Ad Code

Bhabi G


دوستو میرا نام احسن ہے اور میں وسطی  پنجاب  کے ایک گاؤں میں رہتاہوں.  میرے گھر میں میرے علاوہ میری ماں باپ, ایک بڑا بھائی ایک بھابی اور دو بہنیں رہتی ہیں والد سرکاری ملزم ہیں اور کاشتکاری بھی کرتے ہیں والدہ گھریلو خاتون ہیں.  بھائی محسن لاہور میں پرائیویٹ نوکری کرتے انکی عمر 26 سال ہے بھابی کا نام نبیلہ ہے اور وہ  23 سال کی ہیں. بڑی بہن عظمیٰ بھی بھابی کی ہم عمر ہیں وہ بی اے کر چکی ہیں  اور ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں.ان کی منگنی میرے چچازاد نوید سے ہوچکی ہے. میری عمر 21 سال ہے اور میں  قریبی شہر سے کمپیوٹر میں بی ایس ہی کررہا ہوں. چھوٹی بہن ثوبیہ ایف ایس سی کر رہی ہے اور میرے ساتھ موٹر سائیکل پر شہرجاتی ہے.نبیلہ بھابھی



محسن بھائی مہینے میں ایک بارگھر آتے ہیں.ان کی شادی کو 2 سال ہوگئے ہیں.  شادی کے موقع پر وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کی چھٹی لے لر آئے تھے اسکے بعد انہیں نوکری پر جانا پڑا. یہ تقریبآ ایک سال پہلے کئ بات ہے  گرمیوں کے دن تھے ہم دوپہر کو سوئے ہوئے تھے کہ میں واش روم جانے کیلئے اٹھا  جب محسن کے کمرے کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ بھائی محسن اور بھابی نبیلہ کے کمرے سے سیکسی آوازیں آرہی تھیں.میں  قریب جاکر کھڑکی کی ایک سائیڈجوکہ ٹوٹی ہوئی تھی وہاں سے اندر دیکھنے لگا تو ایک حسین منظر میرا منتظر تھا.

اندر دیکھا تو بھائی اور بھابی دونوں کے کپڑے آدھے اترے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو شدت سے کس کررہے تھے محسن کا ہاتھ نبیلہ کی گانڈ پر تھا جبکہ نبیلہ نے اسے کس کر  جکڑا ہوا تھا. تھوڑی دیر بعد محسن نے اسے کہا تیارہوجائو چدائی کیلئے تونبیلہ بولی ابھی نہیں رات کوکریں گے مگر محسن نہ مانا اور اسے لٹا کر شلوار نکال دی  اپنا لنڈ اس کی پھدی  کے سوراخ پر رکھا اور ایک زور کا جھٹکا مارا حس سے لنڈ آدھا اندر چلا گیا. نبیلہ مزے کی شدت سے تڑپنے لگی اور محسن کو دیوانہ وار چومنے لگی. محسن نے لنڈ باہر نکال کر پورا اندر گھسیڑ دیا.  اور زور سے چدائی شروع کردی. محسن کا سٹیمنا اچھا تھا اس نے تقریباً  پندرہ منٹ چدائی کی اور پھدی کے اندر ہی پانی چھوڑ دیا.

محسن اور نبیلہ کی چدائی دیکھ کر  میرا برا حال تھا لنڈ کھڑا ہو چکا تھا اور میں ہاتھ سے مٹھ مار رہا تھا. چدائی ختم ہونے کے بعد نبیلہ نے جلدی سے کپڑے پہنے اور باہر کا رخ کیا میں جلدی سے قریبی باتھ روم میں گھس گیا. لیکن بھابی نے مجھے اندر جاتے دیکھ لیا.  

اس واقعے کے دو دن بعد بھائی لاہور چلے گئے. میرا نبیلہ کو دیکھنے کا انداز ہئ بدل گیا جب بھی وہ میرے سامنے آتی میرے دماغ میں وہ سارا سین چلنے لگتا. شاید بھابی نے بھی مجھ میں اس تبدیلی کو محسوس کرلیا تھا لیکن وہ بولی کچھ نہیں. میرا دل کرتا تھا کہ میں بھابی کو پکڑ کر چود دوں.

اس واقعے سے تقریبآ ایک ماہ بعد  کی بات ہے کہ  کہ ایک دن میں نبیلہ بھابی اور ثوبیہ نے کچھ خریداری کیلئے شہر جانا تھا.زیادہ افراد اور خریداری کے سامان کی وجہ سے ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ سے جانے کا فیصلہ کیا شہر ہمارے گاؤں سے 15 کلومیٹر دور تھا ہم ہائی ایس میں بیٹھ کر شہر پہنچ گئے.سارا دن خریداری میں مصروف رہے. واپسی پر دیر ہوگئی اور ہائی ایس بند ہوگئیں, تھوڑی دیر بعد ایک بس آئی جوکہ کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ہم بھی موقع کی مناسبت سے اس میں سوار ہوگئے. وہاں سیٹ ملنا تو دور کی بات کھڑے ہونےکی جگہ نہیں مل رہی تھی. میں دوسرے لوگوں کو نبیلہ اور ثوبیہ سے دور رکھنے کیلئے ان کے قریب ہوگیا.بھابی ثوبیہ اور میرے درمیان اس طرح کھڑی تھی کہ بھابی کا منہ ثوبیہ کی طرف اور گانڈ میری طرف تھی دھیرے دھیرے میں میرا لنڈ بھابی کی گانڈ کی دراڑ میں جالگا حس سے مجھے لطف آنے لگا یہ پہلا موقع تھا جب بھابی میرے اتنے قریب آئی تھی نرم نرم گانڈ نے اتنا مزہ دیا کہ میں آہستہ آہستہ ہلنے لگا. بس کی بریک  اور لوگوں کےدھکوں کا میں خوب فائدہ اٹھا رہا تھا. بھابی کو میں یہی شو کررہا تھا کہ یہ سب  بےدھیانی میں کررہا ہوں میرا خود پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا میرے دھکوں کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ بھابی نے بھی محسوس کرلیا. اور اس نے گانڈ کو ایک طرف کرنے کئ کوشش کی مگر بھیڑ کی وجہ سے نہ کرسکی. اسی دوران ہمارا سٹاپ آگیا اور ہم اتر گئے.

اگلے دن میں کالج سے واپس آکر کھانا کھارہا تھا کہ بھابی کمرے میں آگئیں مجھے وہ کچھ سنجیدہ نظر آرہی تھیں.  انہوں نے پوچھا احسن یہ کیا حرکت تھی میں نے کہا کیا بھابی؟ کل تم بس میں میرے ساتھ کیا کر رہے تھے میں بھابی کے لہجے کودیکھ کر ڈرگیا اور کہا کچھ نہیں. تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی؟ میں نےکچھ نہیں کیا لوگ دھکے دے رہے تھے. میں دھکے اور جو تم کر رہے تھے اس میں فرق سمجھتی ہوں.سوری بھابی میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا. تم نے براکیا یہ کہہ کر بھابی چلی گئی.

اس واقعہ کے بعد میں بھابی کے پاس جانے سے کتراتا رہا کیونکہ میں خوفزدہ تھاکہ کہیں بھابی کسی کو بتا نہ دے.میں نہ صرف یہ کہ اس سے بولتا نہیں تھا بلکہ اس کے سامنے بھی نہیں جاتا تھا. 

ایک دن مجھے عظمیٰ نے بلایا اور کہا  کہ گھر میں مہمان آرہے ہیں تم جلدی سے مجھے سامان لادو میں سامان لے کرآیا تو پتہ چلا کہ چچا چچی زہرہ اور دوسرے لوگ گھر میں موجود تھے. آس وقت بھابی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا آس وقت ان کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکان تھی انہوں نے پوچھا کہ تمہیں پتا ہے یہ لوگ کیوں آئے ہیَں میں نےکچھ نہیں تو آس نے مسکرا لر کہا یہ تمہاری منگنی کیلئے آئے ہیَں. 

یہ سن کر میرا دل بلیوں  اچھلنے لگا میں نے جذبات میں بھابی کو زور کی جپھی ڈال لی . بھابی نے مسکراتے ہوئے مجھے خود سے دور کیا میں بہت خوش تھاکہ اب عالیہ میری بیوی بنے گئ.

عالیہ میرے چچا کی بیٹی تھی. میرے چچا یوسف کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے.سب سے بڑی سمیرا تھی دوسرے نمبر پر عالیہ تھی جو سب سے حسین  تھی. تیسری کا نام کومل تھا. میرے چچا شہر میں رہتے تھے اور ان کا کاروبار بھی وہیں تھا. سمیرا ایف ایس سی  کررہی تھی وہ ثوبیہ کی کلاس فیلو اور دوست  تھی عالیہ نے میٹرک کرلیا تھا اور اب فرسٹ ایئر  طالبہ تھی. میں نے ہمیشہ عالیہ کے ہی خواب دیکھے تھے. 

لیکن آس دن جو ہوا وہ میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا میں بہت خوش تھاکہ آج سے عالیہ میری ہے.  مگر شام کو مجھے پتہ چلا کہ میری منگنی سمیرا سے کردی گئی ہے.

سمیرا بھی خوبصورت تھی مگر مجھے عالیہ پسند تھی.

سمیرا نے اس دن کے بعد ہمارے گھر آنا بندکردیا تھا. میں نے عالیہ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ مجھے ایک بہنوئی کی نظر سے دیکھتی تھی اوراس نے مجھ سے ہنسی مذاق شروع کردیا. جیسے وہ میری سالی ہو میں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرنا شروع کردیا.

منگنی سے ایک مہینے بعد کی بات ہے بھابی نے امی سے مائیکے جانے کیلئے کہا تو امی نےمجھے کہا کہ میں اسے چھوڑ آئوں.ہم موٹرسائیکل پر روانہ ہوئے جب انکے گھر پہنچے تو مغرب کا وقت ہو گیا.بھابی کے گھروالوں نے مجھے روک لیا. میں آپ کو یہاں بھابی کے خاندان کے بارے میں بتادوں کہ اس کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں بڑے دو بھائیوں کی شادی ہوچکی ہے جو اسی گائوں میں الگ گھروں میں رہتے ہیں.ایک بہن بھی شادی شدہ ہے. والد وفات پاچکے ہیں.گھر میں صرف انکی امی چھوٹا بھائی خالد اور بہن رہتے ہیں.  میں رات کو خالد کے کمرے میں سوگیا.

پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا میں واش روم جانےکیلئے صحن میں آیا. فارغ ہو ہو کر کمرے میں جارہاتھاکہ برآمدے کئ ایک سائیڈ  پر میں نے ایک سایہ دیکھا. مجھے لگا کہ کوئی چور ہے.  میں دبے پاؤں چلتا ہوا وہاں پہنچا تو مجھے دبی دبی آوازیں سنائی دیں اوٹ سےدیکھا تو بھابی اور اسکا کزن رفیق تھے. رفیق کاایک بازو بھابی کی کمر میں اور دوسرا اسکے گال پر تھا. بھابی نے کہا دیکھو رفیق یہ ٹھیک نہیں ہے اب میری شادی ہوچکی ہے. رفیق: لیکن میں کیا کروں تمہارے بغیر چین نہیں آتا.  آج تھوڑا سا پیارکرنے دو.  یہ کہہ کر اس نے بھابی کو بھرپور کس کی اور بانہوں میں جکڑ لیا.  مجھے یہ سب دیکھ کر بہت غصہ آرہا تھا. رفیق نے کس کرنے کے دوران بھابی کی گانڈ پر ہاتھ رکھ دیئے اور اسے دبانے لگا.پھر اس نے ایک ہاتھ قمیص میں ڈال دیا اور بھابی کی پیٹھ پر پھیرنے لگا. پھر اس نے بھابی کا ایک مما ننگا کردیا اوراپنا منہ اس پر رکھدیا

پھر بھابی بھی گرم ہونے لگیں اورانہوں نے بھی رفیق کا جواب دیتے ہوئے اسے کس کرنا شروع کردیا.  رفیق نے کچھ دیر بعد بھابی کو الٹا کرکے چارپائی پر لٹا دیا اور ان کی شلوار نکال دی.  مجھے بھابی پر بہت غصہ آرہاتھا لیکن اپنی اور اسکی بدنامی کے ڈر سے چپ رہا. رفیق نے قمیص کا دامن اٹھایا تو نیم تاریک ماحول میں ایک خوبصورت گانڈ کا نظارہ میرے سامنے آگیا. رفیق نے اپنا لنڈ ہاتھ میں پکڑا اور نبیلہ کی چوت پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ اندر داخل کرنے لگا. نبیلہ بھی بہت گرم ہوچکی تھی جب آدھا لنڈ  پھدی میں چلا گیا تو نبیلہ  سے برداشت نہ ہوا اور اس نے اپنی بنڈ کو پیچھے کی طرف زور سے جھٹکا اور سارا لنڈ اندر لے لیا. میں ایسے کھڑا تھا جیسے کسی نے مجھ پر جادو کردیا ہو.  مجھے بھابی پر بہت غصہ آرہا تھا محض سے مزید برداشت نہ ہوا اور میں وہاں سے کمرے میں آگیا. بھابی کا یہ ایک نیا روپ مجھے نظر آیا تھا  مجھے ساری رات نیند نہیں آئی.  صبح میں بھابی سے ملے بغیر وہاں سے نکل آیا.

ختم شدہ



Post a Comment

0 Comments