرا میرے ٹوپے پر اپنی زبان تو پھیرو۔۔۔ اور میں نے اس کی طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا ۔۔۔۔ اور اپنا منہ جیدے کے لن کے قریب لے گئی اور سب سے پہلے تو اس کے موٹے ٹوپے کو اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر چوم لیا ۔۔۔ اس کا لن کافی تپا ہوا تھا۔۔۔ پھر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور جیدے کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔میری زبا ن کا لمس جیسے ہی اس کے ٹوپے پر لگا۔۔۔ جیدے کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔ اور وہ بولا۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔ ہما۔۔۔ میرا لن منہ میں ڈال ۔۔۔ اور میں نے اس کے لن کو اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔۔اور دو تین چوپے ہی لگائے ہوں گئے کہ اس کے لن نے مزی (پری کم) چھوڑنا شروع کر دی۔۔۔۔ اس کے لن سے نکلنے والی گرم مزی کا زائقہ کافی نمکین تھا اور پھر اس کے لن نے اتنی مزی چھوڑی کہ میرا منہ نمکین پانی سے بھر گیا۔۔۔۔۔ابھی میں جیدے کا لن چوس ہی رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک جیدے نے میرے منہ سے اپنا لن کھینچا اور مجھے اوپر اُٹھا لیا ۔۔۔تو میں نے اوپر اُٹھتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ کیا ہے تھوڑا سالن تو اورچوسنے دو نا۔۔۔ تو وہ بولا۔۔۔ لیکن میں تمھارے ممے چوسنا چاہتا ہوں اور اس نے میری قمیض اوپر کی ۔۔۔۔ حسبِ روایت کپڑے تبدیل کرتے وقت برا میں نے پہنی ہی نہ تھی ۔۔۔ اس لیئے اس نے میری قمیض اوپر کی اور پہلے تو میرے نپلز سے کھیلنے لگا ۔۔۔ پھر جیدے نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں میں میرے دائیں ممے کا نپل لیا اور کسی بچے کی طرح اسے چوسنے لگا۔۔۔۔اس کے ممے چوسنے کی وجہ سے میری چوت میں آگ لگنا شروع ہو گئی اور پھدی میں پانی جمع ہو گیا ۔۔۔اور مین مزے سے ہلکی ہلکی کراہیں بھرنے لگی۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اورجیدے سے بڑی ہی شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔۔۔ جیدے میرا مما منہ میں لے کر چوس نہ ۔ نا۔۔۔ میری شہوت بھری آواز نے جیدے کومزید مست کر دیا تھا اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ ہاں تیرا مموں کو اپنے منہ میں لے کر ہی چوسوں گا۔۔۔ اور ۔۔۔بڑے زور و شور سے میرے ممے چوسنے لگا۔۔۔ ابھی جیدے کو میرے ممے چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہمیں باہر سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں ۔۔۔ ا ن آوازوں کو سننا تھا ۔۔۔ کہ میں نے اور جیدے نے بیک وقت کمرے میں پڑے ٹرپل سیٹر ۔۔۔ صوفے کی طرف دوڑ لگائی اور اگلے ہی لمحے ہم دونوں ۔۔ اس ٹرپل سیٹر کے پیچھے دبکے ہوئےتھے۔۔۔اب آوازیں اور نزدیک سے سنائی دے رہیں تھی۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ مجھے کرنل ماجد کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ارے باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں شکریہ کی کیا با ت ہے۔۔۔آپ میری بڑی بہن ہو ۔۔۔ اور آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔۔۔ کرنل کی بات سن کر۔۔۔۔ جیدا ۔۔۔ جو کہ میرے ساتھ ہی صوفے کے پیچھے دبکا ہوا ۔۔پکڑے جانے کے خوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔۔۔ اور ادھر ڈر تو مجھے بھی بہت لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن میری مہم جو طبیعت مجھے اس بات پر اُکسا رہی تھی کہ میں اُٹھ کر سامنے کا نظارہ دیکھوں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔ میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تو جیدے نے ہاتھ بڑھا کر مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا ۔۔۔لیکن میں بھلا ۔۔ جیدے کی کہاں سننے والی تھی۔۔ چنانچہ میں بڑی ہی احتیاط سے اوپر اُٹھی اور ۔۔ پھر۔۔ آہستہ ۔۔۔آہستہ ۔۔۔اُٹھ کر ۔۔۔۔ پردے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر پردے کا وہ حصہ تلاش کرنے لگی کہ جہاں سے پردہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔۔۔ خوش قسمتی سے پردے کا وہ والا حصہ قریب سے ہی مل گیا ۔۔۔۔۔ اور میں کھسکتی کھسکتی ۔۔۔۔ عین اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔۔۔ اور پھر بڑی ہی احتیاط سے ۔۔۔۔ پردے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھنے لگی۔۔۔ وہ ٹوٹل تین نفوس تھے ۔۔۔ ایک کرنل ماجد۔۔۔۔ دوسرا اماں ۔۔۔ اور تیسرا ۔۔۔ کرنل کی نک چڑھی بیوی تھی۔۔۔


 کرنل اور اماں سنگل سیٹر پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ ان کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ کرنل کی بیوی کی پشت میری طرف تھی ۔۔۔ اور میری سیدھ سے تھوڑا ہٹ کر اماں اور کرنل بیٹھے ہوئے تھے۔۔ موضوع بارات اور صبع کا ناشتہ تھا ۔۔۔ اماں کرنل سے کہہ رہیں تھیں کہ ناشتہ صبع 7 بجے سرو کر دیا جائے اور ناشتے میں چائے اور بسکٹ یا کیک دیا جائے ۔۔۔ جبکہ کرنل اور اس کی نک چڑھی بیوی کا خیال تھا کہ 8/9 بجے تک ہلکا پھلکا ناشتہ دیا جائے۔جبکہ اماں اصرار کر کے کہہ رہیں تھیں کہ ۔۔کیونکہ بارہ ایک بجے تو برات کا کھانا تھا۔۔۔۔اس لیئے آپ لوگ صرف ہلکا سا ناشتہ ہی دیں۔۔۔ اس کے بعد وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔ زیادہ تر باتیں کرنل اور اماں ہی کر رہے تھے ۔۔۔ جبکہ کرنل کی نک چڑھی بیوی ۔۔۔ بہت کم لیکن بڑے نخرے سے بات کرتی تھی۔۔۔کوئی پندرہ بیس منٹ کی گفتگو کے بعد اچانک کرنل کی بیوی نے اپیئ کلائی اوپر ۔۔۔ اور پھر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی۔۔۔۔ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ نیلو ۔۔ باجی۔اجازت دیں کہ ۔۔ ہمارے سونے کے ٹائم سے بھی وقت کافی اوپر ہو گیا ہے۔۔۔ اور آپ نے بھی ریسٹ کرنا ہو گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر اس سے قبل کہ اماں کوئی جواب دیتیں ۔۔۔ کرنل نے اپنی بیوی سے کہا ۔۔۔ ڈارلنگ اتنے سالوں کے بعد تو آپا ملی ہے ۔۔۔ اور سارے دن کے بعد ابھی ہی تو موقع ملا ہے ۔آپا اور میاں صاحب سے محفل جمانے کا۔۔ کرنل کی بات سُن کر اس کی بیوی بولی ۔۔۔ لیکن میاں صاحب تو مجھے ابھی تک نظر نہیں آئے تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ وہ اپنے دوست وقار صاحب کے ساتھ تھوڑے بزی تھے۔۔۔ بس کسی بھی لمحے آنے والے ہوں گے۔۔۔ ۔۔۔ کرنل کی بات سُن کر ۔۔ نک چڑھی آنٹی کہنے لگیں ۔۔ سوری ۔۔ مجھے تو بہت سخت نیند آ رہی ہے اور تم تو جانتے ہی کہ میں اتنی رات گئے تک جاگنے کی عادی نہیں ہوں۔۔۔ اس لیئے میں تو چلی ۔۔ تم بھی آ جانا۔۔۔ تو ماجد انکل کہنے لگے۔۔۔ ڈارلنگ بری بات ہے ۔۔۔ میاں صاحب آنے والے ہیں ۔۔۔۔ وہ کیا سوچیں گے ۔۔ لیکن نک چڑھی آنٹی نے ان کی ایک نہ سُنی اور کہنے لگی۔۔۔ سوری ۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔سوری باجی۔۔۔۔ میں مزید نہیں رُک سکتی اور پھر ۔۔ وہ کرسی سے اُٹھی اور سونے کے لیئے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔۔ نک چڑھی آنٹی کے جانے کے بعد ۔۔۔ کچھ دیر تک تو کمرے میں ایک گھمبیر سناٹا سا چھا گیا ۔۔ اور اماں اور انکل ۔۔۔۔ سر جھکائے ۔۔۔ چپ چاپ ساتھ ساتھ سنگل سیٹر پر بیٹھے رہے ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ کمرے میں اماں کی آواز گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں ۔۔ یہ ابھی تک میاں صاحب نہیں آئے۔۔۔ اماں کی بات سُن کر کرنل کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی۔۔۔ اور وہ بولے ۔۔۔۔ میاں صاحب کیسے آئیں گے ان کو تو بتایا ہی نہیں گیا۔۔۔ انکل کی بات سُن کر امان بڑی حیران ہوئی اور ان کی طرف بڑی حیرانی سے تکتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لیکن ابھی تو ۔۔ابھی تو۔۔۔۔ اماں کی حالت دیکھ کر کرنل نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اماں کی نقل اتارتے ہوئے بولا۔۔۔۔ جی ابھی تو ۔۔ابھی تو جو کہا گیا تھا ۔۔۔ وہ جسٹ اپنی بیگم صاحبہ کو مطمئن کرنے کے لیئے کہا گیا تھا۔۔۔۔ انکل کی بات سُن کر اماں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی ۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بڑے معنی خیز ۔۔۔۔ نظروں سے انکل کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ بات تھی۔۔۔ 


 اس کے بعد ایک دفعہ پھر کمرے میں چند سیکنڈ کے لیئے گہرا سناٹا چھا گیا۔۔اور پھر اس دفعہ بھی اماں نے ہی اس سناٹے کو توڑا اور پھر میں نے اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔ اماں کے چہرے پر ایک شہوانی سے مسکراہٹ ابھرآئی تھی۔۔۔ اور انہوں نے سامنے دیکھتے ہوئے کرنل کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔اج کل ۔۔۔۔ کی حال اے تیرے گھوڑے دا۔۔۔۔۔ ( آج کل تمھارے گھوڑے کا کیا حال ہے ) امان کی بات سُن کر ۔۔ میں نے دیکھا کہ۔۔۔۔۔ اچانک ہی انکل کے چہرے پر بھی ایک شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی تھی اور انہوں نے بھی اماں کی طرح سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ باجی تسی گھوڑے دا حال پچھ رے او۔۔۔۔۔ یا۔۔ لوڑے دا۔۔۔ ( باجی آپ گھوڑے کا حال پوچھ رہی ہو یا لوڑے (لن) کا ) تو اماں اٹھلاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ جو مرضی سمجھ لو ۔۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ اپنی پینٹ کی طرف بڑھایا اور ۔۔۔ اس کو زپ کو کھول کر اپنا لن باہر نکلا ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے اماں کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ کر بولے۔۔۔گھوڑا تے ٹھیک اے۔۔ لوڑے دے حال آپی پچھ لو( گھوڑا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔لن کا حال آپ خود ہی معلوم کر لو) اب میری نظریں انکل کے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ۔۔۔ اماں نے اپنی انگلی کی پوریں انکل کے لن کے ٹوپے پر پھیرنے شروع کر دیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اماں یہ کام بڑی ہی مہارت سے کر رہیں تھیں ۔۔ اور میں دیکھا کہ ۔۔۔ انکل کا لن جو شروع میں ایک مردہ چھپکلی کی طرح سے تھا ۔۔۔ اماں کی انگلیوں کے کمال سے اب آہستہ آہستہ جان پکڑنے لگا تھا۔۔۔ اور انکل ۔۔۔ بڑے غور سے اماں کی یہ کاروائی دیکھ رہے تھے۔۔۔اب آہستہ آہستہ انکل کا لن کھڑا ہو تا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ ان کا لن مکمل کھڑا ہوتا ۔۔۔ اچانک انکل نے اماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا۔۔۔ میں زرا کنڈی لگا آؤں ۔۔۔۔ اور اپنی سیٹ سے اُٹھ گئے ۔۔۔ ان کے سامنے ہی تو پردے کے پیچھے میں کھڑی تھی جبکہ میرے نیچے جیدا ۔۔۔ لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔ اور اب اس کے بدن کی کپکپاہٹ قدرے کم ہو گئی تھی اور اب وہ بھی میری طرح اُٹھ کر کھڑے ہو کر نظارہ دیکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ انکل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے اس جھری کو بھی بند کر دیا۔۔کہ جس سے میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اور ان کے جانے کا انتظار کرنے لگی چند سیکنڈ کے بعد مجھے۔۔۔۔۔ کمرہ لاک کرنے کی مخصوص آواز سنائی دی۔۔۔ پھر انکل کی واپس صوفے پر بیٹھنے کی آواز سنائی دیتے ہی میں نے بردے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔انکل صوفے پر بیٹھ چکےتھے ۔۔۔ اور اب دوبارہ سے اماں نے انکل کے لن کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ اور ان کے ٹوپے پر ہلکہ ہلکہ مساج کر رہیں تھیں۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ انکل کا لن پوری طرح کھڑا ہو گیا۔۔۔۔جسے دیکھ کر ۔۔۔۔ میرے تو منہ میں پانی بھر آیا۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف انکل کا لن ۔۔۔ جیدے کی طرح خاصہ لمبا اور موٹا تھا ۔۔۔ جیدے کے لن کا رنگ کالا جبکہ انکل کا لن کافی گورا تھا ۔۔۔۔ اور ان کے لن کی خاص بات یہ تھی کہ ٹوپے سے تھوڑا نیچے ان کے لن میں ہلکا سا خم تھا۔۔۔۔ یعنی کہ انکل کا لن تھوڑا ٹیڑھا تھا۔۔۔۔انکل کا خوبصورت سا لن دیکھ کر میرے بدن میں بھی خماری چڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ ۔۔ میں نے جیدے ( جو کہ اتنی دیر میں کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔ اور میری طرح ۔۔۔ پردے کی جھری سی سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ ) چونکہ قد میں۔۔۔ میں جیدے سے تھوڑی شارٹ تھی اس لیئے پردے کے نیچے والی جھری سے میں جبکہ میرے ساتھ کھڑا جیدا ۔۔۔ اپنی گردن ٹیڑھی کر کے اور تھوڑا سا میری طرف جھک کر ۔۔۔۔عین میرے سر کے اوپر سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میں نے بھی۔۔۔اپنا ہاتھ بڑھا یا اور جیدے کی دھوتی سے اس کا نیم کھڑا ۔۔۔ لن نکال لیا ۔۔۔اور اسے اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔۔اور اماں کی طرح جیدے کے لن کے ٹوپے پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں میں آ کر جیدے کا لن کسی مست ناگ کی طرح کھڑا ہونے لگا ۔۔۔۔ اور جیدے کے لن کی گرمی ۔۔۔۔ میرے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی سیدھی میری چوت میں ۔۔ داخل ہونے لگی۔۔۔۔


 ادھر جیسے اماں کے ہاتھ میں انکل کا لن کھڑا ہوا۔۔۔ اماں نے انگلیاں چھوڑ اب اپنے ہاتھ کر گرفت میں انکل کا لن لیا اور کہنے لگیں۔۔۔۔یہ بد معاش تے اجے وی اسی طرں ۔۔۔۔۔ لوے دا لویا اے۔۔۔ اینوں کی کھلاناں ایں ( تمہارا لن ابھی تک ویسے کا ویسا ۔۔۔ لوہے کر طرح ہے تم اسے کیا کھلاتے ہو؟)۔۔ اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا ہاتھ ۔۔۔ اماں کی شلوار میں ڈال دیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ شہوت بھری آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔ ایدی خوراک پھدی اے۔۔۔ تے میں اینوں ۔۔ پھدیاں کھلانا واں ( اس کی خوراک چوت ہے اور میں اس کو چوتیں کھلاتا ہوں) پھر اس نے غالباً ۔۔ اماں کی چوت میں ۔۔ انگلی ڈالی تھی۔۔ کیونکہ اچانک ہی میں نے اماں کے منہ سے ایک دلکش سی ۔۔۔ شہوت بھری آواز سنی تھی۔۔۔۔ اوئی۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔ انکل اماں سے کہنے لگے۔۔۔۔ باجی ۔۔۔تیری پھدی بلکل ویسے کی ویسے ہی ہے۔۔۔ گرم۔۔۔۔ جوان ۔۔۔ اور پانی سے بھر پور۔۔۔انکل کی بات سنتے ہی اماں ن اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی کرنل اماں کی چوت میں اپنی انگلی کو اندر باہر کرنے لگا۔ یہ نظارہ دیکھ کر میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا جیدے کا لن ۔۔جوش میں آ کر ۔ بار بار اکڑنے لگا۔۔۔ اور میں بھی بڑے پیار اور جوش سے اس پتھر کو دبانے لگی۔۔۔میرے بار بار دبانے سے جیدا بڑا مست ہو گیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔ بڑی گشتی ہے تیری ماں۔۔۔۔ ادھر کچھ دیر تک تو انکل اماں کی چوت میں اپنی سخت انگلیوں کو اندر باہر کرتے رہے ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنی انگلی کو اماں کی چوت سے نکالا اور ۔۔۔۔کہنے لگی۔۔۔۔۔۔نیلو باجی۔۔۔۔ میرا جی کر رہا ہے کہ جیسے آپ میرے بچپن میں میرے ساتھ کیا کرتے تھیں آج بھی ویسا ہی کرو نا۔۔۔۔۔آپ یوں سمجھ لو کہ ماجد وہی میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے جو آپ کے گھر پڑھنے کےلیئے آیا ہے۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔کرنل نے صوفے کے ساتھ اپنی پشت لگا دی ۔۔۔۔ اب اماں اپنی جگہ سے اُٹھیں ۔۔۔۔ اور سب سے پہلے اپنی شلوار کو اتار دیا ۔۔۔۔ پھر وہ نیچے قالین پر بیٹھ گئیں اور کرنل کی پینٹ ۔۔۔ اتاری اور پھر اس کا انڈر وئیر بھی اتار دیا۔۔۔۔ اب کرنل ۔۔۔ صرف شرٹ پہنے ۔۔۔ صوفے پر بیٹھا ۔۔۔ تھا۔۔۔۔اور اماں نے بھی ابھی تک صرف اپنی شلوار اتری تھی ۔۔۔ جبکہ ابھی قمیض ابھی تک ان کے جسم پر پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ انڈوئیر اتارتے ہی۔۔۔ اماں ۔۔اما ں نے کرنل کے موٹے اور لمبے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔ اور اسے ہلانے لگیں۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ اماں نے کرنل کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ اس کے لن کی طرف منہ بڑھایا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ سب سے پہلے۔اپنی ۔۔ زبان نکال کر اس کے لن کے گرد پھیرنے لگی۔۔۔۔ اماں کو کرنل کا لن چوستے دیکھ کر میں بھی جوش میں آ گئی اور میں نے جیدے کا لن آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔ادھر جیدا ۔۔۔۔اپنا ایک ہاتھ میری شرٹ کے اندر لے گیا۔۔۔۔۔ اور میرے ممے دبانے لگا۔۔۔جبکہ ہم دونوں کی نظریں سامنے ۔۔۔ اماں پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔ جہاں اماں ۔۔۔ کرنل کا لن اپنے منہ کے اندر باہر کر رہی تھی۔۔۔۔ اماں کرنل کر لن چوستے ہوئے جیسے ہی اپنی گانڈ اٹھاتی ۔۔۔ تو جیدا جھک کر میرے کان میں کہتا ۔۔۔ تیری ماں دی بنڈ بڑی ودیا اے ( تمھاری اماں کی کتنی پیاری گانڈ ہے) میرا سارا دھیان چوپے کی طرف تھا۔۔ لیکن جیدے کے کہنے پر میں نے اماں کی گانڈ کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گئی۔۔۔۔ اماں کی گانڈ ۔۔ بہت گول اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ اور جو دیکھنے میں کافی موٹی اور بڑی ہی پُر کشش تھی ۔۔۔۔اتنی پیاری گانڈ دیکھ کر میں نے جیدے ہاتھ بڑھا کر جیدے کا منہ نیچے کیا اور اس سے پوچھا ۔۔۔۔ توں کدی لئی اے؟ ( تم نے کبھی اماں کی بنڈ ماری ہے ) تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔کئی واری(بہت دفعہ ماری ہے) تو میں نے اسے کہا کہ میری وی لے نا ( میری بھی گانڈ مار نا) تو وہ اسی سرگوشی میں بولا ۔۔۔ اجے نئیں( ابھی نہیں ) تو میں نے اسے کہا وہ کیوں ؟ تو اس نے اسی سرگوشی میں بتلایا کہ پہلی دفعہ بہت درد ہوتا ہے اس لیئے ۔۔۔۔

اماں کافی دیر تک انکل کا لن چوستی رہی ۔۔۔۔ اور انکل۔۔۔۔ مستی میں وہی ۔۔مست آوازیں نکالتے رہے ۔۔ جو ہر آدمی چوپا لگاتے ہوئے نکلتا ہے۔۔۔ جیسے ۔۔۔ پورا ۔۔ لو نا۔۔۔۔ یس۔۔یس۔س۔س۔س۔س۔۔۔ تھوڑا ٹوپا منہ میں ۔۔۔ لو۔۔۔ اور اماں کرنل کی ہر ہدایت پر یوں عمل کرتی جیسے کہ وہ ان کی رنڈی ہوں ۔۔۔ پھر امان نے انکل کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنی قمیض اوپر کی اور اپنے ممے نکال کر انکل سے بولیں ۔۔۔ لو بیٹا دودھ پی لو۔۔۔اماں کی بات سُن کر انکل نے اپنا منہ پورا منہ کھولا ۔۔۔ اور اما ں کے مموں کو بارے بارے چوسنے لگا۔۔۔ اور پھر وہاں سے منہ ہٹا کر کہنے لگا۔۔۔ باجی تیرے مموں کی اٹھان ابھی بھی وہی ہے۔۔۔ زرا فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ کرنل کی بات سُن رک اماں کہنے لگی۔۔۔ دودھ پی بیٹا دوھ پی۔۔۔۔۔۔۔اور کرنل سچ مُچ اماں کا ایسے دودھ پینے لگا کہ جیسے کرنل کوئی چھوٹا بچہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ ادھر دودھ پینے والا سین دیکھ کر ۔۔۔۔ جیدے نے بھی میرے مموں پر اپنی گرفت سخت کر لی تھی ۔۔۔۔اور اب اس کا لن میری گانڈ کے چھید سے ہوتا ہوا۔۔اس کا ٹوپا ۔۔ میرے سوراخ تک آ پہنچا تھا۔۔ اور ۔۔۔ اس کا لن میری گانڈ کے عین اوپر آ کر ایڈجسٹ ہو گیا تھا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ جیدا ہے۔ ہلکے گھسے بھی مار رہاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کرنل کر اپنے ممے چوستے وہئے دیکھ کر امان نے کرنل کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں۔۔۔ بس کرو ۔۔ بیٹا ۔۔۔ اب دودھ کا ٹائم ختم ہو گیا ہے ۔۔ تو کرنل نے اماں کے ممے سے سر ہٹا کر کہا تو کس کا ٹائم شروع ہے باجی؟؟ تو اماں نے ۔۔۔۔ بڑی ہی مستی میں کرنل کو جواب دیا۔۔۔ اب تیرا جوس پینے کا ٹائم ہے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ صوفے پر کھڑی ہو گئیں اور اپنی دونوں ٹانگیں کھلی کر کے دیوار پر لگی ایک بڑی سی تصویر کو پکڑ لیا اور اپنی چوت کرنل کے منہ پر رکھ دی۔۔۔پردے کے پیچھےکھڑی مجھے اور جیدے کو اماں کی چوت چاٹنے منظر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ کیونکہ ہمارے سامنے اماں کی پشت تھی۔۔۔ اور ا ن کی پھدی کرنل کے منہ کے ساتھ جُڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور وہ ہلکہ ہلکہ کراہتے ہوئے کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا گرم جوس۔س۔س۔س۔۔۔۔ میرے خیال میں کرنل نے اپنی زبان سے اماں کی چوت کی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا تھا کوانکہ پیچھے سے ۔ہمیں اماں کرنل کے چہرے پر برش کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ اماں کے باقی مناظر کی طرح یہ منظر بھی کافی کمال کا تھا۔۔۔ اور میری ٹانگوں کے بیچ میری گرم چوت ۔۔۔ بھی بار بار مجھ سے اس بات کا تقاضہ کر رہی تھی ۔۔۔ کہ کرنل کی طرح جیدا بھی اسے چاٹے ۔۔ چنانچہ میں نے جیدے کو اشارہ کیا ۔۔۔۔ غالباً جیدا بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے میری چوت کی چٹائی کرے ۔۔۔اس لیئے وہ بڑی احتیاط سے نیچے قالین پر بیٹھا ۔۔۔اور پھر کھسکتا ہوا ۔۔۔ میری ٹانگوں کے بیچ آ گیا ۔۔۔۔اماں کی طرح میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھولا ۔۔۔۔اور جیدے کے ہونٹوں پر اپنی پھدی رکھ دی۔۔۔۔ جیدا میری نو جوان پھدی کی مہک پا کر اتنا مست ہوا ۔۔۔۔ کہ اس نے میرے دانے کو اپنے منہ میں لیا اور دانتوں سے کاٹ دیا۔۔۔۔۔۔ درد اور مزے کی بڑی ہی شدید لہر میرے وجود میں پھیلی ۔۔۔۔ اور میں نے بڑی مشکل سے اپنے حلق تک آئی ہوئی اپنی ۔۔ چیخ کو بڑی مشکل سے ضبط کیا۔۔۔۔لیکن جیدے کو کچھ نہیں کہا ۔۔۔ ادھر سمجھدار جیدا ۔۔۔۔فوراً بات کو سمجھ گیا اور پھر اس کے بعد اس نے میری پھدی کو دانتوں سے بلکل نہیں کاٹا۔۔۔۔۔۔۔ کافی دیر تک اماں نے اپنی چوت کو کرنل کے منہ کے ساتھ جوڑی رکھا۔۔۔ اور اس دوران مراے خیال میں اماں کی چوت نے دو دفعہ پانی چھوڑا ہو گا وہ یوں کہ۔۔۔ کم از کم دو دفعہ میں نے اماں کے جسم کو کانپتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔اورا دھر خود میں بھی جیدے کے منہ میں دو تین دفعہ فارغ ہو چکی تھی۔۔۔۔


               پھر اماں نے کرنل کے منہ سے اپنی پھدی کو ہٹایا اور بولیں ۔۔۔ کیسا لگا میرا ۔۔جوس ۔۔۔۔ تو کرنل اپنے ہونٹوں کے ارد گرد لگی اماں کی منی کو اپنی زبان سے صاف کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ باجی آپ کا یا آپ کی چوت کا جوس۔۔۔۔۔۔۔ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ چوت بھی تو میری ہے نا جان۔۔۔ اور پھر وہ نیچے اتری اور بولی ۔۔۔۔ اب میں تمھارے لن کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ۔۔۔۔ اپنی گانڈ کرنل کی طرف کر دی۔۔۔ اور اپنی ٹانگیں کھلی کر کے کرنل کے لن پر تھوڑا سے تھوک لگا کر اسے چکنا کیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔ اس کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں کی یہ ساری کاروائی بلکل میری آنکھوں کے سامنے ہو رہی تھی ۔۔اور فرسٹ تائم میں نےامان کی چوت دیکھی تھی۔۔۔۔۔ اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔کہ بناوٹ میں میری اور اماں کی چوت ایک جیسی تھی۔۔۔ فرق صرف اتنا تھا۔۔۔ کہ اماں کی چوت کے ہونٹ کثرتِ استعمال کی وجہ سے کافی لٹک گئے تھے جبکہ میری چوت کے ہونٹ ابھی تک اندر کی طرف مُڑے ہوئے تھے اور اپنی نیچرل حالت میں تھے۔۔۔۔ ادھر اماں کی چوت کا دانہ بھی میرے دانے سے کافی موٹا تھا ۔۔۔ باقی اماں کی چوت بھی میری چوت کی طرح کافی ابھری ہوئی اور گوری تھی ۔۔۔ میری چوت کے ہونٹوں کا رنگ پنک سا تھا اور یہ اپنی اوریجنل حالت میں تھے۔۔۔ جبکہ اماں کی چوت کے ہونٹ گھسے مروا مروا کے کافی سیاہ ہو چکے تھے۔۔۔۔ اوورآل۔تھوڑے سے فرق کے ساتھ ۔ میری اور اماں کی چوت بلکل ایک جیسی تھی۔۔۔


ادھر اماں نے کرنل کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔۔۔ اور اسے اپنی چوت کے لبوں پر رگڑ رہیں تھیں۔۔۔پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے آہستہ آہستہ ۔۔۔ کرنل کے لن کو اپنی چوت کے لبوں کے اندر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔ کرنل کا اتنا بڑا لن ۔۔ اماں کی چوت میں غائب ہو گیا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ جیسے ہی کرنل کا سارا لن اماں کی چوت میں گھسا ۔۔۔۔ اماں نے ایک ہلکی سی چیخ ماری۔۔۔س۔س۔۔سس۔۔۔اور بولی۔۔۔ چلا گیا تیرا۔۔ لن میری پھدی میں۔۔۔۔ اماں کی بات سُن کر پیچھے سے کرنل بولا۔۔۔۔ تو اب جھٹکے مار باجی۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ تیری پھدی کتنی گرم ہے۔۔۔۔ جلدی سے گھسے مار۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔اور کرنل کی سیکسی بات کو سُن کر اماں نے کرنل کے لن پر تیز تیز اٹھک بیٹھک شروع کر دی۔۔۔ ادھر میری آنکھوں کے سامنے کرنل کا بڑا سا لن اماں کی چوت میں آ جا رہا تھا۔۔ یہ منظر اتنا دل کش اور ۔۔۔سیکسی تھا کہ میں نے اپنی چوت کو جیدے کے منہ سے ہٹایا اور اس کے لن پر بیٹھنے کو کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ ادھر جیدے نے پہلے تو اپنا لن میری چوت میں ڈالنے سے کچھ پہلو تہی کی لیکن جب میں نے سختی کے ساتھ اس کا لن پکڑ کر اپنی چوت کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔ تو ۔۔وہ سمجھ گیا کہ ایسے جان نہیں چھوٹے گی ۔۔چنانچہ اس نے اپنا لن کو نیچے سے اپنی مُٹھی میں پکڑا ۔۔۔اور لن کے ٹوپے کو میری چوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کا لن اپنی چوت میں اتاروں لیکن ۔اس نے بڑی چالاکی سے ۔۔ ٹوپے کے نیچے اپنی مُٹھی میں لن پکڑا ہوا تھا ۔۔ جس کی وجہ سے۔۔۔ محض اس کا ٹوپہ ہی میری چوت کے لبوں میں ان اؤٹ ہو رہا تھا۔۔۔ ادھر کی کشمکش سے فارغ ہو کر میں نے سامنے دیکھا تو ۔۔۔ اماں گھوڑی بنی ہوئی تھی اور کرنل فُل سپیڈ سے گھسے مار رہا تھا۔۔۔ اور اس کا لن کسی پسٹن کی طرح تیزی سے چلتا ہوا اماں کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔۔۔ پھر کرنل رُک گیا اور بولا۔۔۔۔ باجی اب تم دوبارہ سے لن پر بیٹھو۔۔۔۔ اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔اب اماں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو پہلے کی طرح میز کھلا کیا ۔۔۔۔۔۔ اور جلدی سے کرنل کے لن کو اپنی چوت میں لے لیا ۔۔۔۔اور جمپ مارنے لگی۔۔۔۔ ادھر میں بھی جیدے کے لن پر بیٹھی تیزی سے اٹھک بٹھک کر ر ہی تھی۔۔۔۔۔ اور ۔۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میری چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔۔ اور میں تھوڑی شانت ہو کر جیدے کے لن سے اُ ٹھ گئی اور پوری توجہ سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگی۔۔۔میرا خیال میں ادھر اماں کا بھی فائینل راؤنڈ چل رہا تھا۔۔۔ کیونکہ اماں کے منہ سے نکلنے والی سیکسی آوازوں میں اب شدت آ رہی تھی۔۔۔اور پھر میرا اندازہ ٹھیک نکلا۔۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں اماں کی چوت نے ڈھیر سارا پانی چھوڑا۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے۔۔۔۔ کرنل کے لن نے بھی منی اگلی ۔۔۔۔ جو اماں کی چوت سے ہوتی ہوئی۔۔۔کافی حد تک باہر بہہ گئی۔۔۔۔اور میرے سامنے اماں کی چوت۔۔ آف وائیٹ پانی سے برت گئی اور گاڑھا سا مادہ ان کی چوت کے لبوں سے نکل نکل کر باہر بہنے لگا۔۔۔۔۔


 اپنا اپنا مواد نکالنے کے بعد وہ دونوں کچھ دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے ۔۔۔۔ پھر سب سے پہلے اماں اُٹھیں اور انہوں نےاپنی شلوار کی اوپر کی جانب سے کرنل کا لن صاف کیا پھر اپنی پھدی کے اندر تک اپنی شلوار کا کپڑا پھیرا۔۔اور اپنی پدھی کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ۔ ا۔۔ وہی شلوار پہن کر کرنل کو پینٹ پکڑائی اوربولی۔۔ جلدیکرع۔۔۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں کرنل نے پینٹ پہنی اور وہ دونوں باری باری کمرے سے نکل گئے۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکلے میں اور جیدا بھی صوفے کے پیچھے سے باہر آ گئے اور میں جیدے کو آنکھیں دکھاتے ہوئی بولی۔۔۔ پورا کیوں نہیں لینے دیا مجھے۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولا۔۔وجہ ۔ تم کو معلوم ہی ہے پھر وہ کہنے لگا ۔۔۔ کہ اس سے پہلے کہ کوئی اور یہاں آ جائے چل چلیں۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ میں برآمدے کی جانب سے جاؤں گا۔۔۔ تم دوسری طرف لان سے ہوتی ہوئی چلی جانا۔۔۔ اور پھر اس نے دروازے سے تھوڑا سا سر نکالا اور۔۔۔۔مجھے اشارہ کرتا ہوا باہر غائب ہو گیا۔۔۔ میں نے بھی چند سیکنڈ کا وقفہ دیا اور پھر ۔۔۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔۔۔رات کافی ہو گئی تھی لیکن چاندنی رات اور لائیٹس کی وجہ سے سب نظر آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ رات کے پچھلے پہر اگر کوئی دیکھ لیتا تو جواب دہی مشکل ہو جانی تھی۔۔۔ چنانچہ میں نے روشنی سے بچنے کے لیئے سامنے والے لان کی بجائے کوٹھی کی پچھلی طرف سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ۔ کیونکہ یہاں اندھیرا ہونے کی وجہ سے میرا پہچاننا کافی مشکل تھا۔۔ ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔ میں گھوم کر کوٹھی کی پچھلی سائیڈ پر دبے پاؤں چلتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کوٹھی کے وسط میں پہنچی۔۔۔۔ اچانک میرے کانوں میں دبی دبی ۔۔۔ سرگوشیوں کی آوازیں آئیں ۔۔۔ اور میں اک دم چونک گئی۔۔۔۔ میری چھٹی حس بیدار ہو گئی اور میں وہیں رُک کر آوازوں کی سمت معلوم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔ جلد ہی مجھے ان سرگوشیوں کی سمت معلوم ہو گئی ۔۔۔ یہ آوازیں مجھ سے کچھ دور درختوں کے پیچھے سے آرہیں تھیں۔۔۔ ان درختوں کو دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔۔ کہ کیسے میں بھی اپنے یار کے ۔۔ساتھ ابھی میں نے اتنا ہی سوچا تھا ۔۔۔ کہ ایک نسبتاً اونچی آواز۔۔میں سسکی کی آواز سنائی دی۔۔۔ آؤؤؤؤ۔۔۔چ۔چ۔چ۔چ۔چ۔۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ ان درختوں کے پیچھے کیا سین ہو سکتا ہے۔۔۔ اور دبے پاؤں چلتی ہوئی۔۔۔ درختوں کے پاس پہنچ گئی۔۔۔۔ جیسے ہی میں ان درختوں کے پاس پہنچی وہی ۔۔۔ مترنم ۔۔۔سیکسی اور ۔۔۔ دل کش آواز میں سسکی سنائی دی۔۔۔۔ اُوئی۔۔ ماں ۔۔ دانت تو نہ کاٹیں نہ۔۔۔۔یہ دل کش ۔۔۔۔ مترنم اور سیکسی آواز میں نے پہچان لی تھی۔۔۔۔ یہ آواز عظمٰی باجی کی تھی۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ کون تھا جو ان کو دانتوں سے کاٹ رہا تھا ۔۔ یہ جاننے کے لیئے میں آگے بڑھی ۔۔۔۔ تو میں دیکھ کہ ۔۔عظمٰی باجی ۔۔۔ کی قمیض اوپر ہے اور انہوں نے درخت کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی ہے اور ایک شخص ان کے ممے چوس رہا ہے۔۔۔۔اور ممے چوستے چوستے جیسے ہی اس شخص نے سر اُٹھا کر عظمٰی باجی کی طرف دیکھ۔۔۔۔ تو میں نے اس بندے کو پہچان لیا۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تراس (پیاس)

قسط :09

وہ شخص جو اندھیرے میں عظمٰی باجی کے مموں کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا وہ کو ئی اور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اپنا بھا میدا تھا ۔اندھیرے کی وجہ سے پہلے تو مجھے کچھ دکھائی نہ دیا بس عظمٰی باجی کی دبی دبی سسکیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔۔پھر چند ہی سیکنڈ کے بعد جب میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو ۔اس۔ ہلکے ہلکے اندھیرے میں ۔۔ میں نے درخت کی اوڑھ میں دیکھا کہ عظمٰی باجی نے اپنی قمیض اوپر تک کی ہوئی تھی اور بھا میدا۔۔ کسی ندیدے بچے کی طرح ان کے دونوں مموں کو باری باری چوس رہا تھا۔۔۔ جیسے ہی بھا عظمٰی باجی کے خوب صورت نپلز کو اپنے منہ میں ڈالتا ۔۔تو ۔۔اس پر ایک انجانا سا جوش چڑھ جاتا تھا اور ۔۔۔ پھر اسی جوش میں آ کر وہ عظمیٰ باجی کے نپلز کو اپنے دانتوں میں کاٹ لیتا تھا ۔۔۔ جس سے ظاہر ہے عظمٰی باجی کو مزے کے ساتھ ساتھ درد بھی ہوتا تھا ۔۔ چنانچہ وہ اسی مزے اور درد کے دلکش امتزاج کے تحت ۔۔۔اپنی سیکسی اور پر ہوس آواز میں ۔۔۔ سسکیاں بھر تی جا رہی تھی ۔۔۔آ۔آ۔ؤؤؤؤؤؤؤچ۔۔۔ ااور کہتی ۔۔دانتوں سے تو نہ کاٹو نا میری جان۔۔۔۔اور بھا میدا عظمیٰ باجی کے منہ سے نکلنے والی ۔۔ ان سسکیوں کی آوازیں سُن سُن کر مزید مست ہو رہا تھا ا ور وہ مستی میں آ کر عظمیٰ باجی کے دونوں مموں کو زبردست طریقے سے چوستا جا رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد جب باجی عظمیٰ نے دیکھا کہ بھا میدا ا ن کے مموں پر سے اپنے منہ کو نہیں ہٹا رہا تو انہوں نے بڑی مشکل سے اپنا مما بھا کے منہ سے نکلا ۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔۔ بس بھی کریں اب۔۔۔۔ تو بھا کہنے لگا۔۔۔ بس کرنا ۔۔۔اب میرے بس میں نہیں ہے میری جان۔۔۔ اور دوبارہ سے عظمٰی باجی کا مما اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔۔ لیکن اس دفعہ عظمٰی باجی تھوڑی سختی سے کہنے لگیں۔۔۔۔ حمید۔۔۔ تو باجی کی بات سن کر بھا ایک دم ساکت ہو گیا ۔۔۔ اور بولا۔۔۔ کیا کڑوں ۔۔ کنٹرول نہیں ہوتا۔۔۔ پھر وہ عظمٰی باجی سے کہنے لگا۔۔۔۔۔عظمٰی جی۔۔۔ اب آپ کب ملو گی ؟؟ ۔۔۔ تو عظمٰی شرارت سے کہنے لگیں ۔۔۔ ابھی مل تو رہی ہوں ۔۔۔ تو بھا بڑے معنی خیز لہجے میں کہنے لگا عظمٰی جی میں اس والے ملنے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔۔ بلکہ میں دوسری قسم کے ملنے کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ بھا کی بات سمجھ کر عظمٰی بھی مست ہو گئی اور وہ بھا سے بڑے ہی پُر ہوس لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ حمید ۔۔۔ تم جانتے ہو کہ میں کس قدر پیاسی ہوں ۔۔اور میرے اندر کی تراس کتنی شدید ہے ۔۔۔ پھر وہ بڑے ہی معنی خیز لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔فرض کرو حمید ۔۔اگر میں تمھارے کہنے کے مطابق تم سے وہ والی ملنی کر لوں ۔۔۔ تو کیا خیال ہے تم میری برسوں کی پیاس بجھا پاؤ گے؟ عظمیٰ باجی کی بات سُن کر بھا اپنے مخصوص فخریہ لہجے ۔میں بولا۔۔۔۔ عظمیٰ جی ۔۔۔ میں کو ئی ٹین ایجڑ لڑکا نہیں ہوں ۔۔۔۔ ۔۔ مزہ دینا اور مزہ لینا بڑی اچھی طرح سے جانتا ہوں ۔۔۔ اس کے بعد بھا نے بڑے محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ اور پھر اس نے اپنی شلوار کا نالا کھولا اور ۔۔۔ اپنا لن باہر نکال کر ۔۔۔۔ عظمٰی باجی کے سامنے لہراتے ہوئے بولا ۔۔۔عظمیٰ جی زڑہ اس کو دھیان سے دیکھو۔۔ اور پھڑ ۔۔ اس کی لمبائی ا ور موٹائی دیکھ کر بتاؤ ۔۔ کہ کیا میرا ۔۔یہ۔۔ شیر ۔ آپ کو مایوس کرے گا ۔۔یا ۔۔۔ یہ آپ کی طبیعت کو شانت کرے گا۔۔۔ جیسے ہی بھا نے شلوار سے اپنا لن باہر نکالا ۔۔۔۔ تو میں دیکھا کہ بھا کا لن کافی موٹا اور بہت لمبا تھا۔۔۔۔ پھر میں نے اندھیرے میں عظمٰی باجی کی طرف دیکھا تو ۔ اندھیرے کی وجہ میں ۔ ٹھیک سے ان کے چہرے کے تاثرات تو نہ جان پائی ۔۔لیکن پھر بھی چند سیکنڈکی خاموشی کے بعدجب عظمیٰ باجی بولی ( میرے خیال میں ان چند سیکنڈز میں وہ بھا کے لن کا جائزہ لیتی رہی تھی) ۔۔۔تو ان کی آواز میں کافی کپکپاہٹ تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ اپنی کانپتی ہوئی آواز اور حیرت ذدہ لہجے میں بھا سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ حمید ۔۔ یہ تو ۔۔۔ یہ ۔۔۔ تو۔۔۔ بہت بڑا ہے ۔یار ۔۔ ۔۔۔ پھر عظمٰی باجی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بھا کے تنے ہو ئے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔ اُف۔فف۔۔ف یہ۔۔۔ کتنا موٹا ہے۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔ حمید تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔۔ تمھارے یہ ۔لن ہی مجھے ٹھنڈا کر سکے گا اور میرے جسم کی آگ بجھا سکے گا۔۔۔۔ تو حمید بھائی نے جلدی سے کہا ۔۔۔۔تو کب مل رہی ہو۔۔۔ آپ۔؟؟؟ ۔ تو عظمٰی ۔۔ کہنے لگی۔۔۔ آج کل گھر میں کوئی نہیں ہے ۔۔۔کل ہم ملیں گے۔۔۔ کل رات تم میرے گھر میں آ جانا۔۔۔ وہیں ہماری ملنی ہو گی۔۔۔ تو بھا میدا ہنس کر کہنے لگا۔۔۔ ایک طرف فائق بھائی اپنی سہاگ رات منائے گا اور دوسری طرف ہم دونوں ۔۔۔۔اپنی سہاگ رات منائیں گے ۔۔۔ سہاگ رات کا سُن کر عظمٰی باجی ایک دم پرجوش ہو گئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے ۔۔ ادھر تم ادھر ہم۔۔۔ اور پھر وہ دونوں رات کی تفصیلات طے کرنے لگے ۔۔۔ اور میں کان لگا کر ان کی ساری باتیں سنتی رہی۔۔ساری تفصیلات طے کر ۔کے جب وہ جانے لگے ۔۔۔ تو اچانک بھا میدے نے عظمیٰ باجی سے کہا۔۔۔۔ باجی ۔۔ وہ تھوڑا سا جھونگا مل جائے تو۔۔۔۔؟ بھا کی بات سُن کر عظمٰی باجی حیرت سے بولی۔۔۔ ۔۔۔ جھونگا ۔۔۔؟؟؟؟؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ تو بھا کہنے لگا ۔۔۔ میرا مطلب ہے جیسے۔۔۔۔ فلم سے پہلے اس کا ٹر یلر ریلز کا جاتا ہے اسی طرح ۔۔۔ اگر سہاگ رات سے پہلے ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی بولی۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ تو تمھارا ۔۔۔ یہ مطلب ہے۔۔کہ۔کہ۔۔ اور سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد ۔۔۔ پھر عظمیٰ باجی نے چور نظروں سے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔ اور پھر اپنی شلوار کو کھول کر اسے نیچے گرا دیا۔۔۔ اور پھر پیچھے سے اپنی لمبی قمیض کو اوپر اُٹھا لیا۔۔۔اُف۔۔ اندھیرے کے باوجود بھی عظمیٰ باجی کی بڑی سی گانڈ بہت ہی واضع نظر آ رہی تھی۔۔۔ پھر اس کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر ادھر ادھر دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ درخت کے تنے پر رکھے اور اپنی بڑی سی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کر کے بولی۔۔۔۔حمید ۔۔۔ جو کرنا ہے جلدی کرو۔۔۔۔ عظمیٰ کی بات سُن کر بھا فوراً گھوم کر عظمیٰ باجی کی گانڈ والی سائیڈ پر آگیا۔۔۔ اور جیسے ہی اس کی نظر عظمیٰ باجی کی شاندار گانڈ پر پڑی ۔۔۔۔تو ۔۔۔ حیرت کے مارے اس کے منہ سے سیٹی کی سی آواز نکلی اور بولا۔۔۔۔ واہ۔جی واہ۔۔پھر ان کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ عظمیٰ جی ۔۔۔آپ کی بیک سائیڈ تو بڑی ہی ۔۔۔زبڑدست ہے جی ۔۔۔۔لیکن عظمیٰ باجی نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور اپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے بولی۔۔۔۔ جو بھی کرنا ہے پلیزززززززز۔ ۔۔۔ جلدی کرو ۔۔۔ٹائم بہت کم ہے ۔۔۔ باجی کی بات سُن کر بھا نے اپنا سر ہلایا ۔۔۔ پھر اپنے تنے ہوئے لن کے ٹوپے پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور عظمیٰ باجی کی کی گانڈ کو تھپ تھپا کر بولا ۔۔۔ عظمٰی جی تھوڑا سا اونچی ہوں ۔۔ اور بھا کی بات سنتے ہی عظمٰی باجی نے جلدی سے اپنی گانڈ کو تھوڑا سا اونچا کر لیا ۔۔۔اور پیچھے کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ جلدی پلیززززززززز۔۔عظمٰی باجی کی بات سُن کر بھا نے جلدی سے اپنا ٹوپا ۔۔۔ عظمٰی باجی کی چوت پر فٹ کیا ۔۔۔۔ اور ۔ایک ۔ ہکار سا دھکا لگا کر اپنے ٹوپے کو عظمٰی باجی کی چوت کے اندر داخل کر دیا ۔۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی بھا کا لن عظمیٰ باجی کی چوت میں داخل ہوا ۔تو میرا خیال ہے باجی کی چوت کا پانی محسوس کر کے وہ کہنے لگے۔۔۔ عظمٰی جی آپ تو پہلے سے ہی تیاڑ تھی ۔۔۔ لیکن عظمٰی باجی نے بھا کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔اور بھا کے لن اپنی چوت میں انجوائے کرنے لگی۔۔۔ ادھر بھا نے جب عظمیٰ باجی ۔کے منہ سے کوئی جواب نہ سنا تو پھر اس نے لن اپنے لن کو تھوڑا باہر کی طرف کھینچا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک زور کا گھسا مارا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ بھا کا اگلا حصہ عظمیٰ باجی کی گانڈ کے ساتھ بلکل جُڑ گیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ اب بھا کا لن جڑ تک ۔عظمٰی باجی کی چوت میں داخل ہو چکا تھا ۔ ادھر جیسے ہی بھا نے زوردار گھسہ مارا ۔۔۔ عظمیٰ ۔۔۔ کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی ۔۔۔آآآآآآآآآؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤچ چ چ چچ چ چ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔ اس کے بعد بھا نے ۔ ۔۔۔ اوپر تلے تین چار اور پاور فُل گھسے مارے اور پھرا س کے بعد اپنے ۔۔۔ لن کو عظمیٰ باجی کی چوت سے واپس کھینچ لیا۔۔۔ جیسے ہی بھا کا موٹا لن عظمیٰ باجی کی چوت سے باہر نکلا ۔۔۔تو عظمیٰ باجی نے ایک دم تڑپ کر پیچھے دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔کچھ دیر اور ۔۔۔۔ اندر ہی رہنے دو نا۔۔۔ پلیزززززززز۔۔۔ عظمٰی کی بات سُن کر بھا نے دوبارہ سے اپنا لن کو عظمیٰ کی چوت میں ڈالا اور ۔۔اوپرتلے کافی سارے طوفانی قسم کے دھکے مارے۔۔۔۔۔۔۔ادھر ۔۔۔ا ن دھکوں کی وجہ سے عظمیٰ کے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلا اور انہی سسکیوں میں ان کی چوت نے دھڑا دھڑ پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ۔۔۔ کچھ دیر بعد جب بھا نے دوبارہ سے اپنا لن کھیچ کے عظمیٰ کی چوت سے باہر باہر نکالا تو ۔۔۔ اس دفعہ ۔۔۔ عظمیٰ کچھ نہیں بولی۔۔۔اور جیسے ہی بھا کا لن اس کی چوت سے باہر آیا اس نے جلدی سے اپنی شلوار اوپر کی اور آزار بند باندھ کر ہانپتے ہوئے بھا سے کہنے لگی۔۔۔حمید۔ کل ۔۔۔۔ رات کا پروگرام یاد رکھا اور پھر اور تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ا پنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔ کچھ دیربعد بھا ۔۔بھی اپنا لن سہلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور سب سے آخر میں بھی اپنی چوت کو ملتی ہوئی ۔۔ ۔۔چھپتی چھپاتی ۔۔۔۔ اپنے روم میں آ گئی۔۔۔


اور پھر بستر پر لیٹ کے آج کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔۔پھر معلوم نہیں کہ میں کس وقت نیند کی آغوش میں چلی گئی اور گہری نیند سو گئی اسی لیئے جب۔۔اگلے دن صبع صبع اماں نے زبردستی مجھے جگایا ۔۔ پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں کہاں پر ہوں ۔۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھی کہ اچانک مجھے اماں کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔ ہما اُٹھ بو ۔۔ تے باقی عورتاں نوں وی اُٹھا دے ( ہما اُٹھو اور باقی خواتین کو بھی اُٹھا دو) تو اچانک مجھے سب یاد آ گیا اور میں جلدی سے بستر سے اُٹھی اور پھر ہمارے ساتھ آئی ہوئی باقی عورتوں کو بھی اُٹھانا شروع کر دیا - ناشتے کے بعد ہم سب نے بارات کی تیاریاں شروع کر دیں اور ابھی ہماری تیاریاں جاری تھیں کہ اچانک کمرے میں بھا میدا داخل ہوا ۔۔اس نے لائیٹ بلو کلر کا ٹو پیس پہنا ہوا تھا میں نے بھا کو پہلی دفعہ ٹو پیس میں دیکھا تھا اور اس حلیہ میں بھا بہت جچ رہا تھا ۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی حسبِ عادت بھا نے شور مچانا شروع کر دیا اور بولا ۔۔۔ ہما پتڑ۔۔۔ تم نے میرے بیگ میں پرفیوم رکھا تھا ؟ مل نہیں رہا ۔۔۔۔ بھا کی بات سُن کر میں نے کن اکھیوں سے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھ کہ جو یک ٹک بھا کو دیکھے جا رہی تھی اور خاصی متاثر نظر آ ہی تھی۔۔ میں عظمیٰ باجی کا جائزہ لے رہی تھی کہ ایک بار پھر میرے کانوں میں بھا کی آواز گونجی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ ہما پتڑ۔۔۔ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے تو میں ایک دم چونک اُٹھی اور بھا سے کہنے لگی۔۔۔ بھا جی میں نے تو رکھ دیا تھا ۔۔آپ فدا بھائی سے پوچھیں نا کہ کہیں اس نے نہ ادھر ادھر کر دیا ہو۔۔۔ تو بھا کہنے لگا ۔۔۔ میں نے سب سے پوچھ لیا ہے ۔۔ لیکن پرفیوم کہیں بھی نہیں مل رہا ۔۔۔ پتڑ ایک بار تم بھی اپنا بیگ چیک کر لو۔۔ اور اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتی اچانک عظمیٰ باجی نے بھا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔ حمید بھائی ۔۔۔ میرا پرفیوم استعمال کر لیں۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ایک بہت ہی قیمتی سا پرفیوم نکال کر بھا کے سامنے کر دیا۔۔۔ تو بھا پرفیوم کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ رہنے دو عظمیٰ جی ۔۔۔ آپ کا زنانہ پرفیوم میں نے نہیں لگانا ۔۔۔تو عظمیٰ باجی نے جواب دیا کہ ۔۔۔ نہیں حمید بھائی یہ پرفیوم مرد عورت دونوں کے لیئے ہے ۔۔۔ اور پھر وہ پرفیوم لیئے بھا میدے کی طرف بڑھی اور بولی لو تم خود سونگھ کر دیکھ لو۔ اور اس کےساتھ ہی انہوں نے پرفیوم کے ڈھکن میں ایک پف مارا اور بھا کی ناک کے آگے کر کے بولی ۔۔۔ بتاؤ اس کی خوشبوکیسی ہے۔۔۔ اور پھر اس نے ڈھکن بھا کی ناک کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ میں بظاہر توبھا کا پرفیوم ڈھونڈنے کے پہانے اپنے بیگ میں ادھر ادھر ہاتھ مار رہی تھی لیکن میرے کان انہی کی طرف لگے ہوئے تھے اور میں بڑے غور سے ان کی باتیں سُن رہیں تھی۔۔ جیسے ہی عظمیٰ باجی نے پرفیوم کی بوتل کا ڈھکن بھا کی ناک کے سامنے کیا ۔۔تو وہ سرگوشی میں بھا سے بولی۔۔۔۔ بڑے کیوٹ لگ رہے ہو۔۔ تو باجی کی بات سُن کر بھا بھی سرگوشی میں کہنے لگا ۔۔شکڑیہ۔۔ پھر اس نے کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور مجھے مصروف پا کر عظمیٰ باجی سے سرگوشی میں کہنے لگا۔۔۔۔۔ ڑات کا پروگرام پکا ہے نا۔۔۔؟؟ تو عظمیٰ باجی نے بھی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ ایک دم پکا ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ حمید تم نے یہی سوٹ پہن کر رات میرے پاس آنا ہے تو بھا نے ترنت ہی جواب دیا ۔۔۔ ٹھیک ہے جی ۔۔۔ پھر اونچی آواز میں کہنے لگا۔۔۔ واہ اس کی خوشبو تو بہت شاندار ہے تو عظمیٰ جی۔۔۔۔۔یہ سن کر باجی نے ان کو بوتل پکڑاتے ہوئے کہا کہ اگرآپ کو اس کی پسند آ گئی ہے تو لگا لو۔۔۔ اور بھا نے عظمیٰ باجی کا پرفیوم خود پر چھڑکا اور پھر عظمیٰ باجی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔بھا کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اماں کمرے میں داخل ہوئیں وہ بلکل تیار تھیں اور انہوں نے جو لباس پہنا ہوا تھا وہ ان پر خوب جچ رہا تھا اور ویسے بھی اماں کی جسمانی ساخت ایسی تھی کہ وہ جو بھی لباس پہنتی تھی وہ ان پر سوٹ کرتا تھا۔۔۔لیکن اس لباس کی خاص بات یہ تھی کہ اسے پہن کر اماں اپنی عمر سے 20 سال کم نظر آہی تھیں ۔۔ ان کی زینت اور گریس دیکھ کر ۔۔۔ عظمیٰ آگے بڑھی اور اماں کو گلے لگا کر بولی۔۔۔ بڑی ہی شاندار لگ رہی ہو باجی ۔۔۔۔ تو اماں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بڑے طنز سے کہا۔۔۔ تسی کی کل تیار ہونا اے؟( آپ لوگوں نے کیا کل تیار ہونا ہے ؟) تو میری بجائے عظمیٰ باجی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ جی بس تھوڑی سی تیاری رہ گئی ہے۔۔۔ تو اماں نے حیرت سے دیدے پھاڑ کر باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔مجھے تم کہیں سے بھی تیار نہیں دکھائی دے رہی اماں کی بات سُن کر باجی نے پلنگ پر پڑی اپنی ساڑھی اٹھا ئی اور اماں کو دکھاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ یار دیکھ لو سب تیار ہے جیسے ہی واش روم خالی ہوتا ہےمیں نے یہ ساڑھی پہننی ہے اور بس۔۔۔۔ ۔۔۔ 


عظمیٰ باجی کی بات سُن کر اماں نے میری طرف دیکھا اور سخت لہجے میں کہنے لگیں۔۔ اگر اگلے پانچ منٹ میں تم دونوں تیار ہو کر باہر نہ آئیں نا ۔۔۔تو خیر نہیں تمھاری اور ۔۔ پھر وہ تیز تیز چلتی ہوئی اگلے کمرے کی طر ف چلی گئیں۔۔۔ اماں کے جانے کے اگلے پانچ منٹ تو کیا ہم لوگ اگلے ایک گھنٹے میں بھی تیار نہ ہو سکیں یہاں تک کہ ہمارے آس پاس کی سب لیڈیز ایک ایک کر لان میں چلی گئیں لیکن میری اور عظمیٰ باجی کی تیاری ہی نہ مکمل ہو رہی تھی ۔۔۔اور میرا خیال ہے کہ اب ۔۔میں اور عظمٰی باجی دونوں ہی رہ گئیں۔۔باقی تقریباً سب لوگ لان میں پہنچ چکے تھے۔۔ پھر آخر ہم دونوں بھی تیار ہو گئیں ۔۔ عظمیٰ باجی نے ہلکے سرخ رنگ کی باریک سی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس کا بلاؤز شارٹ اور بہت کھلا تھا اور ان کے گورے مموں کی طرف جاتی ہوئی دل کش لکیر بہت اندر تک نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اور بلاؤز کے نیچے ان کی ناف کا بڑا سا گڑھا بہت ہی بھلا لگ رہا تھا ہونٹوں پر انہوں نے سرخ رنگ کے بہت ہی ہلکے شیڈ کی لپ سٹک لگائی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان کے ہونٹوں کی لالگی قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔۔ اور ان کے ہونٹوں کی لالگی اور ناف کے گڑھے کو دیکھ کر میں نے ان سے کہا عظمیٰ باجی مجھے ڈر ہے آج آپ کہیں اغواء نہ ہو جائیں تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑی حیرانگی سے بولی وہ کیوں بھائی ؟ تو میں نے ان کی گال پر چٹکی لیتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہ یوں باجی جان کہ آج آپ کا سراپہ قیامت ڈھا رہا ہے ۔۔ میری بات سُن کر وہ مسکرا کر بولیں ۔۔ بکواس نہ کرو ۔۔ اغوا تو تم دونوں کو ہونا چایئے کہ آج ماں بیٹی دونوں غضب کی حسین لگ رہی ہو ۔۔ پھر انہوں نے اپنی کلائی بر بندھی گھڑی دیکھی اور کہنے لگی باجی سے یاد آیا ۔۔ جلدی سے نکلو کہ اگر اب باجی آ گئی تو ۔۔اس دفعہ ۔ واقعہ ہی ہم دونوں کی خیر نہیں ہو گی ۔۔۔ عظمیٰ باجی ٹھیک کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ ہم دونوں بہت لیٹ تھیں اور اگر اس ٹائم اماں آ جاتیں تو ۔۔۔ چنانچہ ہم دونوں نے جلد ی جلدی اپنے بھاری بھر کم پرس اٹھائے اور تیزی سے باہر نکل گئیں ۔ ابھی ہم لوگ دروازے سے تھوڑی ہی دور گئے ہوں کہ آگے سے ہمیں بھا میدا ہماری طرف آتا نظر آیا اسے دیکھ کر عظمیٰ باجی بولی ۔۔ لو باجی کا ہر کارہ بھی آگیا ۔۔۔ اتنی دیر میں بھا ہمارے پاس پہنچ چکا تھا ۔۔اور پاس پہنچتے ہی اسنے عظمیٰ باجی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ جی عظمیٰ جی میرے دوست کو آپ کے پڑفیوم کی سمیل بہت اچھی لگی ہے۔۔۔ اگر آپ مائینڈ نہ کڑیں تو ۔۔۔۔۔ ایک دو پف ۔۔۔وہ بھی لگانا چاہتا ہے توعظمیٰ باجی نے کہا نہیں اس میں مائینڈ کرنے والی کون سی بات ہے ۔۔تو بھا ترنت ہی کہنے لگا ۔۔۔تو مہڑبانی کر کے ایک منٹ کے لیئےاپنا پڑفیوم مجھے دیں گی پھر جلدی سے بولا ۔۔۔ وعدہ میں ابھی واپس کر دوں گا۔۔ تو عظمیٰ باجی کہنے لگی ۔۔۔ حمید وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ پرفیوم اندر بیگ میں پڑا ہے۔۔ تو بھا نے منت بھرے انداز میں کہا ۔۔ آپ کو تکلیف تو ہو گی لیکن پلیز۔۔۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھا اور پھر کچھ سو چ کر بولی۔۔۔ ٹھیک ہے آپ میرے ساتھ آؤ ۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگی ہما آپ لان میں پہنچومیں حمید کو پرفیوم دے کر ابھی آئی۔۔۔۔ اور میں نے دل میں سوچا۔۔۔سوری باجی ۔۔ ہما اتنی بھی پاگل نہیں کہ آپ کے لو سین مِس کر دے اور بظاہر ۔۔لاپرواہی کے کہا کہ ٹھیک ہے باجی ۔۔۔اور آگے چل پڑی۔۔۔ اور جیسے ہی بھا اور عظمیٰ باجی کمرے میں داخل ہوئےمیں ایک دم سے واپس مُڑی اور ۔۔۔۔ کمرے کے پاس پہنچ گئی۔ان دونوں نے اندر داخل ہوتے وقت کمرے کو لاک تو نہیں کیا ہاں ۔ دروازہ تھوڑا بند ضرور کر دیاتھا ۔۔۔ برآمدے میں کھڑے ہو کر میں نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ۔۔دروازے کے ساتھ کان لگا کر اندرکی آوازیں سننے لگی۔۔میرا خیال ہے کمرے میں داخل ہوتے ہی بھا نے عظمیٰ باجی کو اپنی بانہوں میں لے لیا تھا ۔۔ کیونکہ مجھے عظمیٰ باجی کی دبی دبی سی سرگوشی سنائی دے رہی تھی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔۔پلیز چھوڑ دو مجھے ۔۔ دیکھو دروازہ کھلا ہے کوئی بھی اندر آ سکتا ہے۔۔۔ اور میں نے ڈرتے ڈرتے تھوڑا آگے ہو کر دیکھا تو ۔وہ دونوں آپس میں مگن تھے ۔۔ عظمیٰ باجی بھا کے گلے سے لگی اپنے آپ کو چھڑا نے کی واجبی سی کوشش کر رہی تھی ۔۔ اور ساتھ ساتھ بھا کی منت بھی کر رہی تھی کہ اسے چھوڑ دے ۔۔ کہ کوئی آ جائے گا ۔۔۔عظمیٰ باجی کی منت سماجت سنتے ہوئے ۔۔۔ آخر کار بھا نے کچھ دیر عظمیٰ باجی کے مموں کو اپنے سینے کے ساتھ دبانے کے بعد ان کو چھوڑ دیا ۔۔۔ اور کہنے لگا ۔۔۔عظمیٰ جی آپ کو سینے کے ساتھ لگا کر مزہ آ گیا ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی کہنے لگی مزہ تو مجھے بھی بہت آیا ۔۔۔ لیکن ڈر بھی بہت لگا۔۔۔ پھر میں دیکھا کہ عظمیٰ باجی اپنے بیگ کی طرف بڑھی اور اس نے اپنے بیگ میں سے پرفیوم نکلا اور بھا کے ہاتھوں میں پکڑانے لگی۔۔۔ لیکن بھا تو عظمیٰ باجی کے کھلے گلے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اور پھر اس نے باجی کے گلے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔۔ عظمیٰ جی میں سوچ ڑہا ہوں کہ جب آپ کے سینے کی لیکڑ اتنی زبردست ہے تو میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کی اصل لکیڑ(پھدی) کیسی ہو گی ؟ بھا کی بات سُن کر عظمیٰ باجی کے چہرے پر لالگی سی چھا گئی اور وہ مسکرا کر کہنے لگی۔۔۔۔۔ وہ لیکر رات آپ نےدیکھی تو تھی نا ؟ تو بھا نے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ عظمیٰ جی آپ کی وہ لکیڑ میں نے نہیں بلکہ میرے (اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) اس شہزادے نے دیکھی تھی۔۔۔تو عظمیٰ باجی نے شرارت سے کہا کیا کہتا ہے پھر آپ کا شہزادہ؟ تو بھا نے بڑے رومینٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بار دیکھی ہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے ۔۔۔

اور پھر آگے بڑھ کو اسنے عظمیٰ باجی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ۔۔۔ چند سیکنڈ تک وہ عظمیٰ باجی کے رس دار ہونٹوں کا رس پیتا رہا ۔اور اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنا نچلا دھڑ خاص کر لن والا حصہ ۔۔ عظمیٰ باجی کی ٹانگوں کے ساتھ مَس کرتا رہا۔ بلکہ رگڑتا رہا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ انہوں نےاپنا منہ ۔۔عظمیٰ باجی کے منہ سے ہٹایا ۔۔۔ اور تھوڑا پیچھے ہو گیا ۔۔اور میں نے دیکھا کہ بھا کی لن والسے حصے سے پھا کی پینٹ کافی ابھری ہوئی تھی ۔۔۔ اور میری طرح عظمیٰ باجی کی نظریں بھی بھا کے لن کی طرف ۔۔۔ ہی تھیں۔۔۔ دوسری طرف بھا نے ۔۔۔ عظمیٰ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ مزہ آگیا عظمیٰ جی ۔۔۔ بہت شکڑیہ ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی بھا کے لن کے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ شکریہ مگر ۔۔۔ کس بات کا؟ تو بھا نے جوب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ پڑفوہم کا ۔۔۔ اتنی ہاٹ کس کا ۔۔۔ پھر بھا نے پرہوس نظروں سے عظمیٰ باجی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔کیا میں ایک کس اور لے سکتا ہوں ؟ تو عظمیٰ نے بھی ان کے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ہاں ۔۔۔ لیکن یہ آخری کس ہو گی۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کے منہ سے یہ بات سنتے ہی بھا آگے بڑھا اور دوبارہ سے عظمیٰ باجی کے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ہونٹ جوڑ دیئے۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے بعد دونوں نے تیزی کے ساتھ باہر آنا ہے ۔۔۔۔۔۔


  میں لان کی طرف آ رہی تھی کہ مجھے دور سے اماں نظر ائی انہیں دیکھتے ہی میں نےاپنا منہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔ لیکن اماں نے مجھے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور آواز دیکر کہنے لگیں ۔۔ ہما ادھر آؤ۔۔۔ اور میں چارو ناچار ۔۔۔۔ اماں کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اماں بولی ۔۔ اتنی دیر کیوں لگا دی ؟ تو میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اماں بھائی کی شادی ہے اس لیئے زراتیاری میں دیری لگ گئی ۔۔۔ تو اماں میرا ماتھا چوم کر کہا میری جان تم کو تیاری کی کیا ضرورت ہے ؟ پھر وہ مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگیں ویسے تو تم خود بھی بہت سمجھدار ہو۔۔۔لیکن فائق کے سسرال میں جا کر زیادہ شوخیاں نہ مارنا اور سنجیدہ ہی رہنا ۔۔ تو میں نے اماں سے کہا کہ وہ کس لیئے جی ۔؟ تو اماں کہنے لگی۔۔۔ پگلی تم کو بتایا تو ہے کہ ایک جگہ تمھارے رشتے کی بات چل رہی ہے ۔۔ اور میرا اندازہ ہے کہ آج وہ لوگ چپکے چپکے تمھاری اچھی طرح سے جانچ کریں گے ۔۔ اماں کی بات سُن کر میں غصے سے بولی ۔۔ جانچ کریں کریں گے ۔۔ میں کیا بھیڑ بکری ہوں ؟کہ وہ خریدنے سے پہلے میری اچھی طرح سے ٹٹولیں گے؟ تو اماں نے فکر مندی سے میری طرف دیکتے؟ ہوئے آہستہ سے کہا۔۔۔ ایسے نہیں کہتے ۔بیٹی ۔۔۔۔ یہ مشرق ہے اور یہی ہماری ریت ہے رسم ہے تو میں نے بھی تھوڑی غصے سے کہا ۔۔۔ میں ایسی رسموں کو نہیں مانتی۔جہاں لڑکیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جانچا جائے۔۔میری بات سُن کر اماں نے اس دفعہ تھوڑی سختی سے کہا ۔۔۔ زیادہ بک بک کرنے کی ضرورت نہیں تم سے جو کہا جا رہا ہے وہ کرو۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر مزید سخت لہجے میں بولیں۔۔۔ ووڈی آئی ۔۔۔ رسماں نہیں مندی ۔۔۔ میں وینی آں تو مندی کودیں نئیں ؟ ( بڑی آئی رسمیں نہ ماننے والی ۔۔ میں دیکھتی ہوں کہ تم کیسے نہیں مانتی) اور وہاں سے چلی گئیں۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اماں کی بات سُن کر میں خوف زدہ ہو گئی تھی ۔۔۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اماں جو کہتی ہے کر گزرتی ہے اور ویسے بھی اس سلسلے میں وہ بڑی سخت واقعہ ہوئی تھیں۔۔


اماں کی باتیں سن کر میرا موڈ کافی حد تک خراب ہو گیا تھا ۔۔۔ اور میں منہ بسورے ایک طرف جا کر بیٹھ گئی تھی۔۔کچھ دیر بعد ابا چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور۔۔ میرے پاس والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔ نصیبِ دشمناں ۔۔ آج ہماری بیٹی کا موڈ کچھ خراب خراب سا لگ رہا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگے کیا بات ہے کیوں ایسے منہ پھلایا ہوا ہے؟ تو میں نے اماں کے ساتھ ہونے والی ساری گفتگو ابا کو سناتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ ابا ۔۔۔ اب آپ خود ہی بتاؤ کہ کیا میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں یا میں کوئی بھیڑ بکری ہوں ۔۔ جو وہ لوگ مجھے اچھی طرح ٹھونک بجا کر دیکھیں گے؟تو ابا کہنے لگے ۔۔ بلکل ایسی کوئی بات نہیں ۔۔ میری بیٹی تو شہزادی ہے۔۔۔ اور کس کی جرات ہے کہ وہ میری بیٹی کی طرف ایسی نظروں سے دیکھے ۔۔۔ابا کی بات سن کر میں خوش ہو گی ۔۔۔ اور جب ابا نے میرے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے تو وہ ہولے سے کہنے لگے۔۔۔ ہما میری ایک بات مانو گی ؟ تو میں نے ابا سے کہا ۔بتائیں ابا جی میں نے آپ کی بات نہیں ماننی۔۔۔ تو پھر کس کی بات ماننی ہے؟ تو ابا کہنے لگے۔۔۔ تو ہما پلیز ۔۔ جیسے تمھاری ماں کہتی ہے ویسا ہی کرنا ۔۔۔ پھر ایک دم سے بولے۔۔۔ اور یہ میرا اپنی بیٹی کے ساتھ وعدہ ہے کہ اگر میری جان کو کو وہ لڑکا پسند نہ آیا تو ہم ہر گز تمھاری بات آگے نہیں چلائیں گے ۔ابا کی بات سُن کر میں نے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا ہی تھا ۔۔۔ کہ ابا جلدی سے کہنے گے ۔۔۔۔ اور میری بیٹی کو معلوم ہے نا کہ ابا جو پرامس کرتے ہیں وہ نبھاتے ہیں ۔۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ ہاتھ ملا کر بولے ۔۔۔اور میں اپنی سب سے پیاری بیٹی کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں۔۔۔۔


ابا کی بات سن کر چار و ناچار میں نے بھی ان کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر اس کے بعد ابا کچھ دیر اور میرے پاس بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ میرا موڈ بلکل نارمل ہو گیا ہے تو وہ وقار انکل کر بہانہ کر کے وہاں سے اُٹھ گئے۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد میں بھی وہاں سے اُٹھی اور پھر ادھر ادھر گھومنے لگی۔۔ گھومتے گھومتے ایک جگہ مجھے اپنی کزنز نظر آئی تو میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور ہم آپس میں ہنسی مزاق کرنے لگیں۔۔۔ اسی اثنا میں وہاں خوب صورت وردیوں میں ملبوس ایک فوجی بینڈ آ گیا اورآتے ساتھ ہی انہوں نے جو پہلی دھن بجائی وہ ۔ایک مشہور جنگی ترانہ ۔۔۔ اب وقتِ شہادت ہے آیا ۔۔۔تھا ۔۔۔۔۔بجایا ۔۔۔ دوسری دفعہ پھر وہی ترانہ بجا ۔۔۔ اور جب بار بار یہی ترانہ بجنا شروع ہوا ۔۔۔ تو اچانک میں نے دیکھا کہ اماں بینڈ ماسٹر کے پاس پہنچ گئیں تھیں اور پھر انہوں نے بینڈ ماسٹر سے خاموش ہونے کو کہا اور جب بینڈ کا شور ختم ہوا تو اماں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔کیا آپ کو بس ایک ہی دھن بجانا آتی ہے؟ تو اماں کی بات سُن کر وہ بینڈ ماسٹر کہنے لگا نہیں باجی ہم تو ہر قسم کی دھن بجا لیتے ہیں لیکن بڑے صاحب نے ہمیں یہی دھن بار بار بجانے کا حکم دیا ہے تو اماں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کس نے حکم دیا ہے؟تو اس سے پہلے کہ وہ بینڈ ماسٹر کوئی جواب دیتا ۔۔۔ ایک طرف سے ماجد انکل نمودار ہوئے اور کہنے لگے۔۔۔۔۔ یہ حکم مابدولت نے دیا ہے ۔۔۔ تو اماں نے کرنل صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ کیوں بھلا۔۔۔؟؟؟؟؟ تو کرنل صاحب شرارت سے بولے۔۔ وہ یوں آپا کہ۔۔ میرے نزدیک ۔۔۔ شادی مرد کے لیئے ایک شہادت گاہ ہے ۔۔اور آج آپ کا بیٹا فائق دو تین گلیاں آگے شہید ہونے جا رہا ہے۔۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس کو تیار کرنے کے لیئے بار بار یہ دھن بجوا رہا ہوں ۔۔ کہ اب وقتِ شہادت ہے آیا ۔۔۔۔۔۔ ماجد انکل کی بات سُن کر مردوں کا ایک بھر پور قہقہہ پڑا ۔۔۔۔ اور ابا کہنے لگے ۔۔۔ ماجد یار بات تو تیری ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تو ماجد انکل نے فوراً اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ دیکھا باجی ۔۔دکھی لوگ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔اور اماں نے ماجد انکل کی طرف دیکھتے ہوئے بس اتنا کہا ۔۔ بدتمیز۔۔۔۔ اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔

ماجد انکل کے گھر سے عطیہ باجی کے گھر کا راستہ بمشکل 10/15 منٹ کا ہو گا لیکن ہمیں انکل کے گھر سے نکل کر۔۔۔ عطیہ بھابھی کے گھر تک پہنچتے پہنچتے کوئی سوا گھنٹہ لگ گیا تھا ۔۔۔ فوجی بینڈز کی دلکش دھنوں پر فائق بھائی اور بھا میدے کے دوستوں نے خوب ڈانس کیا اور بہت زیادہ ویلیں وغیرہ دیں ۔اور انہی و یلوں کی وجہ سے بینڈ والے 15 منٹ کے سفر کو ایک سوا ایک گھنٹے تک لے گئے تھے۔ان کی وجہ سے ہم لوگ رکتے زیادہ اور چلتے کم تھے ۔۔پھر رکتے چلتے ۔۔ آخر ِ کار ہم لوگ فائق بھائی کے سسرال پہنچ ہی گئے وہاں ہمارے سواگت کے لیئے عطیہ بھابھی کے کافی بڑے بزرگ کھڑے تھے جنہوں نے ہمیں اپنے رسم و رواج کے مطابق خوش آمدید کہا اور پھر لیڈیز کو ایک الگ تنبو میں اور جینٹس کو الگ جگہ پر بٹھا دیا گیا۔۔۔۔


ایک گھنٹہ چلنے سے میں بہت تھک گئی تھی اس لیئے میں سیدھی جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔ اور سستانے لگی اسی دوران دو تین خوب صورت سی لڑکیاں میرے پاس آ ئیں اور مجھ سے ہاتھ ملا کر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئیں اور پہلے تو انہوں نے مجھے اپنے بھائی کی شادی کی مبارک دی اور پھر میرے کپڑوں اور میرے حسن کی بہت تعریف کی ا س کے بعد وہ میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں اور ۔۔۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے ان میں سے ایک نے بڑی بے تکلفی سے کہا ہما جی آپ کا پڑھائی کے بعد کیا ارادے ہیں ؟ کوئی جاب وغیرہ کرو گی یا ۔۔۔؟؟ اس خاتون کی بات سن کر میں اندر ہی اندر چونک گئی ۔۔ اچھا تو یہ وہی خواتین ہیں جن کے بارے میں اماں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ میری جانچ کرنے آئیں گی ۔۔۔ پہلے تو میرا دل کیا کہ میں ان کے ہر سوال کا ایسا قرارہ جواب دوں کہ ۔۔سب کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے ۔۔۔ ۔۔۔ پھر مجھے ابا کی بات اور ان کا وعدہ ۔۔۔ اور اماں کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی ۔۔۔اور پھر میں نے کچھ سوچ کر ان لیڈیز کے سب سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب دینے شروع کر دیئے ۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میرے سارے سوالوں کے جواب ان کو بہت پسند آئے ۔۔۔ مثلاً ان میں سے ایک خاتون نے مجھ سے کہا کہ کیا خیال ہے ہما ۔کیا خیال ہے آپ کا ۔۔ شادی پسند کی ہونی چاہیئے کہ والدین کی مرضی کی ؟ تو میں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں والدین کی پسند کو اپنی مرضی بنا لینا چاہیئے ۔۔۔ میرا یہ انٹرویو لگ بھگ کوئی دس پندرہ منٹ جاری رہا ۔۔۔۔ اور ان خواتین کے ساتھ باتیں کرتے کرتے اچانک میری نگاہ اوپر پڑی تو ...... میں نے دیکھا کہ .......میرے سامنے وہی لڑکا کھڑا ہے جس نے اپنا غالباً دوست نواز بتایا تھا اور کل پرسوں سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا۔۔۔ اس لڑکے کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر میں خاصی گھبرا گئی ۔۔۔ اور وہاں سے اُٹھ کر جانے لگی ۔۔۔ ایک لڑکی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی ۔۔۔ کیا ہوا ہما جی ۔۔۔ کچھ دیر تو بیٹھو نا۔۔۔ لیکن میں نے ان کی کوئی بات نہ سنی اور ان سے معزرت کرتی ہوئی وہاں سے اُٹھ کر دوسری طرف کہ جہاں ہماری ساتھ آئی ہوئی باقی لیڈیز بیٹھیں تھیں چلی گئی۔۔۔ وہاں پہنچتے ہی میں ابھی بیٹھی ہی تھی کہ کہیں سے عظمیٰ باجی نازل ہو گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ ہاں جی انٹرویو کیسا رہا آپ کا؟ تو میں نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا ۔۔۔پتہ نہیں ۔۔۔ میں نے توان کے سب سوالوں کے سچ سچ جواب دے دیئے تو عظمیٰ باجی کہنے لگی ۔۔۔ بچہ سچائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔۔۔۔ میرے خیال میں تو تم پاس ہو گئی ہو ۔۔۔پھر بولی ۔۔۔ ویسے اگر تم فیل بھی ہو گئی ۔۔۔تو تم پھر بھی پاس ہو ۔۔۔ تو میں نے عظمیٰ باجی کی طرف حیرانی سے دیکھا اور ان سے کہنے لگی کہ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں باجی؟ تو وہ پراسرار طور پر مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میں نے سب خبر لگا لی ہے ۔۔۔ تو میں نے مزید حیران ہو کر ان سے پوچھا ۔۔۔۔ وہ کیسے باجی ؟۔۔ تو باجی نے کہنا شروع کر دیا کہ ۔۔۔ یہ قصہ تب شروع ہوا ۔۔ کہ جب تم لوگ عطیہ بھابھی کا رشتہ لینے ان کے گھر بہاولپور آئے تھے ۔۔۔ تو ان خواتین کے بھائی نے نہ صرف آپ کو دیکھا بلکہ اپنے لیئے پسند بھی کر لیا ۔۔۔ پھر سنا ہے کہ اس نے خفیہ طور پر تمھارے بارے میں انکوائیری بھی کروائی تھی ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگی انکوائیری کا مطلب سمجھتی ہو نا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔ مطلب خفیہ چھان بین ۔۔۔۔ اور جب تم اس خفیہ انکوائیری میں کلیر ہو گئی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تمھارا کسی کے ساتھ کوئی چکر وغیرہ سامنے نہ آیا ۔۔اس لڑکے نے اپنے گھر والوں کو تمہارے بارے میں بتلایا ۔۔۔۔۔ اور شاید تم کو نہ پتہ ہو تمھارا ہونے والا منگیتر ۔۔۔۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔۔۔اور اچھی خاصی جائیداد کا مالک ہے لیکن اسے جاب کرنے کا شوق ہے ۔۔۔اور فائق کی طرح وہ بھی ایک ملٹی نیشن کمپنی میں ایک اچھے عہدے پر کام کرتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ تمھارے لیئے ایک اور خبر ہے اور وہ یہ کہ ۔۔۔ تمھارا ہونے والا ۔۔۔ میری ہی کمپنی .....میں کام کرتا ہے ۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو بس جانتے تو ہیں لیکن ۔۔۔۔ اس قدر نہیں ۔۔۔ کیونکہ اس کی پوسٹنگ ایک اور سیکشن میں ہے اور میری پوسٹنگ کہیں اور ہے ۔۔۔ عظمیٰ باجی کی بات سُن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ تو باجی ۔۔۔۔ میرے بارے ساری انفارمیشن ۔۔۔ آپ ہی نے تو نہیں فراہم کیں تھیں ؟؟ ۔۔۔ تو میری بات سُن کر باجی ہنس پڑی ۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ ویسے اگر مجھ سے پوچھا جاتا تو میری بھی تمھارے بارے میں رپورٹ یہی ہوتی ۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ۔۔ کہ آپ ۔۔ تو وہ میری بات کاٹ کر کہنے لگی۔۔ ارے نہیں ۔۔۔ کولیگ ہونے کے ناتے ہم ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تو تھے ۔۔۔ لیکن میں تم لوگوں کی پڑوسی ہوں ۔۔ اس بات کا اسے قطعاً علم نہ تھا۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔ وہ تو جب ہم یہاں پہنچے تو ۔۔۔ میں اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا ۔۔۔ اور پھریہ ساری انفارمیشن میں نے اس سے ہی لی تھی اور میں نے یہ انفارمیشن کل ہی تمھاری اماں کو دے دی تھی۔۔۔ تو میں نے ان سے گلہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ اماں کو تو آپ نے سب کچھ بتا دیا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ جس کی زندگی کا سوال تھا ۔۔۔ اس کو خبر تک نہیں لگنے دی۔۔۔تو میری بات سُن کر عظمیٰ باجی ایک دم سیریس ہو گئیں اور کہنے لگی ۔۔۔دیکھو ۔۔ چندا ۔۔۔ تم ابھی بہت چھوٹی ۔۔۔اور جزباتی سی لڑکی ہو۔۔۔ اس لیئے تم اپنے برے بھلے میں تمیز نہیں کر سکتی ۔۔۔ اس لیئے جتنی انفارمیشن کی تم کو ضرورت تھی اس کے بارے میں ۔۔۔ میں نے تم کو بتا چکی ہوں ۔۔۔ جبکہ اس کے علاوہ ۔باقی کی ساری باتیں میں نے کل ہی تمھاری اماں سے ڈسکس کر لیں تھیں۔۔۔ عظمیٰ باجی کی باتیں سُن کر میں تو حیران پریشان رہ گئی ۔۔۔۔ اور ان سے کہنے لگی۔ تو آج جو میرا انٹرویو ہوا ۔۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نواز کی ایک بڑی بہن ہے جس سے نواز بہت پیار کرتا ہے بس اس کی اس بہن اور اس کی بیٹیوں نے تم سے ملنا تھا ۔۔۔اور و ہ چاہتی تھیں کہ ان کا تم سے کوئی تعارف نہ ہو بلکہ وہ اجنبی بن کر تم سے بات چیت کرنا چاہیتیں تھیں ۔۔اور اسی لیئے جیسے ہی تم وہاں بیٹھی میں نے نواز کو اشارہ کیا اور وہ اپنی بہن اور اس کی بیٹیوں کو تمھارے پاس بھیج دیا۔۔۔تو میں نے کہا باجی یہ تو بتاؤ ۔۔۔ باقی بہنوں کی میرے بارے کیا رائے ہے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی باقی تین میں سے ایک سے تو تم کل مل چکی تھی ۔۔۔ باقی رہ گئیں دو ۔۔۔ تو وہ دونوں تمھارے معاملے میں نواز کی پکی حامی ہیں ۔۔پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ ہما نواز کی بہنوں کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے بھائی کے لیئے کوئی چندے آفتاب ۔۔۔ چندے مہتاب قسم کی دلہن لائیں۔۔۔ کہ جس میں ہر قسم کی خوبی پائی جائے ۔۔ اور اتفاق سے ان خوبیوں والی لڑکی وہ تو نہ ڈھونڈ سکیں جبکہ نواز نے تم کو ڈھونڈ نکالا ۔۔۔ 


عظمیٰ باجی کے منہ سے یہ ساری سٹوری سُن کر میرے دل میں دوست نواز کے لیئے نرم گوشہ پیدا ہو گیا ۔۔۔ اور میں اس کے بارے میں سوچنے لگی کہ کیسے وہ کل سے میرے ترلے منتاں کر رہا تھا ۔۔۔۔ پھر اچانک میرے زہن میں ایک خیال آیا اور میں نے عظمیٰ باجی سے پوچھا ۔۔۔۔ باجی میرے بارے میں تو اس نے اور اس کی بہنوں نے ساری چھان بین کر لی ۔۔۔ لیکن یہ تو بتائیں۔۔۔ کہ آپ کا کولیگ کیسا ہے؟ تو میری بات سمجھ کر عظمیٰ باجی کہنے لگیں ۔۔۔ یہ باتیں تم سے پہلے میں تمہاری اماں کو بتا چکی ہوں اور تم کو بھی بتاتی ہوں کہ لڑکا بہت شریف اور لائق ہے ۔۔۔ اور ہر چند کہ اس تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے لیکن اس میں زمینداروں والوں کوئی برائی نہ ہے میرا مطلب ہے ۔۔۔ کسی لڑکی سے کوئی چکر کم از کم میں نے نہیں سنا ۔۔ اور نہ ہی اس کے کریکٹر کے بارے میں کسی سے کبھی کوئی بات سنی ہے ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کہنے لگی۔۔۔ ایک مزے کی بات بتاؤں ۔۔۔ کمپنی کی کافی لڑکیوں نے اس پر ٹرائی ماری لیکن اس نے کسی کو بھی گھاس نہیں ڈالی ۔۔۔ اسی لیئے تنگ آ کر انہوں نے اس کا نام انہوں نے " دوشیزہ " رکھ دیا ہے تو میں نے حیرانی سے ان سے پوچھا ۔۔۔ باجی یہ دوشیزہ کا کیا مطلب ہوتا ہے تو وہ ہنس کر کہنے لگیں۔۔۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کنواری ۔۔ ایسی لڑکی جس کا ابھی تک "کنوارپن " سلامت ہو ۔۔یعنی جس کو کسی مرد نے ہاتھ نہ لگایا ہو ۔۔۔تو میں نے کہا ۔۔۔ ۔کہ لیکن باجی نواز تو مرد ہے پھر لڑکیا ں اس کو دوشیزہ کیوں کہتی ہیں ؟؟ ۔۔ تو میری بات سن کر باجی ایک بار پھر ہنس پڑی اور کہنے لگی۔۔۔کبھی غور سے اپنی ہونے والے منگیتر کو دیکھنا ۔۔۔۔ اس کی باڈی ۔۔۔ اور اس کے حسن میں نسوانیت بھری ہوئی ہے ۔۔ یعنی کہ تمھارے منگیتر میں مردانہ پن بلکل نہیں ہے بلکہ ۔۔۔ اس کی خوب صورتی ۔۔۔۔ نسوانیت سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ پھر عظمیٰ باجی نے سامنے دیکھا اور مجھے سے کہنے لگی ۔۔۔ ہما ۔۔۔ایک منٹ میں آئی ۔۔۔۔اور میں نے بھی سامنے کی طرف دیکھا تو وہ نواز کی طرف بڑھ رہی تھیں۔۔۔ وہ کافی دیر تک نواز سے بات چیت کرتی رہیں ۔۔۔ اور ان باتوں کے دوران اپنے سر کو ہاں ہاں ۔۔۔ کے انداز میں ہلاتی رہیں۔۔۔پھر وہاں سے واپس آ کر میرے پاس بیٹھ گئیں اور ۔۔۔ ہولے سے بولیں ۔۔ ہما مبارک ہو ۔۔۔ نواز کی اس بہن کو بھی تم پسند آ گئی ہو۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ ہما ۔۔۔ایک درخواست ہے ۔۔۔ وہ نواز تم سے ملنا چاہتا ہے ۔۔۔ اگر تم تھوڑا سا ٹائم اس کو دے دو تو؟؟؟۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے اپنا سر جھکا لیا اور میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا ۔۔۔۔اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔۔ تب میں نے نیچے دیکھتے ہوئے باجی سے کہا کہ۔۔۔ سوری باجی ۔۔۔ شادی سے پہلے میں آپ کے کولیگ سے نہیں مل سکتی ۔۔۔۔ اور سراٹھا کر جیسے ہی اوپر دیکھا تو وہاں ۔۔۔ عظمیٰ باجی کی بجائے ۔۔۔نواز بیٹھا تھا۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔ اگر آپ مجھ سے نہیں مل سکتیں تو ۔۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔۔۔میں تو آپ سے مل سکتا ہوں نا۔۔۔۔ اور مسکرانے لگا۔۔۔۔اسے یوں اپنے پاس بیٹھے دیکھ کر میں ایک دم سے گبھرا گئی اور ۔۔ جیسے ہی میں وہاں سے اُٹھنے لگی۔۔۔ اس نے غیر محسوس طریقے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔اور کہنے لگا ۔۔ آپ مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہیں؟ میں کوئی جن تو نہیں ہوں نا کہ جو آپ کو کھا جائے گا۔۔۔پلیز میری بات تو سن لیں نا۔۔۔ حالانکہ میں کافی ایڈوینچر پسند لڑکی ہوں ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی ۔۔ کہ اپنے ہونے والے منگیتر کو سامنے دیکھ کر میرے ہوش اُڑے ہوئے تھے ۔۔۔ اور میں باقاعدہ تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔۔۔ اور میں خود بھی اپنی اس حالت پر حیران تھی ۔۔ کیونکہ میں نے کئی دفعہ بھیڑ میں جیدے سائیں کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا ۔۔۔ اور زرا بھی نہ گھبرا ئی تھی ۔۔۔ لیکن یہاں ۔۔۔ اس دوشیزہ کے سامنے میری بولتی بند ہو گئی تھی ۔۔۔ پھر میری حالت کو دیکھ کر آخر اس کو مجھ پر ترس آ گیا ۔۔۔ اور وہ کہنے لگا ۔۔۔ کہ ہما جی اس وقت تو میں آپ کو چھوڑ رہا ہوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔آپ کی اور میری ایک میٹنگ بہت ضروری ہے۔۔


جیسے ہی نواز نے میرا ہاتھ چھوڑا ۔۔ عین اسی ٹائم شور مچ گیا کہ دلہن آ گئی دلہن آگئی اور میرے سمیت سب خواتین دلہن کو دیکھنے کے لیئے سٹیج کی جانب چل دی۔۔ دلہن کے لباس میں عطیہ بھابھی بہت ہی کیوٹ اور ہاٹ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔بھابھی کے آس پاس اس کی کزنز اور سہیلیاں بیٹھیں تھیں ۔۔ اور اس کو کسی بات پر چھیڑ رہی تھیں ۔۔۔ جیسے ہی میں دلہن کے پاس پہنچیں تو ان میں سے ایک نے میرے لیئے جگہ خالی کی اور ۔۔۔ میں ۔۔۔ بھابھی کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔۔ عطیہ بھابھی روایتی دلہنوں کی طرح نہ تو شرما رہی تھی اور نہ ہی سر جھکائے چپ چاپ بیٹھی تھیں ۔۔ بلکہ وہ تو ہمارے ساتھ ہنس بول رہیں تھیں ۔۔۔ میں کچھ دیر تک وہاں بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر اعلان ہوا کہ نکاح خواں صاحب آ رہے ہیں اس لیئے لڑکیا ں یہاں سے اُٹھ جائیں ۔۔۔ اور اس اعلان کے ہوتے ہی میں وہاں اس اُٹھی ۔۔اور سامنے جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے مجھے اشارے سے اپنے پاس بلایا ۔

تو میں اُٹھ کر ان کے پاس چلی گئی مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بھی اپنی سیٹ سے اُٹھ گئیں اور جب میں ان کے پاس پہنچی تو وہ کہنے لگیں کہ ہما میرے ساتھ آؤ ۔۔۔اور پھر میں ان کے ساتھ چلتی ہوئی پنڈال کے باہر آ گئی۔تو میں نے ان سے کہا باجی ہم کہاں جا رہے ہیں تو وہ کہنے لگی۔میرے ساتھ ۔۔ خاموشی کےساتھ چلتی رہو ۔۔۔اور ۔ جیسے ہی ہم باہر آئے ایک لڑکی ہمارے آگے آگے چلنا شروع ہو گئی ۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دور جا کر ۔۔۔ وہ ایک گھر میں گھس گئی ۔۔۔ اس کے پیچھے ْْْْْ پیچھے باجی اور میں بھی اس گھر میں داخل ہو گئیں ۔۔۔ جیسے ہی ہم لوگ کمرے میں داخل ہوئیں سامنے ہی وہ لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔ اس نے ہمیں ڈرائینگ روم میں بٹھایا اور ۔۔ خود باہر نکل گئی ۔۔ جیسے ہی وہ لڑکی کمرے سے باہر گئی تو میں نے عظمیٰ باجی سے پوچھا کہ ۔۔۔ باجی یہ معاملہ کیا ہے تو باجی کہنے لگیں ۔۔ پہلی بات میں تم سے یہ کلیر کر دوں کہ میں یہاں تم کو تمہاری اماں کی اجازت سے لائی ہوں ۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔اصل میں نواز تم سے کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا تھا اور اسی کی درخواست پر میں تم کو لے کر یہاں آئی ہوں ۔۔۔ پھر کہنے لگی گھبرانا نہیں میں باہر ہی ہوں گی ۔۔۔ اور تمھاری اماں نے پیغام دیا ہے کہ جو تم کو ٹھیک لگے وہ جواب دینا ۔۔۔ اور گھبرانا نہیں۔۔۔۔۔


باجی نے یہ بات کی اور اُٹھ کر باہر چلی گئی۔۔۔ اب میں کمرے میں اکیلی بیٹھی سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں وہ مجھ سے کیا سوال کرتا ہے ۔۔۔ کہ اتنی دیر میں نواز بھی کمرے میں داخل ہو گیا ۔۔ اور مجھے ہیلو کہہ کر میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ چند سیکنڈ تک کمرے میں بڑی گھمبیر قسم کی خاموشی رہی ۔۔۔ پھر اس خاموشی کو جواز نے ہی توڑا ۔۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔۔ ہما جی۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں ہماری منگنی ہونے والی ہے۔۔۔ دونوں طرف سے ہاں ہو گئی ہے اب بس رسمی اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے ۔۔۔ مجھے میرے گھر والوں کو آپ بہت پسند آئی ہیں ۔۔۔ آپ کا حسن آپ کی سادگی اور آپ کا اجلا پن یہ سب کمال کا ہے۔۔۔میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ اور وہ اصل جس کے لیئے میں نے عظمیٰ میم کی منت کر کےآپ کو یہاں بلایا تھا ۔۔۔ وہ یہ ہے کہ مجھے اور میری فیملی کو آپ بہت پسند ہو ۔۔۔۔ کیا میں بھی آپ کو پسند ہوں؟ اس کی بات سن کر میں نے بھلا اس کو کیا جواب دینا تھا ۔۔۔۔ ہاں اپنی منگنی کی بات سُن کر میرے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔۔۔ لیکن میں نے اس پر یہ بات ظاہر نہ کی تھی ۔۔۔ اور بس چپ کر کے بیٹھی رہی ۔۔۔ تب اس نے دوسری دفعہ مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔۔اور پھر تیسری دفعہ وہ میرے پاس ا ٓکر بیٹھ گیا اور بولا۔۔۔۔ ہما جی پلیز ۔۔۔ آپ کے من میں جو بھی بات ہے کھل کر بتاؤ ۔۔۔ کہ میں آپ سے زبردستی نہیں کر سکتا ۔۔۔ پھر کہنے لگا اگر آپ کو کوئی اور ۔۔۔۔۔ تو میں نے ایک دم گھبرا کر کہا ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔ایسی کوئی بات نہیں اور پھر چپ ہو گئی ۔۔۔ تب اس نے میری ٹھوڑی کے نیچے اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور میرا منہ اوپر کر کے بڑی شوخی سے میری نقل اتارتے ہوئے کہنے لگا..۔۔۔۔۔۔ایسی نہیں تو پھر ۔۔۔ کیسی بات ہے جی ؟ اور پھر کہنے لگا ۔۔ جب تک آپ میری بات کا جواب نہ دو گی میں آپ کو یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔۔۔ اس کی بات سُن کر میں نے بڑی آہستگی سے جواب دیا کہ ۔۔۔وہ۔۔۔ وہ ۔۔۔نواز صاحب ۔۔۔ میری اماں میرے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گی مجھے منظور ہو گا۔۔۔ میری بات سُن رک نواز تھوڑا اور کھسک کر میرے قریب ہو گیا اور بولا۔۔۔۔ آپ کی اماں نے تو میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔

 اب آپ کیا کہتی ہو ۔۔ تو میں نے نواز کی طرف دیکھتے ہوئے شرمیلے لہجے میں کہا ۔۔۔ اگر اماں کو منظور ہے تو مجھے بھی منظور ہے ۔۔۔۔۔ میری بات سُن کر نواز بہت خوش ہوا ۔۔ اور اس نے بیٹھے بیٹھے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا۔۔۔۔۔۔ اور اس سے قبل کہ میں اس سے کچھ کہتی اس نے میرے گالوں پر دو تین بوسے دیئے اور کہنے لگا۔۔۔۔ میں تم کو بہت خوش رکھوں گا میری جان۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ اُٹھ کر جانے لگا اور میں اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تراس (پیاس)

قسط 10

اُس کے جانے کے فوراً بعد عظمیٰ باجی کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے یوں بیٹھے دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ کیا باتیں ہوئیں؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔اور میں نے بلا کم و کاست ان کو ساری بات بتا دی ۔۔۔ سن کر انہوں نے مجھے مبارک باد دی ۔۔۔اور پھر ہم دونوں وہاں سے باہر آ گئے۔۔۔ اورپنڈال میں داخل ہو کر عورتوں والی سائیڈ پر جا کر بیٹھ گئے ۔۔ کچھ دیر بعد اماں بھی وہاں آ گئی اور اماں کو دیکھتے ہی عظمیٰ باجی میرے پاس سے اُٹھی اور ان کے ساتھ ایک کونے میں جا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور میرے خیال میں جو باتیں میں نے ان کو بتائی تھیں ۔۔۔ سب سے با خبر کر دیا۔۔۔ پھر ان کی باتیں ختم ہونے کے کچھ دیر بعد اماں میرے پاس آئیں اور میرے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگیں ۔۔۔ جیتی رہو بیٹی ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے اُٹھ کر دوسری طرف چلیں گئیں۔۔اس کے تھوڑی دیر بعد کھانا لگا ۔۔۔ کھانے کی انتظامیہ میں نواز بھی تھا ۔۔۔اس نے سارا ٹائم میرے آس پاس ہی گزارا ۔۔۔ اور بہانے بہانے سے مجھے چھوتا بھی رہا ۔۔۔ اس کا یوں مجھے چھونا۔۔۔مجھے ہاتھ لگانا ۔۔۔ سچ مانو تو مجھے بڑا اچھا لگا۔۔۔ اور میرے من میں اس کے لیئے پیار جاگنا شروع ہو گیا ۔۔۔ کھانے کے بعد فائق بھائی کو دلہن کے پاس لایا گیا ۔۔اور وقت اچانک سٹیج پر بہت زیادہ رش ہو گیا .......۔۔اور خاص کر جب جوتا چھپائی کی رسم ہو رہی تھی تو سٹیج پر بہت سے لوگ چڑھ گئے تھے اور ان میں نواز بھی شامل تھا جو کھسکتا ہوا میرے ساتھ لگ گیا تھا ۔۔۔۔ اور اس کا بدن میرے بدن کے ساتھ ٹچ ہونے لگا تھا۔۔۔ ہم دونوں نے بس ایک نظر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر پتہ نہیں کیسے میں کھسک کر نواز کے ساتھ لگ گئی اور اس نے رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا لیا۔۔۔اب بظاہر تو ہم لوگ سامنے ہونے والی رسموں کو دیکھ رہے تھے لیکن ۔۔ درپردہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اظہارِ عشق کر رہے تھے ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ اور ان رسموں میں بھی حصہ لیتے ہوئے ہم لوگوں نے خوب ہلا گلا کیا اور۔۔۔ خاص کر میں نے بھر پور انجوائے کیا ۔۔۔۔۔ کیونکہ میرے بدن کو نواز کے بدن کا بھر پور لمس ۔۔ مل رہا تھا ۔۔۔اور میں اس کے لمس کو انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔ اندر ہی اندر میں بہت گرم ہو رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ایک دفعہ تو دھکا لگنے سے وہ عین میرے پیچھے بھی آ گیا تھا اور میری بیک کے ساتھ اپنا فرنٹ جوڑ دیا۔۔۔۔ اور میں نے بس چند ہی سیکنڈ اس کے لن کو اپنی گانڈ پر محسوس کیا ۔۔اس لیئے میں چاہ کر بھی جج نہ کر سکی کہ نواز کے لن کا سائیز کیا ہو گا۔۔۔۔پھر ۔۔۔۔ایک اور دھکا لگا اور وہ ۔۔۔ میرے پیچھے سے ہٹ گیا۔۔۔ اور یوں نواز کے لن کے سائز کی تراس میرے من میں ہی رہ گئی............


جوتا چھپائی کی رسم کے بعد ۔۔۔جلد ہی اماں نے عطیہ باجی کے گھر والوں کے مشورے سے اس ہلے گلے کو ختم کیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد عطیہ بھابھی کی رُخصتی کا وقت بھی آ گیا اور پھر ۔۔۔ عطیہ بھابھی کو ۔۔۔ لیکر کر لاہور کی طرف چل پڑے۔۔۔

        اس دفعہ کار میں فائق بھائی ۔۔۔ بھابھی اور اماں ابا تھے ۔۔ جبکہ میں ۔۔۔ کوسٹر میں عظمیٰ باجی کے ساتھ بیٹھی تھی۔اور ہم سارے راستے میں نواز کے بارے میں ہی گفتگو کرتے رہے۔۔ رات گئے تک ہم گھر پہنچے اور میں اور میری کزنز عطیہ بھابھی کو چھیڑتے ہوئے ان کے حجلئہ عروسی میں لے گئیں اور ۔ کزنز کے ساتھ ساتھ میں نے خاص طور پر عظمیٰ باجی کو اپنے ساتھ رکھا ۔۔۔ وہ بے چاری سمجھتی رہی کہ میں ایسا اس کی محبت میں کر رہی ہوں ۔۔ جبکہ میں تو ان کو اپنے ساتھ اس لیئے رکھ رہی تھی کہ جیسے ہی یہ جائیں تو مجھے پتہ چل جائے کیونکہ اتنے رش میں اگر یہ میرے ساتھ نہ ہوتیں تو مجھے ان کے جانے کی خبر مشکل سے ہی ملنی تھی۔۔۔۔۔ ہم لوگوں کو عطیہ بھابھی کے پاس بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اماں کمرے میں داخل ہو گئیں اور ہم کو ڈانٹ کر بولیں ۔۔ چلو کڑیو۔۔۔ کمرے خالی کرو ۔۔ کہ عطیہ بیٹی نے آرام کرنا ہو گا۔۔۔ اماں کی بات سن کر ایک آنٹی بڑی حیرانی سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔ آج کی رات بھی دلہن آرام کرے گی ؟اور اس بات پر ایک بھر پور قہقہہ پڑا ۔۔۔اورعطیہ بھابھی بے چاری کھسیانی ہو گئی۔۔۔ اور ہم لوگ ان کے کمرے سے باہر آ گئے ۔۔ باہر آتے ہی عظمیٰ باجی نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور اماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔اچھا باجی اب مجھے اجازت دیں۔۔ عظمٰی باجی کی انگڑائی دیکھ کر اماں کہنے لگیں ۔۔۔ سہاگ رات تو عطیہ نے منانی ہے لیکن انگڑائیاں تم لیئے جا رہی ہو ۔۔۔۔ اماں کے منہ سے سہاگ رات کا نام سنتے ہی عظمیٰ باجی نے ایک اور توبہ شکن انگڑائی لی ۔۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔ارے باجی ۔۔۔ یہ وہ والی انگڑائی نہیں بلکہ تھکن والی انگڑائی ہے ۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ اماں سے گلے ملیں اور پھر وہاں سے جانے لگیں تو اتنے میں بھا میدا وہاں پہنچ گیا اس کے ہاتھ میں باجی کا بیگ تھا ۔۔۔......اور آتے ساتھ ہی اس نے عظمیٰ باجی کو مخاطب کر کے کہا ۔۔۔یہ بیگ آپ کا ہے نا۔۔؟تو عظمیٰ باجی نے بھا کی طرف کر کہا تھیک یو حمید ۔۔۔ لاؤ یہ بیگ مجھے دے دو۔۔۔اور باجی کی بات سُن کر بھا آگے بڑھا اور باجی کے ہاتھ میں بیگ دیتے ہوئے ہولے سے کہنے لگا ۔۔۔ مین گیٹ لاک نہ کرنا ۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے سر ہلاتے ہوئے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ اور پھر وہ بیگ ہاتھ میں لئے وہاں سے چلی گئیں ۔۔۔

عظمیٰ باجی کے جاتے ہی میں بھی اپنے کمرے میں گئی اور ۔۔ الماری سے ایک دوسرا ڈریس نکالا اور واش روم کی طرف دیکھا تو حسبِ معمول ہاؤ س فل تھا چونکہ مجھے بہت جلدی تھی اس لیئے میں وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں چلی گئی اتفاق سے اس کا واش روم خالی تھا ۔۔ میں فٹو فٹ وہاں گھسی اور جلدی جلدی کپڑے بدل کے باہر آ گئی۔اور اپنے کمرے میں کپڑے رکھتے ہوئے اچانک مجھے ایک خیال آیا اور۔۔پھر میں نے الماری سی سے ایک بڑی سی کالی چادر لی اور اس کو اوڑھ کر باہر آ گئی ۔۔۔ اور اس کے بعد میں نے بھا کو دیکھنے کے لیئے کہ آیا بھا ابھی وہیں ہے یا چلا گیا ہے ایک چکر مردانے کا لگایا ۔۔ دیکھا تو بھا میدا ۔۔ وہاں بیٹھا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ کسی بھی وقت اُٹھ سکتا ہے چنانچہ وہاں سے تسلی کے بعد میں بڑے آرام سے وہاں سے نکلی اور ۔۔۔ کن اکھیوں سے اپنی گلی کا جائزہ لیتے ہوئے ۔۔۔ بظاہر بڑے اعتماد کے ساتھ عظمیٰ باجی کے گھر کے پاس رک گئی اور مین گیٹ کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو حسبِ توقع وہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔ گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے میں نے ایک نظر پھر اپنی گلی میں ڈالی تو ساری گلی سنسان تھی ۔۔۔ اور میں گیٹ کے اندر داخل ہو گئی۔۔


 اندر داخل ہو کر دیکھا تو ۔۔عظمیٰ باجی کا سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ مین گیٹ کے پاس والی لائیٹ بھی آف تھی ۔۔۔ اور میں اس کی وجہ سمجھ گئی تھی۔۔باجی نے تو یہ لا ئیٹس بھا میدے کی وجہ سے آف کیں تھیں ۔۔۔ اور اس اندھیرے کا فائدہ بھا سے پہلے میں اُٹھا رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔ ۔چونکہ عظمیٰ باجی کے گھر میں ہمارا آنا جانا لگا رہتا تھااس لیئے اندھیرے میں مجھے باجی کاکمرہ تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔۔۔۔عظمیٰ باجی کاکمرہ برآمدے کے آخر میں کارنر والا کمرہ تھا ۔۔۔ اس کی ایک کھڑکی مین گیٹ کی طرف جبکہ دوسری کھڑکی ۔۔۔ ان کے لان کی طرف کھلتی تھی ۔۔۔ اور مجھے یہ دونوں کھڑکیاں چیک کرنی تھی۔۔۔ سب سے پہلے میں لان کی طرف گئی اور دیکھا تو باجی کہ یہ کھڑکیاں بند تھیں ۔۔۔۔ میں تھوڑا مایوس ہوئی۔۔۔ اور پھر میں نے میں گیٹ کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ لان والی کھڑکی بظاہر تو بند تھی ۔۔۔ لیکن اس کے ایک کونے سے روشنی باہر آ رہی تھی ۔۔۔ میں نےنزدیک جا کر اس کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ کھڑکی کی کا وہ حصہ کہ جس سے روشنی باہر آ رہی تھی ۔۔۔ ٹوٹا ہوا تھا ۔۔۔ اور وہ اتنی تھوڑی جگہ سے ٹوٹا تھا کہ میں نے جب اس میں سے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی تو سامنے باجی کا ڈریسنگ ہی نظر آیا ۔۔۔۔ جہاں سے باجی کے پلنگ کا نظارہ کچھ صاف نہ دکھائی دے رہا تھا ۔ہاں اگر اسی کھڑکی کا دوسرا کونہ کھلا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔ اور میں نے اس آئیڈئے پر تھوڑا سوچا ۔۔۔۔اور پھر ۔۔ اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ لیکن فیصلے پر عمل کے لیئے پہلے باجی کی لوکیشن جاننا ضروری تھا۔۔۔ اس لیئے میں نے ایک چکر باجی کے صحن کا لگایا تو مجھے کچن سے ۔۔گھرررر۔گھررررررررر۔۔۔ کی سی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ جوسر ۔۔۔ کی آواز ہے ۔۔۔اور میں سمجھ گئی کہ باجی ۔۔اپنے اور ۔ بھا کے لیئے جوس بنا رہی ہے۔۔۔ یہ دیکھتے ہی میں وہاں سے بھاگتی ہوئی۔۔۔ باجی کی ٹوٹی کھڑکی کے دوسرے کونے کی طرف گئی ۔۔۔۔۔اپنے ہاتھوں پر چادر ۔۔۔ کی دو تین تہیں لگائیں ۔۔۔۔ اور پھر بڑی ۔۔۔ احتیاط سے اس کھڑکی کے شیشے پر اپنے ہاتھ میں پکڑے پتھر سے ہلکی سی ضرب لگائی۔۔۔اس کھڑکی کا شیشہ پہلے ہی کافی کریک تھا۔۔۔ اس لیئے ۔۔دو تین ضربوں کے بعد ۔۔۔وہ تھوڑا اور کریک ہو گیا۔۔ ۔۔اب میں نے پتھر نیچے رکھا اور اس کو پکڑ کر ۔۔تھوڑا سا زور لگایا تو۔۔۔کھڑکی وہ حصہ ۔۔ ٹوٹ کر میرے ہاتھوں میں آ گیا ۔۔۔لیکن مسلہ یہ ہوا ۔۔کہ باجی کی کھڑکی کا شیشہ میرے اندازے سے کچھ زیادہ ہی ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔ اپنے ۔۔ ہاتھوں پر چادر لپیٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ شیشے کی زخم لگنے سے محفوظ رہے ۔۔


سو میں نے اس شیشے کو بڑی احتیاط کے ساتھ نیچے رکھا ۔۔ ۔اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔ میری توقع کے عین مطابق ۔۔۔ یہاں سے باجی کا پلنگ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔اور پلنگ پاس ہونے کی وجہ سے میں ان کی باتیں بھی آسانی سے سن سکتی تھی۔۔ سارا جائزہ لینے کے بعد میں نیچے بیٹھ گئی۔۔۔اور انتظار کرنے لگی ۔۔۔ جلد ہی کمرے سے مجھے عظمیٰ باجی کےگنگنانے کی آواز سنائی دی۔۔۔ اور پھر میں نے دھیرے دھیرے سر اُٹھا کر دیکھا تو۔۔۔ باجی جگ اور گلاس ایک تپائی پر رکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اس کے بعد عظمیٰ باجی ڈریسنگ کے پاس گئی اور اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔ اتنےمیں باہر آہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔آہٹ کی آواز سن کر عظمیٰ باجی چونک گئی ۔۔۔ اور میری طرح اس کی نظریں بھی دروازے کی طرف اُٹھ گئیں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی ہماری نظریں دروازے پر پڑیں۔۔۔تو میں نے دیکھا کہ دروازے پر بھا میدا کھڑا تھا ۔۔۔اور اس کے ہاتھ میں ۔۔۔ سرخ گلاب تھا۔۔۔ جو اس نے بڑی ادا سے عظمیٰ باجی کو دیا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔۔عظمیٰ جی۔۔۔۔ یہ آپ کے لیئے ۔۔۔۔۔ باجی نے بھا کے ہاتھ سے گلاب کا پھول لیا ۔۔۔اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔۔۔۔ اور کسنگ کرنے لگا۔۔پھر میں نے دیکھا کہ وہ دونوں پریمیوں کی طرح کسنگ کرتے کرتے پلنگ کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔ اور پھر پلنگ کے پاس پہنچ کر۔۔۔ وہ دونوں رُک گئے ۔۔۔اور باجی کہنے لگی۔۔۔ حمید آپ اتنی لیٹ کیوں آئے ہو؟ تو بھا نے بڑے رومیٹک لہجے میں کہا ۔۔۔ سوری ۔۔عظمیٰ جی۔۔ میں تھوڑا لیٹ تو ہوں ۔۔۔ لیکن آپ کی ساری کسر نکال دوں گا ۔۔۔اور ایک بار پھر باجی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیئے ۔۔۔ اور باجی کو اپنے قریب کر لیا۔۔۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بری طرح آپس میں لپٹے ہوئے تھے بھا کی ٹانگیں ۔۔ باجی کی رانوں کے ساتھ ملی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ۔۔ میں نے دیکھا ۔۔۔ کہ باجی اپنی ایک ٹانگ اُٹھا کر ۔۔۔ بھا کے لن پر مساج کر رہی تھی۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ دونوں طرف آگ لگی ہوئی تھی۔۔۔۔اور ان کے یہ سین دیکھ کر میری پھدی نے بھی جلنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اور پھر خود بخود میرا ہاتھ ۔۔۔ شلوار کے اندر چلا گیا۔۔۔۔ اور میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلیوں سے اپنی پھدی پر مساج شروع کردیا ۔۔۔۔


ادھر کچھ دیر تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر اپنی زبانوں کو لڑاتے رہے۔۔۔ پھر بھا نے۔۔۔ عظمیٰ باجی کو گھومنے کو کہا ۔۔۔ اور ۔۔۔ عظمٰی باجی نے ایسے ہی کیا۔۔۔۔ اب عظمیٰ باجی کی پشت بھا کی طرف تھی ۔۔۔ بھا آگے بڑھا اور اس نے پیچھے سے عظمیٰ باجی کو دبوچ لیا۔۔۔اور اپنے ہونٹ باجی کی گردن پر رکھ دیئے۔۔ باجی کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی۔۔۔۔اُف ف ف ف۔۔اور اس کے ساتھ ہی باجی نے اپنی گانڈ کو بھا کے لن کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ اور اپنی گانڈ کو بھا کے لن پر آہستہ آہستہ رگڑنے لگی۔۔۔۔ ادھر بھا ۔۔ کی زبان عظمیٰ باجی کی گردن سے ہوتی ہوئی اب ان کی کانوں کی لو تک آن پہنچی تھی۔۔۔۔ اور ۔۔بھا کے اس عمل سے عظمیٰ باجی ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔بھا کچھ دیر تک عظمیٰ باجی کی گردن ۔۔۔ کان کی پچھلی سائیڈ اور اس کے آس پاس کے ایریا میں باجی کو کسنگ کرتا رہا ۔۔اپنی زبان کو پھیرتا رہا ۔۔۔ جیسے جیسے بھا کی زبان ۔۔۔ باجی کی گردن پر پھرتی ۔۔ویسے ویسے ۔۔عظمٰی کی گانڈ ۔۔۔ بھا کے ساتھ جُڑتی جاتی تھی۔۔۔ اس کے بعد ایک دن باجی واپس گھومی اور ایک بار پھر باجی نے اپنا منہ بھا کے منہ کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی عظمیٰ باجی کا ایک ہاتھ رینگتا ہوا ۔۔۔۔ بھاکے لن کی طرف چلا گیا ۔۔۔اور اس نے پینٹ کے اوپر سے ہی بھا کا پھولا ہو ا۔۔۔ لن پکڑ لیا ۔۔اور اسے دبانے لگی۔۔۔۔

پہلے کی نسبت ان کی یہ کسنگ بڑی شارٹ رہی۔۔۔ اور جلد ہی دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ۔۔۔ پھر عظمیٰ باجی پلنگ کے کنارے پر بیٹھ گئی ۔۔۔ اور بھا کی پیٹ کی زپ کھولنے لگی۔۔۔۔ اور پھر اس نے زپ کھول کر بھا کا لن پینٹ سے باہر نکلا ۔۔۔۔ اور اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگی ۔۔۔۔اور بھا سے بولی۔۔۔ حمید تمھارا لن بڑا ٹھوس اور لوئے کی طرح سخت ہے ۔۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔۔۔ آپ کو اچھا لگا۔۔۔۔ تو باجی نے نشیلی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔ بہت ۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔۔ تو اس پڑ ۔۔ایک کس تو کڑیں۔۔۔۔ تو عظمیٰ باجی نے بھا کا لن دباتے ہوئے بھا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور مست آواز میں بولی۔۔۔۔ بس کس ہی کروں؟؟۔۔۔ یا۔۔۔۔۔تو بھا کہنے لگا۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ کس کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ تھوڑا ۔۔۔ منہ میں بھی لے لیں۔۔۔۔بھا کی بات سن کر عظمیٰ نے پھر ۔۔بھا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور بولی۔۔۔ کتنا منہ میں لوں ۔؟؟؟؟۔۔ تو بھا ۔۔ بھی مست لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ جتنا لے سکتی ہو۔۔۔ تب عظمیٰ اپنا منہ بھا کے لن کے قریب لے گئی۔۔۔۔ اور اس کے ٹوپے پر ایک کس کر دیا۔۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان نکالی ۔۔۔۔اور ۔بھا کے ٹھوس لن کے ارد گرد پھیرنے لگی۔۔۔۔ عظمیٰ کو اپنے لن پر زبان پھیرتے ہوئے دیکھ کر بھا کے منہ سے۔۔۔ کراہیں نکلنا ۔۔۔شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔ اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔عظمیٰ نے ایک نظر بھا کو کراہتے ہوئے دیکھا اور پھر اس کا لن اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔ اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ تھوڑی دیر لن چوسنے کے بعد اس نے لن کو اپنے منہ سے نکالا ۔۔۔اور اس کے چاروں طرف اپنی زبان پھیرنے لگی۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ عظمیٰ نےاپنی لمبی زبان سے بھا کے لن کولپیٹ لیا تھا ۔۔۔اور پھر اچانک بھا کے ٹوپے سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکلا۔۔۔۔ جسے عظمیٰ نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔۔۔اور بھا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ مزے کا تھا۔۔۔۔۔ اس کے بعد عظمیٰ پلنگ سے اُٹھی۔۔۔۔۔اور بھا کو اشارہ کیا ۔۔تو بھا جھٹ سے اپنے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔ادھر عظمیٰ نے بھی فوراً اپنی ساڑھی اتار دی تھی۔۔۔۔ اور اب ان دونوں کے جسموں پر کپڑے نام کی کوئی چیز نہ تھی۔۔۔۔دونوں بڑے غور سے ایک دوسرے کے ننگے جسموں کو دیکھ رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ عظمیٰ باجی کا شفاف اور تراشا ہوابدن دیکھ کر بھا کا لن بار بار اوپر کو اُٹھ رہا تھا۔۔۔پھر بھا ۔۔عظمیٰ کی طرف بڑھا اور ان کے دونوں مموں کو پکڑ کر ۔۔دبانے لگا۔۔۔ اس کے بعد اس نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور پہلے تو عظمیٰ کی زبان سے اپنی زبان لڑائی ۔۔۔ پھر وہ نیچے جھک گیا ۔۔۔اور عظمیٰ کے نپلز کو باری باری چوسنے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی عظمیٰ کے منہ سی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آوازیں ۔۔سنائی دینے لگیں ۔۔۔آہ۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ میرے دودھ ۔۔چوسو۔۔۔۔ اور چوسوونا۔۔۔۔ عظمیٰ باجی کے ممے چوستے چوستے رات کی طرح بھا نے ان پر کا ٹ لیا۔۔۔تو عظمیٰ تڑپ کر بولی۔۔۔۔ دانتوں سے تو نہ کاٹو نہ پلیزززززززززززز۔۔۔۔۔پھر بھا نے ۔۔۔ ان کے نپلز چوسے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ہاں ایسے حمید دددد۔۔۔ میری جان ایسے ۔۔۔۔ اور کافی دیر تک بھا عظمیٰ باجی کے ممے چوستا رہا ۔۔۔۔


اس کے بعد اس نے عظمی ٰ باجی کو پلنگ کے کنارہ پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔اور خود نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔۔۔ عظمیٰ باجی پلنگ پر لیٹی اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں آخری حد تک کھول دیں۔۔۔ جس سے عظمیٰ باجی کی چوت نمایاں ہو کر سامنے آ گئی۔۔۔۔عظمیٰ باجی کی چوت کی لکیر خاصی لمبی اور پھدی ۔۔ ساتھ لگی ہوئی تھی یعنی کہ میری طرح ان کی پھدی ابھری ہوئی نہ تھی۔۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی پھدی کے ہونٹ تھوڑے لٹکے ہوئے تھے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے ۔جبکہ ان کی پھدی پر کالے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال بھی تھے۔۔۔اور باجی کی چوت کا دانہ۔۔۔ خاصہ موٹا اور رنگ اس کا براؤن تھا ۔۔۔۔اور ۔۔اس وقت خاصہ پھولا ہوا تھا۔۔۔ اور عظمیٰ باجی کی پھدی کی لیکر سے پانی رس رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک بھا ۔۔بڑے غور سے سے عظمیٰ کی چوت کا جائزہ لیتا رہا۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ عظمیٰ نے سر اُٹھا کر ۔۔ بھا سے کہا۔۔۔۔ حمید ۔۔۔ کیا کر رہے ہو؟ تو بھا کہنے لگا ۔۔۔وہ عظمیٰ جی میں اپ کی چوت کا نظاڑہ کر رہا ہوں ۔۔تو عظمیٰ باجی ۔۔۔اٹھلا کر بولی ۔۔۔۔ کیسی لگی میری چوت؟ تو بھا نے کہا ۔۔۔۔ چومنے کو جی کرتا ہے تو عظمیٰ کہنے لگی۔۔۔۔ چوم نا ۔۔۔ منع کس نے کیا ہے۔۔۔ عظمیٰ باجی کی بات سُن کر بھا نے اپنی موٹی زبان کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور ۔۔۔ پھر پھر اس کو عظمیٰ کی تپتی ہوئی چوت کے نرم ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔۔اور اسے چاٹنے لگا۔۔۔۔۔عظمیٰ نے جیسے ہی بھا کی موٹی زبان کو اپنی چوت کے لبوں پر محسوس کیا ۔۔۔وہ ۔۔۔ ہلکی سی کراہی۔۔۔۔ ہائے۔۔۔اور پھر بھا سے بولی۔۔۔۔ حمید ۔اب ۔۔ میرے دانے کو چوس۔۔۔۔ ہائے میرا دانہ۔۔۔اور عظمیٰ کی بات سُن کر بھا نے باجی کے موٹے سے دانے کو اپنی دونوں ہونٹوں میں پکڑا ۔۔۔۔اور پھر اسے چوسنے لگا۔۔اس کے ساتھ ہی بھا نے بڑی آہستگی سے اپنی دو انگلیاں ۔۔۔ عظمیٰ کی چوت میں گھسا دیں ۔۔۔۔ عظمیٰ نے مزے سے ایک بار پھر سسکنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ بھا کو ہدایت بھی دیتی رہی۔۔۔ جیسے ۔۔اب دانے کو چھوڑ ۔۔۔ میری چوت کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے ۔۔۔یس یس۔۔۔۔ایسے ہاں ایسے۔۔۔ اپنی انگلیاں کو میری پھدی سے نکالو ۔۔اور زبان کو لن بنا کر ۔۔۔۔ میری چوت کی دیواروں کو چاٹو۔۔۔۔یس ۔۔۔یس۔۔۔۔ اور چاٹو۔۔۔چاٹ ٹ۔۔۔ٹ حرامزدے اور چاٹ۔۔۔آہ۔۔۔ آوہ۔۔۔۔۔ حمیدددددددددددددددددددد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی عظمیٰ کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔


 عظمیٰ باجی کی چوت اچھی طرح چاٹنے کے بعد بھا اوپر اُٹھا۔۔۔۔۔ اور عظمیٰ کے پا س پلنگ پر چلا گیا۔۔۔۔ عظمیٰ نے بھا کو اپنے پاس آتے دیکھا تو وہ بھی پلنگ سے اُٹھی اور ۔۔۔۔ جیسے ہی بھا اس کے پاس پہنچا تو اس نے بھا کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ایک بار پھر چوپا لگانے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے کرنے کے بعد وہ سیدھی لیٹ گئی اور خود ہی اپنی ٹانگوں کو اُٹھا کر بولی۔۔۔۔ حمید ۔۔۔۔چود مجھے۔۔۔۔۔۔ اور بھا نے عظمیٰ کی بات سنی اور وہ ان کی دونوں ٹانگوں کے درمیان آ گیا ۔۔۔اور پھر انہوں نے عظمیٰ کی دونوں ٹانگوں کو اُٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا ۔۔۔ عظمیٰ کے چوپے کی وجہ سے بھا کا لن پہلے ہی گیلا ہو چکا تھا اس لیئے بھا نے لن کے ہیڈ کو گیلا نہیں کیا کہ وہاں پہلے سے ہی عظمیٰ کا تھوک لگا ہوا تھا۔۔۔ اور پھر بھا نے اپنا لن عظمیٰ کی چوت کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔تو عظمیٰ بولی۔۔۔۔۔ حرامزدے ۔۔۔۔ میرے اند ر ڈال نا۔۔۔۔۔ بھا نے ایک نظر عظمیٰ کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر اس نے اپنے جسم کو ہلکا سا پش کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بھا کا لن عظمیٰ کی چوت میں اتر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی بھا کا لن عظمیٰ کی چوت میں گھسا۔۔۔اس نے ۔۔۔۔ سسکی کی اور بولی۔۔۔۔ ایسے ڈال نا۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔۔ حمید ۔۔۔۔ میری پھدی مارو۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ گھسے ۔۔زور دار ررررررررر ۔۔۔۔ہوں ۔۔اور بھا میدے نے عظمیٰ کی گرم باتیں سنیں تو وہ بھی مست ہو گیا اور پھر اس لن کو عظمیٰ کی چوت میں ڈال کر کہا۔۔۔ 


عظمیٰ جی ۔۔۔۔گھسوں کے لیئے تیاڑ ہو جاؤ۔۔۔ اور پھر بھا نے عظمیٰ کی چوت میں پاور فل گھسے مارنے لگا۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا اور سنا کہ عظمیٰ باجی کے کمرے سے دھپ دھپ دھپ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔۔۔ ادھر عظمیٰ اپنے عروج پر تھی اور وہ چوت مرواتے ہوئے چلا رہی تھی۔۔۔۔ سالے ۔۔۔چود مجھے۔۔۔۔اور چود ۔۔۔۔ میری پھدی ماررررررررر۔۔۔۔۔۔۔اور مارررررر۔۔۔۔ اور جیسے جیسے بھا کی دھکوں میں شدت آتی جاتی تھی عظمیٰ کی سسکیوں اورآہوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب عظمیٰ با ر بار ایک ہی بات کہے جا رہی تھی ۔۔۔ مجھے چود و۔۔۔مجھے چودووووووووووووووووووووو۔۔۔۔۔۔۔بلاشبہ عظمیٰ باجی بڑی ہی ہاٹ لیڈی تھی ۔۔ بھا کے اتنے طاقتور گھسوں کو وہ بڑے شوق سے برداشت کر کے بھا کو مزید مارنے کے لیئے ابھارتی تھی اور کہتی تھی ۔۔۔چودو ،۔۔۔ مجھے چودووووو۔۔۔۔اور میں اپنی پھدی کو مسلتے ہوئے بھا اور عظمیٰ کے یہ گرم سین بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور اسی دوران میری چوت نے ایک دو دفعہ پانی بھی چھوڑا تھا ۔۔۔ لیکن بھا اور عظمیٰ باجی کی چودائی اتنی ہاٹ تھی ۔۔۔ کہ میری پھدی پھر سے گرم ہو رہی تھی۔۔۔ کمرے کے اندر بھا عظمیٰ باجی کی پھدی کی پٹائی کر رہا تھا ۔۔۔اور باہر مین اپنی پھدی کو مسل رہی تھی ۔۔۔۔ میں اندر کا منظر دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک مجھے اپنےاطراف سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ آواز میں نے سنی ضرور ۔۔۔ لیکن ۔۔۔اند رکا منظر دیکھنے کے شوق میں ۔۔۔۔ میں نےا سے نظر انداز کر دیا ۔۔اور اندر کا چودائی سین دیکھنے لگی۔۔ پھر اس کے بعد مجھے اسی سرسراہٹ کی آواز ۔۔تھوڑی نزدیک سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔یہ آواز سن کر میں چونک پڑی ۔۔۔۔ اور کن اکھیوں سے اپنے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔ میں ابھی آس پاس کا جائزہ لے ہی رہی تھی ۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر مجھے اسی سرسراہٹ کی آواز محسوس ہوئی۔۔ یقیناً ۔۔ میرے آس پاس کوئی تھا۔۔کون ہو سکتا ہے ؟؟؟۔ یہ سوچ کر میں ایک دم چوکنی ہو گئی اور بڑے غور سے آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اسی آواز کی سمت کا تعین کیا اور ۔۔آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔ پھر اچانک اسی سرسراہٹ کی آواز ۔۔ عین میرے پیچھے سے آئی ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتی ۔۔۔۔ ایک ہاتھ آگے بڑھا ۔۔۔ اور اس نے بڑی سختی سے میرے منہ کو دبا لیا ۔ میں نے مزاحمت کرنے کی بڑی کوشش کی ۔۔ لیکن اس ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی ۔۔۔ کہ میں مچل کر رہ گئی ۔۔۔ کسی نے مجھے بری طرح قابو کر لیا۔تھا۔۔مجھے قابو کرنے کے بعد ۔۔ وہ مجھے گھسیٹ کو دوسری طرف لے گیا۔۔۔ یہ کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی۔۔۔۔ کہ پھر ۔اس کے بعد ۔چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Post a Comment

0 Comments