Ad Code

cousin se cousins tak part 1

 From cousin to cousins

Incest


From cousin to cousins


Hello friends!

My name is Arsalan and this is my first attempt to serve you all. I hope you all like it

ہیلو دوستو ! 

میرا نام ارسلان ہے اور یہ میری پہلی کوشش ہے جو آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں امید ہے کہ یہ آپ سب کو پسند آئے گی۔

آپ سب جانتےہیں کہ تقریباً اس ٹائپ کی سبھی کہانیاں جو لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ان میں سچائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے صرف چند ایک کہانیاں ایسی ہونگی جن کو سچی کہانی کہا جا سکے اور ان میں بھی مسالہ ضرور ایڈ کیا جاتا ہے۔

میری یہ کہانی صرف انٹرٹینمنٹ کے نظریے پر لکھی جارہی ہے ۔ تو آپ سب سے گذارش ہے کہ اسے انٹرٹینمنٹ کے طور پر ہی پڑھا جائے۔

کیونکہ یہ میری پہلی کہانی ہے اس لئے اگر کوئی کمی بیشی رہ جائے تو ایڈوانس معذرت چاہتا ہوں اور آپ سب سے بھی یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی اگنور کریں گے ۔ اکر کہانی پسند آئے تو حوصلہ افزائی ضرور کیجیے گا ۔

شکریہ !

اب آتے ہیں کہانی کی طرف۔۔۔

تو سب سے پہلے میں اپنا اور اپنی کہانی کے کرداروں کا تعارف کروا دیتا ہوں۔

میں ۔ میرا نام اس کہانی میں ارسلان ہوگا یہ ایک فرضی نام ہے کیونکہ کہانی ہی فرضی ہے تو سبھی نام بھی فرضی ہی ہونگے ۔

عمر ؛ 22 سال ؛ قد ؛ 5فٹ 10 انچ ۔

جسمانی ساخت درمیانی ۔ یعنی نہ زیادہ موٹا اور نہ زیادہ پتلا ۔ رنگ فئر ، 

 کوئی لڑکی پہلی نِظر میں فریفتہ نہ بھی ہو مگر آسانی سے اگنور بھی نہیں کرسکتی۔

نوشابہ ! میری گرل فرینڈ ہے ۔ اور میرے ماموں کی سب سے بڑی بیٹی ہے، مجھ سے تقریباً تین سال چھوٹی یعنی انیس سال کی ہے ۔ رنگ گورا ، بالکل سلم اینڈ سمارٹ سینہ اندازاً 32 کے لگ بھگ

پتلی کمر اور کولہے بالکل گول مٹول زیادہ باہر کو نکلے ہوئے نہیں ہیں مگر دلفریب ہیں مکمل طور پر ایک بہت خوبصورت لڑکی ہے۔

ماہ رخ : میری گرل فرینڈ کی بہن ،یعنی میرے ماموں کی چھوٹی بیٹی ۔

نوشابہ سے دو سال چھوٹی ہے، رنگ بیشک تھوڑا سانولا ہے مگر پرکشش چہرہ اور کمال کا فیگر ہے ، سینہ کمر اور کولہے اس کے جسم کے حساب سے بالکل پرفیکٹ ہیں ۔

سائمہ : نوشابہ سے 3سال اور ماہ رخ سے 1 سال چھوٹی ہے 

سب اسے پیار سے سیمی کہتے ہیں ۔ اپنی دونوں بڑی بہنوں نوشابہ اور 

ماہ رخ کی طرح وہ بھی سیکسی فیگر کی مالک ہے اس کے فیگر اور شیپ کی بات اسہی وقت ہوگی جب اس کے ساتھ سیکس کا ٹائم آئے گا ۔

ان دونوں کے علاوہ نوشابہ کی دو بہنیں اور بھی ہیں جو بہت چھوٹی ہیں 

میرے علاوہ میری ایک بڑی بہن بھی ہے جو مجھ سے تقریباً 8 سال بڑی ہے اسکی شادی کو 9 سال ہوگئے ہیں اسکا نام صباء ہے ۔ لیکن کہانی میں اسکا کوئی کردار نہیں ہے اس لئے اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔

میرے ایک چچا اور چچی کا بہت عرصہ پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا اس وقت ان کی دو بیٹیاں تھیں جنہیں میرے والدین نے اپنی بیٹیاں بنا کر اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا ہم ایک دوسرے کو کزنز نہیں بلکہ سگے بہن بھائی ہی مانتے ہیں ۔

مشال : میرے چچا کی بیٹی یعنی میری سب سے چھوٹی بہن ، سائمہ کی ہم عمر ہے لیکن نوشابہ کی پکی سہیلی ہے بہت ہی خوبصورت ہے گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی اور ایک نمبر کی ضدی طبعیت کی ہے اسکا باقی تعارف وقت آنے پر کراوں گا ۔

میرے چچا کی دوسری بیٹی یعنی میری دوسری بہن کا نام شفق ہے اور وہ مجھ سے ایک سال بڑی ہے ۔ کمال کا فیگر ہے تنے ہوئے بوبز پتلی کمر اور باہر کو نکلے ہوئے کولہے ۔ اسکا باقی تعارف بھی بعد میں کراوں گا ۔

ان کے علاوہ جو جو کردار کہانی میں داخل ہوتا جائے گا ساتھ ساتھ اسکا تعارف ہوتا رہے گا۔

میرے پاس لکھنے کو بہت مواد ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے سٹارٹ کروں ۔ باقائدہ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپکو بتاتا چلوں کہ میں نے اس کہانی میں سیکس سین سے زیادہ سیکسی ڈائلاگ پر زیادہ فوکس کیا ہے 

سیکس سین تو ہر کہانی میں ہی تقریباً

ایک جیسے ہوتے ہیں یعنی ہونٹوں کی چسائی ممے دبانا پھدی چاٹنا اور لن اندر ڈال کر دے دھنادھن دھکے سٹارٹ اب اسکو جتنا مرضی لمبا کھینچ لو ہونا تو بس ایک ہی کام ہے ۔ میری ذاتی رائے کے مطابق اصل مزہ سیکس سے پہلے کی گفتگو اور سیکس کے بعد کی گفتگو میں ہے اسہی لئے میں ان باتوں پر زیادہ دھیان دوں گا سیکس سینز پر بھی فوکس کروں گا لیکن بہت زیادہ لمبا یا بہت زیادہ چھوٹا نہیں کروں گا ۔ اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر علی پور کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے ہیں ۔ نوشابہ کا گاؤں بھی ہمارے گاوُں سے کچھ ہی فاصلے پر ہے یعنی پیدل ایک گھنٹے اور موٹر سائیکل پر تقریباً دس منٹ کا سفر ہے ۔

ہمارہ تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے میرا ایک بھائی دوبئی میں ہوتا ہے اور ایک بھائی آرمی میں ہے ۔

نوشابہ کے ابو یعنی میرے ماموں سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور اس کے بھائی ابھی چھوٹے ہیں ۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو ہم بہت امیر کبیر تو نہیں ہیں مگر اپنی ضروریات ہم بہت اچھے سے پوری کر لیتے ہیں ۔

ہمارے گاؤں میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے میری پڑھائی لیٹ شروع ہوئی جسکی وجہ سے میں اور نوشابہ ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ، لیکن میرے نمبر ہمیشہ نوشابہ سے زیادہ آتے تھے ۔

بات اس وقت کی ہے جب 8 کلاس کا رزلٹ آیا تو پتہ نہیں کیوں میرے نمبر نوشابہ سے کم آئے ۔

ان دنوں میرے ماموں یعنی نوشابہ کے ابو بھی سعودی عرب سے چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے ۔

وہ ہمارے گھر بھی آئے اور باتوں باتوں میں امی سے پوچھنے لگے کہ اس بار ارسلان کے نمبر نوشابہ سے کم کیوں آئے ہیں اسکا دھیان پڑھائی میں نہیں ہے یہ کیا کرتا رہتا ہے ؟

امی کو تو جیسے میری شکایت کا موقع مل گیا کہنے لگیں ،کیا بتاوں بھائی ارسلان اب بگڑتا جا رھا ہے اور پڑھائی پر بالکل بھی دھیان نہیں دیتا میں تو بول بول کر تھک گئی ہوں جب دیکھو گراونڈ میں کرکٹ کھیل رہا ہوتا ہے اسہی لئے اب کی بار نمبر بھی کم آئے ہیں ۔ میرے تو ہاتھ ہی نہیں آتا مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اس نے ۔

ماموں نے مجھے بلایا اور کہا کہ اب تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے اور وہیں رہو گے اب میں تمھارا علاج کروں گا دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں پڑھتے ۔ اور مجھے لے کر اپنے گھر آگئے ۔

مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے گھر جانا کس طرح میری زندگی بدل دے گا ۔

گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ماموں نے مجھے ٹیوشن ڈال دیا اور گھر سے باہر جانے پر بھی پابندی لگا دی ۔

اب میں ،نوشابہ اور ماہ رخ ایک ہی ٹیچر کے پاس پڑھنے جاتے تھے ۔

میرا ٹائم 8 بجے شروع ہوتا اور 10 بجے چھٹی ہوجاتی اسکے بعد نوشابہ اور ماہ رخ کا ٹائم شروع ہوجاتا میں انھیں پہنچا اور واپس لے آتا میرے وہاں جانے سے نوشابہ وغیرہ بہت خوش تھے ۔

لیکن میں کچھ دن اداس رہا کیونکہ مجھے اپنے دوستوں سے بچھڑنے کا دکھ تھا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے رہے میں بھی ایڈجسٹ ہوگیا اب میرا بھی وہاں دل لگ گیا ہم سب اکھٹے ہی پڑھتے تھے اور ایک ساتھ ہی کھیلتے تھے اس وقت مجھے سیکس کا کوئی تجربہ نہیں تھا 

دوستوں کے ذریعے اس بات کا علم تو تھا کہ سیکس کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے ، لیکن مجھے لڑکی پٹانے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا ۔

ہم لوگ کھیل بھی بچوں والے ہی کھیلتے تھے سیکس یا گندے کاموں کی طرف ذہن ہی نہیں جاتا تھا ۔

میرے دوسرے ماموں کا گھر بھی اسہی گاؤں میں قریب ہی تھا فارغ وقت میں ان کے گھر بھی چلا جاتا تھا ۔ میرے اس ماموں کا ایک ہی بیٹا ہے جو میرے بڑے بھائی کا ہم عمر ہے میرے اس ماموں کا نام شکیل ہے ایک دن شکیل ماموں کے گھر شہر سے کچھ مہمان آئے ان کے ساتھ دو لڑکیاں بھی تھیں وہ دِکھنے میں اتنی خوبصورت نہیں تھیں جتنا بَن کر دِکھا رہی تھیں ۔

شہر میں رہنے کی وجہ سے وہ کافی تیز تھیں انھوں نے ہم لوگوں سے گُھلنے مِلنے کی بہت کوشش کی لیکن نوشابہ اور اسکی بہنوں نے اُنھیں لفٹ ہی نہ کروائی

جب میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے تو نوشابہ بولی کہ ایسی کوئی بات نہیں بس میرا دل نہیں چاہتا ان سے بات چیت کرنے کو میں بھی چپ کرگیا ۔

انھیں گاؤں آئے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے اور وہ یہ بھی نوٹ کررہیں تھیں کہ ہم سب ہمیشہ اکھٹے ہی رہتے ہیں ، یہاں تک کہ رات کو سوتے وقت بھی چھت پر ہماری چارپائیاں بھی ساتھ ساتھ ہی ہوتیں تھیں ۔

ایک دن ہم سب چھت پر کھیل رہے تھے نوشابہ کی چھٹیوں کے بعد سکول میں پرفارمنس کرنی تھی وہ اسی کی تیاری کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ مجھے بھی سکھا رہی تھی ۔

اتنے میں وہ دونوں بھی ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور ہمیں دیکھنے لگیں اور ساتھ ساتھ آپس میں باتیں کرتیں اور ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنس دیتیں ۔

یہ بات نوشابہ کو بہت بُری لگی اور وہ اُٹھ کر نیچے چلی گئی اور اُس کے پیچھے میں بھی چل پڑا ، ماہ رخ بھی میرے ساتھ ہی آنے کے لئیے اُٹھ کھڑی ہوئی تو اُنھوں نے ماہ رخ کو روک لیا تو وہ اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی اور میں نیچے آگیا ۔

ماہ رخ کافی دیر اُن کے ساتھ اُوپر ہی بیٹھی رہی اور جب واپس آئی تو پریشان لگ رہی تھی ۔

رات کو ہم سب سونے کے لئیے لیٹ گئے

نوشانہ اور ماہ رخ ایک ہی چاپائی پر سوتی تھیں اور میری چاپائی بالکل ان کے ساتھ ہوتی تھی میں نے ماہ رخ سے پوچھا کہ جب سے وہ ان کے پاس سے آئی ہے پریشان نظر آرہی ہے کیا بات ہے 

وہ بولی ایسی کوئی بات نہیں میں کیوں پریشان ہونے لگی ، لیکن میں نہ مانا اور نوشابہ بھی اس سے پوچھنے لگی تو 

ماہ رخ بولی ابھی نہیں پہلے ان کو چلے جانے دو اس کے بعد سب کچھ بتا دوں گی ۔ میں نے سوچا ضرور دال میں کچھ کالا ہے کوئی ایسی ویسی بات ہی ہوگی اس لیے میں نے زیادہ زور دیا تو ماہ رخ ناراض ہونے لگی اور بولی کہ اُن کے جانے سے پہلے بالکل نہیں بتاوں گی 

تو میں خاموش ہوگیا ۔

اگلے دن میں انھیں ٹیوشن سے لے کر واپس آرہا تھا میں آگے آگے چل رہا تھا 

نوشابہ اور ماہ رخ پیچھے پیچھے آرہی تھیں مجھے ماہ رخ کی آواز آئی وہ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ تم کل سے ہمیں لینے کے لئیے مت آنا میں بولا کیوں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ تم منع کر رہی ہو 

ماہ رخ بولی کچھ نہیں ہوا بس تم کل سے مت آنا ہم خود ہی آجایا کریں گے ۔

میں نے کہا کچھ ہوا بھی ہے مجھے تو بتاو ، وہ بولی کچھ نہیں ہوا بس کل سے نہ آنا ۔

اس پر مجھے بھی غصہ آگیا میں نے کہا ٹھیک ہے نہیں آؤنگا گھر جاکر پہلے ممانی کو یہی بات کہہ دینا ، یہ کہہ کر میں تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر کی طرف چل پڑا ۔ گھر پہنچ کر مجھے بہت الجھن سی ہورہی تھی ایسا کیا ہوا اور وہ کچھ بتا بھی نہیں رہی ہے اسہی غصے میں میں نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔

جب ممانی نے پوچھا تو بہانا کر دیا کہ ابھی بھوک نہیں ہے کچھ دیر بعد کھا لوں گا ۔

نوشابہ کو بھی اس بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اس لئیے وہ بار بار ماہ رخ سے پوچھ رہی تھی اور ماہ رخ کچھ بتانے کی بجائے اس سے بد تمیزی کر رہی تھی

 میں اکیلا ہی بیٹھا رہا نہ کسی سے بات چیت کی اور نہ ہی رات کا کھانا کھایا

ممانی مجھے کھانے کے لئے بلاتی رہی مگر میں سوتا بنا رہا اور کوئی جواب نہیں دیا ۔

اگلے دن میں اپنے ٹیوشن سے واپس آگیا اور جب ان کو واپس لانے کا ٹائم ہوگیا تو ممانی نے کہا کہ ان دونوں کو لے آو ٹائم ہوگیا ہے ۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کروں اگر ممانی کو انکار کرتا ہوں تو وجہ بھی بتانی پڑے گی پھر میں نے سوچا کہ چلا جاتا ہوں اور دور دور ہی رہوں گا ممانی کو کیا پتہ چلے گا کہ میں ساتھ میں آیا ہوں یا دور دور رہتے ہوئے ۔

یہ سوچ کر میں ٹیوشن والے گھر کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اس گھر سے کچھ فاصلے پر رک گیا اور انتظار کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد نوشابہ اور 

ماہ رخ دروازے سے باہر نکلیں ان کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ میری طرف چل پڑیں اور میں مڑ کر گھر کی طرف چل دیا ۔ نوشابہ مجھے پیچھے سے آوازیں دے رہی تھی لیکن میں نے اسے اگنور کئیے رکھا اور گھر پہنچ گیا ۔

مجھے نوشابہ پر اس لئیے غصہ آرہا تھا کہ وہ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ماہ رخ کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور میں بالکل اکیلا رہ گیا تھا ۔دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سب ہی آرام کرنے کے لئیے لیٹ گئے تو نوشابہ میرے پاس آئی ۔

نوشابہ : کیا بات ہے منہ کیوں بنایا ہوا ہے ؟

میں : تم تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے تمھیں علم ہی نہیں ۔

نوشابہ : ہاں مجھے پتہ ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ماہ رخ کو تم سے اور مجھ سے کیا مسئلہ ہے۔

میں : (تھوڑا جذباتی ہوکر)سچی تمہیں کیسے پتہ چلا ؟

نوشابہ : مجھے ٹیوشن میں خود ماہ رخ نے بتایا ہے ۔

میں : اچھا اب بتا بھی دو کیا تکلیف ہے اس کو کیوں تنگ کر رہی ہے ۔

نوشابہ : میں یہ بات تمھیں نہیں بتا سکتی مجھے شرم آتی ہے ۔

میں : بتا دو نا ایسی بھی کیا بات ہے اور ہم تو دوست بھی ہیں پھر مجھ سے کیا شرمانا ۔وہ کافی دیر تک نہ مانی بار بار انکار کرتی رہی مگر میری ضد پر اسے بتانا ہی پڑا ۔

نوشابہ : ماہ رخ کو تسنیم (وہ لڑکی جو ماموں شکیل کے گھر آئی ہوئی تھی ) نے بتایا ہے کہ نوشابہ اور ارسلان ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ۔

یہ بات بتاتے وقت نوشابہ کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا تھا۔ اور یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کسی لڑکی کو ایسے شرماتے ہوۓ دیکھا تھا ۔ویسے اس وقت میں بھی گھبرا گیا تھا ۔

میں : کیااااا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟؟

میں نے تو ایس کچھ بھی نہیں کہا تم سے یا کسی اور سے بھی۔

نوشابہ : مجھے کیا پتہ ؟ اور اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں اور تم ضرور کچھ گندی حرکتیں بھی کرتے ہوں گے اسہی لئیے تو ہر وقت ایک ساتھ رہتے ہیں۔

یہ سب سن کر مجھے زبردست جھٹکا لگا ، میں نے تو کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا ، یہ اور بات ہے کہ نوشابہ واقعی مجھے اچھی لگتی تھی اور میں جب بھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتا تو نوشابہ کا چہرہ میرے تصور میں آجاتا تھا مگر میں نے کبھی پیار ویار کے بارے میں نہیں سوچا تھا ۔

میں : اٹھو اور میرے ساتھ چلو میں ابھی اس کمینی سے پوچھتا ہوں اسکی ہمت کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی ۔

نوشابہ : نہیں پلیز تم ایسا کچھ نہیں کرو گے مجھے بہت شرم آرہی ہے میں کیسے سامنا کر پاوں گی ۔

میں : میں اس سے ضرور پوچھوں گا تم ایسا کرو کہ ماہ رخ کو بھی بلا لو تاکہ ہر بات اسکے سامنے کلیر ہوسکے ۔

اس نے ماہ رخ کو بھی بلا لیا ، ماہ رخ نے بھی مجھے روکنے کی بہت کوشش کی مگر میں نہ مانا اور ان دونوں کو لے کر ماموں شکیل کے گھر پہنچ گیا ۔

ماموں کے گھر پر بھی سب سو رہے تھے اور وہ دونوں ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہی تھیں ۔

ہم سب جاکر ان کے پاس کھڑے ہوگئے 

میں غصے میں وہاں تک آتو گیا مگر سچ پوچھو تو مجھے بھی بہت شرم آرہی تھی اور کوئی بھی بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اور سمجھ بھی نہیں آرہی تھی کہ کیا بات کروں ۔ پھر بھی میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا 

میں : تم نے ماہ رخ کو کیا کہا ہے ؟

(میں نے تسنیم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا)

تسنیم : کیا کہا ہے میں نے ؟؟؟؟

میں :وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کیا کہا ہے تم نے ماہ رخ کو ، ہمارے بارے میں اور تمہیں تکلیف کیا ہے ؟

تسنیم : ہنستے ہوئے مذاق اڑانے کے انداز میں بولی ، مجھے تو بہت سی تکلیفیں ہیں تم دور نہیں کرسکتے اور نہ تمھارے بس کی بات ہے ۔ ویسے ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے ؟؟؟؟

میں خود سے کہہ بھی نہیں پا رہا تھا آج سے پہلے میں نے نوشابہ وغیرہ کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی تھی لیکن پھر بھی میں نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا۔میں : تم نے ماہ رخ سے کہا ہے کہ ارسلان اور نوشابہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور گندی گندی حرکتیں بھی کرتے ہیں ؟؟؟؟

تسنیم : ہاں کہا ہے میں نے ، اور تم لوگ ایسا کرتے بھی ہو ، مجھے سب پتہ ہے۔

میں : تم بکواس کرتی ہو ہم تو ایسا کچھ بھی نہیں کرتے تم ہی کرتی ہونگی اسہی لئے تو ایسا بول رہی ہو ۔

تسنیم : ہاں میں تو بہت کچھ کرتی ہوں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تم کیوں جلتے ہو ۔ یہ کہہ کر وہ دونوں ہنسنے لگیں ۔

اور ہم تینوں شرمندہ سا منہ لیکر ان کے سامنے کھڑے تھے اب مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کمینی لڑکی کو کیا جواب دوں ۔ آخر اس سے جان بھی تو چھڑوانی تھی تو اسے کہا ۔

میں : آج کے بعد میں تمھارے منہ سے ایسی کوئی بکواس نہ سنوں ہم ایسا کچھ نہیں کرتے ۔

یہ کہہ کر ہم اپنے گھر کی طرف پلٹ پڑے ۔ اور پیچھے سے ان کے ہنسنے کی آوازیں آتی رہیں ۔

ہم تینوں واپس گھر پہنچ گئے لیکن ہم تینوں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے اور پتہ نہیں کیوں ایک طرح سے شرمندگی سی محسوس کر رہے تھے ۔

ہم ایک دوسرے سے کوئی بات بھی نہیں کر پا رہے تھے۔

اس واقعہ سے ایک تبدیلی ضرور آئی کہ نوشابہ نے اب مجھ سے باقاعدہ شرمانا شروع کردیا تھا ۔

اور میں نے بھی نوشابہ کو اس نظر سے یعنی پسندیدگی کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا ۔

نوشابہ مجھے دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہتی اور شرماتی رہتی ۔ اور میں بھی اسے بہت پسند کرنے لگا تھا ۔


یہ بدلاو مجھے بہت اچھا لگتا تھا اسہی طرح دن گزرتے گئے اور ہماری پسندیدگی پیار میں بدل گئی ۔


میں ان کے گھر سے واپس آگیا تھا مگر اب میرا دل اپنے گھر پر نہیں لگتا تھا اس لئے اکثر نوشابہ کے گھر کا چکر لگا لیتا تھا ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار تو کرتے تھے مگر دونوں میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ اس کا اظہار کر سکیں ۔ہم اپنے پیار کا اظہار نظروں ہی نظروں میں کر لیا کرتے تھے ۔


آپ بھی سوچتے ہونگے کہ ہم اتنے بزدل تھے کہ اظہار بھی نا کرپائے لیکن جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت ایسا نہیں تھا دیہاتوں میں اس قسم کی باتوں کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور کچھ ہماری فیملی بھی کھلے ذہن کی نہیں تھی ، اور دوسرے مجھ میں بھی اتنا حوصلہ نہیں تھا کیونکہ میں گھر سے بھی کم ہی باہر نکلتا تھا اسہی لیے ان سب باتوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔


مختصر یہ کہ اسہی طرح دن گزرتے گئے اور ہماری محبت اظہار کے بغیر ہی پروان چڑھتی گئی ۔


ہم دونوں میں کچھ کرنے کی تڑپ بڑھ رہی تھی اور ہم موقع کی تلاش میں رہتے کہ کبھی اکیلے میں ملنے اور حال دل کہنے کا موقع مل جائے ۔جب ہم دسویں کے امتحان سے فارغ ہوئے تو انھیں دنوں ماموں شکیل کے بیٹے حسیب کی شادی شروع ہوگئی ۔


یعنی ہمارا آخری پیپر تھا اور ان کی مہندی تھی ۔


ہم سب گھر والے کچھ دن پہلے ہی ان کے گھر چلے گئے تھے ۔ رات کو میں بیٹھا پڑھ رہا تھا تو ایسے میں نوشابہ میرے پاس آگئی ۔نوشابہ : کیا کر رہے ہو ارسلان ؟؟؟


میں : پیپر کی تیاری کر رہا ہوں ۔


نوشابہ : کیوں کیا مہندی میں شامل نہیں ہونا ؟


میں : مجھے نہیں پتہ ، کل میرا آخری پیپر ہے۔


نوشابہ : پلیز ارسلان ایسا مت کرو ، آو بایر چلتے ہیں سب کتنا مزہ کر رہے ہیں ۔


اور تمھاری وجہ سے سب مجھے کہہ رہے ہیں کہ ارسلان کتنی محنت کر رہا ہے اور تمہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے تمھارا بھی تو پیپر ہے ۔ جاو تم بھی جاکر پڑھائی کرو ۔


میں : تو ٹھیک ہے نا ابھی پڑھ لو مزے بعد میں کرلیں گے۔


میں نے جان بوجھ کر ڈبل میننگ والی بات کی ۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہتی ہے۔


نوشابہ : (میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے) نہیں مجھے ابھی مزے کرنے ہیں۔


میں : سوچ لو ۔


نوشابہ : سوچ لیا ۔


میں : تم نے بھاگ جانا ہے ۔


نوشابہ : (مجھے چیلنج کرنے والے انداز میں) تمھاری بھول ہے تم مجھے نہیں بھگا سکتے ۔


میں : تم ابھی مجھے جانتی نہیں ہو ۔


نوشابہ : بہت اچھی طرح جانتی ہوں تمہیں ، جتنے تم تیس مار خان ہو ۔


میں : میں نے کچھ کیا تو تم نے ابھی رونے بیٹھ جانا ہے ، چھوڑو رہنے دو مجھے ابھی پڑھنا ہے ۔


نوشابہ نے جب یہ سنا تو آگے بڑھ کر میری کتاب کھینچ لی اور اپنے پیچھے چھپا لی ، اپنی کتاب واپس لینے کے لئیے میں اس کی طرف تیزی سے لپکا جسکی وجہ سے میرا سینہ سیدھا نوشابہ کے مموں سے جا ٹکرایا ۔ یہ پہلی بار تھی کہ کسی لڑکی کے ممے مجھے ٹچ ہوئے تھے۔


مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا مانو میں تو جنت کے مزے لے رہا تھا ۔


بہت ہی نرم و گداز اور چھوٹے چھوٹے سے ممے تھے نوشابہ کے۔


میں وہیں رک گیا جیسے مجھے سکتہ ہوگیا ہو میری بولتی بند ہو چکی تھی ۔


اور نوشابہ بھی بالکل چپ چاپ کھڑی تھی ۔ ہم زندگی میں پہلی بار ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے کہ ہم ایک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے ۔ نوشابہ کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا مگر میرا حال بہت برا تھا اس کے لمس نے میرے اندر ہلچل سی مچا دی تھی اور اسکے ساتھ ہی میرا لن آہستہ آہستہ کھڑا ہونا شروع ہوگیا اس سے پہلے کہ میرا لن فل کھڑا ہوکر نوشابہ کی سیل پیک چوت کو سلامی پیش کرتا میں ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور باہر نکل گیا ۔


بعد میں مجھے خود پر بہت غصہ آیا کہ اتنا اچھا موقع تھا اور میں کچھ بھی نہیں کر سکا نوشابہ لڑکی ہوکر بھی وہیں کھڑی رہی اور میں لڑکا ہونے کے باوجود بزدلوں کی طرح وہاں سے بھاگ آیا ۔ مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا اس وقت میں ڈرتا بھی تو بہت تھا دوسرے میرا پہلا موقع تھا اور کانفڈینس کی کمی بھی تھی اور کسی کے آجانے کا ڈر بھی تو تھا ۔


اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے ایک دوسرے کو دیکھتے بھی رہتے اور جیسے ہی نظریں ملتیں تو اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیتے میں نے کئی دفعہ نوٹ کیا کہ نوشابہ مجھے دیکھ رہی ہوتی تھی لیکن میں جیسے ہی اس کی طرف دیکھتا وہ نظریں چرا لیتی اور کچھ ایسا ہی میرا بھی حال تھا ۔


میں نے اس کی آنکھوں میں محبت کا اقرار دیکھ لیا تھا مگر میں یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے بھی اقرار کرنے میں پہل کرے کیونکہ میں ایسا کرنے کے لئیے اپنے اندر حوصلہ پیدا نہیں کر پا رہا تھا ۔


اسہی کشمکش میں شادی کا فنکشن ختم ہوگیا اور ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔


کچھ دنوں کے بعد ہمارہ میٹرک کا رزلٹ بھی آگیا ۔ ہم اتنے ذہین اور مہنتی تو نہیں تھے کہ بورڈ ٹاپ کر لیتے لیکن پاس ضرور ہو گئے تھے اور میرے لئے تو یہ بھی بہت تھا ۔ 


میرے 850 میں سے 653 نمبر آئے تھے اور نوشابہ کے 850 میں سے 601 نمبر آئے تھے ۔ سب ہمارے پاس ہونے پر بہت خوش تھے ۔ ماموں نے سعودی عرب سے ہمارے پاس ہونے کی خوشی میں انعام کے طور پر دو موبائل فون بھیج دئیے ایک میرے لئیے اور دوسرا نوشابہ کے لئیے ۔موبائل ملنے پر ہم دونوں بہت خوش تھے ۔ سچ پوچھو تو اتنی خوشی ہمیں پاس ہونے کی نہیں ہوئی تھی جتنی موبائل ملنے پر ہوئی تھی ۔


اب ہم دونوں کے پاس موبائل تھا اور ہم ایک دوسرے کو شعر وشاعری اور لطیفوں کے میسج کردیا کرتے تھے لیکن ابھی تک ہماری بات چیت نہیں ہوپائی تھی ۔ پھر ایک دن تقریباً 4بجے کے قریب اگست کی 18 تاریخ جمعرات کے دن نوشابہ کا میسج آگیا ۔


نوشابہ : کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے ارسلان ؟


میں : مجھے تو لگتا ہے کہ ہم پہلے ہی بہت اچھے دوست ہیں ۔


نوشابہ : وہ والی دوستی نہیں بلکہ پکی والی دوستی کرو گے کیا ؟


میں : دوستی تو دوستی ہی ہوتی ہے یہ پکی والی اور کچی والی کیا ہوتی ہے؟


نوشابہ : پکی والی دوستی وہ ہوتی ہے جس میں ایک دوسرے سے شرمائے بغیر دل کی ہر بات کرسکتے ہیں ،اب بتاو کرو گے مجھ سے ایسی دوستی؟


میں : اگر ایسی بات ہے تو مجھے منظور ہے ۔


نوشابہ : تھینک یو ویری مچ ، تو پھر آج سے ہم پکے والے دوست ۔


میں : ہاں ہاں بالکل پکے والے دوست ۔


پھر اس دن کے بعد سے ہماری بات چیت میسج پر شروع ہوگئی اور ہم سارا دن میسج پر لگے رہتے تھے ۔


سارا دن اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتیں رہتی مگر ہم دونوں میں سے کسی نے بھی اب تک اظہار محبت نہیں کیا تھا شاید وہ میرے منہ سے سننا چاہتی تھی اور میں چاہتا تھا کہ پہل وہ کرے اسی کشمکش میں کافی دن گزر گئے ۔ پھر ایک دن ایسے ہی باتیں کرتے کرتے نوشابہ نے مجھ سے پوچھا۔


نوشابہ : تم کسی سے پیار کرتے ہو کیا ؟


میں : ہاں کرتا تو ہوں ۔


نوشابہ : اچھا بتاو کون ہے وہ ؟


میں : تم جانتی ہو اسے ۔


نوشابہ : بتاو نا کون ہے؟


میں : میری کزن ہے وہ بہت ہی پیاری ہے


نوشابہ : نام بتاو اس کا ،کونسی کزن ہے۔


میں : میں تمہیں اس کا نام نہیں بتاوں گا تم خود ہی گیس کرلو ۔


نوشابہ : نہیں نا تم خود ہی بتا دو اب تو ہم پکے والے دوست ہیں مجھ سے کیوں چھپا رہے ہو ۔


میں : ہاں دوست تو ہیں مگر میں سوچتا ہوں اگر میں نے اسکا نام بتا دیا تو وہ ناراض نہ ہو جائے ۔


نوشابہ : کیا وہ بھی تم سے پیار کرتی ہے


اور کیا تم دونوں نے کبھی اظہار محبت بھی کیا ہے ۔


میں : لگتا تو ہے کہ وہ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے مگر شاید وہ بھی میری طرح اظہار کرنے سے ڈرتی ہے۔


نوشابہ : اچھا اب بتا بھی دو آخر وہ ہے کون ۔


میں : میں تمہیں بتا تو دوں لیکن اگر وہ غصہ ہوگئی تو ؟؟؟؟؟؟؟


نوشابہ : تم بس اسکا نام بتادو وہ غصّہ نہیں ہوگی ۔


میں : تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ غصّہ نہیں ہوگی جبکہ تم اس کا نام بھی نہیں جانتی ۔


نوشابہ : مجھے پتہ ہے بس ، اب تم بول بھی دو جو تمہیں کہنا ہے۔


یہ اس کی طرف سے محبت کا اظہار کروانے کا کھلا دعوت نامہ تھا مجھے بھی کچھ حوصلہ ہوا میں نے سوچا یار ارسلان یہی موقع ہے آج کھل کر اپنے دل کی بات کہہ ڈال۔


میں : میں اپنی اس کزن سے بہت پیار کرتا ہوں اپنی جان سے بھی زیادہ لیکن اس کا پورا نام نہیں بتاؤں گا بس اسکے نام کا پہلا حرف بتا دیتا ہوں اسکا نام، این ، سے شروع ہوتا ہے ۔ 


نوشابہ :( بڑی بے تابی کے ساتھ) پورا نام بتاو نا ۔


میں : یار اب خود سمجھ جاو نا ۔


نوشابہ : نہیں ایسے نہیں تم پورا نام بتاو 


میں : (موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈرتے ڈرتے)آئی لو یو نوشابہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔


نوشابہ : کیا مطلب ؟ یعنی تم کہنا کیا چاہتے ہو ، یہ تم مجھ سے کیوں کہہ رہے ہو ۔


میں : تم ہی میری وہ کزن ہو جس کے لئے میں اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہو 


میں تمیں خود سے بھی زیادہ چاہتا ہوں 


کیا تم بھی مجھے چاہتی ہو نوشابہ ؟


نوشابہ : (کچھ وقفے کے بعد ) ہاں ارسلان میں بھی تم سے بہت پیار کرتی ہوں ، اور شاید تم سے بھی زیادہ تم سے پیار کرتی ہوں ۔


میں : اگر ایسی بات ہے تو آج تک اظہار کیوں نہیں کیا میں یہ سب تمہاری زبان سے سننے کے لئیے کتنا بیتاب تھا ۔


نوشابہ : تم تو لڑکے ہو پہل تمہیں کرنی چاہیے تھی اور تم مجھ سے توقع کئے بیٹھے تھے بدھو ۔


میں : چلو اب تو کہہ دیا نا اب تو تمہیں کوئی شکایت نہیں اب تو خوش ہونا ۔


نوشابہ : میں تمہیں بتا نہیں سکتی آج میں کتنی خوش ہوں ، آج کا دن میری زندگی میں بہت اہم اور یادگار رہے گا۔


تو دوستو ! یہ تھا ہمارے پیار کا اظہار جس کے لئیے مجھے اتنا انتظار کرنا پڑا 


اب ہمارا باتیں کرنے کا انداز بدل چکا تھا اور ہم اب لورز کی طرح باتیں کیا کرتے تھے لیکن ابھی ہم سیکس کے بارے میں بات نہیں کر پائے تھے یہ اور بات ہے کہ سیکس کے بارے میں ہم دونوں کو کچھ نہ کچھ معلومات تو تھیں بلکہ مجھے تو اپنے دوستوں کے ذریعے اور ٹرپل فلمیں دیکھ دیکھ کر کافی زیادہ معلومات تھیں اب میرا دل بہت چاہتا تھا کہ ہم اکیلے میں ملیں اور کچھ کریں اور شاید اسکا بھی یہی حال تھا ۔


کچھ عرصے بعد ہماری یہ مراد بھی بر آئی ۔ ہوا یوں کہ نوشابہ نے کچھ روز ہماری طرف گزارنے کا پروگرام بنا لیا ۔


جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارے گھر رہنے کے لئے آرہی ہے تو میں بہت خوش ہوا میں نے اسے کہا کہ وہ آتے ہوۓ اپنی بہت ساری تصویریں بھی ساتھ لیتی آئے اور وہ مان گئی ۔


تو دوستو ! کیونکہ اب کہانی میرے گھر پر چلنی ہے تو یہ ضروری ہے کہ میں آپ کو اپنے گھر کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کردوں تاکہ کہانی کے دوران آپ کو اجنبیت محسوس نہ ہو ۔ہمارا گھر چھوٹا سا ہی تھا اس میں 3 کمرے اور ایک بیٹھک تھی اسکے علاوہ ایک کچن ایک واش روم اور ایک چھوٹا صحن بھی تھا دو کمروں کے آگے برآمدہ بھی تھا ۔ ایک کمرے میں ابو سوتے تھے ۔ دوسرے میں میرے چچا کی بیٹی یا یوں سمجھو میری دونوں بڑی بہنیں شفق اور صباء آپی اور ایک کمرے میں امی میں اور مشال سوتے تھے۔ 


جب کوئی مہمان آجائے تو میں بہنوں کے کمرے میں شفٹ ہوجاتا امی ابو کے کمرے میں اور خالی کمرہ مہمانوں کے استعمال میں آجاتا تھا 


اور اگر کبھی میرے بھائی آجائیں تو وہ میرے ساتھ ہی کمرہ شئر کر لیتے تھے ۔


پھر وہ وقت بھی آگیا جب نوشابہ ہمارے گھر آگئی مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا اسے سب گھر والوں نے گھیر رکھا تھا مشال تو اسکے سات چپکی ہوئی تھی میں نے بہت کوشش کی کہ وہ اکیلے میں مجھے مل جائے تاکہ میں وعدے کے مطابق اس سے اسکی تصویرں لے سکوں لیکن شام تک مجھے موقع ہی نہ مل سکا ۔ شام کے وقت وہ تھوڑی دیر کے لئیے اکیلی مجھے ملی تو میں نے اسے تصویریں دینے کو کہا ۔


وہ بولی کہ تصویریں تو میں لانا ہی بھول گئی ۔


یہ سن کر مجھے تو بہت غصہ آیا میں نے کہا تم نے وعدہ کیا تھا اور کہتی ہو کہ بھول آئی ہو تم مجھے اپنی تصویریں دینا ہی نہیں چاہتیں یہ کہہ کر میں نے اس سے منہ بنالیا اور رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور نہ پھر اس سے کوئی بات کی ۔ اس نے بہت کوشش کی مجھے منانے کی مگر میں نہیں مانا اور ایسے ہی سونے کے لئیے اپنی چارپائی پر لیٹ گیا


میری چارپائی دیوار کے ساتھ بچھی تھی اس کے بعد تھوڑی سی جگہ بچی ہوئی تھی گزرنے کے لئیے اس کے بعد مشال کی چارپائی تھی اور اسہی کے ساتھ امی کی چارپائی بچھی ہوئی تھی 


نوشابہ کو امی نے الگ سے چارپائی پر سونے کو کہا تو اس نے انکار کردیا اور بولی کہ میں مشال کے ساتھ ہی سوجاتی ہوں اور اسطرح وہ مشال کی چاپائی پر میرے والی سائڈ پر لیٹ گئی۔


تھوڑی دیر ہی گزری تھی شاید 10 کا ٹائم ہوا ہوگا کہ کسی نے اچانک میرا کمبل کینچ کر اتار دیا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا جب اس طرف دیکھا تو نوشابہ نے کمبل پکڑا ہوا تھا ۔ کیونکہ میں اس سے ناراض تھا اس لئیے میں نے جھٹکے سے کمبل اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور دوسری سائڈ پر ہوکر لیٹ گیا ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر میں اس سے دور ہی رہا تھک ہار کر اس نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔


تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میرے موبائل پر نوشابہ کا میسج رسیو ہوا ۔


نوشابہ : ارسلان سیدھی طرح اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو ورنہ *****کی قسم صبح ہوتے ہی میں واپس اپنے گھر چلی جاوں گی اور اس کے بعد نہ تو دوبارہ تمھارے گھر آوں گی اور نہ ہی کبھی تم سے بات ہی کروں گی ۔


میں : تم تصویریں کیوں نہیں لائی ؟ تم نے مجھ سے وعدہ بھی کیا تھا تمہیں مجھ پر اعتماد ہی نہیں ہے اور دعوے کرتی ہو محبت کے ۔


نوشابہ : میری جان مجھے تم پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے تمھاری قسم میں واقعی جلدی میں اور تم سے ملنے کی خوشی میں بھول گئی تھی ۔


میں تو اسکے میری جان کہنے پر ہی خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا مگر ایک دم ہی مان جانا مجھے اچھا نہ لگا اور میں نے سوچا کیوں نہ تھوڑا سا اور تنگ کیا جائے یہ سوچ کر میں نے میسج کیا ۔


میں : ہاں جی یاد نہیں رہا تمہیں ۔ اگر میری تمھاری نظر میں کوئی اہمیت ہوتی تو یاد بھی رہتا نا ۔


نوشابہ : ہاتھ دو اپنا پہلے ، پھر بتاتی ہوں کتنی اہمیت ہے تمھاری میرے لئیے ۔


میں : اچھا جی ، یہ کرکے بھی دیکھ لیتے ہیں ۔


میں نوشابہ کی طرف کھسک گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا ۔


نوشابہ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اسے سہلانے لگی وہ میرا ہاتھ آہستہ آہستہ دبا رہی تھی ۔اور میں اس وقت خود کو ہواوں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا ابھی میں اس کے ہاتھوں کا لمس انجوائے کر ہی رہا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچا اور اسے چومنے لگی اور اپنا ہاتھ اس نے میرے حوالے کر دیا اب میرا ہاتھ نوشابہ کے پاس تھا اور نوشابہ کا ہاتھ میرے پاس تھا ۔


ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں کو چوم رہے تھے سہلا رہے رہے تھے اور یقین کریں کہ ایسا کرنے سے مجھے اتنا مزہ آرہا تھا کہ بتا نہیں سکتا ۔


میں اسی احساس میں گم تھا کہ نوشابہ نے میرے ہاتھ کی درمیان والی انگلی کو اپنے منہ کے اندر ڈال لیا اور چوسنے لگی ۔


اسکے گرم منہ کا نرم و ملائم احساس میری روح تک کو گرما گیا ۔


اب میں نے بھی اس کی انگلیاں چومنی اور چوسنی شروع کر دیں ۔


مجھے صاف محسوس ہورہا تھا کہ نوشابہ کا جسم کانپ رہا تھا ۔


کچھ دیر ایسے ہی کیا پھر نوشابہ نے ایک جھرجھری سی لی اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ لیکن میرا ہاتھ ابھی اسہی کے پاس تھا ۔


اب میں نے اپنا ہاتھ اپنے محبوب کےچہرے پر پھیرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اسکے گالوں پر چٹکیاں کاٹنے لگا اور ساتھ ساتھ اسکے ہونٹوں کو بھی سہلانے لگا ۔


میں بہت مستی میں آگیا تھا ۔ اس دوران میں نوشابہ بالکل بے حرکت لیٹی رہی شاید اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔


لیکن اس نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی بس آرام سے لیٹی رہی۔ 


اس دوران میں اپنا ہاتھ اس کے چہرے سے گھماتے ہوئے اس کی گردن تک لے آیا تھا ۔ اب میں اپنے ہاتھ سے نوشابہ کی گردن کو سہلانے لگا ۔ نوشابہ میری طرف کروٹ لے کر لیٹی تھی اور اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ کو آسانی سے اسکی گرن تک رسائی حاصل ہو سکے ۔ نوشابہ کا سارا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا اور اسکی سانسیں تیز چل رہی تھیں ۔


اب میں نے اپنا ہاتھ گردن پر پھیرتے پھیرتے کمر کی طرف گھما لیا اور نوشابہ کی قمیض کے اندر سے اس کی کمر کو سہلانے لگا ۔


مجھے حیرت بھری خوشی ہورہی تھی کہ نوشابہ نے مجھے ایسا کرنے سے بالکل منع نہیں کیا تھا بس خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی اور شاید انجوائے بھی کر رہی تھی ۔ میں اپنے ہاتھ سے نوشابہ کی کمر کو سہلا رہا تھا اور آہستہ آہستہ آگے کی طرف ہاتھ بڑھاتا جا رہا تھا ۔


میرا ہاتھ جونہی نوشابہ کی بریزر کی سٹرپ کو ٹچ ہوا تو ہم دونوں کو ایک ہی وقت میں جھٹکا سا لگا اور نوشابہ کے منہ سے ہلکی سی آہ نکل گئی اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔ شدت جذبات سے میرا جسم سن ہوگیا تھا ۔ نوشابہ نے کچھ دیر میرا انتظار کیا جب میں نے کوئی حرکت نہ کی تو کچھ ہی دیر میں اسکا میسج آگیا 


نوشابہ : کیا ہوا میرے شہزادے کو ۔


میں : کچھ نہیں بس ایسے ہی , تم نے آواز نکالی تو میں ڈر گیا کہیں مشال یا امی نہ سن لیں بس اسی لئیے ہاتھ ہٹا لیا 


نوشابہ : واہ بھئی ہمارا شہزادہ تو ڈرتا بھی ہے ۔ اچھا اب نہیں نکالوں گی آواز تم جو کرنا چاہتے ہو کرتے رہو ۔


میں : تمہیں مزہ آرہا ہے؟


نوشابہ : ہاں بہت زیادہ ، اسی لیے تو کہہ رہی ہوں ۔


میں : اور مزہ کرنا ہے تو مجھے کچھ بھی کرنے سے روکنا مت اور کوئی آواز بھی نہ نکالنا ۔


نوشابہ : ارے بابا نہیں روکوں کی اپنی جان کو جو تمھارا دل چاہے کرو آج میں تمھاری ہوں میں کوشش کروں گی کوئی آواز نہ نکلے مزہ ہی اتنا آرہا تھا کہ مجھ سے کنٹرول نہ ہوسکا ۔


میں : تو پھر ٹھیک ہے میری شہزادی تم بس خود پر قابو رکھنا اور کوئی آواز نہیں نکلنی چاہیے ۔


نوشابہ : اچھا میری جان باقی باتیں بعد میں کرلینا ابھی تو وہ کرو جو کرنا چاہتے ہو ۔ نہیں نکلے گی کوئی آواز میرے شہزادے ۔


میں : بڑی آگ لگی ہے ؟ ابھی بجھاتا ہوں ۔


نوشابہ : دیکھتے ہیں کیسے بجھاتے ہو ,٬


یہ آگ بھی تو تم نے ہی لگائی ہے ۔


اب میں نے اسکے میسج کا جواب دینے کے بجائے اپنا ہاتھ دوبارہ اسکے چہرے پر رکھ دیا اور پہلے کی طرح سہلانا شروع کر دیا پھر اسہی طرح ہاتھ گھماتے گھماتے اسکی گردن سے لاتے ہوئے کمر پر پہنچ گیا اس بار وہاں تک پہنچنے میں مجھے زیادہ ٹائم نہیں لگا اب میرا ہاتھ دوبارہ اسکی بریزیر کے سٹریپ پر تھا 


جانے اس جگہ ایسی کیا بات تھی کہ ہم دونوں کو پھر سے جھٹکا لگا لیکن اس بار میں پیچھے نہیں ہٹا اور نا ہی نوشابہ نے کوئی آواز نکالی میں کافی دیر وہیں پر ہاتھ پھیرتا رہا میرا ہاتھ اسکی کمر پر جہاں تک پہنچ سکتا تھا میں اسے سہلاتا رہا مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور نوشابہ کی تیز سانسیں اسکے حال کا پتہ دے رہیں تھیں ۔ نوشابہ کے جسم کا رواں رواں شدت جذبات سے تن چکا تھا جسکی وجہ سے مجھے اپنے ہاتھ میں عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی ۔


پھر میں نے اپنا ہاتھ اسکی قمیض سے باہر نکال لیا اور نوشابہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کو دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔


اب نوشابہ بالکل سیدھی ہوکر لیٹ گئی تھی ۔ میں پھر سے اپنا ہاتھ اسکے چہرے اور گردن پر پھیرنے لگا کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد میں نے اپنا ہاتھ نوشابہ کی قمیض کے اوپر سے ہی آگے لے جانا شروع کیا اور اس کے دائیں ممے تک پہنچ گیا ، میں نے جیسے ہی اپنا ہاتھ نوشابہ کے ممے پر رکھا اسکے جسم کو زوردار جھٹکا لگا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا ۔


اب نوشابہ میرے ہاتھوں کو دبا اور سہلا رہی تھی اور میں اس کے ممے کو سہلا رہا تھا اور انتہائی نرمی سے دبا رہا تھا ۔


 نوشابہ کے ممے بالکل مکھن کی طرح نرم ملائم تھے مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا ۔


اب میں نے نوشابہ کے ہاتھ پکڑے اور انھیں سائیڈ پر کر دیا نوشابہ نے اس پر 


کوئی مزاحمت نہیں کی میں اس کے ممے اپنے ہاتھوں کی مدد سے بھر پور انداز میں محسوس کر رہا تھا کپڑوں کے اوپر سے نوشابہ کے مموں کے نپلز ٹائٹ ہوکر میری انگلیوں کو محسوس ہو رہے تھے ۔


میں اپنا ہاتھ پھر سے اسکے چہرے پر لے گیا اور تھوڑی دیر اسکے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا ۔ پھر اپنا ہاتھ اسکی گردن پر پھیرنے لگا ۔ میں نے نظر اٹھا کر نوشابہ کی طرف دیکھا تو پایا کہ اس نے اپنے منہ میں دوپٹے کے پلو ٹھونسا ہوا تھا تاکہ آواز باہر نہ آسکے ۔میں اس طرف سے بالکل بے فکر ہوگیا تھا ۔


میں اپنا ہاتھ گردن سے آہستہ آہستہ آگے بڑھانے لگا اور اسکی قمیض کے گلے سے گزارتا ہوا اسکے مموں تک لے گیا اور برا کے اوپر سے اسکے ممے سہلانے لگا ۔


نوشابہ بڑی مشکل سے اپنے آپ پر کنٹرول کئیے ہوئے تھی اسکے باوجود تھوڑا تھوڑا مچل بھی رہی تھی ۔


میں کچھ دیر برا کے اوپر سے نوشابہ کے دونوں ممے مسلتا اور سہلاتا رہا اسکے بعد جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ برا کے اندر گھسایا اور اسکے ننگے ممے پکڑے تو نوشابہ ایکدم چارپائی سے اچھل پڑی لیکن دوسرے ہی لمحے نارمل بھی ہوگئی۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرے ہاتھ نوشابہ کے مموں پر ہیں اس احساس سے اور نوشابہ کی جوانی کی گرمی سے میرا لنڈ پورے جوش میں کھڑا ہوچکا تھا اور ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جذبات سے پھٹ ہی جائے گا ۔ میرے سارے وجود میں مزے کی لہریں دوڑ رہیں تھیں ۔ میں جو بھی نوشابہ کے ساتھ کر رہا تھا وہ میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی اس نے ابھی تک مجھے کسی بات سے روکا نہیں تھا ۔


اب میں کبھی اسکا دائیاں مما اور کبھی بائیاں مما پکڑتا سہلاتا اور اسکے مٹر کے دانے جیسے نپل کو چھیڑتا اور مسلتا اسکے دونوں ممے اور ان کے اوپر چھوٹے چھوٹے نپل تن کر فل سخت ہوگئے تھے ۔


میں کچھ دیر ایسے ہی کرتا ہی رہا پھر میں نے اپنا ہاتھ نوشابہ کی قمیض سے باہر نکال لیا ۔ اس پر نوشابہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی تو میں نے اسکی قمیض پڑی اور اوپر کی طرف ہلکے ہلکے جھٹکے دینے لگا ۔ 


نوشابہ فوراً سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں اس نے اپنی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھا کر قمیض اپنے نیچے سے نکالی اور اسے اوپر کرنے میں میری مدد کی ۔


میں نے نوشابہ کی قمیض مکمل اوپر اٹھا کر اس کے گلے تک لے آیا ۔ اب اسکا پیٹ بالکل ننگا تھا اور اس کے مموں کو بِرا ،نے ڈھانپ رکھا تھا ۔


پھر میں نے دیر نہ کرتے ہوئے اسکی بِرا کو بھی اسکے گلے تک کھینچ دیا اب اس کے ممے بھی بالکل ننگے ہوگئے تھے بالکل چھوٹے چھوٹے اور تنے ہوئے ممے دیکھتے ہی میرا دل مچل گیا اور میں نے بیتابی سے اس کے ممے دبوچ لئے اور انہیں مسلنے لگا کبھی دائیں ممے کو اور کبھی بائیں ممے کو سہلاتا اور مسلتا رہا نوشابہ بھی مسلسل مچل رہی تھی مگر اسکی کوئی آواز منہ میں کپڑا ہونے کی وجہ سے نہیں آرہی تھی ۔


پھر میں تھوڑا تھوڑا آگے بڑھنا شروع ہوگیا اب میرا ہاتھ اسکے پیٹ پر گردش کر رہا تھا اور میں اپنی چارپائی سے تھوڑا سا اور آگے کی طرف کھسک آیا ۔


اب میرا منہ نوشابہ کے سینے پر آگیا تھا اور میں اس کے سینے کو چومنے لگا نوشابہ کے چھوٹے چھوٹے ممے میرے منہ میں بھر جاتے تھے اس کے ساتھ ہی میں اپنا ہاتھ نوشابہ کے پیٹ پر پھیر رہا تھا ۔


ممے چوستے ہوئے میں نے اپنا ہاتھ اور بڑھایا اور نوشابہ کی شلوار پر لاسٹک والی جگہ تک لے گیا اور جیسے ہی میں نے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈالنے کی کوشش کی تو نوشابہ نے جھٹکا کھایا اور فوراً میرا ہاتھ پکڑ لیا میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے میرے بازو پر انگلی سے کچھ لکھنا شروع کیا لیکن میں سمجھ نا پایا اور نہ میں گردن ہلا دی اس نے کئی بار کوشش کی لیکن مجھے سمجھ نہ آسکا تو میں نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اس کی ٹانگ پر شلوار کے اوپر سے ہی پھیرنے لگا اور ساتھ ساتھ نوشابہ کے ممے بھی چھیڑتا اور چومتا جاتا تھا نوشابہ اب بری طرح بیچین ہورہی تھی میں اپنا ہاتھ نوشابہ کی ٹانگوں کے درمیان میں لے گیا اور شلوار کے اوپر سے اسکی پھدی کے اوپر رکھ دیا نوشابہ کی شلوار گیلی ہوچکی تھی اب پتہ نہیں کہ یہ پانی پری کم تھا یا وہ فارغ ہوچکی تھی ۔ میں اسکی پھدی سے کھیلنے لگا اور نوشابہ کے تڑپنے میں تیزی آگئی میں نوشابہ کی پھدی سے بھی کھیل رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے ممے بھی چھیڑ رہا تھا انہیں چوس رہا تھا چاٹ رہا تھا اور کبھی دونوں مموں کی درمیان والی جگہ پر زبان پھیر رہا تھا ۔


یکایک نوشابہ مچل اٹھی اور اس نے جلدی سے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی شلوار کے اندر ڈال دیا ۔


میں نے نوشابہ کی طرف دیکھا اور مسکرادیا اور نوشابہ نے نظریں چرا لیں ۔


اب میرا ہاتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا تھا میں نے فوراً اپنا ہاتھ نوشابہ کی پھدی پر رکھ دیا اسکی پھدی پوری طرح سے بھیگی ہوئی تھی اور شلوار بھی کافی گیلی ہوچکی تھی ۔


میں نے اپنا ہاتھ اسکی پھدی پر گھمایا تو مجھے محسوس ہوا کہ اسکی پھدی پر ہلکے ہلکے بال ہیں مجھے بالوں سے سخت چڑ ہے میں اپنے لنڈ کے بال بھی زیادہ بڑے نہیں ہونے دیتا خیر پہلی دفعہ کا سوچ کر میں نے اگنور کر دیا اور اسکی پھدی کو سہلانے لگا نوشابہ نے اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر سے میرے ہاتھ کے اوپر رکھ دیا لیکن مجھے روکا نہیں میں اپنے کام میں لگا رہا اب نوشابہ نے ایک شرارت کی اور میرے گال پر زور سے چٹکی کاٹ لی اس اچانک حملے سے میرے منہ سے آواز نکل گئی جسکی وجہ سے امی کی آنکھ کھل گئی اور میں سیدھا ہوکر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا لیکن میرا ہاتھ ابھی تک نوشابہ کی پھدی پر ہی تھا امی نے دوبار آواز دے کر پوچھا کہ کیا ہوا پھر یہ سوچ کر سوگئی 


کہ شاید نیند میں آواز نکل گئی ہوگی ۔


امی کے سوجانے کے بعد میں پھر اپنے کام میں لگ گیا اور تیزی سے اسکی پھدی کو سہلا رہا تھا نوشابہ کی پھدی پھولی ہوئی تھی لیکن چھوٹی سی تھی میں نے اپنی انگلی اسکی چوت کی لکیر میں پھیرنا شروع کردیا اسکی پھدی گیلی تھی اور انگلی سلپ ہورہی تھی میں اسکی پھدی میں اپنی انگلی ڈالنا چاہتا تھا لیکن نوشابہ نے میراہاتھ پکڑ لیا تو میں نے انگلی اندر ڈالنے لا ارادہ بدل لیا اور اوپر سے پی کھیلنے لگا ۔ 


اچانک نوشابہ کا جسم اکڑنا شروع ہوگیا اور اس نے میرے بال سختی سے پکڑ لئے اسکی کمر چارپائی سے اوپر اٹھ چکی تھی اور اسکے ساتھ ہی اسکی چوت نے ڈھیر سارا گرم گرم پانی چھوڑنا شروع کردیا اور دیر تک پانی چھوڑتی رہی میرا ہاتھ اسکی چوت کے پانی سے بھر گیا تھا 


پھر آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوگئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی ۔


میں سمجھ گیا کہ نوشابہ کو اسکی منزل مل چکی ہے میں نے اپنا ہاتھ اسکی شلوار سے باہر نکال لیا اور اپنی چارپائی پر سیدھا ہوکر لیٹ گیا ۔ اور نوشابہ کو میسج کیا ۔


میں : ہاں تو میری جان کیسا محسوس ہورہا ہے۔


نوشابہ : کچھ مت پوچھو میرے شہزادے ، میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کام میں اتنے مزے ہوتے ہیں 


سچ پوچھو تو ابھی تک ہواوں میں اُڑ رہی ہوں ۔ اُف توبہ میری تو جان ہی نکل گئی ہے۔


میں : ابھی اور مزہ بھی چاہئیے کیا میری شہزادی کو ، کہو تو ایک راونڈ اور ہو جائے ۔


نوشابہ : نہیں بس اتنا ہی بہت ہے آج کے لئے اسے ہی سنبھال لوں تو بڑی بات ہے مجھ سے تو اپنی دھڑکنوں پر ہی قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ، آئی لو یو سو مچ اینڈ گڈ نائٹ میری جان ۔


میں : ہاں جی اب تو ویری ویری گڈ نائٹ بھی ہوگا تمھاری آگ جو ٹھنڈی ہو گئی ہے ، بس اپنے بارے میں ہی سوچنا میرا بھی کچھ خیال ہے تمہیں ؟


نوشابہ : تمہیں کیا ہوا ہے اب جناب تمھارے لئے تو جان بھی حاضر ہے بس ایک بار اشارہ تو کرو ۔


میں : وہی جو ابھی تمہیں تھا ، تمھاری آگ تو ٹھنڈی ہوگئی مگر میری اور بھی بڑھ گئی ہے ۔میں تو تڑپ رہا ہوں اس آگ میں جل رہا ہوں ۔


نوشابہ : اچھا تو میرے شہزادے اب یہ بتاو میں ایسا کیا کروں کہ تمھاری آگ بھی ٹھنڈی ہوجائے ۔


میں : کنا کیا ہے بس وہی کرو جو میں نے ابھی تمھارے ساتھ کیا ہے ۔


نوشابہ : لو اس میں کیا ہے میں ابھی اپنے جانو کی آگ ٹھنڈی کر دیتی ہوں ۔


میں : اچھا جی ، تو پھر شروع ہوجاو اب مزے دینے کی باری تمھاری ہے ۔


یہ کہہ کر میں نے کمبل کے اندر ہی اپنی قمیض اور بنیان اتار دی اور شلوار کا ازاربند کھول کر اسے بھی نیچے کی طرف کھسکا دیا اور سیدھا لیٹ گیا ۔


میرا لن جو اسوقت صرف 5.5 یا شاید 6 انچ کا ہی ہوگا اور اتنا موٹا بھی نہیں تھا لیکن فل تنا ہوا تھا اور ہوا میں لہرا رہا تھا ۔


اس ہی لمے مجھے اپنے سینے پر نوشابہ کا ہاتھ محسوس ہوا اور میرے جسم میں جیسے کرنٹ کی لہریں دوڑنے لگیں ۔


وہ اپنا ہاتھ میرے سینے پر پھیرنے لگی اور آہستہ آہستہ ہاتھ کو نہچے کی طرف لے جانے لگی ۔


میں خود کو کسی اور ہی دنیا میں محسوس کر رہا تھا ، میرا دل کر رہا تھا کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو اور نوشابہ ایسے ہی میرا جسم سہلاتی رہے ۔


لیکن نوشابہ زیدہ دیر صبر نہ کرسکی اور جلدی سے اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لے گئی اور جیسے ہی اس کا ہاتھ میرے لن 


کو ٹچ ہوا تو مجھے ایک جھٹکا لگا میرے پورے بدن میں سنسناہٹ کی لہریں دوڑ گئیں ، یہ پہلی بار تھی کہ کسی لڑکی نے میرے لن کو چھوا تھا ااور وہ بھی اتنے پیار سے ۔ لیکن اسے چھوتے ہی نوشابہ نے اپنا ہاتھ روک دیا اب وہ کوئی بھی حرکت نہیں کر رہی تھی ۔


میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر اپنے ہاتھ سے نوشابہ کا ہاتھ پکڑا اور پھر سے اس اپنے لن پر رکھ دیا ۔ اب نوشابہ نے میرے لن کو پکڑ لیا اور وہ اسے اچھی طرح سے دبا دبا کر چیک کرنے لگی پھر اس نے اوپر سے نیچے تک کئی بار میرے لن پر ہاتھ پھیرا ۔ نوشابہ بڑی نرمی سے میرے لن کو سہلا رہی تھی اور میرے دماغ میں یہ سوچ آرہی تھی کہ ارسلان آج تو تمھاری محبت کے ہاتھ میں تمھارہ لن آہی گیا اور یہ سوچ آتے ہی میرے جسم میں مزےکی لہریں دوڑنے لگتیں 


اور لن جھٹکے کھانے لگتا ۔

اب نوشابہ تیزی سے اپنا ہاتھ میرے لن پر اوپر نیچے کر رہی تھی اور میں ہواوں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔

نوشابہ کافی دیر ایسے ہی کرتی رہی اچانک مجھے اپنا جسم اکڑتا ہوا محسوس ہوا ایسے لگ رہا تھا کہ سارے جسم کا خون لن کی طرف اکھٹا ہوگیا ہو 


میرا لنڈ اور زیادہ سخت ہوگیا تھا میں سمجھ گیا کہ اب میرا کام بھی ہونے والا ہے ۔ میں نے اپنا بنیان اٹھا کر اپنے لن پر ڈال دیا اب نوشابہ بنیان کے نیچے سے ہاتھ ہلا رہی تھی اور اسی وقت میرے لن نے پانی چھوڑنا شروع کردیا یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جسکے لئے انسان اتنی تگ و دو اور محنت کرتا ہے میں فارغ ہوچکا تھا اور اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا ۔ نوشابہ کا ہاتھ میری منی سے بھر گیا تھا میں نے اسے بھی اپنی بنیان سے ہی صاف کردیا اور کپڑے پہن کر لیٹ گیا۔

            جاری ہے


Post a Comment

0 Comments